مغرب میں پاپائیت کی وجہ سے ایک ردعمل آیا اور وہاں کی اقوام نے یہ فیصلہ کیا کہ اب اس دنیا کے نظام میں خدا کا کوئی رول نہیں ہوگا چناچہ کارگاہ حیات سے مذہب کی مکمل چھٹی کروا دی گئی. یہ سب اہل مذہب کی وجہ سے ہوا.
اسلام میں پاپائیت کی گنجائش نہیں لیکن عملا ہمارے مذہبی لوگ اسی پاپائیت ہی کا مظاہرہ کر رہے ہیں. آپ نے اس پاپائیت کے مظاہر دیکھنے ہوں تو فیس بک پر اس کی بہت سی مثالیں ملیں گی. فیس بک کے باہر کی دنیا میں پاپائیت دیکھنی ہو تو جاوید غامدی مکتب فکر کے ساتھ یہاں کے مذہبی لوگوں کا رویہ دیکھیں. ایک صاحب شہید کر دیے گئے، جاوید غامدی صاحب ملک بدر ہوئے. عمار خان ناصر صاحب اور ان کے والد پر پوری دیوبندیت چڑھ دوڑی اور قریب تھا کہ ان کو بھی فری میسن کا ایجنٹ قرار دے کر مار دیا جاتا کہ کچھ لوگ درمیان میں آگئے اور معاملہ رفع دفع ہوا.
یہ انتہائی خوفناک رویہ ہے جسے ہمارے لوگ بہت سادگی سے لیتے اور بیان کرتے ہیں. دینی مدارس کے اکابرین بہت بڑے لوگ تھے لیکن اب ان کے نام لیواؤں سے زیادہ اخلاقی پستی کا شکار کوئی نہیں ہے. مدارس میں اچھے لوگ بھی ہیں لیکن اس وقت فیس بک پر مدارس کے نمائندے وہ لوگ بنے ہوئے ہیں جو پہلے علاقائی سطح پر فرقہ واریت کرتے تھے اور اب فیس بک پر آ کر یہی کام کر رہے ہیں. یہ لوگ صرف گالیاں دیتے ہیں اور کوئی ان کا کام نہیں ہے. اخلاقی گراوٹ کی انتہا دیکھیے کہ ان میں جو سب سے زیادہ گندی گالی دیتا ہے، وہ سب سے زیادہ متصلب اور اکابر کا حقیقی وارث قرار دیا جاتا ہے. میں نے چن چن کر ایسے لوگوں کو اپنی فرینڈ لسٹ سے نکالا ہے اس لیے کہ یہ جس فکر کے لوگ ہیں ہم جیسا آدمی ان کے ساتھ نہیں چل سکتا. میں اس لیے ان فرینڈ نہیں کر رہا کہ یہ مجھ سے اختلاف رائے رکھتے ہیں بلکہ صرف اس لیے کہ تین چار سال کے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان سے بات کرنا اور انہیں سمجھانا بلکل بےکار ہے. مجھے حیرت ہوتی ہے کہ یہ لوگ یہ طعنہ دیتے ہیں کہ ہم زمانے سے مرعوب ہیں اور حال ان کا یہ ہے کہ زمانے سے یہ خود کوئی واقفیت نہیں رکھتے. یہ بات تو وہ شخص کہہ سکتا ہے جو زمانہ شناس ہو اور پھر اپنی زمانہ شناسی کی وجہ سے کسی پر زمانے کے اثرات کا پتہ لگائے. ان لوگوں نے تو کبھی اپنے آپ کو باہر کی ہوا نہیں لگنے دی تو انہیں کیا پتہ زمانہ کیا ہے اور اس کے اثرات کیا ہیں. ابن خلدون نے کہا تھا کہ جب کسی چیز پر زوال پوری طرح چھا جائے تو پھر زوال مکمل ہو کر ہی رہتا ہے، اس چیز کو کوئی بچا نہیں سکتا. جب زوال آتا ہے تو وہ ہمہ گیر ہوتا ہے، علمی بھی ہوتا ہے ، فکری بھی اور اخلاقی بھی.
دینی مدارس کا عروج کا دور گزر چکا، اب زوال ہے اور بدترین زوال ہے، اور یہ زوال علمی، فکری اور اخلاقی ہر میدان میں ہے. بس انتظار اس کا ہے کہ صرف دینی مدارس کی یہاں سے چھٹی ہوگی یا پھر یہ لوگ مذہب کی چھٹی کروانے میں بھی کامیاب ہوں گے.
تبصرہ لکھیے