تجارتی راہداری پہ اتفاق رائے آخر کیوں ممکن نہیں؟ پاناما لیکس پر تحقیقات کے لئے اتفاق کیوں ممکن نہیں؟ خود شکنی سے گریز کیوں ممکن نہیں؟
کیا تجارتی راہداری کے باب میں ایسا کوئی فارمولا سامنے آنے والا ہے‘ جو تند و تلخ بحث کا خاتمہ کر دے؟
بنی گالہ میں عمران خان کی رہائش گاہ پر‘ چینی سفیر سن دی ڈونگ کے ساتھ کپتان کی ملاقات کے بعد‘ کچھ امید تو کی جا رہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی صورت بھی چین اس منصوبے سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ 46 ارب ڈالر میں سے چودہ ارب ڈالر پہلے ہی خرچ ہو چکے ہیں‘ ان منصوبوں پر جن کے بل پر توانائی کا بحران ختم ہونے کا یقین ہے۔
چین کے جنوب میں واقع ان جزیروں کا تنازع‘ پاکستان میں کچھ زیادہ زیر بحث نہیں آیا‘ مستقبل میں جو ایک بڑے عالمی تنازعے کا باعث بن سکتا ہے۔ چین اور اس کے پڑوسی ممالک میں اس پر کشمکش مدت سے چلی آتی ہے۔ امریکہ اس میں اب فریق ہے۔ چند ماہ قبل عالمی عدالتِ انصاف نے بیجنگ کے خلاف فیصلہ صادر کیا۔ اس فیصلے کو چین نے مسترد کر دیا۔ اس کا احساس یہ ہے کہ یہ فیصلہ عدل نہیں‘ رسوخ کی بنیاد پہ صادر ہوا۔
صدر ڈیگال نے کہا تھا: امریکہ دنیا کے ہر ملک کا پڑوسی ہے۔ 1992ء میں افغانستان سے سوویت یونین کی پسپائی اور فوراً بعد اس کے انہدام پر‘ صدر بش سینئر نے نئے عالمی نظام (New World Order) کا نعرہ بلند کیا تھا۔ برطانیہ کو تو خیر امریکی ''پوڈل‘‘ کہا جاتا ہے‘ یورپی یونین بھی اس کے زیر اثر ہے۔ ریاست ہائے متحدہ‘ دنیا کی سب سے بڑی فوج رکھتا ہے۔ اس کا دفاعی بجٹ 671 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں اس کے مسلح دستے موجود ہیں۔ جہاں وہ موجود نہیں‘ وہاں سمندروں میں اس کے وسیع و عریض جنگی جہاز حکمران ہیں۔ اس کرّہ خاک پر بسنے والے سات ارب انسانوں کو وہ اپنی رعایا سمجھتا ہے۔
کچھ ممالک اس کے زیر اثر ہیں اور کچھ کو وہ حریف سمجھتا ہے۔ ہنری کسنجر نے‘ جنہیں تاریخ کا سب سے زیادہ موثر وزیر خارجہ کہا جاتا ہے‘ ایک بار کہا تھا: امریکہ کی دوستی‘ اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔ پاکستان ان ممالک میں سے ایک ہے‘ جو اس کے دوست تھے۔ ایسا دوست امریکہ جو ہمارا پیر تسمہ پا ہے۔ چھٹکارے کی کوئی صورت بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان سے امریکیوں کو شکایت کیا ہے؟ کچھ بھی نہیں‘ اگر اسلام آباد اور راولپنڈی‘ سول اور ملٹری لیڈرشپ‘ اس کے سامنے سرنگوں ہو جائے۔ امریکی ترجیحات کیا ہیں؟ اس خطہ ارض میں چین کے کردار کو محدود کرنا۔ تین عشروں میں تیزی سے ترقی کرتی ہوئی چینی معیشت گیارہ ہزار ارب ڈالر کو جا پہنچی ہے۔ اسی اثنا میں امریکی اقتصادیات میں شرح نمو نسبتاً کم رہی۔ موجودہ صورتحال اگر باقی و برقرار رہتی ہے تو ممکن ہے کہ پندرہ بیس برس میں چین‘ امریکہ کے برابر آ جائے۔ اس کے بعد کیا ہو گا؟
