آج اگر سراج الحق اٹھ کر لیاقت بلوچ صاحب کی چھٹی کرا کر راتوں رات کسی کھرب پتی ہمایوں اختر خان کو جماعت اسلامی کا مختار اور جنرل سیکرٹری بنا دیں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی، اپنی شوریٰ بلکہ پوری پارٹی کی مہار ان کے ہاتھ میں دے دیں تو کیا یہ زیادتی اورکرپشن کی بدترین قسم نہیں ہوگی۔ وہ اگرمرکزی امیر کی حیثیت سے خیبر پختونخوا کی کابینہ میں عنایت اللہ خان کے بجائے کسی ایسے شخص کو سینئر وزیر نامزد کرلیں کہ جو گزشتہ حکومت میں حیدر ہوتی کی ٹیم کے، اس سے پہلے پرویز مشرف کی ٹیم کے اور اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی صوبائی کابینہ کے رکن رہے ہوں تو کیا یہ ظلم اور ناانصافی نہیں ہوگی؟ کیا ایساکرنے کے بعد ہمارا میڈیا سراج الحق کا جینا حرام نہیں کرے گا اور کیا اس کے بعد کوئی ذی شعور شخص ان سے انقلاب کی توقع لگائے بیٹھے گا اور کیا اس کے بعد فرینڈلی انٹرویوز کرا کرا کر پاکستانی میڈیا ان کو جبراً قوم کے سروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گا؟
لیکن عجیب تماشا ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے بعد بھی ’’بدتمیز جمہوریہ سوشل میڈیا‘‘ کی سلطنت کے وزیراعظم، انقلابی اور پاک صاف باور کرائے جا رہے ہیں جبکہ سراج الحق کی طرف کوئی توجہ نہیں دلا رہا۔ چلو مان لیتے ہیں کہ بدتمیز جمہوریہ سوشل میڈیا کے یہ وزیراعظم ذاتی طور پر کرپٹ نہیں لیکن کیا سراج الحق کرپٹ ہیں؟ ان کے تو دشمن بھی گواہی دیتے ہیں کہ وہ مالی تو کیا اخلاقی طور پر بھی کرپٹ نہیں۔ وزیر بننے کے بعد ان کی ذاتی اور خاندانی زندگی میں کوئی فرق آیا اور نہ امیر بننے کے بعد۔ اگر ذاتی کرپٹ نہ ہونا ہی سیاسی لیڈر کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے تو پھر سراج الحق کے کیوں معاف نہیں کیے جاتے اور پھر کرپشن سے پریشان ان انقلابیوں نے جماعت اسلامی کو اپنی امیدوں کا مرکز کیوں نہیں بنایا؟۔
بدتمیز جمہوریہ سوشل میڈیا کے وزیراعظم اور ریٹنگ کے غلام الیکٹرانک میڈیا کے پاپولر ترین لیڈر کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس ماہرین اور اہل لوگوں کی ٹیم ہے، لیکن اس ٹیم کی حقیقت خیبر پختونخوا کی حکومت کی صورت میں دنیا پر آشکارا ہوگئی۔ اس پوری ٹیم میں اہلیت اور دیانتداری کے حوالے سے جماعت اسلامی کے عنایت اللہ خان نمبر ون قرار پائے۔ نہ کرپشن کا کوئی الزام اور نہ دامن پر کسی قانون شکنی کا دھبہ۔ سوشل میڈیا کے مجاہدین پشاور کی خوبصورتی اور بلدیاتی نظام کا بڑا کریڈٹ لیتے ہیں لیکن یہ واضح نہیں کرتے کہ یہ کام جماعت اسلامی کے وزیربلدیات عنایت اللہ خان کا ہے۔ پھر تبدیلی کے ان آرزومندوں کا انتخاب، اُس جماعت کے بجائے جماعت اسلامی کیوں نہیں ؟
