اسکندر اعظم کاشمار دنیا کے ٹاپ ٹین لیڈروں اور جرنیلوں میں ہوتا ہے ۔اسکندر کا باپ شاہ فلپ مقدونیہ کا حکمران اور اس کی والدہ اولمپیاس البانیہ کی سرحد پر واقع ایک پہاڑی ریاست ایپیرس کی شہزادی تھی ۔اسکندر ابھی آٹھ سال کا تھا کہ اس کی والدہ اولمپیاس کو اس کی تعلیم و تربیت کی فکر لا حق ہو ئی ،وہ جا نتی تھی مستقبل میں اسکندر کے کندھوں پر حکمرانی کا بوجھ پڑنے والی ہے اگر اس کی مناسب تعلیم و تربیت نہ کی گئے اور اس کے اندر لیڈر شپ کی صلا حیت پیدا نہ کی گئی تو اسکندر کبھی بھی ایک اچھا لیڈر نہیں بن سکے گا ۔اولمپیاس نے ایتھنز شہر کے نو بہترین دانشوروں کا انتخاب کیا اور انہیں اسکندر کا اتالیق مقرر کر دیا ۔یہ سب علم کے پہاڑ تھے اورعلم کے مختلف میدانوں کے شاہسوار تھے ۔ان میں اولمپیاس کا ایک عزیز لا نیڈس بھی تھا جو نظم و ضبط کے حوالے سے مشہو ر تھا ،اس کے ذمے تھا کہ وہ اسکندر کو وقت کی پا بندی اور نظم وضبط سکھائے ۔اولمپیاس نے اسکندر کی سرگرمیوں کی ترتیب خو د دی تھی ۔ لا نیڈس اسکندر کو صبح بیدار کر تا اور ایک تیز اوربہادر غلا م کے ساتھ اس کی دوڑ لگواتا ،محل واپس آنے سے پہلے اسکندر مذہبی رسوما ت ادا کرتا اور اس کے بعد اسے ناشتہ دیا جا تا ۔ناشتے میں اسے جنگلی جانوروں اور پرندوں کا گوشت ،ان کی ہڈیاں اور شوربہ پیش کیا جا تا تا کہ اس کا جسم مضبوط ہو۔ لا نیڈس چھوٹی چھوٹی باتوں پر اس کی سرزنش کر تا ،اسے رنگ برنگے شاہی لباس پہننے دیتا نہ ہی اسے شاہی مہمان خانے سے مرغن غذائیں کھانے دیتا۔ اسکندر کی جاسوسی کے لیے خفیہ مخبر مقرر کیے گئے تھے جو اس کی ہر لمحہ جا سوسی کرتے اور اولمپیاس کو رپورٹ پیش کر تے تھے۔ اسکندر کے باپ نے اپنے بیٹے کو چار دوستوں کے ساتھ ارسطو کی اکیڈمی میں بھیجا، ان دوستوں میں ایک شمشیر زنی کا ما ہر، دوسرا تیر انداز، تیسرا پڑھائی سے بیزار اور چوتھا احمق اور بیوقوف تھا۔ اسکندر کو ان چاروں کے ساتھ بھیجنے کا مقصد یہ تھا کہ اسکندر مختلف انسانی مزاجوں اور رویوں سے واقفیت حاصل کر سکے اور اس میں انسانوں کو برداشت کی صلا حیت پیدا ہو سکے۔
اولمپیاس نے ارسطو کی اکیڈمی تک بیٹے کا پیچھا کیا اورجا سوس مقرر کیے تا کہ اسکندر کسی غلط کا م میں ملوث نہ ہو جا ئے ۔اسکندر نے تین چیزوں کے ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھا ،خنجر ،اس کا پالتو گھوڑا اور قدیم یونانی شاعر ہو مر کی کتاب۔