اس سال استادوں کے عالمی دن پر کئی تحریریں نظر سے گزریں تو اپنے استاد بھی یاد آئے۔ میں نہایت خوش قسمت ہوں کہ مجھے زندگی میں کئی فرشتہ صفت استاد ملے۔ لیکن یہ ان کا تذکرہ نہیں ہے۔
یہ ایک ایسے استاد کا تذکرہ ہے جس میں بظاہر فرشتوں والی کوئی صفت نہیں اور وہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے کہ ہمارے ہاں استاد ہوتے ہیں۔ ایک ایسا استاد جسے پڑھانے سے زیادہ اپنا کیریئر بنانا عزیز تھا اور جس نے بے غرضی کی کوئی مثال قائم کرنے کیلئے زندگی تج دینے کی بجائے محکمانہ ضابطوں کو پسِ پشت ڈال کر ارباب سیاست سے قربتیں بڑھائیں اور اس کا صلہ پا کر محکمہ تعلیم میں ایک انتظامی عہدے پر فائز ہوا۔
میں جن صاحب کی بات کر رہا ہوں وہ آج سے سولہ سال قبل جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو ضلع باغ، آزاد کشمیر میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر (ڈی ای او) تھے۔ وہ آج شاید ڈویژنل ڈائریکٹر ہیں۔ یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ آزادکشمیر میں محکمہ تعلیم میں انتظامی عہدوں پر کم و بیش تمام تقرریاں سیاسی بنیادوں ہوتی ہیں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کریں کہ اگر ڈیڑھ دہائیاں اور کئی حکومتیں گزرنے کے بعد بھی ان کا بلندی کی طرف سفر جاری ہے تو وہ کس قسم کے شخص ہوں گے۔ خلاف ضابطہ تقرریوں سے لے کر ایک خاص سیاسی پارٹی سے وابستہ اساتذہ پر غیر قانونی مہربانیوں تک کون سا ایسا الزام تھا جو ان پر نہیں لگا۔ بلکہ بعد میں ایک دفعہ تو میں نے یہ بھی سنا کہ ان پر الیکشن کے دوران ایک سیاسی پارٹی کے لیے ووٹ خریدنے کی کوشش کا الزام بھی لگا ہے۔
لیکن میں یہ تحریر ان کی مذمت میں نہیں بلکہ ان کے اسی عہدے کی بدولت میری ان سے ایک ملاقات کے تذکرے کے لیے لکھ رہا ہوں جس کے دوران چند گھنٹے کے لیے ہمارے درمیان استاد شاگرد کا تعلق بھی قائم ہوا۔ یہ ایک حیران کن ملاقات ثابت ہوئی جس کی یاد آج بھی میرے اندر انسانی فطرت کی حیران کن پیچیدگیوں اور خوبصورتیوں کے متعلق کئی بے نام احساسات کو جنم دیتی ہے۔
ان دنوں میں جس اسکول میں پڑھتا تھا وہ ایک سرکاری مڈل اسکول تھا جو ایک پہاڑی ڈھلوان پر بسے ایک چھوٹے سے گاؤں کے کنارے واقع تھا۔ اس گاؤں کا محل وقوع کچھ ایسا تھا کہ پکی سڑک تک رسائی کے لیے یا تو گھنٹہ سوا گھنٹہ بلندی کی طرف پیدل چلنا پڑتا تھا یا کوئی پون گھنٹہ نیچے کی جانب سفر کرکے پہاڑ کے دامن میں بہتے دریا کے کنارے کنارے چلتی سڑک تک رسائی ملتی تھی۔
