ہمارے بعض ساتھی رجب طیب اردگان بننے کی کوشش کر تے ہیں۔اپنی باتوں ،تقریروں ،بحث مباحثوں اور چا ل ڈھال سے ایسا تاثر پیش کر تے ہیں گویا طیب اردگان ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔
تبدیلی اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے اور پھر پھسل کر ارد گرد کی چیزوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ہماری سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم عمل کو ارادوں کے حد تک محدود ر کھتے ہیں۔اور جب عملی مظاہرے کا وقت ہوتا ہے یہ ارادے غائب ہو تے ہیں۔وقت گزر جاتا ہے اور ارادے ارادے ہی رہ جاتے ہیں۔
ترقیاتی کاموں کو چھوڑیئے صاحب!ہم تو کسی سے میٹھے دو بول نہیں بول سکتے۔کسی کے سلام کا جواب نہیں دے سکتے۔قریبی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے نہیں جا سکتے۔کسی کے چپل درست نہیں کر سکتے ۔کسی کی بات نہیں سن سکتے ،کسی کو پانی پلانا اپنا توہیں سمجھتے ہیں اور باتیں طیب اردگان کی کرتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ کوا ہنس کی چال پہ چل پڑا کہ اپنی چال بھول گیا۔ہم لوگ بھی کوئے کیطرح چال بدل رہے ہیں اور انجام اپنی چال بھول جاتے ہیں۔مجھے افسوس اس وقت ہوتا ہے جب ان لوگوں کے بدلتے ہوئے رنگ دیکھتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہر کسی کو کچھ کرنے،کچھ دکھانے ،اور سنبھلنے کے موقع فراہم کرتاہے ۔یہی وقت ہے کہ سنبھل جاوء،کچھ کرو،آگے بڑھو۔دانا لوگ ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھاتے ہیںاور امر ہوجاتے ہیں۔جبکہ ناداںاور بے وقوف لوگ کہتے ہیں کہ ابھی بہت سا وقت ہے،اور جب اسے احساس ہوتا ہے وقت گزر گیا ہوتا ہے۔ایسے لوگ فنا ہو جاتے ہیں۔
موقعے بار بار نہیں ملتے اور نہ فراہم ہوتے ہیں۔اگر ایک مرتبہ موقع گنوا دیا تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا۔اللہ تعالیٰ کی نصرت اس سے منہ موڑ لیتی ہے۔
بات یہ نہیں کہ عوام کے لیے کیا کچھ کیا بلکہ بات یہ ہے کہ کوشش کتنی کی گئی۔کتنے لوگ آپ کی سیرت وکردار،عادات واطوار،اور اخلاق کے گرویدہ ہوگئے۔کتنے مصیبت ذدہ لوگوں تک پہنچ گئے۔اگر کچھ کر نہیں سکتے تو کم از کم تو بول سکتے ہیں۔اپنی مشکلات بتا سکتے ہیں۔
سچ تو وہ لوگ بول سکتے ہیں جو درست راستے سے آئے ہوں۔چور دروازوں سے آئے ہوئے لوگ کھبی سچ نہیں بول سکتے۔ جب کسی معا شرے میںاونچ نیچ کی فضا ہو،انصاف کی فراہمی کا فقدان ہو،مہنگائی عروج پر ہواوربیروزگاری عام ہو ۔ایسے میں چند لوگ اٹھ کھڑے ہوتے ہیںجو تبدیلی کے نام پر،حقوق کے نام پر اور اسلام کے نام پر ہم سے ووٹ مانگنے کی اسدعا کرتے ہیں اور ہم ان کے جھانسے میںآکر ان کو بیڑاپار کرنے والے تصور کرکے جھولیاں بھر بھر کر ووٹ دیتے ہیں ۔ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے ۔لیکن یہ ’’مداری‘‘لوگ ہیںجو اپنا تماشہ دکھا کر اپنے ووٹروں ،ارکان وجملہ کارکنان کو بھول کر اوجھل ہوتے ہیں۔
ذرا سوچئیے!کون ہے وہ سیاست دان جو بے غرض لوگوں کی فلاح کے لیے سوچتا ہے۔ایک معمولی سا کمبل دیتے وقت پارٹی قابضین کے ہمراہ میڈیا کے سامنے تماشہ کھڑا کر دیتے ہیں۔
مجھ اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ فلاں کا تعلق فلاں قبیلے سے ہے،وہ روکھی سوکھی کھاتا ہے یا فائیو سٹار میں،معمولی لباس پہنتا ہے یا مہنگا پوشا ک زیب تن کرتا ہے،پیدل سفر کرتا ہے یا مہنگی گاڑی میں،داڑھی والا ہے یا مونچھ اور داڑھی دونوں سے بے نیاز۔
مجھے تو یہ دیکھنا ہے کہ وہ کام کتنا کرتا ہے،حقیقی کام کرتا ہے یا ادھر ادھر کی پھینکتا ہے،اس تک رسائی ممکن یا نہیں،وہ میری بات سنتا ہے یا مجھے سناتا ہے،میٹھے اور نرم لہجے میں بات کرتا ہے یا روکھے پن سے ،اپنی مفادات کی سوچتا ہے یا عوامی مفادات عزیز رکھتے ہے،قول وفعل میں یکساں ہے یا ان میں تضاد ہے،اخلاص سے معمور دل رکھتا ہے یا دولت اور شہرت کا بھوکا۔
ہمارے ملک کی سیاست میں عبادت کم اور منافقت زیادہ ہے۔یہاں فرشتہ صفت لوگ بہت ہی کم ہیں۔بعض لوگوں کے اخلاص پر شک کرنا گناہ ہوتا ہے لیکن ایسے لوگوں کو آگے آنے نہیں دیا جاتایا پھر پارٹی کی مفادات کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔باقی سب ایک جیسے ہیںکوئی کھلم کھلا ملک کا دشمن ہے تو کسی نے منافقت اور دو رنگی کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور کوئی مذہب کے نام روٹیاں توڑ رہا ہے۔
بخدا ان تبدیلی کے دعویداروں اور انقلاب کے داعیوں سے مجھے وہ شخص ہزارہا درجے بہتر لگتا ہے جو پلاسٹک کے تھیلے کو ٹھکانے لگانے کے لیے جھک جا تا ہے۔روٹی کے ٹکڑے کو اٹھانے کے لیے اپنے ہاتھ گندے کرتے ہیں۔
اگر سب ایک جیسے ہیں تو پھر جھگڑا کس بات پر۔کیوں اپنی توانا ئیاں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں صرف کرتے ہیں۔حقیقی کام بہت مشکل ہوتا ہے۔’’فیس بک ‘‘ کے مورچوں سے تیر اور گولے پھینکنے سے نہ توانقلاب آیا ہے اور آئے گا۔۔۔۔۔
تبصرہ لکھیے