میں پچھلے کئی سالوں سے حل پیش کر رہا ہوں کہ عدلیہ، فوج اور عوام کی مثلث کے قیام اور اس کے آئین پاکستان پر مکمل عملدرآمد کے لیے باہمی تعامل ہی ہمارے ملک کو مشکلوں سے نکال سکتا ہے۔ اس تناظر میں پانامہ لیکس پر درخواستوں کی منظوری، چیف جسٹس کا عوام کے اور جمہوریت کے بارے میں تبصرہ، سیرل المیڈہ کا ای سی ایل میں اندراج اور پھر اخراج اور پانامہ اور کرپشن کے معاملات پر عمران خان کا بہت بڑے پیمانے پر سڑکوں پر آنے کا پلان، یہ سب انڈیکیشنز ہیں کہ میرے پیش کیے ہوئے حل کی جانب، بظاہر پیش قدمی ہو رہی ہے۔ یہ حل وہ آخری حل ہے جس کے ذریعے اس ملک کے فیوڈل نظام میں، پر امن طریقے سے اور بالاتفاق وہ بنیادی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں کہ یہاں آئندہ ہمیشہ کے لیے جعلی جمہوریت اور فوجی اقتدار کے ذریعے عوام کے آئینی حقوق کی سلبی اور ملکی دولت کی لوٹ مار ختم ہوجائے اور یہ ملک بھی مہذب قوموں کی فہرست میں شامل ہوجائے۔ لیکن جو بات بہت زیادہ فکر کی ہے وہ یہ کہ جو مثلث وجود میں آتی دکھائی دے رہی ہے، اس کے مقاصد نورا کشتی کے ذریعے طے کرلیے گئے لگتے ہیں۔ اس مثلث کا بنیادی مقصد محض یہ دکھائی دے رہا ہے کہ پناما لیکس کے معاملے کو اصل فوکل پوائنٹ بنایا جائے اور میڈیا کے ذریعے عوامی اشتعال کا رخ اسی نکتے پر مرکوز کر دیا جائے۔ اس طرح کہ ان الزامات اور ان کی عدالتی تحقیقات کے نتیجے میں موجودہ ”جمہوری حکومت“ سے نجات حاصل کرلی جائے۔ یہ لوگ اقتدار چھوڑنے پر اس لیے تیار ہوجائیں گے کیونکہ پنام ا سکینڈل کے شور کی آڑ میں ان پر ماڈل ٹاؤن کے قتل عام کے الزام سے جان چھوٹ جائے گی اور اس نورا کشتی میں یہی طے ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس کے علاوہ اس نورا کشتی میں کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پہ مندرجہ ذیل ڈیلز پر بھی اتفاق ہوا نظر آتا ہے۔
ملک کے عوام کے، آرٹیکل ۳۷/۳۸ میں درج آئینی حقوق کو اس نظام نے مسلسل غصب رکھا ہوا ہے اور کرپشن اور لوٹ مار کے ذریعے اس قوم کی رگوں سے خون کا ایک ایک قطرہ نچوڑ لیا گیا ہے۔ لیکن پناما کرپشن کے الزامات کے نتیجے میں ممکنہ تبدیلیوں کے بعد جو شخصیت اگلے سربراہ کے طور پر ابھرے گی وہ خان صاحب کی ہے۔ اور خان نے تو اپنے اس ایجنڈے کا بہت عرصے سے اعلان کر رکھا ہے جس کےمطابق وہ بھی اور باقی سب بھی اپنے اپنے اثاثے ظاہر کردیں اور خود پر ڈیو ٹیکسز ادا کر دیں تو سیاسی طور پر پاک صاف ہوجائیں گے۔ یعنی عمران کا بظاہر اصل گول خود کو وزیر اعظم بنوانا ہے۔ یقیناً ایسے معاملات میں کچھ لو کچھ دو کے اصول تو طے ہوتے ہی ہیں۔ سو یہ تو طے ہے کہ اس کے بدلے میں ان تمام لوٹ مار کرنے والوں کوسزا سے بچا لیا جائے گا جوسربراہ بنوانے میں ان کے مددگار ہوں گے۔ یعنی خان کا ایجنڈا ملک سے کرپشن ختم کرنا نہیں صرف اسے ریگولرائز کرنا دکھائی دیتا ہے۔ دوسرے عمران کا کوئی ارادہ نہیں لگتا کہ اس ملک کے عوام کے وہ فلاحی حقوق جو آئین کی چالیس شقوں میں درج ہیں، ان کی ساٹھ سال سے جاری خاموش معطلی کو ختم کیا جائے کیونکہ ان کا تو ذکر بھی وہ زبان پر نہیں لاتے۔ تیسرے یہ کہ پناما پناما کا شور مچا کرخان نے ماڈل ٹاؤن کے مظلوموں کو انصاف دلانے کے ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے کاز کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ بھی اسی نورا کشتی کا حصہ ہے۔
اب یہ دیکھتے ہیں کہ اس نورا کشتی میں، پناما سکینڈل کے جن سیاسی قوتوں پر الزامات ہیں، انہوں نے اس الزام کو، ماڈل ٹاؤن والے الزام کی نسبت زیادہ محفوظ کیسے جان لیا۔ اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ جب معاملات پاکستان کی عدالتوں میں چلیں گے تو وہاں ملزموں پر الزامات کے کاغذی ثبوت کہاں سے آئیں گے؟ پناما کے بنکوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ اصل کاغذات دوڑے لیے چلے آئیں؟ اور اگر بفرض محال کسی طرح یہ الزامات ثابت ہو بھی گئے توپناما لیکس کے مطابق یہ لوگ چند سو ملین ڈالر پاکستان واپس لے آئیں گے اور بس۔ یہ ہے وہ چند سو ڈالر فی کرپٹ بندہ جسے واپس لانے کی ڈیل طے ہوئی لگتی ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ پاکستانیوں کے مبینہ طور پر کھا لیے گئے 500 بلین ڈالرز، ماڈل ٹاؤن جیسے قتل عام کے جرائم اور اس ملک کے آئین کی عوامی فلاح کی شقوں کی مسلسل معطلی کے معاملات، سب، اس نورا کشتی میں غتر بود کردیے جانے کی تیاری لگتی ہے۔
تبصرہ لکھیے