ہم میں سے اکثر لوگ پیڑوں پودوں کے شوقین ہوا کرتے ہیں، اور باقاعدہ طور پر انھیں بچوں کی طرح سینچتے ہیں کیونکہ جانتے ہیں یہی پودے ہم کو پھل سبزی یا پھول فراہم کریں گے اور باغ کی رونق بڑھائیں گے۔
سوچتی ہوں کہ کیا صرف پھل دار درخت ہی فائدہ مند ہوا کرتے ہیں، کیونکہ گھر میں لگائے گئے اکثر باغیچوں میں یہی دیکھنے میں آتا ہے۔ ہاں سڑکوں یا پارکس وغیرہ میں گھنی چھاؤں والے درخت دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
یہ جو ننھے پودے بوتے ہیں، ہم ان کو سینچتے ہیں، یہ سب ہمارے مزاج کی بھی آبیاری کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارا پورا کردار پنپ رہا ہوتا ہے اور ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتا۔
ہوتا کیا ہے کہ گھر میں نظروں کے سامنے پھل دار درخت یا خودرو پودے پنپ رہے ہیں، جبکہ باہر سڑکوں پے برگد یا پیپل، دوسروں کو ٹھنڈی چھاؤں دیتا ہوا۔
میرا مشاہدہ ہے کہ زیادہ تر گھرانوں میں یا تو ان پیڑ پودوں کا رواج نہیں ہے اور اگر ہے تو وہی پھل دار درخت کا۔ اس مشاہدے کے مطابق والدین + بچوں میں خود غرضی آگئی ہے، صبر چلا گیا ہے، رہی سہی کسر کیبل ٹی وی اور ریموٹ نے پوری کر دی ہے، کہ چیز پسند نہیں آئی تو پھٹ سے چینل چینج۔
اسی طرح ہم نے آپسی رشتوں کو بھی لینا شروع کر دیا ہے۔ گھر میں کسی سے بھی اختلاف ہوا، بندہ ریپلیس کرنے کی اچھا پوری طرح عود آتی ہے۔
پچھلے وقتوں میں کچے حصے میں یا صحن میں پیپل یا خصوصاً برگد کا درخت لگایا جاتا تھا کہ مکینوں کو ٹھنڈی چھاوں فراہم کرے گا۔ گھر کے بزرگوں میں بھی اس بات کا احساس رہتا تھا کہ برگد کا درخت جس قدر پرانا ہوتا جاتا ہے اس کی چھاؤں بھی گھنی ہوتی جاتی ہے اور وہ دیکھنے میں بڑا مقدس معلوم ہوتا ہے۔ اور ان کا کردار بھی اسی برگد کی مثل ہوا کرتا تھا۔ آج کل عموماً گھر بھی چھوٹے ہیں۔ زندگی میں وقت کی قلت ہے۔پودوں کا رواج تقریباً ختم ہی ہوگیا ہے اور جو ہے وہ منی پلانٹ اور خودرو پودوں کا ہے۔
ایسے میں گھر کے افراد کا مزاج کیا بنے گا؟ اس کے کیا اثرات زندگی میں در آئے ہیں وہ ہم محلے پڑوس سے آتی لڑائی جھگڑے کی آوازوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔
برگد کا پیڑ باہر والوں کو چھاؤں پہنچاتا ہے. اس لیے بزرگوں بچوں سب کا اخلاق باہر والوں کے لیے اعلیٰ ترین ہوتا ہے جب کہ گھر میں سب ببول، کیکر و زقوم کی صورت جی رہے ہوتے ہیں۔
1930ء سے پہلے کی نسل برگد اور پیپل کی چھاؤں میں بڑھی ہے۔ ان کی بزرگی میں اور سن 30ء کے بعد کی پیدائش والے بزرگوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کچھ پارٹیشن کے وقت کا کرب کچھ انگریزوں سے آزادی کا نیا نیا اثر، دونوں نے مل کر اس نسل پر جو اثرات مرتب کیے وہ ان کے بچوں کی پرورش میں واضح طور پر دِکھ جاتا ہے اور ان ہی بزرگوں کا بڑھاپا انتہائی ذلت یا کرب سے گزر رہا ہے کیونکہ ان کے اپنے مزاجوں میں تربیت میں خلا رہ گیا ہے. اور اسی احساس کمتری میں انھوں نے اپنے بچوں میں کیکر بو دیا۔ بیوی کو الگ باندی بنا کر رکھا اور وہ محبت وہ میچؤل انڈر سٹینڈنگ ڈیولپ نہیں کر سکے جو آج کل یعنی 70ٰs یا 80ٰs کی پیدائش کے شادی شدہ جوڑوں میں دیکھتی یا پنپتی دیکھی گئی ہے۔ اب ان کی نسل جو کہ 60's کی پیدائش والے ہیں ان کو کیا ریٹرن دیں گے۔ کیونکہ وہ نسل غلامی سے آزادی کی طرف آئی اور اپنی بقاء کے لیے لڑ رہی تھی جب کہ 60ٰs کے دور والوں نے اپنی جوانی میں مادی ترقی کی طرف دوڑ لگائی۔
گزرے وقت کو بدلنا ناممکن ہے۔ لیکن ہم کیونکہ بڑی ہی سمجھ دار نسل واقع ہوئے ہیں تو اب اس کا ثبوت بھی دیں۔ ان بے چارے تھکے ماندے سچ مچ اپنی زندگی سے شکست خوردہ بڑوں کو بڑے دل کے ساتھ معاف کر دیں۔ اور ان کے لیے پھل دار درخت نہ سہی کم از کم اپنے آپ میں گھنی چھاؤں والا برگد تو مہیا کر ہی سکتے ہیں۔
کچھ بھی ہوجائے اس نسل کے والدین نے اپنے کم وسائل میں بھی اپنے کم از کم آدھ درجن بچے پالے ہیں۔ ان کا لٹرلی گلا نہیں دبایا۔ نہ ہی جھولے یا ایدھی سینٹر میں پھینکا۔ تو ان کو بھی ایدھی سینٹر کی یا اولڈ ایج ہوم میں پھیکنے جیسی شقاوت نہ دکھائیں۔
تبصرہ لکھیے