سلام شہدا ریلی
کراچی میں پیپلز پارٹی کے شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کےلیے سلام شہدا ریلی کا انعقاد بہت اچھی بات ہے۔ جن لوگوں نے اس ملک میں آمریت کی تاریک سیاہ رات کو ختم کرنے کےلیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، ہر امن پسند، قانون پسند اور جمہوریت پسند فرد کا حق ہے وہ ان لوگوں کو سلام پیش کرے۔ پیپلز پارٹی نے ایک وقت میں گونگوں کو زبان دی تھی۔ جب سارا ملک وڈیروں، جاگیرداروں، آمروں اور مولویوں کے ہاتھوں ہرغمال بنا ہوا تھا، اس اندھیری اور مایوس رات میں پیپلز پارٹی حقیقی معنوں میں عوامی جمہوری پارٹی بن کر میدان عمل میں اتری تھی۔ پھانسی گھاٹ میں بھٹو کا بہنے والا خون امر ہو گیا، اب کوئی بد باطن خریدے گئے ججوں کے ذریعے قلم کا رخ تو موڑ سکتا ہے لیکن سینہ عوام میں بصورت الہام رقم تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کرے گا تو گڑھی خدا بخش کی قبروں سے اٹھنے والی چیخ اس کےلیے صور اسرافیل ثابت ہوگی۔ بلاول کا یہ احسان ہے کہ وہ شہید بی بی کی طرح جب نکلتا ہے تو غریب اور بےبس لوگ ناچنا شروع کر دیتے ہیں اور عورتیں گاتی ہوئی سڑکوں پر نکل آتی ہیں کہ ان کا بیٹا آگیا ہے۔ سیاسی ورکر اس ملک میں صرف پیپلزپارٹی کا ہی ہے۔ ہنسے تو فضا میں رنگ بکھیر دے، روئے تو آسمان اداس کر دے۔ میری ایک خامی ہے کہ میں چاہتے ہوئے بھی پیپلز پارٹی کے بارے میں بات کرتے ہوئے اعتدال میں نہیں رہ سکتا، میرے سامنے گہرے رنگوں کے سرخ، سیاہ اور سبز پرچم میں لپٹی لاشیں آ جاتی ہیں اور میں ایک خاص کیفیت کا شکار ہو جاتا ہوں۔ اس لیے میں اس پر زیادہ بات نہیں کروں گا۔
خراج عقیدت پیش کرنے کا یہ کیا طریقہ ہے ؟
شہدائے جمہوریت کو خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے لیکن شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنے کو کیا واحد یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ لوگوں کے راستے اور کاروبار کو بند کر کے انہیں خراج عقیدت پیش کیا جائے۔ کراچی میں سلام شہدا ریلی کے موقع پر سڑکیں بند کرنا، ملکی معیشت کی مضبوطی میں حصہ ڈالنے والے کنٹینرز مالکان سے غنڈوں کی طرز پر کنٹینرز چھین کر سڑکیں بند کرنے کے لیے استعمال کرنا، میرے نزدیک سانحہ کارساز سے بڑی دہشت گردی ہے۔
راستے بند کرنے والوں کےلیے رسول اللہ ﷺ کا فرمان
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ ایمان کے بہتر درجے ہیں اور سب سے آخری درجہ یہ ہے کہ راستے کی رکاوٹ ہٹائی جائے لیکن یہاں کبھی مذہب کے نام پر اور کبھی سیاست کے نام پر معاشرے کے مستنند اور رجسٹرڈ غنڈے سڑکیں بند کر کے لوگوں کو ہمہ وقت تکلیف پہنچاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا شخص محفوظ نہیں، وہ ہم میں سے نہیں۔
عوام، سیاسی مذہبی جماعتیں اور ادارے غور کریں
میں ایسی سیاست اور ایسے مذہب سے بیزاری کا اعلان کرتا ہوں جو لوگوں کو تکلیف دیتا ہو۔ یہ نہ سیاست ہے اور نہ ہی مذہب، بلکہ خلق خدا کو تنگ کرنے کےلیے شیطانی منصوبہ بندی ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ ن، جے یو آئی، تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں باقاعدہ پالیسی بنائیں ورنہ اس ملک کے لوگ مذہب اور سیاست کے نام پر رچائی جانے والی اس دہشت گردی کے خلاف بھی کھڑے ہو جائیں گے۔ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں پر پابندی لگائے کہ وہ اپنے اجتماعات اور احتجاج کےلیے سڑکوں کو بلاک نہ کریں ۔
