پاکستان میں متعین چین کے سفیر نے گذشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ جناب عمران خان سے ان کی رہائش گاہ پر جا کر ملاقات کی اور انہیں ’پاک چین اقتصادی راہداری‘ کے ثمرات کے حوالے سے اعتماد میں لیا جس پر خان صاحب کو کہنا پڑا کہ وہ اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی رکاوٹ ڈالیں گے بلکہ وہ تو ملک میں موجودہ حکمران طبقے (پنجاب اور وفاق اور سندھ) کی طرف سے ہونے والی عمومی بدعنوانی کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ چلیں اچھا ہوا، کم از کم یہ بات تو یقینی ہو گئی کہ اس مرتبہ کنٹینر پر سے اقتصادی راہداری کے جعلی یا جھوٹ ہونے یا پھر بھاری سود کے عوض لیے گئے قرضوں پر شروع ہونے والے منصوبے کہہ کر ان کی ایسی تیسی نہیں کی جائے گی۔
اس ملاقات کی ایک تصویر تو یہ تھی جو اخبارات کی زینت بنی اور جس سے بظاہر وہ پیغام مل رہا تھا جو ہم نے یہاں بیان کیا اور یہ ہر کسی کو سمجھ میں آگیا۔ لیکن اس تصویر کا ایک پوشیدہ پیغام بھی تھا اور وہ یہ کہ اب پاکستان کی حکومتی فیصلہ سازی کے عمل میں بہت سے دیگر ممالک کے علاوہ چین بھی دخیل ہو گیا ہے۔ گذشتہ کم از کم ساڑھے تین دہائیوں سے ہم یہی دیکھتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں صرف امریکہ بہادر یا پھر اس کی منظوری یا اشارہ ابرو کے بعد برطانیہ بہادر کے سفارت کار دخل اندازی کیا کرتے تھے۔ لیکن اب چین بھی ایک نیا ’سٹیک ہولڈر‘ بن گیا ہے اور روس بس دروازے کے ساتھ لگا کھڑا ہے کہ امریکہ میں تربیت یافتہ سول اور وردی والی بیوروکریسی اس کو اجازت دے اور وہ بھی ہمارے ملکی معاملات میں داخل ہوجائے؟
یادش بخیر جب ضیاء الحق صاحب نے افغانستان میں روس کے خلاف یورپ اور امریکہ کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا تو کم از کم اتنا بھرم تو رکھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو براہِ راست مقامی افغانوں (اور پاکستانیوں) سے لین دین نہ کرنے دیا اور یہ پالیسی طے کروائی کہ اس حوالے سے ان کے ادارے کی خدمات کو استعمال کیا جائے گا۔ یوں روس کے خلاف افغان جہاد کے نتیجے میں ہم نے درجنوں جرنیلوں کو ارب پتی ہوتے دیکھا۔ محلے میں ہماری چوہدراہٹ بھی قائم ہو گئی۔ لیکن اپنا جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لاء لگا کر اقتدار پر قبضہ کرنے والا بہادر کمانڈو جناب پرویز مشرف صاحب جب اپنے اقتدار کے جواز میں دنیا میں منمناتا پھرتا تھا تو نیو ورلڈ آرڈر کے تحت اس سے ایک معاہدے پر اس صدی کی ابتدا میں دستخط کروا لیے گئے، اس کے بعد تو ساری شرم ہی اتار دی گئی۔ اب امریکیوں کو براہِ راست افغانیوں (اور پاکستانیوں) سے لین دین کرنے کی اجازت دے دی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ان ممالک نے افغانستان اور اسے ملحقہ پاکستانی آزاد قبائلی علاقوں میں میں ڈالر کے بھوکے وار لارڈز کا ایک بہت طبقہ پیدا ہو گیا بلکہ ہمارے ملک کے شہری علاقوں میں بھی (این جی اوز کی صورت میں) راتب خوروں کا ایک ’فرقہ‘ پیدا ہوگیااور یوں اب ہمارے ملک کے ہر کونے سے ایسی ایسی مخلوق برآمد ہو رہی ہے کہ اللہ کی پناہ! اب امریکی خال خال ہی ہمارے ملک کے دورے پر تشریف لاتے ہیں اور جو کچھ کہنا ہو وہ یہ این جی اوز کرتی کراتی ہیں یا پھر امریکہ اپنے پالتو کتورے (پوڈل) برطانیہ کو حکم دیتا ہے اور اس کی فوجی یا سول قیادت ہمیں آ کر بتا دیتی ہے کہ امریکہ بہادر کی کیا مرضی ہے؟ حال ہی میں برطانوی چیف آف جنرل سٹاف کا دورہ پاکستان بھی انہی پیغامات کے سلسلے کی ایک کڑی تھی، جس کے نتیجے میں ہمارے اداروں نے اپنے اچھا بچہ ہونے کا سرٹیفیکیٹ لینے کے لیے ان کو وزیرستان میں ’موقع واردات‘ پر لے جا کر مشاہدہ اور یقین دہانی کروانا ضروری خیال کیا کہ ہم حکم کے عین مطابق عمل پیرا ہیں۔
