ہوم << تعلیم و تحقیق اور قرآنیات - محمد اکرم ہریری

تعلیم و تحقیق اور قرآنیات - محمد اکرم ہریری

محمد اکرم تعلیم ہمیں حیوانیت سے نکال کر انسانیت کے درجے پر فائز کرتی ہے۔نبی آخر الزماں ﷺ پر امت محمدیہ کے لیے نازل ہونے والی وحی الٰہی کی ابتداء ـ"اقرا" سے ہوتی ہے۔ تاریخ انسانیت کا مطالعہ کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ انسانیت کی تخلیق پر فرشتوں نے اعتراض کیا مگر قرآن ہمیں بتلاتا ہے کہ آدم ؑ کو چند چیزوں کا علم سکھا دیا گیا جن کے اسماء ہمارے ابا جان سے جان کر فرشتوں نے اپنی کم علمی اور کم مائیگی کا اقرار کر لیا۔گویا تعلیم و تعلم کی بنا پر عظمت انسانی بڑھتی چلی گئی یہاں تک انبیاء کرام کی جماعت میں بام عروج حاصل کرنے والے حضرت محمد ﷺ نے انسانیت کی تخلیق پر تحفظات رکھنےوالے فرشتوں کے بارے میں فرمایا کہ علم سیکھنے والوں کے نیچے اپنے پروں کو پھیلا دیتے ہیں۔دوسری جگہ ارشاد فرمایاکہ علم سیکھتے سکھلاتے ہوئے جو قرآن کریم کے ساتھ منسلک ہو گا وہ تم میں سےبہترین انسان ہے۔یقینا یہ تمام عظمتیں اور رفعتیں علم کی بدولت انسان کو عطا کی گئیں۔
تعلیم اور تعلم کا عروج تحقیق ہے۔ تحقیق کا سادہ اورعام فہم مطلب یہ ہے کہ خام مال میں سے کام کی چیز الگ کرنا۔گویا علم کی دنیا میںتحقیق کے ذریعے حقیقت علم تک پہنچا جا تا ہے۔ دراصل یہی علم ہے۔ اگر انسان علم رکھتا ہے مگر اسے کھرے اور کھوٹے میں تمیز نہیں تو اس علم کوئی خاص فائدہ نہیں۔ آپ کو وہی علم عظمت انسانی پر فائز کرے گا جو ریسرچ کی بھٹی سے گزر کر آیا ہے۔پاکستان دراصل اسلامی تعلیمات کی عملی تصویر کے احیاء کے لیے قائم ہوا۔ دنیا کی ہر قوم اور ہر ملک اپنے نظریات کو تعلیم کے ذریعے پروان چڑھاتا ہے۔ ہمارے ارباب و حل وعقد نے تقسیم ہندوستان کے بعد پاکستان کی تعلیمی سرگرمیوں کو جلا بخشنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کا آغاز کیا۔ نئے سکولز، کالجز اور جامعات کا جال بچھایا گیا۔ پہلے سے موجود تعلیمی اداروں کی پالیسی ترتیب دے کر انہیں مزید فعال بنانے کے اقدامات کئے گئے۔ان تعلیمی اداروں میںنظریہ اسلام اور ملکی ضروریات سے متعلقہ علوم کے پیش نظر طلباء و طلبات کے لیے نصاب سازی کا ادارہ منظم کیاجسے ملکی حالات اور عصر حاضر کے تقاضوں کے تحت مزید منظم کیا جا رہا ہے۔
ستر کی دہائی میں طلباء کے ساتھ ساتھ ہر سطح اور ہر عمر کے لوگوں کے لیے جناب ذوالفقار بھٹو نے وزیر اعظم کی حیثیت سے علامہ اقبال یونیورسٹی کا افتتاح کیا۔ اس یونیورسٹی کی ایک خاصیت یہ ہے کہ مواصلاتی نظام کے ذریعے سے ملک پاکستان کے باشندوں کو پوری دنیا میں زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا انتظام کیا گیا ۔ الحمد للہ اس جامعہ کو دنیا کی واحد یونیورسٹی ہونے کا اعزاز حاصل ہے جس کے رجسٹرڈ طلباء کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ہر سطح کے کورسز مڈل سے پی ایچ ڈی تک پڑھائے جانے کا انتظام کرتے ہوئے تعلیمی اہداف حاصل کیے جارہے ہیں۔
بطور نمونہ بات یہ ہے کہ بے شمار کورسز اور تعلیمی پروگرامز کا آزمائشی تجربہ حکومت پاکستان نے اسی جامعہ کے ذریعے سے کیا ۔ علم و تحقیق کا آغاز اس وقت سے اس جامعہ کے نام ہے جب دوسری جامعات میں نام و نشاں تک نہ ہوا کرتا تھا۔ علم و تحقیق کے سلسلہ میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے علوم اسلامی شعبہ علوم قرآن کا قیام قابل ستائش ہے۔ 1988ء سے ایم فل علوم اسلامی کی کلاسز کا آغاز ہوا۔ اس شعبہ کو چار چاند اس وقت لگے جب ایک درویش صفت مگر علم تحقیق کے ماہر ڈاکٹر عبدالحمید عباسی کو جامعہ ھذاکے لیے سلیکٹ کرتے ہوئے شعبہ قرآن وتفسیر ، ان کی نگرانی میں دیا گیا۔پروفیسر ڈاکٹر عبد الحمیدعباسی کا تعلق کشمیرجنت نظیر کے دور افتادہ گائوں پاہل سے ہے۔ابتدائی تعلیم کے بعد بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے بی اے آنرز اصول الدین (تخصص فی الدعوۃ ) ، ایم اے اصول الدین (تخصص التفسیر و الحدیث) ہونے کے ساتھ ساتھ ایم فل کیا ۔ جامعہ پنجاب لاہور سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد پوسٹ ڈاک کے لیےبیرون ملک چلے گئے اور یونیورسٹی آف سائنس ملائشیا سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔وہیں پر قرآنیات پر اعزازی لیکچر دیئے جو کہ انہوں نے کتابی صورت میں شائع کروا دیئے۔مختلف جامعات میں تدریس کے فرائض سر انجام دینے کے بعد علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ قرآن کے نگران کی حیثیت سے 2001 ء سے کام کر رہے ہیں۔ شعبہ کے سربراہ بننے کے بعد انہوں نے ہنگامی بنیادوں پر قرآنیات پر کام کیا ۔ میٹرک سے لے کر پی ایچ ڈی تک ، علوم قرآن اور تخصص قرآن کے پروگرامز متعارف کرائے۔ ان کے قرآنیات پر درجنوں تحقیقی مقالات نامور تحقیقی مجلات کی ذینت بنے۔2008ء میں ان کی تالیف کردہ کتب کو قومی سطح پر بہترین نصابی کتب قرار دیتے ہوئے صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ کئی کتب کو جامعہ ھذااور دیگر جامعات نے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے نصابی کتب کے طور پر تجویز کیا۔ان کی کتاب اصول تحقیق کو اس قدر پزیرائی ملی کہ کئی ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔ عمر اور صحت کے مسائل کے باوجود تا حال انتھک محنت اور کاوش میں مصروف عمل ہیں۔ ان کا خواب ہے کہ میں گورنمنٹ کی سرپرتی میں ملکی سطح پر قرآن انسٹی ٹیوٹ قائم کروں جو پوری دنیا کے لیے قرآنیات کے لحاظ سے منفرد اور قابل تقلید ہو گا جس میں قرآن اور علوم قرآن کو کئی جہتوں میں تقسیم کر کے مختلف ڈیپارٹمنٹ بنائے جائیں جس سے ہزاروں تشنگان علم و تحقیق زیور تعلیم سے آراستہ ہون گے ۔ اللہ کریم ان کی سعی جمیلہ کو قبول فرماتے ہوئے "قرآنیات" کی مزید اخلاص کے ساتھ خدمت کی توفیق دے۔ان کے ساتھ ان کی ٹیم میؐں ڈاکٹر ثنا ء اللہ حسین اور ڈاکٹر سجاد صاحب ان کے شانہ بشانہ تعلیمی و تحقیقی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہیں۔
حکومت پاکستان نے اپنے قیام سے اب تک تعلیمی تحقیق پر اس وقت ہنگامی بنیادوں پرتوجہ دی جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سنبھالا۔ انھہوں نے محترمی ڈاکڑ عطاء الرحمٰن سربراہی میں اس نیٹ ورک کو مزید وسعت دی جس سے سیکنڑوں طلباء و طالبات کو اندرون و بیرون ممالک کی نامور یونیورسٹییز میں ایم فل ،پیچ ڈی اور پوسٹ ڈاک کے لئے سکالر شپ دئیے گئے جن کا سلسلہ تا حال جاری ہے۔صوبائی سطح پر میاں شہباز شریف نے ذاتی طور پر اس میں دلچسپی لی اور پیف کے تحت سیکڑوں مستحق طلباء اور طالبات کو سکالر شپ دئیے جا رہے ہیں ۔ابھی کل ہی 28 ستمبر وزیر اعلی نے بیسیوؤں طلباء اور طالبات کے لئے بیرون ممالک کی نامور یونیورسٹیز میں جانے کے مواقع فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ جو مزدور اور ورکرز حضرات کے بچو ں کے لئے خادم اعلی کی اہم پیش رفت ہے۔
بحر حال ضرورت اس بات کی ہےکہ قراۤن کریم جو ہمارے لئے رشد و ہدائت کا منبع ہے۔ہر سطح کے تعلیمی اداروں میں قرۤآنی علوم کی تحقیق و ترویج کے لئے خصوصی توجی دی جائےتاکہ ملک باکستان کے باشندے کتاب و سننت کے مطابق اپنے مسائل حل کرتے ہوئے ترقی کی منازل طے کر سکیں۔

Comments

Click here to post a comment