سن 1907ء کو برطانیہ میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں برطانیہ کے وزیراعظم کامپل بنرمن نے سات یورپی ممالک کے سربراہان کو بلایا، اور ان سب کو مخاطب کر کے کہا؛ ہم دن بہ دن کمزور ہوتے جارہے ہیں معیشت ومعاشرت کے لحاظ سے روبہ زوال ہوتے جا رہے ہیں۔
میں تم سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم عروج، ترقی کے متمنی ہو یا زوال پذیر رہنا پسند کرتے ہو؟ سب نے بیک آواز میں کہا، ہم عروج پر رہنا چاہتے ہیں ،اس جواب کے بعد برطانوی وزیراعظم نے ان سب سربراہان کو ایک ایک نقشہ تھما دیا، یہ نقشہ کسی اور چیز کا نہیں بلکہ اسلامی ممالک کا نقشہ تھا۔
جب سب نے اس کام پر حیرانگی کا اظہار کیا تو برطانوی وزیر اعظم نے کہا؛ یہ جتنے ممالک ہیں اقتصادی ، تعلیمی لحاظ سے کمزور ہیں لیکن ان کی قوت کا راز ان کا دین اور ان کا اتفاق و اتحاد ہے، اور انہی ممالک پر ہمارے عروج، زوال کا انحصار ہے، کیونکہ اگر یہ مسلمان اسی طرح متفق و متحد رہے تو دنیا سے ہمارا نام ونشان مٹ جائے گا، اس سے پہلے کے ایساہو ہمیں چاہیے کہ ہم ایسا کچھ کریں کہ یہ لوگ آپس میں ایک دوسر ے سے لڑتے رہیں ،ایک دوسرے کے جانی دشمن بن جائیں، فرقوں اور گروہوں میں تقسیم ہوجائیں، اور اس کام کے لیے ہمیں ایک ایسے ملک کی ضرورت ہے کہ جس کے ساتھ ہم ہر قسم کی ہمدردی جاری رکھیں جس کی ہم ہرطرح سےمدد کریں تاکہ وہ اپنا فریضہ بخوبی سر انجام دے سکے، یوں یہود ونصاری کے پالتو کتے اور عالم اسلا م کے دشمن اسرائیل نے خود کو اس ملعون کام کے لیے پیش کر کے اس فریضے کو اس انداز میں نبھایا کہ آج پوری امت مسلمۃ اور بلاد اسلامیہ اس کے نتائج اس طرح سے بھگت رہے ہیں کہ ایک خدا ایک رسول ایک قرآن کو ماننے والی امت ہزاروں فرقوں میں تقسیم ہوکر ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہے ،جس ملک میں اسلام پسند حکمرآن بر سر اقتدار آتاہے تو اسی ملک کی عوام کو اس کے خلاف اُٹھایا جاتا ہے اور اپنے زوال کے خوف سے یورپ اور امریکہ اسرائیل کی مدد سے اس کا تختہ اُلٹ دیتے ہیں۔
جس کی بیسیوں مثالیں ہم دیکھ چکے ہیں ، اور دیکھ بھی رہے ہیں ۔آج امت مسلمہ کو جہاں دیگر بہت سارے مسائل کا سامنا ہے ان سب کے ساتھ ساتھ اسلامی ممالک اور اسلامی معاشرے میں اتفاق واتحاد نہ ہونے کے برابر ہے ، اگر عالم کفر ،، الکفر ملۃ واحدۃ ،، کے تحت یکجا ہوکر مسلمانوں کی نسل کشی میں اپنی ساری تاوانائیاں صرف کر رہا ہے تو مسلمان ایک کیوں نہیں ہوسکتے حالانکہ دین اسلام وہ واحد دین ہے جس کے ماننے والے لاکھ فروعی اختلافات کے باوجود متحد ہوسکتے ہیں ۔ لیکن افسوس کہ جس طرح اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا
کہ :
یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغاں بھی ہو ۔۔۔
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلماں بھی ہو ۔۔؟
عالم کفر بہانہ بنا کر ہم پر قابض ہورہا ہے ، ماؤں بہنوں کی عصمتیں لوٹی جارہی ہے ، بچے تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں اور ہم ہیں کہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ اس اندوہناک منظر نامہ کو دیکھ کر بھی ہمارا شعور نہیں جاگتا تو یاد رکھیں کہ تاریخ کبھی بھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ اور ہم سابقہ اقوام کی طرح صفحہ ہستی سے ایسے مٹ جائیں گے کہ ہمارا نام ونشاں تک نہیں رہے گا۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے مسلمانو!
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں
افسوس صد افسوس کہ مسلمان عموما اور مسلم حکمران خصوصا یہود ونصاری کے مکر و فریب میں آکر دنیا کی عیش وعشرت میں مست ہو کر اپنے تابناک ماضی کو بھول چکے
اور اپنے مستقبل سے غافل ہوکر مسلمانوں کی حالت زار پر اپنی آواز کو دبائے ہوئے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ،،،
کیفیت ایسی ہے ناکامی کی اس تصویر میں
جو اُتر سکتی نہیں آئینہ تحریر میں
مسلم امۃ کی اس حالت زار پر افسوس تو ہے لیکن نااُمیدی نہیں کیونکہ
ذرا نم ہو یہ مٹی تو بڑی زرخیز ہے ساقی
اور وہ دن دور نہیں جب اس امت کے نوجوان پھر سے اپنی تاریخ دُہرائیں گے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان اپنے اندر عقابی روح پید اکرکے دشمن کی ہر چال سے باخبر رہیں اور اپنی کھوئی ہوئی منزل کو واپس کرنے کی کوشش کریں۔
عقابِ روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آ سمانوں میں
تبصرہ لکھیے