کہتے ہیں کہ بدتمیز جمہوریہ سوشل میڈیا کے وزیراعظم کو پاکستان کا وزیراعظم اس لیے بنانا چاہیے کیونکہ انہوں نے لوگوں کے پیسوں سےاسپتال بنایا ہے لیکن یہی معیار ہے تو پھر تو جماعت اسلامی کی الخدمت فائونڈیشن ملک بھر میں سینکڑوں اسپتال بنا اور چلا رہی ہے اور لاکھوں لوگ ان کی خدمت سے مستفید ہو رہے ہیں۔ 2005ء کا زلزلہ ہو، چترال میں بارشوں کی تباہی ہو یا پھر وزیرستان کے آئی ڈی پیز کی خدمت، ہر جگہ الخدمت نمایاں نظر آتی ہے۔ پھر کیوں نہ سراج الحق کو وزیراعظم بنایا جائے؟
دلیل دیتے ہیں کہ نئی نسل زرداری اور نواز شریف سے مایوس ہوچکی ہے اور ان کی اکثریت سوشل میڈیا کے وزیراعظم کو اپنا لیڈر مانتی ہے حالانکہ لیڈر ماننے اور فین فالونگ (Fan Following) میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ کسی جگہ شاہد آفریدی عام جلسے سے خطاب کے لیے آئیں تو لگ پتہ جائے گا کہ کتنے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ پھر اگر ان کے ساتھ وہاں راحت فتح علی خان کی موسیقی اور صبا قمر کی دید کی نوید بھی سنا دی جائے تو مجھے یقین ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوگی۔
جہاں تک نوجوانوں کی قیادت کا تعلق ہے تو یہ تو ہر حامی و مخالف تسلیم کرتا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں سب سے بڑی ملک گیر تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ ہے۔کوئی دوسری طلبہ تنظیم نہ تو اتنی منظم ہے اور نہ اتنے جوان جمع کرسکتی ہے جس طرح وہ سالانہ اجتماع عام کی صورت میں جمع کرتی ہے۔ یہ تنظیم کسی اور کو نہیں بلکہ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر کو وزیراعظم دیکھنا چاہتی ہے۔
مثالیں طیب ایردوان کی دی جاتی ہیں لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ طیب ایردوان بنیادی طور پرجماعت اسلامی کی سوچ کے آدمی ہیں۔ وہ گلبدین حکمت یار کی زیرقیادت افغان جہاد میں حصہ لے چکے ہیں اور اپنے آپ کو پاکستان کے اندر نظریاتی طور پر جماعت اسلامی سے جوڑتے ہیں۔ پھر پاکستان کا طیب ایردوان بننے کی امید کسی اور کے بجائے سراج الحق سے کیوں نہ وابستہ کی جائے؟
پلڈاٹ (PILDAT) مغربی ممالک کے تعاون سے جمہوریت کے فروغ کے لیے کام کرنے والا مستند تھنک ٹینک ہے، ہر سال اپنی رپورٹ میں جماعت اسلامی کو پارٹی کے اندر جمہوریت کے لحاظ سے سب سے بہترین پارٹی قرار دیتا ہے۔ ابھی کل ہی اس نے پارلیمانی سال 2015-16 کی کارکردگی رپورٹ جاری کی ہے جس میں قومی اسمبلی کے اندر ممبران کی حاضری اور دیگر کارکردگی کے حساب سے جماعت اسلامی کو سب سے بہتر جبکہ پی ٹی آئی کو بدتر جماعت قرار دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان سب کچھ کے باوجود جماعت اسلامی کیوں نظرانداز کی جا رہی ہے اور میڈیا پر صرف ایک مخصوص جماعت کا غلغلہ کیوں ہے؟
