چند دن پہلے کسی قاری نے ایک تحریر کا لنک بھیجا جس میں کہا گیا کہ ملک میں سول بالادستی کی جنگ جاری ہے، اس لئے ہم سب جمہوریت پسندوںکو سویلین حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ دراصل قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر انگریزی اخبار میںشائع ہونے والی متنازع خبر کے بعد جو بحث چل شروع ہوئی، یہ تحریر بھی اسی کا حصہ تھی۔ جن صاحب نے وہ لنک بھیجا، ان کا سوال تھا:''سول بالادستی کی اس کشمکش میں آپ اپنی پوزیشن بھی واضح کریں اور جائزہ لیں کہ کہیں آپ غلط کیمپ میں تو موجود نہیں‘‘۔
سوال دلچسپ ہے، سیدھا سادا جواب تو یہی بنتا ہے کہ صاحبو ہماری حمایت کرنے یا نہ کرنے سے کیا فرق پڑے گا۔ ایک جمِ غفیر ہے جو جمہوریت کے حق میں نعرے مارتا، تلوارسونت کر دشمن کھوج رہا ہے۔کچھ کے چیک بندھے ہیں تو بعض ماضی کے احسانات کا بدلہ چکانے کے درپے۔ سنا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں ایک خاص قسم کا سیل بھی قائم ہے، جہاں نجانے کتنے لوگ مانیٹرنگ، ڈرافٹنگ، فنڈنگ، فیڈنگ اور معلوم نہیں کس کس کام میں جتے رہتے ہیں۔ یہ اور بات کہ آخری تجزیے میں کوئی حربہ کام نہیں آتا۔ ہسپانوی ادب میں ڈان کیخوٹے نام کا ایک بہت دلچسپ کردار ہے، اس کا بھی یہی کام تھا کہ تلوار نکالے ہمہ وقت ہوائوں سے جنگ لڑی جا رہی ہے۔ سفر کرتے ایک پن چکی نظر آئی تو اپنا گھوڑا دوڑا کر اس پر پل پڑا کہ یہ شائد کوئی عجیب الخلقت دشمن ہے۔ ہمارے ہاں سویلین بالادستی اور جمہوری اداروں کے بعض بزعم خود حامی بھی ایسا ہی کر رہے ہیں۔ اس اخبارنویس کو ان سب سے ہمدردی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ ہمارا مسئلہ کوئی سویلین یا ملٹری بالادستی نہیں بلکہ بیڈ گورننس ہے، عوامی زبان میں بری بلکہ شائد بدترین حکمرانی۔ افسوس تو یہ ہے کہ کوئی سویلین حکمران تھا یا ملٹری ڈکٹیٹر، ہر ایک نے الا ماشااللہ ایک دوسرے سے بڑھ کر بدترین گورننس کا مظاہرہ کیا ۔ ویسے تو اعداد وشمار کی ایک الگ ہی جنگ ہے۔ کوئی سویلین حکمران کے ادوار کے معاشی، سماجی ترقی کے اشاریے سناتا ہے تو کوئی فوجی حکمرانوں کے دور میں ہونے والی معاشی ترقی اور آئی ایم ایف کے شکنجے سے باہر آ جانے کے دلائل دیتا ہے۔
ہر ایک کے پاس اپنا نقشہ، اپنے دلائل اور اپنا ہی تخیل ہے، مکمل بات کوئی نہیں کرتا۔ جنرل ضیا ء الحق کے دور میں معاشی انڈیکیٹر اچھے رہے تواسی دور میں فرقہ ورانہ تنظیموں کے بھوت نے آنکھ کھولی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اتنا پھیل گیا کہ پھر سنبھالے نہ سنبھلا۔ ایم کیو ایم بھی اسی دور کا تحفہ تھا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میںمعیشت بہتر رہی، ملک آئی ایم ایف کے شکنجے سے باہر آیا، تاریخ میں پہلی بار غیر ملکی قرضہ کم ہوا، روپیہ مستحکم رہا مگر اسی دورمیں لال مسجد کی مس ہینڈلنگ ہوئی جس کے بعد وہ طوفان اٹھا جس نے ہزاروں جانیں لے لیں۔ بلوچستان میں بلاجوا ز آگ بھڑکائی گئی جو ابھی تک نہیں بجھ پائی۔ سویلین حکومتوں کی کہانیاں تو سب کے سامنے ہیں۔ صرف پچھلے آٹھ برسوں کو دیکھ لیں، ملک پر کس قدر غیر ملکی قرضہ چڑھ گیا، حال یہ ہے کہ دفاعی بجٹ جو چالیس سال سے ہمارے ترقی پسندوں، لبرلزکی تنقیدکا ہدف بن گیا،اس سے دوگنا بلکہ ڈھائی گنا زیادہ بجٹ قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو رہا ہے۔ نوبت یہاں آپہنچی کہ قرضوںکی قسطیں واپس کرنے کے لئے نئے قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔
واپس پہلے سوال کی طرف لوٹتے ہیں کہ کیا یہ واقعی سول بالادستی کی جنگ ہے، جس میں ہم سب کو اپنے حکمرانوں کا ساتھ دینا چاہیے؟ جواب دینے سے پہلے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ سویلین حکومت آخر کن امور میں بالادستی چاہتی ہے؟
