میں کلاس روم کے اندر اپنے لیکچر کا انتظار کر رہا تھا۔ کلاس طالب علموں سے بھری پڑی تھی کہ ایک خاتون کلاس روم کے اندر داخل ہوئی۔ اس کے ساتھ ’’کلاس ریپریزنٹر‘‘ بھی تھا۔ اس نے آتے ہی اعلان کیا کہ آج کلاس میں کچھ خا ص ہونے جارہا ہے۔ مجھے تجسس ہوا کہ یہ خاتون جس کی مشابہت ایک انگریز کی سی ہے، کچھ ’’خاص‘‘ لائی ہوگی۔
’’ کلاس ریپریزنٹر‘‘ نے خاتون کو مدعو کرتے ہوئے اس کا نام لیا ’’ مریم نمازی‘‘ تو میرا تجسس اور زیادہ ہوا کہ یہ کوئی مسلم خاتون ہے۔ روز مرہ کی طرح کلاس میں موجود گورے کم از کم آج تھوڑی سی تو اسلام کی بات سنیں گے۔ لیکن ایک خوف بھی دل میں موجود تھا، وہ یہ کہ اس خاتون کا حلیہ بالکل بھی مسلمانوں جیسا نہیں تھا، لباس نہ چلنے اور دیکھنے کا انداز۔ حیا نام کی کوئی چیز نظر نہیں آ رہی تھی۔
اس نے آتے ہی گفتگو میں جو الفاظ استعمال کیے، اس نے میرے خوف کو یقین میں بدل دیا۔ کلاس میں موجود ’’ملٹی میڈیا‘‘ بورڈ پر ’’خواتین کے انڈرگارمنٹس‘‘ کی تصاویر شائع ہونے لگیں، اور یہ خاتون ’’توہین رسالت کے قوانین ‘‘ پر بحث کرنے لگی۔ اس کے بعد اس نے ’’حجاب و پردہ‘‘ پر اپنی گندی و ناپاک زبان استعمال کی، اور پھر ترقی پذیر ممالک میں ہونے والے غیرت کے نام پر قتلوں پر اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے لگی۔ میری غیرت نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ یہ لبرل سیکولر خاتون اسلام کے خلاف اس سے زیادہ زبان درازی کرے ۔ اسی لیے دوران لیکچر ہی میں نے اس کے خلاف بولنے کی بھرپور کوشش کی، چونکہ میں’’برطانوی قوانین‘‘ اور ’’یونیورسٹی کے قوانین‘‘ کی اتباع کا پابند تھا، اس لیے مجبوراً خاموش ہونا پڑا۔ لیکن اسی دوران ایک اور دوست نے ٹھیک ٹھاک انداز میں اس کی مذمت کی اور اسلام کے دفاع کے لیے آواز اٹھائی۔ اگر وہ باتیں جو میں نے وہاں سنیں، یہاں پر بیان کروں تو طوالت کے باعث شاید اس تحریر کے مقصد کو بیان نہ کر پاؤں۔
یہ خاتون اپنے آپ کو’’ایرانی النسل‘‘ بتاتی ہے۔ جب یونیورسٹی سے باہر نکلا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ پروگرام ’’گولڈ سمتھ یونیورسٹی ایتھیسٹ سوسائٹی‘‘ نے منعقد کروایا ہے۔ تو بات کھل کر واضح ہوگئی کہ یہ ملعونہ صرف کوئی سیکولر یا لبرل خاتون ہی نہیں بلکہ ایک بہت بڑی ملحدہ ہے۔ ان کے نمائندے اس کو ’’اینکر پرسن‘‘، ’’سوشل ایکٹویسٹ‘‘ کہہ کر بلاتے یا پھر اس کو ایک ’’سیاستدان‘‘ بتاتے۔
جب میں یونیورسٹی سے گھر واپس لوٹا تو سوچا اس پر تحقیق کروں۔ تو معلوم ہوا کہ یہ خاتون ’’انگلینڈ‘‘ میں ایک تنظیم ’’ایکس مسلم‘‘ کے نام سے چلا رہی ہے۔ اس کا انٹرنیٹ پر بھی بلاگ موجود ہے۔ ٹوئٹر اور فیس بک پر بھی اس نے اپنے ملحدانہ افکار پھیلا رکھے ہیں اور اس کا ایک بہت بڑا فین کلب بھی موجود ہے۔ جب میں اس کی تحقیق کر رہا تھا تو مجھے معلوم ہوا کہ انگلینڈ میں بسنے والا فاران نامی ایک پاکستانی، ملحد ہو کر اس کی پناہ میں ہے، اور پھر ایک دوست نے مریم نمازی کے ساتھ اس کا ویڈیو کلپ بھی دکھایا جس میں وہ ناچ رہا تھا اور اپنے ماتھے پر ’’ کافر‘‘ لکھا ہوا تھا۔