قومی سوچ اور رویہ
ہمارے ایک دوست امتیاز احمد جرمنی میں ہوتے ہیں، گذشتہ ہفتے اسلام آباد میں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ 2004ء میں بون یونیورسٹی کی طلبہ یونین نے اپنے حقوق کےلیے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین پلے کارڈ لیکر سڑک کے اطراف کھڑے ہوگئے۔ امتیاز احمد کہتے ہیں کہ دس پندرہ منٹ بعد میں نے سب سے کہا کہ اب ہم سڑک بلاک کرتے ہیں تو سب نے حیرانی سے مجھے دیکھنا شروع کر دیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ہم تو پاکستان میں ایسے ہی کرتے ہیں تو یونین لیڈر نے جواب دیا کہ ان لوگوں کا کیا قصور ہے جن کا ہم راستہ بند کرتے ہیں۔ امتیاز احمد کہتے ہیں کہ مجھے اس دن سمجھ آئی کہ قوموں کو ان کی سوچ اور رویہ بڑا کرتا ہے۔
شہری آزادی اور شہریوں کے حقوق
ریاست میں ہر شہری کو آزادنہ نقل و حمل کا مکمل حق حاصل ہے، وہ کیا کہتا ہے، کیا سوچتا ہے، کیا کھاتا یا پیتا ہے اور کس قسم کے مذہبی یا سیاسی عقائد رکھتا ہے۔ اس کو تحریر، تقریر اور تصویر کیسی ہو، یہ اس کا حق ہے اور یہ حق کوئی بھی کسی سے چھین نہیں سکتا لیکن اس کے حقوق جب دوسروں کو متاثر کرنا شروع کر دیں، وہاں سے اس کے حقوق ختم ہو جاتے ہیں ۔
غلط لاکھ تاویل کے باوجود بھی غلط ہے۔
پارک، سینما، بازار، میدان تفریح، خرید و فروخت اور کھیل کا مقام ہے۔ جنازہ گاہ، عیدگاہ، امام بارگاہ، مسجد، مندر، گردوارہ، چرچ، سینگاگ، عبادت اور رسومات کی جگہیں ہیں۔ اسی طرح سڑک گاڑیوں کے چلنے کے لیے ہے۔ فٹ پاتھ پیدل چلنے والوں کےلیے ہے ۔ آپ کسی کی چار دیواری میں بغیر اجازت کے داخل نہیں ہو سکتے، اسی طرح مہذب معاشروں میں گاڑیوں کا یا پیدل چلنے والوں کا راستہ بند نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی کرتا ہے تو لاکھ تاویلوں کے باوجود بھی یہ غلط ہے۔
حاملہ خواتین کی اموات
کئی بار ایمبولینسز میں لوگ مرتے رہے لیکن چند مذہبی اور سیاسی غنڈوں کا جشن جاری رہا۔ کئی بار حاملہ عورتیں اسپتال نہ پہنچ سکیں اور انہوں نے بچے رکشوں اور گاڑیوں میں جنے۔ کئی بار عورتیں بچہ جنتے ہوئے موت کی آغوش میں چلی گئیں لیکن کسی سیاست دان کو احساس ہوا اور نہ ہی کبھی کسی مولوی، ذاکر یا پیر کو، کیونکہ ان کے گھر گھی کے چراغوں سے روشن ہیں اور غریب کے خون پسینے سے چلتے ہیں۔ آپ عوام کی پراپرٹی میں کسی صورت داخل نہیں ہو سکتے۔ چار دیواری کے اندر کے خاص حقوق بھلے مذہبی ہوں یا انفرادی، سڑک شروع ہوتے ہی ختم ہو جاتے ہیں ۔
سڑک اور فٹ پاتھ کا مقصد
سڑکیں اور فٹ پاتھ لوگوں نے اپنے ٹیکس کے پیسوں سے ٹریفک اور اپنے چلنے کےلیے بنوائی ہیں۔ جلسے جلوسوں کے لیے جلسہ گاہیں موجود ہیں۔ جلسہ گاہوں میں سیکورٹی کا انتظام کرنا بھی آسان ہے۔ وہاں جا کر اپنے شوق پورے کریں۔ سڑکیں بند کرنا نہ مذہب ہے اور نہ ہی سیاست بلکہ تہذیب اور تمدن سے عاری افراد کی جہالت ہے۔ نہ جانے کب اس ملک میں تہذیب آئے گی۔
زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن
تبصرہ لکھیے