مکہ کی پہاڑی ہے،
چالیس سالہ زندگی کا سفر ہے،
لوگوں سے سوال ہے کہ میری چالیس سالہ زندگی کو کیسا پایا؟
پورا مجمع بیک آواز ہو کر کہتا ہے،
آپ صلی اللہ علیہ و سلم صادق اور امین ہیں
پھر میں صادق اور امین ہوں تو آؤ میری دعوت پر لبیک کہو،
ایک اللہ کو مان لو،
پھر وہی لوگ اسی صادق اور امین پر پتھر اٹھا لیتے ہیں،
تم ہمیں آباؤ اجداد کے دین سے روکتے ہو،
ہم نے صدیوں صنم پالے ہیں،
تم ہماری تہذیب اور روایات بدلنا چاہتے ہو.
سلیم صافی صاحب!
جماعت اسلامی کیوں نہیں؟
ہم نہ تو اس مقام پر ہیں، کہ خود کو سچا پیرو کہہ سکیں کہ ہمیں اپنی کوتاہی کا ہر دم احساس ہے،
نہ ہی اس دیس کے لوگ مکہ کے باسی ہیں،
لیکن عجیب اتفاق ہے،
وہی الزامات، وہی طعنے، وہی گالیاں.
سلیم صافی صاحب!
ان لوگوں کو قیام پاکستان کے بعد بتایا گیا
کہ اس ملک میں اسلامی نظام آیا تو تمہاری گردنیں اڑا دی جائیں گی،
ترقی پسند تنظیم،
پھر کمیونزم،
پھر سوشل ازم،
پھر سرخ سویرا،
پھر سیکولرازم،
یہ سب ناکام نعرے اس ملک کا مقدر ہوئے.
ان ظالموں نے قائد اعظم تک کے فرامین کو بدل ڈالا.
علامہ اسد کی کاوشوں کو آگ لگا دی.
اس قوم کو کبھی بھٹو،
اور کبھی مجیب کے حوالے کیا گیا.
سلیم صافی صاحب
یہ نصف صدی کا قصہ ہے،
دو چار برس کی بات نہیں،
اس قوم کو سبق یہی پڑھایا گیا،
آ جائیں گے.
کھا جائیں گے.
پھانسی لگا دیں گے.
ہاتھ کاٹ دیں گے.
اس سبق کے ساتھ ساتھ،
ان کے سد باب کے لیے مصنوعی لیڈر شپ پیدا کی گئی.
شیخ مجیب، پھر نواز شریف، پھر عمران خان.
یہ سب تبدیلی کا نعرہ لے کر آئے مگر قوم تو تبدیل نہ ہوئی خود بہت بدل گئے.
سراج الحق اس لیے نہیں
جماعت اسلامی اس لیے نہیں
کہ
اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں.
اس قوم کو گزشتہ دو دہائیوں سے اور سبق پڑھایا گیا،
سیکولرازم،
اس سیکولرازم کے سرخیل اور پروموٹ کرنے والے مشرف تھے، اب سرخیل عمران خان ہیں.
سراج الحق میں خامی نہیں،
ایماندار بھی ہیں،
لیکن ان کے جلسے میں کسی کو ”نچنے“ کا دل نہیں کرتا،
کیسے ممکن ہے،
بے حیائی کے ہوتے ہوئے سراج الحق کو موقع دیا جائے؟
بت آج بھی آستینوں میں ہیں
اور تازہ بتوں میں سب سے بڑا بت
عمران خان ہے
جس کی پوجا میڈیا نے بھی سکھائی ہے.
ان بتوں کے درمیان ایک جماعت اسلامی قیام پاکستان سے اب تک موجود ہے،
اس میں سید مودودی کی پوجا نہیں،
اس میں میاں طفیل محمد کے ہوتے ہوئے اسلامی جمعیت طلبہ نے ان کی خواہش کے برعکس ضیاءالحق کو چیلنج کیا.
