جوائنٹ فیملی سسٹم اسلامی نہیں ہندوانہ نظام ہے ! نامی بلاگ جو کچھ دن پہلے دلیل پر ہی شائع ہوا ہے، نظروں سے گزرا۔ بلاگ میں مخصوص پاکستانی انداز میں ایک انتہائی مؤقف لیتے ہوئے اپنے حق میں دلائل دیے گئے ہیں۔ پڑھ کے یہ احساس ہوا کہ اس وسیع موضوع کے بہت سے گوشوں کو شعوری یا لاشعوری طور پر نظر انداز کیا گیا ہے۔ میرے ذاتی خیال میں یہ دو انتہائی سنجیدہ موضوعات ہیں جھنیں ایک ہی بلاگ میں بھگتانے کی کوشش کی گئی ہے۔
پہلا یہ کہ یہ سوال اہم نہیں کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام ہندوانہ نظام ہے یا نہیں؟ زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام اسلام مخالف ہے؟
دوسرا یہ کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام پاکستانی معاشرے کے لیے زیادہ موزوں اور سود مند ہے یا نہیں؟
مذکورہ بلاگ کے نام میں پہلے موضوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور متن میں اسے دوسرے موضوع کی مدد سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ بہتر یہ ہو گا کہ ان کو علیحدہ علیحدہ موضوع بحث بنایا جائے۔ پہلے دوسرے سوال پر بات کر لیتے ہیں کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام پاکستان کے شہریوں کے لیے ایک رحمت ہے یا زحمت؟
حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ سے کسی نے دریافت کیا، حضرت، شادی کرنا سنت ہے یا واجب؟
آپ نے فرمایا، جو طاقت رکھتا ہو اور اس کے گناہ میں پڑ جانے کا قوی اندیشہ ہو اس کے لیے فرض ہے۔ جو طاقت رکھتا ہو لیکن نفس پر قدرت رکھتا ہو اس کے لیے واجب ہے۔ صحت مند لیکن تنگ دست کے لیے سنت ہے اور نامرد کے لیے حرام ہے۔
ایسا ہی کچھ معاملہ مشترکہ خاندانی نظام کا بھی ہے۔ پاکستانی معاشرے میں کہیں اسےاپنانا مجبوری ہے، کہیں یہ خیر کا باعث ہے اور کہیں یہ ٹوٹ پھوٹ اور ناکامی کا شکار ہے۔ بیشتر جگہوں پر یہ یہ واحد چوائس اور مجبوری کے طور پر نافذ ہے اور جب آپ کے پاس کوئی دوسری چوائس نہ ہو تو بہتر ہوتا ہے کہ موجودہ حالات میں رہتے ہوئے نظام میں آنے والی خرابیوں کو دور کر کے بہتری کی طرف سفر جاری رکھا جائے۔
اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی کا تقریباً 37 فیصد حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ یعنی تقریباً سات کروڑ لوگ روٹی اور فاقے کے درمیان ڈول رہے ہیں کسی قسم کی جائیداد اور اس کی تقسیم ان کے لیے دیوانے کا خواب ہے ۔ ایک دو کمرے کے مکان میں چھ سے لے کر درجن تک لوگ رہتے ہیں۔ تمام تر مسائل اور مشکالات کے باوجود مشترکہ خاندانی نظام کو اپنائے رکھنا ان کی مجبوری ہے۔
اگر پاکستان کی اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس کی بات کریں تو جوائنٹ فیملی سسٹم ان کا مسئلہ ہے ہی نہیں۔ یہ سب لوگ اپنے الگ الگ شاندار محل نما گھروں اور مختلف شہروں، ملکوں میں مقیم ہوتے ہیں۔ اگر کہیں اکٹھے ہوں بھی تو پورشن اور ہانڈی روٹی علحیدہ ہوتی ہے۔ اس کے بعد لوئر مڈل کلاس اور مڈل کلاس ہی رہ جاتی ہے۔ ان میں سرکاری ملازم بھی ہوتے ہیں اور درمیانے اور چھوٹے کاروباری لوگ بھی۔ روزگار کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی اکثریت کو بھی آپ ان میں شامل کر لیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جس میں مشترکہ خاندانی نظام وجہ نزاع بنا ہوا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر اس طبقے کے لیے بھی اس نظام کا متبادل ڈھونڈنا آسان نہیں۔ کمر توڑ مہنگائی، محدود آمدنی، کم وسائل، مہنگے پلاٹ، بےپناہ تعمیری لاگت، اور کرایہ کے گھر کے جھنجھٹوں کی وجہ سے مشترکہ خاندانی نظام سے چاہ کر بھی چھٹکارا پانا اس طبقے کے لیے بھی آسان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ دیگر مسائل اور سوال ہیں۔
اگر گھر میں چار پانچ بھائی رہتے ہیں، والد کی وفات کے بعد اگر وہ مکان بیچ دیں تو بہنوں کو بھی حصہ دینے کے بعد ان کے پاس شاید آٹھ دس لاکھ بھی حصہ نہیں آئے گا۔ ظاہر ہے ان پیسوں میں پلاٹ ملنا ہی مشکل ہے، سب کے گھر کیسے بنیں گے؟ چھوٹے اور طالب علم بھائی اپنا کرایہ اور دیگر اخراجات کیسے پورے کریں گے؟ چھوٹی بہنیں اور والدہ کہاں جائیں گی؟ ایک اوسط مڈل کلاس لڑکی کی شادی پر آٹھ سے دس لاکھ جہیز اور دوسرے اخراجات آتے ہیں، والد کے بعد وہ کون پورے کرے گا؟
عموماً کاروبار بڑے بھائی ہی سنبھالتے ہیں۔ اگر بیرون ملک بھیجا گیا تھا تو والدین نے جمع پونجی اور زیوارت بیچ کے بھیجا تھا۔ بڑے لڑکوں کی شادی بھی والد صاحب خود کر جاتے ہیں جس میں لگنے والے لاکھوں کا خرچہ بھی انھوں نے اُٹھایا تھا۔ یہ اضافی وسائل اور سہولیات دوسرے بھائیوں کے حصے میں تو نہیں آئیں؟ اگر کوئی شخص اس حال میں دنیا سے چلا گیا کہ اس کے دو تین بچے سیٹل اور دو تین بچے پڑھ رہے ہیں ۔ بچوں کے لیے طالب علمی اور نوکری ملنے تک کا مرحلہ بہت حساس ہوتا ہے، اگر ان کی کفالت سے ہاتھ اٹھا لیا جائے تو ہر گھر میں کچھ بچوں کا مستقبل تباہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ گھر اور کاروبار کی فوری بندر بانٹ سے کاروبار بھی ختم ہو جائے گا اور سب کے سروں سے اپنی چھت بھی چھن جائے گی اور امید ہے بیشتر نوجوان کچھ ہی عرصے میں اپنا حصہ ضائع کر کے سڑک پر آ جائیں گئے (یہاں وارثت اور قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کی تاویل نہیں دی جا رہی، اس بات کی وضاحت اگلے بلاگ میں کی جائے گی.)
دوسری طرف مشترکہ خاندانی نظام سے کچھ حقیقی مسائل بھی جنم لے رہے ہیں جس کا ذکر مذکورہ بلاگ میں بھی کیا گیا ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو ان مسائل کا شکار طبقے کی بھی دو تین قسمیں ہیں۔ پہلی قسم کے وہ گھر ہیں جس میں تین چار بھائی اپنے بال بچوں اور والدین کی زندگی کی صورت میں ان کے سمیت ایک گھر میں رہتے ہیں، سب برسرروزگار ہیں، کوئی نوکری کرتا ہے تو کوئی دکان، کوئی رزق کی تلاش میں بیرون ملک مقیم ہے لیکن اس کے بیوی بچے اسی گھر میں رہتے ہیں، بچے بڑے ہو رہے ہیں، ان کی آپسی لڑائیوں، خواتین کی گھریلو سیاست اور بھائیوں کی آمدنی کے تفاوت کی وجہ سے دلوں میں نفرتیں اور دوریاں جنم لے رہی ہیں لیکن کوئی بھی فی الحال علحیدہ کرایہ کا یہ اپنا گھر افورڈ نہیں کر سکتا۔ یا سب نے مکان کی تعمیر میں حصہ ڈال رکھا ہے، کوئی بھی گھر چھوڑنے کو تیار نہیں، بعض دفعہ والدین آسودہ اور صاحب جائیداد ہوتے ہیں، ان کی خوشنودی بھی عزیز رکھنی پڑتی ہے۔ اور کچھ لوگ واقعی ہی سمجھتے ہیں کہ ان کا فرض ہے کہ وہ اپنے معاشی طور پر کمزور بہن بھائیوں کی مدد کریں اور ان کو سہارا دیں، اس سے بعض دفعہ ان کے اپنے بیوی بچوں کے حقوق کچھ متاثر ہوتے ہیں لیکن یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔
اکثر مشترکہ خاندانی نظام کے مسائل کی وجہ معاشی کمزوری، معاشی ناہمواری، والدین کی ایک دو بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک ہوتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام کی کامیابی کے لیے والدین کا کردار انتہائی اہم ہے۔ بہتر ہو کہ والدین بچپن سے ہی بڑے بچوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں۔ جب بوجھ بڑے بچوں پر پڑے تو چھوٹے بچوں کو جلد سے جلد عملی زندگی کے لیے تیار کیا جائے اور کامیاب ہونے کی صورت میں بھائی اور ان کے بچوں کے ساتھ ان سے بڑھ کے نیکی اور احسان کریں۔ والدین سب بچوں سے ہر معاملے میں یکساں سلوک کریں۔ کماؤ اور بیرون ملک بچوں کے بچوں کی خصوصی نگہداشت اور پروٹوکول ان کا حق ہے، سب بھائیوں اور بہنوں سے یکساں اور پیار والا سلوک کیا جائے۔ کمانے والے کے پیسوں سے بنائی گئی جائیداد اس کے نام پر ہی خریدی جائے۔ اگر سارے بچے آسودہ حال ہیں اور اکٹھے نہیں رہنا چاہتے تو ان کو ایموشنل بلیک میل کر کے اکٹھا رہنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ گھر بناتے ہوئے پورشن اور نقشہ ہی اس حساب سے ترتیب دیا جائے کہ بعد میں ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی علیحدہ رہائش اختیار کی جا سکے۔ بچوں کی لڑائیوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے، جب ایک ہی گھر میں رہنا ہے تو تحمل، درگزر اور برداشت، سے کام لیا جائے۔ اولاد کو والدین ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کے حقوق کے معاملے میں توازن لانے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر والدین کی حق تلفی کسی صورت نہیں ہونی چاہیے، اگر کوئی زرعی زمین یا دوسری وارثت ہے تو اس کی جلد سے جلد منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے، بلکہ اگر حکومت اگر کوئی ایسا قانون بنا دے کہ جس میں زمین کی مقررہ حد کی وارثت میں مالک کے فوت ہوتے ہی شرعی طریقے کے مطابق اس کی تقیسم متعلقہ حق داروں میں خودکار طریقے سے ہو جائے تو کافی مسائل سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام کوئی آئیڈیل نظام تو نہیں لیکن پاکستان کی عوام کے موجودہ حالات کے لحاظ سے نہ صرف کافی موزوں ہے بلکہ ہماری معاشرتی اور سماجی نظام زندگی سے کافی ہم آہنگ ہے۔ کیوں کہ یورپ اور امریکہ وغیرہ میں جہاں ایک اکائی ایک خاندان کا نظام رائج ہے وہاں ویلفیئر حکومتیں کام کر رہی ہیں، سوشل قرضوں کا نظام مؤثر ہے۔ نابالغ، طالب علموں، اور بوڑھے لوگوں کی بہبود اور پرورش کوئی مسئلہ نہیں۔ علحیدہ مکان بنک فنانس پر لینا یا کسی بھی برسر روزگار شخص کے لیے کرایہ کا مکان اور ہانڈی روٹی اس کی کل آمدنی کا تیس سے پچاس فیصد بنتا ہے، جبکہ پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔ یہاں مشترکہ خاندانی نظام کے علاوہ کوئی سوشل سکیورٹی کا نظام میسر نہیں ہے، اس لیے ابھی مشترکہ خاندانی نظام ہی ہمارے بچاؤ کی واحد صورت ہے۔
اگلے بلاگ میں قرآن و حدیث اور سنت رسولﷺ کی روشنی میں ہم دیکھیں گے کہ کیا مشترکہ خاندانی نظام واقعی ہی اسلام کی آئیڈیالوجی سے متصادم ہے؟
تبصرہ لکھیے