خیر اب تو رشوت لیتے ہوئے اور دیتے ہوئے کوئی عیب نہیں سمجھا جاتاہے۔ یہ بات ذہنومیں راسخ ہو گئی ہے کہ اس کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ اور پھر ہرکام جلدی ہوجانے کی جلدی میں بہت سے طریقوں سے بدعنوانی کی جاتی ہے۔نا جائز کام تو خیرنا جائز ہے ہی ہے اور اس کے لیئے نا جائز ہتھ کنڈے استعمال کیئے جاتے ہیں ظلم کی بات یہ ہے کے جائز کام کے لیئے بھی جیب گرم کرنا بہت ضروری ہے۔اب یہ بیماری بیماری نہیں رہی۔ مرض کا علاج اس وقت ہی ممکن ہے جب مریض سمجھے کے میںمرض میں مبتلا ہو گیا ہوں، اگر غلط کام اس انداز سے کیا جائے کہ یہ تو ہمارا حق اور ثواب کا کام ہے تو پھر کیا کیجئے۔ہاں تو بدعنوانی کے نئے نئے اندازجیسے نچلی سطح پر ہزار دو ہزار سے ہتیلی گرم کرنا ،بڑے صاحب سے ملنے کے لیئے سو دو سو لگانابجلی کے تار درست کروانے پر پانچ ،چھے سو دینا وغیرہ،پھر تھوڑاا ٓگے چلئے تحفے تحائف دینے سے محبت بڑھتی ہے، اور ہم محبتیں بڑھارہے ہیںکیا اس سیٹ پر ہم نہ ہوتے تو بھی یہ صاحب ہمیں یہ تحائف پیش کرتے ہر گز نہیں ہم اور آپ کون ہوتے ،یہ تو اس سیٹ کی کرشمہ سازی ہے میاں۔
بہر طور ان تحائف میں فروٹوں کی ٹوکریاں اور پیٹیاں، گاڑی کی چابیاں، بھابھی جی کیلیئے قیمتی کپڑے ،زیور، گھر کے لیئے قالین،زیب و آرائش کے لیئے سامان، اب تو سیدھے سیدھے پلاٹ اور بنے بنائے محلات پیش کیئے جاتے ہیں، سفارش کے لیئے قائد کو ہم جیب میں رکھتے ہیںجب ضرورت پڑی با با جی کو لا کھڑا کیا۔اب تو حد ھوگئی ہے عمرہ کے لیئے بھیجا جاتا ہے اور حج کروائیا جاتا ہے جس سے اللہ بھی راضی افسر بھی راضی اور کام بھی ھوگیا،اف۔۔۔۔ کیا کیجئے۔افسران کے اہلکار یہ کام بڑی دھوم دھام سے بڑے جوش خروش بڑے خشوع کے ساتھ کر رہے ہوتے ہیں سائل کو اتنے چکر لگوائیں گے کہ وہ خود بخودچلا اٹھتا ہے جی آپ حکم کیجئے کرنا کیا ہے، پھر کہیں گے باہر اجینٹ(چٹی دلال) موجود ہے اس سے بات کرلیں ،مناسب دام پر کام کر دے گا ،میرا بتایئے گا آپ کو گھر پر سب کچھ مل جائے گا، اگر کوئی ان کے اشارے کنائے نہ سمجھ پائے تو فرماتے ہیں آپ بھی بڑے سادہ ہیں۔خواہ مخواہ میں خوار ہو رہے ہیں۔
بس ایجنٹ کو مل لیجئے۔خیر یہ تو وہ بد عنوانی ہے جو ہم سب کو پتا ہے، حکومتی ،اکثر چھوٹے بڑے پرزے اپنی سیٹ پرہمیشہ اس وقت حاضر ہونگے جب سورج نصف نہار ہو گیا ہواور دفتر میں اکتاہٹ کا عالم یہ کہ چھٹی سے گھنٹا دو گھنٹے پہلے نکل جائیں گے گھر کے کچھ کام بڑے ضروری کرنے ہیں۔ علاوہ ازیں نوکری کے ساتھ ساتھ اپنے نجی کارو بار چلا رہے ہوتے ہیںجن کا تعلق بلواسطہ یا بلا واسطہ طور پر اپنے دفتر سے، محکمہ سے ہوتا ہے اگر نہ بھی ہو تو اپنے بزنس کو آفس ٹائم میں چلائیا جا رہا ہوتا ہے ، بد عنوانی کی یہ قسم تو حکوتی اداروں کو سیونک کی ترح چاٹے چلی جارہی ہے۔ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ احادیث اور قرانی آیات جا بجا لگی نظر آیں گی جن کا تعلق بد عنوانی سے ہوگا اور ان آیات کے نیچے کارو بارے سیہ کاری رواں دواں یوں نظر آئے گا جیسے عبادت کی جارہی ہو۔