دنیاوی چکاچوند جب اپنا وار کرتی ہے تو اندھیرے میں کون بیٹھا رہے جبکہ ”دنیا کیا کہے گی“ کا خوف بھی دامن گیر نہ ہو، بلکہ دنیا کی رشک بھری صدائیں ہمرکاب ہوں تو یہ سفر ہواؤں کے سر پر طے ہوجایا کرتے ہیں.
عورت ہو تو باپ بھائی شوہر برادری کی غیرت جاگتے دیر لگ سکتی ہے لیکن جاگتی ضرور ہے، لیکن مرد کے لیے ایسا مسئلہ ہوتا نہیں بلکہ اس کی برادری اس کی قسمت پر رشک اور فخر کرنے والوں میں پہلے نمبر پر ہوتی ہے.
اسے قدرت کے ایک اشارے پر نام ملنے لگا. اسے دیکھنے چاہنے والوں کے لیے پروانوں کے ڈھیر نے جل جانا چاہا. دنیا ٹوٹ پڑنے لگی تو اس نے بھی قسمت کے اس داؤ کو کھیلنے کا فیصلہ کیا. اسے اس کا فیصلہ کہا جا سکتا ہے کیونکہ دریا میں اترنے کا فیصلہ ہر انسان کا اپنا ہوتا ہے، اس کے بعد تیراک کی مہارت اور دریا کی موجوں کی سرکشی کا مقابلہ ہوتا ہے. کون سر کرے اور کون سر ہو جائے اس کا فیصلہ وقت کرتا ہے.
رزق حلال اور غیرت کے سوالات تو اس کے بلیک ڈنر سوٹ ،گلابی ٹائی اور جیل زدہ بالوں میں کہیں گم گئے. ڈھابہ چائے پانسو دیہاڑی سب پیچھے رہ گئے، فی الحال جس سراب زدہ جنت میں وہ پہنچ
چکا ہے، اس کی چکا چوند، غیرت اورحرام حلال سوچنے کب دیتی ہے. فاقہ مست تب تک مست حال رہتا ہے جب تک اور کوئی آپشن نہ ہو. ”عصمت بی بی از بےچادری“. اب اس کی سادگی و معصومیت کا سودا باقی ہے.
اپنی سادگی کا سحر تو لباس کی تبدیلی کے ساتھ ہی وہ کھو چکا ہے. دیکھتے ہیں کہ اس سرابی جنت میں گندم کا دانہ کب اس کا نصیب بنتا ہے. بہت کچھ تیراک کے اختیار میں نہیں رہتا جب دریا اسے اپنے گود میں لے لیتا ہے. موجوں میں بےوزنی کی کیفیت ہلکورے اور سکون تو دیتی ہے لیکن قدم جمانے کے لیے ضروری بار سے بھی آزاد کر دیتی ہے اور اچھال بھی دیا کرتی ہے.
دعا ہے کہ وہ اس دریا کو سُوکھا اور سَوکھا پار کر آئے.
آخر میں عابی مکھنوی کی ”چائے والا“ کے عنوان سے نظم ملاحظہ کیجیے. بات مکمل ہو جائے گی.
چائے پی اور شرافت سے کھسک لے پگلی
چائے کے بیس رُوپے ہیں تو وہ دیتی جانا
کیا کہا! تُو نے دِکھانی ہے مُجھے دُنیا نئی؟
کیا کہا! تُو نے مُجھے رنگ نیا دینا ہے؟
کیا کہا! میری جگہ چائے کا ہوٹل تو نہیں؟
آنکھ نیلم ہے مِری رنگ ہے سونے جیسا؟
میں تو بِک سکتا ہوں ہیروں کے برابر تُل کر؟
تُو مُجھے اچھے خریداروں میں لے جائے گی؟
اُس جگہ رنگ بھی بِکتا ہے وہاں خُوشبُو بھی؟
ناک اور کان کے ہمراہ نظر بِکتی ہے؟
نقش اچھے ہوں تو پھر واہ خبر بِکتی ہے؟
تیرا دِل رکھنے کو چل چلتا ہوں کوٹھے تیرے!
سیر کا موقع ہے کُچھ سیر ہی کر لی جائے!
چار چھ دِن کی کہانی ہے مِری بیچ لے تُو!
پھر وہی میں، مِرا ہوٹل
مِری محنت، مِری چائے!
تبصرہ لکھیے