جب میں نے اسکول جانا شروع کیا تو اس وقت اسکول دو الگ الگ عمارات پر مشتمل تھا جن میں سے ایک تو دو کمروں پر مشتمل ایک کچی عمارت تھی جو اس قدر خستہ تھی کہ یوں لگتا تھا کہ اب دھڑام سے نیچے آئی کہ اب۔ اس عمارت کے دو کمروں، برآمدے اور سامنے کے چھوٹے سے میدان میں ”قاعدے“ سے لے کر پانچویں تک کلاسیں سجا کرتی تھیں۔ جبکہ نسبتا تھوڑی بلندی پر واقع دوسری ٹین کی چھت والی کم خستہ عمارت جو ”پکا سکول“ کہلاتی تھی اس میں بڑی یعنی چھٹی، ساتویں، آٹھویں کی کلاسیں ہوا کرتی تھیں۔ تاہم اس کی دیواروں اور فرش کو بھی سیمنٹ نصیب نہیں ہوا تھا۔ صرف ایک جانب والا کمرہ جو دفتر کے طور پر استعمال ہوتا تھا اس کے اندر کی جانب والی دیواروں پر پلاسٹر ہوا تھا اور برآمدے کا وہ حصہ جو اس کے سامنے آتا تھا اس کا فرش بھی پکا تھا۔
خیر جب چند سال بعد ارباب اختیار میں سے کسی کو رحم آیا تو مذکورہ دونوں عمارات سے تھوڑا سا اور بلندی کی جانب اسکول کے لیے ایک اور عمارت تعمیر ہوئی۔ اس وقت تک چونکہ ہم سینئر کلاس بن چکے تھے لہذا ہمیں اس میں منتقل کردیا گیا۔
نئی عمارت میں منتقلی کے بعد اچانک ایک دن خبر چلی کہ ڈی ای او صاحب معائنے یا پھر شاید چھاپے کے لیے آ رہے ہیں۔ چونکہ اس سے پہلےاتنے سالوں میں ہم نے کسی ڈی ای او کو اپنے اسکول میں نہیں دیکھا تھا لہذا اب خیال آتا ہے کہ شاید اس وقت یہ دورہ نئی عمارت کے معائنے کے لیے یا شاید خود ڈی او صاحب کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کا کارکردگی کے مظاہر ے کے ذریعے سر کچلنے کےلیے عمل میں لایا گیا تھا۔
اس دن اساتذہ کی جان پر بنی ہوئی تھی اور ہر طرف سراسیمگی کا عالم تھا۔ خود ہم طلبہ کے دل نامعلوم کے خوف کے زیر اثر بری طرح دھڑک رہے تھے اور حلق بار بار خشک ہورہے تھے۔
کوئی گیارہ بجے کے قریب بالآخر ڈی ای او صاحب کا نزولِ اجلال ہوا اور چائے وائے پینے کے بعدانہوں نے کلاسوں کے دورہ شروع کیا۔ بدقسمتی سے وہ سب سے پہلے ہماری ہی کلاس میں داخل ہوئے۔ اساتذہ کو انہوں نے باہر ہی روک دیا اور کلاس کے اندر ہماری تعلیمی قابلیت جاننے کا عمل شروع ہوا۔اپنی عزت کے ساتھ ساتھ اب اسکول اور اساتذہ کی عزت بھی ہم کل آٹھ یا دس لڑکوں پر مشتمل جماعت کے ہاتھ میں تھی۔
کوئی ایک آدھ سوال کسی طالب علم سے پوچھا اور اس کے بعد یہ شروع ہوا کہ جو بھی سوال ہوتا میں بول پڑتا۔ دو تین سوالوں کے بعد وہ چونکے، پھر غور سے دیکھا اور پھر سارے سوالات کی بارش مجھ پر شروع ہوگئی۔ ہر سوال کے ٹھیک جواب کی چوٹ سے غالباً عہدے ، مفادات اور غرض کے خول ٹوٹتے گئے اور جب سب خول ٹوٹ چکے تو ان کے اندر سے ایک مہربان باپ اور شفیق استاد برآمد ہوا ۔ مسکرائے، تھپکی دی اور پوچھا کہ بیٹا بتاؤ تمہیں کسی چیز میں مسئلہ ہے یا رہنمائی کی ضرورت ہے؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو کہہ دیا کہ مجھے Tenses نہیں آتے اور ان میں مسئلہ ہے۔