الامان الحفیظ۔ایک واقعہ یاد آیا فوری اور دستی انصاف کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ہمارے ایک دوست سڑک پر پولیس کے ہتھے چڑھ گئے اہلکار نے کہا کہ میاں آپ کو تو حوالات کی دھول چاٹنی پڑے گی اس کے بعد کورٹ کچہری کے چکر علحدہ ،کم و پیش آپ دو تین ماہ تو خوب زلیل ہونگے میرے پاس فوری اور دستی انصاف موجود ہے معاملہ یہیں ختم سمجھیئے۔
لہذا فوری انصاف مہیا کیا گیا اورذلا لت و رسوائی سے بھی محفوظ رہے اور وقت بہت قیمتی چیز ہے جسے موصوف نے بچائیا۔ان تمام مسائل سے ہر پاکستانی کو نبرد آزما ء ہونا پڑتا ہے یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔مگر اس دوزخ کے با زار کو کیسے ٹھنڈا کیا جائے؟کیسے اس کارو بار کو بند کیا جائے؟اچھا یہ کوئی مشکل کام نہیں خصوصاََ حکومتی اداروں سے رشوت کی بیخ کنی کوئی دشوار نہیں۔اس میں صرف حکومتی نیت کا عمل دخل ہے، کرنا یہ ہوگا کہ ایک عام پاکستانی کا ہر روز کا خرچہ جمع کیجئے ،کیا ہے؟۔ مثال کے طور پر ایک آدمی اور اسکا خاندان یعنی دو بچے اور ایک زوجہ محترمہ کی ہر روز کی ضروریات کیا ہیں، با زار سے دال ،آٹا ،گھی،شکر، نمک،مرچ، دودھ،اور مکان کا کرایہ، معلوم کیجیئے اور اس میں میڈیکل ، تعلیم اور کپڑا جوتے کے اخرا جات شامل کر لیجیئے اور بنیادی ماہانہ مشاہرہ بنائے جو بھی قیمت ٹھرے ملازمت دیتے وقت کم ازکم ہر ملازم کی تنخواہ مندرجہ بالا اخراجات کے مطابق مقرر کی جائے۔اور مختلف محکمانہ مشاہروں میں جو تفاوت ہے اس کا دور کرنا بھی از حد ضروری ہے علاوہ ازیںایک ہی شعبہ میں کام کرنے والے مختلف افراد یعنی اہلکار اور افسران کے مشاہروں میں بھی خاطر خواہ امتیاز نہیں ہونا چا ہئے۔
پھر دیکھئے بد عنوانی کا قلع قمع ہوتا ہے یا نہیں۔ ایسے میں حکومت کو اور بہت سے محکموں کی ضرورت نہیں، جیسے انسدادِ بدعنوانی اور دیگر ایسے کئی ایک ادارے ان کے اخراجات اور مشاہروں کی مد میں آنے والے روپوں کی بھی بچت ہو گی ۔یایوں سمجھئے کہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بنسری۔ایسے میں کوئی اسطرح کا کیس سامنے آتا ہے تو پھر وہ شخص سخت ذہنی مریض ہے اور اسے علاج کی ضرورت ہے اور اسکا علاج کیا جائے اس کے با وجود ،عادت قائم رہتی ہے تو اس شخص کی آنے والی نسلوں پر بھی حکومتی دروازے بند کر دیئے جائیں اور ایسے شخص کا معاشرتی بائیکاٹ کر دیا جائے۔ یہ بتانا ضروری ہے کہ جب پاکستان وجود میں آگیا تو اس کے بعد ملازمین کی تنخواہوں کے حوالے سے جو کمیشن بنا اس کے سامنے یہ تجویز رکھی گئی مگر یہ کہ کہہ کر رد کردی گئی یہ تو کمیونسٹ سوچ ہے اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکتا۔اس کے بعد کی جو صورتِ حال ہے ہم سب کے سامنے ہے۔
(راقم فری لانس صحافی ہے گزشتہ دس برس سے اس شعبہ سے وابستہ ہے)
عادل عزیز
تبصرہ لکھیے