حکومتوں کے کرنے کے چار پانچ کام سب سے اہم سمجھے جاتے ہیں ۔پہلا کام اپنے شہریوں کی جان ومال کا تحفظ یعنی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بہتر کرنا۔ اس کے ساتھ ساتھ شہریوں کو صحت، تعلیم کی سہولتیں دینا، صاف پانی کی فراہمی، سستے انصاف کو یقینی بنانا اور مارکیٹ اکانومی کو اس طرح ریگولرائز کرنا کہ عام آدمی کا استحصال نہ ہو ، ضروریات زندگی کی اشیا مناسب داموں میں ملیں اور ان سب کے ساتھ روزگار کے مواقع پیدا کرنا۔ اب ایک منٹ کے لئے ٹھیرکر سوچ لیںکہ سویلین حکومت کو یہ سب کام کرنے کے لئے کس پر بالادستی قائم کرنے کی ضرورت ہے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ نے ہماری صوبائی حکومتوں کو مجبور کر رکھا ہے کہ وہ پولیس کے نظام کی اصلاح نہ کریں؟
کرپٹ پولیس اہلکاروں کو نکالنے، ظالم افسران کے احتساب، ٹرانسفر اور پوسٹنگ کے معاملہ کو سفارش اور سیاسی اثرورسوخ سے پاک کرنے سے کس نے روکا ہے؟کیا پولیس افسران اپنے من پسند تھانوں میں پوسٹنگ کے لئے لاکھوں کی رشوتیں اسٹیبلشمنٹ کو دیتے ہیں؟ اسی طرح تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اصلاحات لانے سے کس نے روکا ہے؟ عام آدمی کو ہسپتالوں میں ذلیل ہونے سے کس نے بچانا ہے؟ لاہور میں آخری ہسپتال پچیس تیس سال پہلے جناح ہسپتال کی شکل میں بنا تھا۔ اس کے بعد ہسپتال بنانے سے کس نے روکا؟ آج لاہور ایک کروڑ آبادی کا شہرہے، بھائی صاحب کس نے کہا ہے کہ یہاں اور ہسپتال نہ بنائو، سرکاری سکولوں، کالجوں کی حالت بہتر نہ بنائی جائے۔ صاف پانی مہیا نہ کیا جائے۔ ساٹھ ستر ارب روپے سے لاہور کے پندرہ بیس ٹرانسپورٹ روٹس میں سے ایک روٹ پر میٹرو بس چلائی گئی، ڈیڑھ سو ارب سے زائد سے اورنج ٹرین بن رہی ہے، تیس ارب روپے جیل روڈ کو سگنل فری بنانے کی عیاشی پر خرچ ہوئے۔ اس کا چوتھا حصہ بھی اگر درست طریقے سے خرچ کیا جاتا تو شہر کو صاف پانی کی فراہمی ممکن ہو جاتی۔ جناح جیسے دو ہسپتال بن جاتے، سیوریج ٹھیک ہو جاتا اور لاہوریوںکی تکلیف میں نمایاں کمی ہو جاتی۔کس نے سویلین حکمرانوں کو ایسا کرنے سے روکا؟ کراچی کی حالت تو لاہور سے بھی گئی گزری ہے، اسے دیکھ کر ہی خوف آتا ہے۔
ہر کوئی جانتا ہے کہ صرف چار پانچ سال پہلے تک دالوں کی قیمتیں کنٹرول میں تھیں، پھر اچانک اس میں کارٹل مافیا آگیا یا کچھ ہوا کہ دال ماش اور مسر، مونگ وغیرہ دوگنی مہنگی ہوگئیں۔ اب تو دال مرغی کے گوشت سے بھی زیادہ مہنگی ہوچکی۔ کسی نے سوچا کہ ایسا کیوں ہوا اور اس کو کس طرح ٹھیک کرنا ہے، مہنگائی کم کرنے کا کیا فارمولہ بنایا جائے؟ جب شاہی خاندان خود کاروبار شروع کر دے، مرغیوں کی فیڈ سے لے کر دودھ، دہی اور نجانے کس کس شعبے میں گھس جائے تو پھر ناجائز منافع خوری کو کس نے روکنا ہے؟
اگر صرف اپنی پسند کی خارجہ پالیسی نہ بنانے کا دکھ دامن گیر ہے تو صرف ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی سویلین حکمران نے ملک میں ایک بھی ایسا اچھا تھنک ٹینک بنایا ہے جو خارجہ پالیسی بنانے کے حوالے سے سفارشات دے سکے؟ نیشنل سکیورٹی ایشوز پر سویلین کی معاونت کے لئے کو ن سے تھنک ٹینک یا یونیورسٹیوں کی اکیڈیمیا کی دانش کو بروئے کار لانے کا میکنزم بنایا گیا؟ چرچل نے دوسری جنگ عظیم میں جرمنی کی یو بوٹس کے خالصتاً عسکری ایشو پر انگلش یونیورسٹیوں کی معاونت حاصل کی۔ بھارت سے تعلقات کیسے ہونے چاہییں،اس پر اپنی علمی، ماہرانہ 'ان پٹ‘ دینے کے لئے کون سے اور کتنے تھنک ٹینک بنائے گئے؟ یا پھر یہی کافی ہے کہ شہنشاہ معظم نے ایک سہانی صبح اٹھ کر سوچا کہ یار بہت ہوگئی، آج سے بھارت ہمارا دوست ہے۔ کیا اس طرح خارجہ پالیسی بنتی ہے؟ اس طرح سویلین بالادستی قائم کی جاتی ہے؟ اگر ایسا ہی ہے توہمیں یہ عرض کرنے کی اجازت دیں کہ حضور والا! اصل مسئلہ بالادستی نہیں اہلیت اور ناکافی تیاری کا ہے۔ سویلین کی راہ میں اصل رکاوٹ وہ خود اور ان کی بیڈ گورننس ہے۔
تبصرہ لکھیے