اس میں قاضی حسین احمد کا ایسا کڑا احتساب ہوا کہ ان کو استعفی دینا پڑا، اور وہ پھر منتخب ہوئے.
اس میں منور حسن کی زندگی میں سراج الحق کو امیر بنا دیا گیا.
سراج الحق نہیں ہوں گے تو معراج الحق امیر نہیں ہوگا.
یہ جلسوں میں نماز کے لیے صفیں بناتے ہیں،
ان کو پاکستان کی حکومت حکم دے تو یہ افغانستان کے پہاڑوں پر روسی ریچھ کو روک دیتے ہیں،
یہ کشمیر میں سید علی گیلانی کی صورت میں موجود ہیں، بھارتی فوجی افسر کہتا ہے کہ کشمیر میں سب ٹھیک ہے، خرابی بس جماعت اسلامی نامی تنظیم سے ہے.
یہ بنگلہ دیش میں موجود ہے، اور پاکستان کے نام پر اس کی ساری قیادت پھانسی کے پھندے پر جھول گئی ہے، اور بھارتی منموہن سنگھ اپنے دور میں کہتا ہے کہ ہم نے بنگلہ دیش کو آزادی دلوائی مگر یہ جماعت اسلامی ہے کہ 25 سے 40 فیصد بنگلہ دیشیوں کی نمائندگی کرتی ہے، اور بھارت سے نفرت.
جب بھی اہل وطن کو ضرورت پڑی، خون ہم نے دیا، گردنیں پیش کیں
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن یہ ہمارا وطن ہے تمہارا نہیں
جماعت اسلامی اس لیے نہیں
کہ
اس نے وطن کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان دیا
جماعت اسلامی اس لیے نہیں
کہ
اس نے وطن کو پروفیسر خورشید احمد دیا
جماعت اسلامی اس لیے نہیں کہ اس نے ڈاکٹر نذیر احمد قربان کیا.
جماعت اسلامی اس لیے نہیں کہ یہ آج بھی بنگلہ دیش میں اپنے امیر کو پھانسی کے پھندے پر شہادت کے لیے پیش کرتی ہے.
جماعت اسلامی اس لیے نہیں
کہ اس کی محبت کا محور اسلام اور پاکستان ہے.
فہرست طویل ہے جماعت اسلامی کے جرائم کی.
اور ہاں!
میڈیا آزادی رائے کا نعرہ بلند تو کرتا ہے،
لیکن جماعت اسلامی سے اس کی دشمنی آج کی نہیں،
یہ مولانا مودودی کی تصویر کے ساتھ عورت کو چسپاں تو کر سکتا ہے،
لیکن جماعت اسلامی کے کار نامے اس کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں،
یہ میڈیا ڈگڈگی بجانے اور بندر تماشا دکھانے والوں کے ساتھ ہے،
اس میڈیا کا ایشو ”چائے والا“ ہے،
اس میڈیا کا ایشو ”قندیل بلوچ“ ہے،
جماعت اسلامی کے لاکھوں کے اجتماع اس کی آنکھ سے اوجھل ہی رہیں گے.
سلیم صافی صاحب!
آپ نے جماعت اسلامی کو برا کہا،
آپ نے قاضی صاحب کے بارے میں لکھا،
آپ نے منور صاحب کو اپنے جال میں پھنسا کر ایک ایشو بنایا،
لیکن جماعت اسلامی کے
کسی کارکن نے آپ کے خلاف پیج نہیں بنائے،
بلکہ آپ کو عزت دی،
آپ آج بھی ہمارے اجتماع میں آئے تو آپ کو اسٹیج پر بٹھایا.
بس یہ فرق ہے
باقی لوگوں میں اور جماعت اسلامی میں.
جماعت اسلامی کے جرائم طویل ہیں اور رات کے اس پہر میں سوچ رہا ہوں کہ
خون سے ہم نے گلشن سینچا، رنگ بھی بخشا پھولوں کو
پہلی فصل میں اہل چمن نے پیش ہم ہی کو خار کیے
تبصرہ لکھیے