میں نے فیس بک پر مریم نمازی کے خلاف پوسٹنگ شروع کی تو ’’فیس بک اتھارٹی‘‘ نے میرا اکاؤنٹ بند کروا دیا۔ اسی دوران ’’حارث ولی‘‘ نامی شخص مجھ تک پہنچنے میں کامیاب ہوا۔ اس اللہ کے ولی کا تعلق اسلام آباد سے ہے، سٹڈی ویزہ پر انگلینڈ میں مقیم تھا۔ اس نے بتایا کہ بھائی اس خاتون نے فرانس، ڈنمارک، ناروے اور جرمنی میں بھی بہت سی ڈی بیٹ کی ہیں لیکن ان میں یہ اسلام کی نمائندگی کے لیے ’’قادیانی مربیوں‘‘ کو مدعو کرتی تھی۔ جو لڑکا مرتد ہو کر اس کے پاس گیا تھا، اس نے ایک دن مجھے ساتھ لیا اور اس کے گھر لے گیا۔ جہاں میں نے دیکھا کہ پورے گھر میں ’’مریم نمازی‘‘ ملعونہ کی ’’برہنہ‘‘ تصاویر لگائی ہوئی ہیں۔ یہ چیز برداشت کیسے کرتا کہ اوپر سے ایک اور جھٹکا لگا۔
اس ملعونہ نے اپنے گھر کے کمروں میں ’’فرانسیسی اخبار چارلی ہیبڈو‘‘ میں چھپنے والی ’’توہین آمیز تصاویر‘‘ لگا رکھی ہیں۔ اس کے گھر میں روز رات کو ’’مرتدین‘‘ جمع ہو کر کچھ عمل کرتے ہیں جن کی یادگاری تصاویر بھی اس کے گھر میں لگا دی گئی تھیں۔ مریم نمازی Nudity is freedom جیسے سلوگن کے تحت پیرس اور دیگر شہروں میں کؤآٹٰں برہنہ مظاہرے منعقد کروا چکی ہے، اور ملحدین کی کانفرنسز میں اس پر پریزنٹیشن دیتی ہے۔
۱: یہ لوگ سعودی عرب کے جھنڈے پر اپنی غلاظت کرتے تھے۔
2: جس جگہ بھی یہ اللہ کا قرآن یا رسول اللہ ﷺ کی کوئی بات دیکھتے، اس کو پرنٹ کروا کر پھاڑ کر اپنے گلے میں ڈال لیتے۔
3: یہ لوگ روزانہ اپنے جسموں پر لکھتے کہ ہاں ہم کافر ہیں۔ ہمیں سیکس کرنے دو۔ شریعہ کا بائیکاٹ کرو۔ جب یہ باتیں سنیں تو سمجھ آئی کہ یہ خاتون اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی بد ترین گستاخ ہے۔
4: عملی زنا کا مظاہر ہ کیا جاتا ہے۔
مزید تحقیق پر معلوم ہوا کہ ملعونہ کا کوئی کاروبار نہیں، یہ اپنی تمام تر سرگرمیاں دہریوں کی بڑی بڑی تنظیموں سے فنڈنگ لے کر چلا رہی ہے، اور غریب، مجبور اور جاہل عوام یا مسلمانوں کو جن کو دین کی کوئی سمجھ بوجھ نہیں، پیسہ اور سیکس کا لالچ دے کر اپنے چکروں میں پھنسا رہی ہے۔ میں یہ تحریر عبدالسلام فیصل کے لیے ارسال کر رہا ہوں۔ اور مجھے امید ہے کہ اس فتنہ سے متعلق ضرور بات کی جائے گی۔ مجھے امید ہے کہ اس طرح کے فتنوں سے بچاؤ کے لیے مسلمان پاکستان اور دنیا بھر میں بھرپور تیاری کر رہے ہیں۔ اللہ ہم سب کو رسول اللہ ﷺ سے محبت کرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
میں اس تحریر کو پڑھنے کے بعد خود اس ملعونہ خاتون پر تحقیق کر چکا ہوں۔ پہلے تو یہ بات دیکھنے کو مل رہی تھی کہ ملحدین فیس بک اور انٹرنیٹ کے مختلف فورمز پر شعائراللہ کی توہین اور شدید قسم کی گستاخیاں کرتے تھے، لیکن یہ فتنہ اب انٹرنیٹ سے نکل کر معاشرتی سطح پر پھیلتا جا رہا ہے۔ یہ لوگ قرآنی آیات پر مبنی پوسٹر بنا کر اپنے شہروں میں لگاتے ہیں۔ احادیث کا مذاق اڑاتے ہیں۔ قرآن مجید کو معاذ اللہ جلایا جاتا ہے۔ توہین آمیز خاکے بناتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان لوگوں نے مسلمان ممالک میں اقلیت یعنی عیسائیوں کو بچانے کے لیے یہ کام ملحدین اور دہریوں سے لینا شروع کر دیا ہے۔
مریم نمازی ملعونہ خاتون پر تحقیق کرنے سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ یہ لوگ پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی ایسی سرگرمیوں کے مرتکب ہونا چاہ رہے ہیں تاکہ مسلمان طیش میں آ کر کوئی ایسی حرکت کریں جسے وہ ایشو بنا کر پوری دنیا میں توہین رسالت کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قوانین پر آواز بلند کر سکیں۔ اس بھائی نے ثبوت بھی فراہم کیے ہیں، اگر کسی کو درکار ہوں تو دیے جا سکتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے