ہوم << یہ ہیں پاکستانی ڈاکٹرز - عابد صدیق

یہ ہیں پاکستانی ڈاکٹرز - عابد صدیق

عابد صدیق یہ کوئی بہت پرانی بات نہیں بلکہ 20 سے 25 سال پرانی ہے کہ اس خطے میں ایم بی بی ایس ڈاکٹر بہت کم تھے۔ کسی ہسپتال میں نرسنگ کا کام کر کے چند دوائیوں کے نام یاد کرلینے والے یا پھر کسی میڈیکل سٹور پر کام کرنے والے شخص کو پیار سے ہی لیکن تقریباً سارے ہی محلے والے’’ ڈاکٹر صاحب‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔اس طرح کے معالج تقریبا ہر گاؤں میں ہوتے تھے، ان کا اپنا اپنا علاقہ ہوتا تھا۔ یہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ گھر گھر جا کر علاج کرتے تھے، دوسرے کے علاقے میں مداخلت نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی’’ ہم عصر‘‘ کے خلاف کوئی بات کرتے تھے۔ مخصوص سے مریض ان کے پینل پر ہوتے تھے۔ ممکن ہے اس وقت بیماریوں کی دریافت بھی کوئی زیادہ نہ تھی اور نہ بیماریوں کی اتنی اقسام تھیں جتنی آج ہیں۔ بس’’ درد‘‘’’کالی ‘‘’’کلیجہ منہ کو آنا‘‘ اور’’ کلنج‘‘ جیسی چند ایک بیماریاں تھیں جن کے علاج کے لیے میڈیکل سٹور بھی ’’ڈاکٹر صاحب ‘‘کے بیگ میں ہی ہوتا تھا جو چمڑے سے تیار کیا گیا انتہائی دیدہ زیب ہوتاتھا۔یہ ’’ڈاکٹر صاحب‘‘ بیماریوں سے متعلق کم اور شجرہ نسب سے متعلق زیادہ جانتے تھے۔مریض کا علاج شروع کرنے سے قبل وہ دادا جی کا نام ضرور پوچھتے تھے اور ساتھ ہی ان کو لاحق بیماریوں کی جانکاری بھی لیتے تھے۔ بس یہی وہ ہسٹری ہوتی تھی جس کی بنیاد پر وہ خطرناک سے خطرناک مرض کو بھی بھگا دیتے تھے۔ جس گھر میں یہ عام طور پر انجکشن لگانے کے لیے جاتے تھے (سیرپ یاگولیاں دینے کا رواج کم تھا) وہاں کھانے پینے کا اہتمام بھی خاص طور پر کیا جاتا تھا، لیکن جو خاص بات مجھے اب تک یا دہے وہ یہ تھی کہ مذکورہ ڈاکٹر صاحب صفائی کا بہت خیال رکھتے تھے، پچیس سال پہلے اس طرح کی اشیاء کم بلکہ نا پید ہوتی تھیں جو ایک ہی دفعہ استعمال کی جاتی ہوں، چنانچہ انجکشن لگانے والی ایک سرنج درجن بھر مریضوں کے لیے کافی ہوتی تھی لیکن ڈاکٹر صاحب مریض کا بہت خیال رکھتے تھے، سٹیل کے صاف برتن میں پانی ابالا جاتا تھا، پھر ساتھ سرنج کوبھی یوں ابالا جاتا تھا کہ جراثیموں کے خاندان میں سے بھی کوئی زندہ نہیں رہتا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب اپنے ہاتھ دو سے زائد مرتبہ صابن سے دھوتے تھے ، یوں نفاست میں اْن کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ جہاں تک انجکشن یا ٰ’’ لال سیرپ‘‘ سے مستفید ہونے کا تعلق ہے اس کا اثر آج کے دور سے قدرے زیادہ ہو تا تھا ، فیس بھی مناسب لیتے تھے۔گھر آکر علاج کرنے کا کوئی اضافی الانس نہیں ہوتا تھا۔
اس ساری تمہید کا مقصد ’’پاکستان جنرل آف میڈیکل سائنس‘‘ نامی طبی جریدے کی دو سال پہلے چھپنے والی ایک رپورٹ کے حوالے سے قارئین کو آگاہ کرنا ہے جس میں بعض حیرت انگیز انکشافات کیے گئے ہیں، رپورٹ کے مطابق طبی قواعد کے برعکس پاکستان میں عام ڈاکٹر جنہیں جنرل پریکٹینشز کہا جاتاہے، 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے۔78 فیصد مرض کی تشخیص کا ذکر نہیں کرتے جبکہ 58 فیصد نسخے اتنے بد خط ہوتے ہیں کہ انہیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے، رپورٹ کے مطابق تحقیق کے دوران یہ بھی دریافت ہوا کہ 63 فیصد نسخوں پر دوا کی مقدار 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں ہوتا۔ یہ ریسرچ بظاہر پشاور کے 6ہسپتالوں پر کی گئی ہے لیکن اس کے نتائج کو پورے ملک کے ساتھ جوڑا گیا ہے، رپورٹ میں بنگلہ دیش اور یمن جیسے ممالک کو پاکستان سے بہتر قرار دیا گیا ہے، اس تفصلی رپورٹ میں کئی اور ایسے انکشافات کیے گے ہیں کہ جن سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ مریض علاج کے لیے نہیں بلکہ’’ موت کے حصول‘‘ کے لیے ہسپتال جاتاہے۔
اس رپورٹ کے کیا حقائق ہیں یہ اپنی جگہ لیکن روزمرہ کی زندگی میں ہم اس سے بھی بد تر حالات دیکھتے ہیں ، دوائیاں بنانے والی کمپنیاں غیر معیاری ادویات کی خرید و فروخت کیلئے رائج الوقت کئی طریقوں سے فائدہ اْٹھاتی ہیں، قیمتی تحائف اور زائد کمیشن کی ادائیگی اْن رائج الوقت کئی طریقوں میں سے بعض آزمودہ طریقے ہیں۔ ہسپتالوں میں دوائی کے نام کے ساتھ اس کمپنی کا نام بھی نسخے کے ساتھ لکھا جاتاہے جس کمپنی نے اْسے تیار کیا ہوتاہے۔ ساتھ ہی مریض کو تنبیہہ کی جاتی ہے کہ اس دوائی کے متبادل کوئی دوائی نہیں لینی ہے ، دلچسپ امر یہ ہے کہ آپ کسی ایک ڈاکٹر سے چیک کروا کر کے دوسرے کے پاس جائیں تو پہلے والی رپورٹ یکسر مستر کر دی جاتی ہیِ ، خاص کر آزاد کشمیر سے مریض جب پاکستان کے کسی شہر میں جا کر چک اپ کرواتا ہے تو اس کی پہلے والی تقریباً سب ہی رپورٹس کو یکسر مسترد کر دیا جاتاہے ، اب حکومت نے آزا دکشمیر میں سرکاری سطح پر تین میڈیکل کالج قائم کر دیئے ہیں، ان کالجز کے قیام سے قبل جو ڈاکٹر صاحبان پاکستان کے کسی میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہوتے تھے وہ کم ازکم پاکستان کے کسی بڑے ہسپتال کی منظر کشی ضرور کر سکتے تھے ، کیونکہ انہیں اس سے واسطہ پڑچکا تھا ، لیکن ہمارے ان تین میڈیکل کالجز سے فارغ ہونے والے ڈاکٹر صاحبان وہ کام بھی نہ کرسکیں گے ، بات صرف طب کے شعبے کی ہی نہیں، زندگی کے کسی بھی شعبے پر نظر دوڑائی جائے تو یوں لگتاہے کہ ہم دنیا میں بس ’’ایڈہاک ازم‘‘کی بنیاد پر آئے ہیں، روز مرّہ کی بنیاد پر واسطہ پڑنے والے ان حالات کے بعد بھی اپنے آپ کو زندہ دیکھ کر خاصی حد تک فخر محسوس کرنے کو دل چاہتاہے کہ ان حالات میں بھی ہم زندہ ہیں، ورنہ ہم درزی سے لے کر باربر تک کے خود ساختہ اصولوں اور مکینک سے لیکر دھوبی تک کے چکروں میں کتنا پہلے مر چکے ہوتے ، بس اس یقین کے ساتھ زندگی کی اس پٹڑی پر محوِ سفر ہیں کہ شایدآنے والا کل آج سے بہتر ہو لیکن امید کے سہارے کب تک زندہ رہیں گے؟

Comments

Click here to post a comment