لیکن اس معاہدے کو دوسرا اہم پہلو یہ تھا کہ عدالت سے سزایافتہ ایک مجرم کو جیل کی کوٹھڑی میں سے نکال کر عدالتی احکامات کا منہ چڑاتے ہوئے خاندان کے بچوں سمیت جہاز پر سوار کروا دیا گیا۔ اس پورے معاہدے کا ایک اہم’’ عملی جزو‘‘ (سٹیک ہولڈر) میاں صاحب بھی تھے۔ لہٰذا میاں نواز شریف صاحب نے ملک میں واپسی کے باوجود سال 2012ء تک عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا اور معاہدے کے تحت سیاست سے دس سال دور رہنے کے معاہدے پر اس کی ’روح‘ کے مطابق عمل کیا۔ اس دوران بےنظیر بھٹو صاحبہ بھی اس معاہدے کا عملی جزو بننے کے لیے امریکیوں سے ملیں اور نوازشریف کو اعتماد میں لے کر اس میں کود پڑیں۔ لیکن ان کا پاؤں سرخ لکیر پر آ گیا جس کے بعد ان کو اس کھیل سے ہی نہیں بلکہ دنیا سے ہی ’فارغ‘ کر دیا گیا۔ ان کے سیاسی ورثاء نے ناک رگڑ کر پورا کھیل نہ بگاڑنے کی یقین دہانیاں کروائیں تو ان کو اس کھیل کا حصہ بنا لیا گیا۔ اس کھیل کا قدرتی انجام تو یہ ہونا چاہیے تھاکہ جب جمہوریت بحال ہوئی تھی تو پاکستان کی حاکمیت بحال ہو جاتی اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں دخیل عناصر کو نکال باہر کیا جاتا لیکن اس سارے معاہدے کی یقین دہانی اس ادارے نے کروا رکھی ہے جس نے قوم کو یہ بیانیہ دن رات رٹا دیا ہے کہ ’’ادارہ توبس ایک ہی بچا ہے‘‘۔
اہم قصہ یہ ہے کہ ایک طرف تو ہم آج کل امریکیوں اور افغان طالبان کے درمیان قطر میں ہونے والے مذاکرات سے باہر ہیں جبکہ کچھ ہفتے پہلے امریکی اور ان کے کابل میں مسلط ایجنٹ ہم سے مطالبہ کرتے پائے جاتے تھے کہ ہم افغان طالبان کو گھیر گھار کر مذاکرات کی میز پر ان کے حوالے کریں اور دوسری طرف بھارت کو ہلہ شیری دے کر راجھستان کی سرحد پر بھی بجلی والی خاردار تاریں لگوا کر اسے بند کروانے کی دھمکی دے دی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس پر بھی عمل درآمد کروا دیا جاتا جس طرح بھارتی پنجاب اور حتیٰ کہ کشمیر میں خطِ متارکہ جنگ پر یہ کام مکمل کروایا گیا تھا لیکن ادھر دفترِ خارجہ نے اس معاملے میں بھی چین کو ملوث کر کے رنگ میں بھنگ ڈال دی اور معاملات وہیں پر روکنا پڑ گئے۔
میاں نواز شریف کی جمہوریت ایک اور کھیل کھیلنے میں بھی مصروف ہے۔ میاں صاحب کا خیال ہے کہ اگر عامل جزو کی تعداد و مقدار بڑھا لی جائے تو اس میں پاکستان کی سالمیت اور خودمختاری کی کچھ بچت ہوجائے گی، یہی وجہ ہے کہ وہ چین کو اپنے گھر کے اندر نہیں بلکہ پچھلے سٹور تک لانے میں کوئی تامل محسوس نہیں کر رہے۔ جبکہ دوسری طرف گارنٹر ادارہ یہ یقین دہانی کروانے میں مصروف ہے کہ طے شدہ معاہدے پر پوری روح کے ساتھ عملدرآمد جاری ہے اور جاری رہے گا اور معاملات ویسے ہی طے ہوں گے جیسے آپ چاہیں گے۔
یہ جو آپ کوبہت سے ملکی معاملات میں سول اور فوجی کشمکش نظر آتی ہے ناں؟ یہ اسی معاہدے پر عملدرآمد کرنے میں ہونے والی کشمکش کا نتیجہ ہے۔ اور ہاں یہ جو مشرف کے وزرا اور مشرا جو پہلے مشرف صاحب، پھر زرداری حکومت اور آج کل میاں نواز شریف کی حکومت کا حصہ ہیں ناں تو یہ وہ ’مقدم‘ ہیں جو امریکیوں نے سارے معاملات پر نظر رکھنے کے لیے متعین کر رکھے ہیں۔ آپ کو مصدق ملک، زاہد حامد اور نجم سیٹھی کی ہر حکومت میں بمعہ اہل و عیال موجودگی کا جواز تو سمجھ میں آ گیا ہوگا؟
چینی سفیر اور عمران خان کی اس ملاقات کا ایک اور پیغام یہ بھی ہے کہ اس معاہدے میں، سیاسی قوتوں میں سے پی ٹی آئی، جو اس پورے عمل سے باہر تھی یا رکھی گئی تھی، کو بھی شریک کیا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں آئندہ کچھ دنوں میں آپ کو اس کے سیاسی نکتہ نظرمیں کچھ نرمی محسوس ہوگی۔ آپ بس معاملات پر نظر رکھیے گا۔
تبصرہ لکھیے