کسی زمانے میں چندر گپت موریہ ہندوستان پر حکومت کرتا تھا۔ اس کا ایک درباری ایک ہندو پنڈت چانکیا بھی تھا جس سے موریہ کبھی کبھی صلاح مشورہ کیا کرتا تھا۔ ایک روز بادشاہ چند درباریوں کے ہمراہ شکار کو نکلا۔ رات ہو گئی تو ایک جنگل میں پڑائو کیا۔ سپاہی خیمے لگانے اور کھانے پینے کے کام میں مصروف تھے۔ چانکیا بھی ادھر ادھر آ جا رہا تھا کہ اسے ایک جھاڑی سے کانٹا چبھ گیا۔ کانٹے کا لگنا تھا کہ چانکیا غصے میں آپے سے باہر ہو گیا۔ ملازم سے کہا کہ فوری ایک گلاس شربت لے آئو ۔ نوکر سمجھا کہ اندر چانکیا کو کانٹے سے بہت تکلیف ہوئی ہو گی۔ وہ جلدی سے شربت کا گلاس لے آیا۔ چانکیا نے شربت کا ایک گھونٹ چکھا اور باقی شربت جھاڑی اور اس کی جڑوں میں انڈھیل دیا ۔ ملازم نے ہاتھ جوڑ کر پوچھا حضور کیا اس شربت میں کوئی خرابی تھی یا مجھ سے کوئی خطا ہوئی کہ آپ نے شربت گرا دیا ؟ چانکیا بولا اس کا جواب صبح دوں گا۔
دیکھتے ہی دیکھتے جنگل کے کیڑے ہزاروں کی تعداد میں آئے اور صبح تک اس جھاڑی کو چٹ کر دیا۔ صبح چندر گپت موریہ نے حیرانی سے پوچھا رات یہاں ایک اچھی خاصی جھاڑی تھی اسے کیا ہوا؟۔ چانکیا نے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ حضور اس نے میرے ساتھ دشمنی کی تھی اور میں نے اس کا ایسا بندوبست کیا کہ اس کا نام و نشان ہی مٹا دیا اور پھر اسے بتایا کہ میں نے جھاڑی کو کیسے تباہ کیا۔ چندر گپت اس کی سکیم سن کر بہت خوش ہوا اسے مشیر خاص کے عہدے پر ترقی دیدی۔
چونکہ ہندو دھرم میں کسی صحیفے یا آسمانی کتاب کا کوئی تصور نہیں اس لئے ہندو چانکیا کے بتائے ہوئے اصولوں پر آج بھی عمل کرتے ہیں۔ چانکیا نے اپنی مشہور تصنیف ارتھا شاستر میں ہندوئوں کیلئے سیاسی فلسفے کے بنیادی اصول انتہائی تفصیل سے بیان کیے ہیں اور آج بھی ہندوستان کے پورے سیاسی نظام کا ڈھانچہ جنگ اور امن دونوں حالتوں میں انہی اصولوں پر استوار ہے۔ چانکیا کا نظریہ حکومت میکاولی سے چنداں مختلف نہیں۔ وہ بھی اپنے پیروکاروں کو چالاک ، سازشی ، کمینگی کی حد تک بدلہ لینے کی خواہشمند ہر لمحہ اوچھے ہتھکنڈے اور بددیانتی سے دشمن کو مات دینے پر تیار اور اس ہنر میں تاک دیکھنا چاہتا ہے یہ چانکیا کی ہی تعلیمات کا حصہ ہے کہ اپنے ہمسایہ کو ہمیشہ اپنا دشمن سمجھو ۔پاکستان ہندوستان کا ہمسایہ ہے چنانچہ چانکیا کے اقوال میں ہم کبھی ہندوستان کے دوست نہیں ہو سکتے۔
ہندوستان کے ساتھ پاکستان کی کشیدگی قیام پاکستان کے وقت سے ہی جاری ہے اور ہندوستانی قیادت نے پاکستان کے وجود کو کبھی بھی خلوص دل سے قبول نہیں کیا کشمیر کے بنیادی مسئلے کا تصفیہ بھی ابھی حل طلب ہے۔ ہندوستان جنوبی ایشیاء کا چوہدری بننے کا خواب دیکھتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہمارے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان ہے۔
پاکستان ہمیشہ امن کا خواہاں رہا ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات سدھارنے میں کئی ادوار میں کوششیں کی گئیں وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے ہمیشہ امن کی خواہش کا اظہار کیا اور اسی خواہش کے نتیجے میں فروری 1998ء میں ہندوستانی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے لاہور کا دورہ کیا تو کشیدگی کی برف پگھلنے کے نمایاں آثار دکھائی دیئے یہ نواز شریف کی اہم ترین کامیاب کوشش تھی، واجپائی کے اس دورے پر حکومت پاکستان مطمئن نظر آئی۔