اپنی ترجیحات میں امریکہ بہادر بہت سنجیدہ ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے یہ اس کے عالمی غلبے کا سوال ہے‘ جس کے خیرہ کُن دور کا آغاز ربع صدی پہلے ہوا تھا۔ سرخ فوج کو افغانستان سے جب بے نیل و مرام واپس لوٹنا پڑا‘ امریکی رعونت نے تب شکست خوردہ روس ہی کو محدود کرنے کا ارادہ نہ کیا تھا بلکہ پاکستان کو بھی‘ جس کے بغیر ساڑھے تین سو سال سے فروغ پذیر روس کی واپسی کا وہ تصور بھی نہ کر سکتا ۔
جنرل محمد ضیاء الحق کا قتل اسی کا شاخسانہ تھا۔ 17 اگست 1988ء کو پاکستانی جنرلوں کے قتل سے پہلے پے در پے امریکی وفود پاکستان کا دورہ کرتے رہے‘ جنرل کو ہموار کرنے کے لیے اور اگر وہ نہیں تو وزیر اعظم جونیجو کو شیشے میں اتارنے کی خاطر۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کے ایک اجلاس کے بعد‘ جسے ''انٹیلی جنس کمیونٹی‘‘ کہا جاتا ہے‘ صدر بش نے آئی ایس آئی کے پر کاٹنے کا حکم دیا تھا۔ کیا اس عمل میں اسرائیل بھی شامل تھا؟ دو واقعات موجود ہیں۔ ایک یہ کہ 17 اگست سے پہلے بھی جنرل کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان ایئرفورس کا ایک سابق پائلٹ اکرم اعوان زہریلی گیس کی ایک ڈبیا لے کر پاکستان پہنچا‘ اسرائیل میں جسے ایف 15 اڑانے کی تربیت دی گئی تھی۔ اسے یہ ڈبیا جنرل کی کار یا جہاز میں نصب کرنا تھی۔ وہ مگر گرفتار کر لیا گیا۔
پوری کہانی میجر عامر بیان کر سکتے ہیں‘ جنہوں نے اے این پی کے ایک پاکستان دشمن حامی اور تاجر کا بہروپ بھر کر اسے گرفتار کیا تھا۔ ایسا کائیاں تھا کہ آئی ایس آئی کی عارضی حوالات سے محافظ کو چکمہ دے کر وہ بھاگ نکلا۔ اس وقت وہ دوبارہ گرفتار کر لیا گیا‘ جب وہ اسلام آباد کے بھارتی سفارت خانے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس سے قبل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کی نیت سے‘ دو بار اسرائیلی طیارے بھارت پہنچے۔ خوش قسمتی سے دونوں بار سراغ مل گیا۔ دونوں بار صہیونی ریاست کو متنبہ کیا گیا‘ وگرنہ اسلام آباد کا نواح‘ اسرائیلی بموں سے گونج اٹھتا اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کیا ہوتا۔ اسلام آباد کے ایٹمی پروگرام سے اسرائیل خوف زدہ ہے۔
اسرائیل کے 100 ایٹمی میزائلوں نے عالم اسلام کے شہروں کو تاک رکھا ہے۔ ان میں دو پاکستانی شہر بھی شامل ہیں۔ صہیونیوں کا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان، دوسری بار حملے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امریکہ بہادر کا یہ کہ اسرائیل اسے اپنی اولاد کی طرح عزیز ہے۔ مشرق وسطیٰ میں امریکی بالادستی کا انحصار اسی پر ہے۔ اب وہ افغانستان میں براجمان ہے، وسطی چین کے علاوہ جہاں سے وہ وسطی ایشیا کی ریاستوں پہ نگران ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت کا کہنا ہے کہ نائن الیون کا سانحہ رونما نہ ہوتا‘ تب بھی امریکی افغان سرزمین پر اتر آتے۔ پاکستان سے ملحق ایران کے چھوٹے سے ٹکڑے‘ پاکستان اور افغانستان کی خاک میں پوشیدہ کھرب ہا ڈالر کی معدنیات پر اس کی نظر ہے۔ بھارت کے ساتھ گہرے امریکی مراسم اور ایران کے ساتھ امریکی مفاہمت کے ایک سے زیادہ پہلو ہیں۔