دعویٰ کیا جاتا ہے کہ سیاست کے اندر وراثت کی ناپاک روایت کے خاتمے کا۔ اب جب بچے پاکستان میں ہی نہیں تو کس کو عہدے دلوادیں۔ نچلی سطح پر دیکھیں تو معاملہ وہی پی پی پی اور مسلم لیگ والا ہے لیکن کسی جماعت میں اس خباثت کا شائبہ تک نہیں تو وہ جماعت اسلامی ہے۔ ایسا نہیں کہ مولانا مودودی کی اولاد نہیں تھی یا منور حسن اور قاضی حسین خاکم بدہن لاوارث تھے لیکن یہاں کبھی کراچی کے فقیر سید منورحسن امیر بن جاتے ہیں اور کبھی افغانستان کی سرحد سے متصل مسکینی گاؤں کے غریب سراج الحق کے سر پر امارت کا تاج رکھ دیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پھر کیوں ایک مخصوص شخص کو زرداری اور نوازشریف کے مقابلے میں واحد آپشن قرار دیا جا رہا ہے اور سراج الحق کو نہیں۔ ان کا تو نہ میاں نوازشریف سے مک مکا ہے اور نہ آصف زرداری کے ساتھ۔ ان کا نام تو نہ پاناما میں آیا ہے اور نہ ان کے اردگرد آف شور اکاؤنٹس رکھنے والے دوسری طرح کے کرپٹ کھڑے ہوتے ہیں۔ نہ تو ان کے اثاثے بیرون ملک ہیں اور نہ بچے لندن میں ہیں۔ تو پھر کیا سراج الحق کو یہ مقام اس لیے نہیں دیا جا رہا کہ ان کی داڑھی ہے، یا اس لیے کہ وہ تقریر کرتے وقت گالم گلوچ سے کام نہیں لیتے، یا اس لیے کہ وہ مخصوص قوتوں کا آلہ کار بننے کے بجائے آئین اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔
جلسے اور جلوسوں میں بھی تو جماعت اسلامی کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن کیا وہ میڈیا کی توجہ اس لیے حاصل نہیں کر پاتے کہ ان میں ناچ گانے کے بجائے قال اللہ اور قال الرسولﷺ پر زور دیا جاتا ہے۔ یا اس توجہ کے لیے ضروری ہے کہ جماعت اسلامی کے اجتماعات اور جلسوں، جہاں شرکت کے باوجود خواتین کو احترام ملتا ہے، میں بھی خواتین کے ساتھ بدتمیزیاں شروع ہوجائیں۔
اس تجزیے اور تقابل کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ سراج الحق کی ذات اور ان کی جماعت خامیوں سے پاک ہے۔ میں نے ان کی ذات پر مسلسل تنقید کی ہے اور کرتا رہوں گا۔ جماعت اسلامی کی ساخت سے بھی اور پالیسیوں سے اختلاف کیا ہے اور مزید شدت کے ساتھ کرتا رہوں گا لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرسکتا کہ جماعت کی موجودہ قیادت اصلاح کی بھرپور کوشش کر رہی ہے۔ تشویش مجھے اس بات کی ہے کہ پاکستان کا لبرل میڈیا اپنے رویے سے جماعت اسلامی کو یہ سبق دے رہا ہے کہ وہ آئین اور قانون کے بجائے تشدد اور دھرنوں کی طرف مائل ہوجائے، یا پھر ماضی کی طرح دوبارہ مخصوص قوتوں کا مہرہ بننے پر آمادہ ہوجائے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر جماعت اسلامی اور جے یو آئی جیسی جماعتیں دھرنوں پر اتر آئیں تو ہم کلین شیوڈ، اسکرپٹڈ اور مخلوط دھرنوں کو بھول جائیں گے اور اگر انہوں نے قانون ہاتھ میں لے کر شہروں کو بند کرنے کی ٹھان لی تو پھر لوگ دیکھ لیں گے کہ شہر کیسے بند کیے جاتے ہیں۔ آخر کچھ تو انصاف سے کام لینا چاہیے۔
تبصرہ لکھیے