واجپائی چونکہ شاعر ہیں اور شاعر ہمیشہ دنیا کو امن کی نظر سے دیکھتا ہے جبکہ مودی ایک متعصب ہندو ہے وہ پوری طرح چانکیا کی فلاسفی پر عمل پیرا ہے ، ان کی سیاسی تربیت آر ایس ایس میں ہوئی اور آر ایس ایس کا ایجنڈا پاکستان دشمنی پر مبنی ہے۔ مودی جب گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے وہاں مسلمانوں کا قتل عام کروایا اور بڑی ڈھٹائی سے مسلمانوں کی موت کو کتے کی موت سے تشبیہہ دی تھی۔ قرین قیاس تھا کہ مودی کے وزیراعظم بننے سے مسلم دشمنی کم ہو جائے گی مگر افسوس کہ پہلے سے بھی زیادہ مسلم دشمن ثابت ہوئے ۔ مودی نے دنیا کو دکھانے کیلئے پاکستان کا دورہ بھی کیا۔ لاہور ایئرپورٹ پر وزیراعظم پاکستان نے مودی کے استقبال کیلئے دونوں بانہیں کھول دیں ، نواز شریف مودی کی چالاکیوں کو سمجھ نہ سکے اور وہ ٹریپ ہو گئے۔ چانکیا کی تعلیمات کا ایک اور لازمی اصول غداری ، دغا بازی اور قتل و غارت کے ذریعے دو طاقتور گروپوں کو آپس میں لڑانا ہے اور اس نے اپنی تنصیف میں بارہا اپنے چیلوں کو ان اصولوں پر کاربند رہنے کی ہدایت کی ہے۔
مودی نے چانکیا کے اصولوں کے عین مطابق پاکستان کی صفوں میں ایسے لوگ چنے جنہوں نے پاکستان مردہ باد کے نعرے لگائے اور پاکستان کو نہ ماننے کی باتیں بھی کیں۔ بلوچستان میں حالات خراب کرنے کیلئے اس نے اپنے لے پالک رکھے ہوئے ہیں ، سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے اپنے لے پالکوں کے علاوہ انڈین نیوی کا حاضر سروس آفیسر کلبھوشن یادیو کو بھی بھیجا گیا۔ بلوچستان 770کلو میٹر طویل ترین ساحل رکھتا ہے ، سی پیک منصوبہ مکمل ہو گیا تو چینی صوبے سنکیانگ کا ریلوے اور ٹرکوں کا بلوچستان ، ازبکستان ، تاجکستان، قازقستان ، ترکمانستان اور وسط ایشیاء کی دوسری ریاستوں کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم ہو جائے گا جس سے اس خطے میں امن اور خوشحالی کا دور دورہ آئے گا۔متعصب ہندو کبھی بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان خوشحال ہو اس نے بلوچستان کی سیاسی قیادت میں سے ضمیر فروش خریدے جو ہندوستان میں سیاسی پناہ کی درخواست دیتے ہیں اور کبھی پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ہیں ان ضمیر فروشوں میں سے کچھ تو نواز حکومت کے اتحادی ہیں مجال ہے کہ بادشاہ سلامت ان کے خلاف دو الفاظ بھی بولیں۔
ہندوستان ہمیں دنیا میں تنہا کرنے کی باتیں کر رہا ہے ادھر ہمارے وزیراعظم اور ان کے سیاسی ’’بوزنے‘‘ چانکیا کے پیروکاروں کو منہ توڑ جواب دینے کی بجائے حماقتوں پر حماقتیں کر رہے ہیں۔ قومی سلامتی کے اہم راز کسی ’’بوزنے‘‘ میں سرل المیڈا تک پہنچائے۔ خبر کا بریک ہونا تھا کہ دنیا میں پاکستانی فوج کے خلاف ہا ہا کار مچ گئی۔ انٹرنیشنل میڈیا ہماری بہادر فوج کو روگ آرمی کا نام دے رہا ہے بوزنے کی اس حرکت سے فوج میں غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ نواز حکومت کی اس حماقت پر چانکیا کے پیروکاروں کی خوشی سے باچھیں کھل گئی ہیں پتا نہیں جس وقت بوزنے نے یہ خبر دی تو اس وقت اس کی عقل گھاس چرنے گئی ہوئی تھی۔
ہم پاکستانی چاہے وردی میں ہوں یا سول لباس میں پاکستان کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کی پاسبانی ہمارا اولین فرض ہے۔ چانکیا کی تعلیمات کے مطابق ہم ہمیشہ ہندوستان کے اول درجے کے دشمن رہیں گے اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے وطن کے خلاف ہندوستان کی مذموم سرگرمیوں،سازشوں اور منصوبہ بندیوں کا منہ توڑ جواب دیں۔
تبصرہ لکھیے