دوستی کا دم بھرنے کے باوجود‘ امریکی حکومت پاکستان سے کس قدر ناراض ہے‘ 2012ء میں سلالہ کی فوجی چوکی پر امریکی حملے سے کسی قدر اس کا تعین کیا جا سکتا ہے۔ اس حملے کے سات ماہ بعد تک‘ افغانستان کے لیے امریکی رسد کی فراہمی پاکستان نے بند کیے رکھی۔
پاکستان کے باب میں افغانی اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے عزائم سے کیا امریکی واقف نہیں؟ بلوچستانی دہشت گرد‘ افغانستان میں کیوں کر پناہ لیتے ہیں؟ بھارتی مقبوضہ کشمیر کے قتل عام پر واشنگٹن کی خاموشی اس قدر گہری کیوں ہے؟ امریکی فوجی قیادت جنرل اشفاق پرویز کیانی سے اس قدر ناراض کیوں تھی؟ ان سوالوں پر غور کرنے کی فرصت کسی کو نہیں۔ مغرب کی مالی مدد سے متحرک این جی اوز پاکستانی میڈیا میں دخیل ہیں۔ ہمیشہ اور ہر وقت ہم ''را‘‘ کے صدر دفتر میں تراشی جانے والی افواہوں پر ایمان لے آتے ہیں۔ امریکی سفارتخانے کی تقریبات میں وہ دانشور ہمیشہ دکھائی دیتے ہیں جو پاکستان کے وجود پر یقین نہیں رکھتے۔ رہی پاکستان کی سیاسی قیادت تو اس طرح وہ ایک دوسرے کو تباہ کرنے پر تلے رہتے ہیں‘ گویا یہ ایک مقدس مذہبی فریضہ ہو۔
ظاہر ہے کہ تجارتی راہداری پہ امریکی ناخوش ہیں جیسا کہ جنرل راحیل شریف نے کہا تھا: یوں اس خطے کی صورتحال ہی بدل جائے گی۔ امریکہ بہادر اس تغیر کو کیوں گوارا کرے؟ تزویراتی اعتبار سے دنیا کے اہم ترین ملک کو وہ رہا کیسے کر دے‘ اس کے پنجوں میں جو تڑپ رہا ہے۔
تجارت اقتصادی نمو میں ہے‘ معاشی آزادی میں۔ فرد یا اجتماع‘ اپنی ترجیحات طے نہیں کر سکتے‘ اگر وہ کشکول بردار ہوں۔ تجارتی راہداری اگرچہ واحد کلید نہیں مگر غیر معمولی نتائج وہ جنم دے سکتی ہے۔ اسی لیے بھارت نے اعلان کیا تھا کہ ہرگز وہ اسے مکمل کرنے کی اجازت نہ دے گا۔
قوموں کی بقا‘ ان کی بیداری اور ایک کم از کم اتفاق رائے میں ہوتی ہے۔ رواداری اور وسعتِ ظرف کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ میاں محمد نواز شریف سے اس کی امید کی جا سکتی ہے اور نہ کپتان سے‘ پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے بہترین کوشش کی ناکامی کے بعد برہمی جن پر سوار ہے۔
غور کرنے والوں کو غور کرنا چاہیے۔ اس بے مقصد اور بے سود رزم آرائی کو تمام ہونا چاہیے‘ قومی سلامتی کے لیے جو خطرہ بن گئی ہے۔ تجارتی راہداری پہ اتفاق رائے کے لیے غیر جانبدار لوگ آگے آئیں اور عسکری قیادت مددگار ہو۔
پاکستان ایک گھر ہے‘ جسے دشمن منہدم کرنے پر تلا ہے اور گھر کے مکین باہم نبرد آزما ہیں۔ اللہ ان پہ رحم کرے۔
تجارتی راہداری پہ اتفاق رائے آخر کیوں ممکن نہیں؟ پاناما لیکس پر تحقیقات کے لئے اتفاق کیوں ممکن نہیں؟ خود شکنی سے گریز کیوں ممکن نہیں؟۔
تبصرہ لکھیے