اب ڈی ای او مکمل طور پر غائب ہوچکا تھا اور صرف شفیق استاد سامنے کھڑا تھا جس کے لیے صرف بچے کو پڑھانا اہم ہے اور اسے اپنے طالب علم کے فائدے کے علاوہ کسی اور چیز سے کوئی غرض نہیں۔
چاک ختم ہوتے گئے، تختہ سیاہ بھرتا اور صاف ہوتا رہا، نوٹ بک کے صفحات سیاہ ہوتے گئے، سیکنڈ منٹوں اور منٹ گھنٹوں میں تبدیل ہوتے رہے مگر وہ فربہ اندام آدمی جو اپنے موٹاپے کےساتھ کئی میل پیدل چل کر آنے کے بعد یقیناً تھکا ہوا ہے تختہ سیاہ کے سامنے کھڑا رہا۔ وہ اپنی تھکن بھول چکا ہے اور یہ بھی کہ وہ ڈی ای او ہے جس کی آمد کے خیال سے اس اسکول کے طلباء اور اساتذہ کی روح صبح سے فنا ہورہی ہے۔ اسے بس اتنا یاد ہے کہ وہ ایک استاد ہے۔ ایک شفیق اور بے غرض استاد ہے۔
ماضی مطلق سے مستقبل مکمل جاری تک بارہ زمانے، مثبت ، منفی اور سوالیہ جملے، ضمیریں اور ان کی فاعلی، مفعولی اور اضافی حالتیں ، امدادی افعال، تختہ سیاہ، ختم ہوتے چاک ، دس طلباء اور ایک بے غرض اور شفیق استاد!
جب زمانے ختم ہوگئے تو ایک آخری فقرہ تختہ سیاہ پر لکھا ”سعود کے آنے سے پہلے عاطف جا چکا ہوگا“، کنکھیوں سے کمرہ جماعت کے کھلے دروازے سے باہر کھڑے اساتذہ کو دیکھا اور آواز پست کرکے حقارت سے زیادہ شرارت آمیز انداز میں لہجے میں بولے ”میں یقین سے کہتا ہوں کہ اس کا ترجمہ تمہارے ان استادوں میں کوئی بھی نہیں کرسکتا۔ جو کام پہلے ہوچکے گا اس کا ترجمہ Future Perfect اور جو بعد میں ہوگا اس کا Present Indefinite میں کریں گے“۔ پھر مڑ کر تختہ سیاہ پر لکھا:
Atif will have gone before Saud comes.
اس کے بعد انہوں نے گھڑی دیکھی، ایک تھپکی اور دی اور چلے گئے۔ وہ کسی اور کلاس میں نہیں گئے کیونکہ چھٹی کے وقت سے پہلے ہی گھنٹہ ڈیڑھ اوپر ہوچکا تھا۔
وقت گزرتا گیا ، ہم تعلیم کے زینے چڑھتے رہے اور راجہ محمدروشن جوہر ڈی ای او کا عہدہ سنبھالتے رہے۔ کئی برس بعد ہمارے ہم جماعت اور دوست عبدالجمیل خان ملازمت کا انٹرویو دینے ان کے سامنے پیش ہوئے تو انہیں یاد دلایا کہ انہوں نے ہمیں کئی گھنٹے Tenses پڑھائے تھے۔ انہیں یاد نہیں تھا۔ شفیق استاد سیاست، جوڑ توڑ، الزامات اور عہدے کے پیچھے گم ہوچکا تھا۔ اب صرف ڈی ای او سامنے تھا۔
کچھ عرصے بعد میں انہیں فون کیا اور یہ واقعہ دوبارہ یاد کروایا ، شکریہ ادا کیا اوراپنے بارے میں بتایا تو مجھے لگا کہ ایک مرتبہ میں نے پھر ڈی ای او کی نہیں بلکہ ایک شفیق استاد کی آواز سنی ہو۔
اب پھر کئی سال گزر چکے ہیں اور مہربان استاد ایک مرتبہ پھر عہدے، سیاست اور الزامات کے پیچھے گم ہوچکا ہوگا کہ لیکن میں اب بھی آنکھیں بند کیے بغیر تختہ سیاہ کے اوپری داہنے کونے میں لکھا ہوا Atif will have gone before Saud comes دیکھ سکتا ہوں!
تبصرہ لکھیے