ابتدا ء میں اسکندر کو فو ج کے کچھ حصے کی کمان دی گئی ،اسکندر نے بہادری کے جو ہر دکھائے ،وہ سپاہیوں کی بجائے خود آگے بڑھ کر حملہ کر تا اور دشمن کی صفیں چیرتا ہوا آگے تک جا گھستا ، وہ فوج سے پہلے خود آگے بڑھ کر حملہ کر نے کا عادی تھا ،سکندر کی فتوحات کو دیکھ کر جلد ہی اسے فو ج کی کمان سونپ دی گئے ۔وہ سخت محنت اور مشقت کا عادی تھا ۔وہ سقراط کے اس فلسفے کا قائل تھا کہ ایک فلسفی کو باشاہ ہو نا چاہئے یا ایک بادشا ہ کو فلسفی ہو نا چاہئے ۔اسکندر ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے اپنے باپ فلپ کو متحدہ یونان کی تنظیم بنانے کی دعوت دی تھی اور فلپ نے یو نانی ریاستوں کا وفاق تشکیل دیا تھا ۔اسکندر اپنے اساتذہ کا بہت ادب کر تا تھا ،ایک دفعہ اسکندر اپنے استاد ارسطو کے ساتھ ایک پہاڑی راستے سے گزر رہا تھا ،آگے جنگل کا راستہ بڑا خطرنا ک تھا اور ندی کو پار کر نا خاصا مشکل تھا ،اسکندر نے ارسطو کو وہیں کھڑا کیا اور پہلے خود جا کر راستہ صاف کیا ۔ندی پا ر کرنے کے بعد ارسطو نے اسکندر سے پو چھا ’’تم نے یہ خطرہ کیوں مو ل لیا اور پہلے خود کیوں ندی میں اترے ‘‘اسکندر نے سینے پر ہا تھ رکھا اور سر جھکاکر کہا ’’معزز استاد اگر ارسطو زندہ رہا تو وہ سینکڑوں اسکندر بنا دے گا لیکن ہزاروں اسکندر مل کر بھی ایک ارسطو نہیں بنا سکتے ‘ــ‘۔
اسکندر نے صرف 33سال کی عمر میں آدھی دنیا فتح کر لی تھی ۔وہ313 قبل مسیح یورپ کے شہر مقدونیہ سے نکلا، یو نان کو فتح کرتا ہوا ترکی اور ایران میں داخل ہوا ،دارا کو شکست دی ،وہا ں سے شام گیا ،بیت المقدس اور بابل سے ہو تا ہوا مصر پہنچا ،کچھ عرصہ بعد ایران سے ہوتا ہوا افغانستان اور وہاں سے درہء خیبر کے راستے ہندوستان میں داخل ہو ا ،ہنڈ کے مقام پر دریائے سندھ کو عبور کیا اور آگے بڑھتا حضرو تک آ گیا ،وہاں چھچھ کے نام سے ایک بستی بسائی جو آج تک موجود ہے ،اس کے بعد سکندر اعظم کی فوجیں ٹیکسلا اور راولپنڈی کی جا نب بڑھیں، جہلم اور راولپنڈی کے درمیان راجہ پورس کو شکست دی ،اپنے پیارے گھوڑے کی یاد میں پھا لیہ کا شہر بسایا ،اسی دوران ملیریا کا شکا ر ہوا ،سارے جسم پر کپکپی طاری ہو گئی ، یونانی حکماء خاطر خواہ علا ج نہ کر سکے اوروہ 323 قبل مسیح واپس مقدونیہ جاتے ہوے راستے میں انتقال کر گیا۔
بلا ول بھٹوگزشتہ تین چار سالوں سے سیاست میں ان ہیں اور ابھی تک ان کا کام سوائے بیانات بازی کے اور کچھ نہیں ، یوسف رضا گیلانی ، راجہ پرویز اشرف ،قمر الزمان کائرہ اور خورشید شاہ جیسے سینئر سیاستدانوں کی موجودگی اب پی پی کی باگ دوڑ بلاول بھٹو کے ہاتھ میں ہے اور ہما رے دانشوروں ا نہیں ایک عظیم لیڈر ڈکلیئر کر رہے ہیں لیکن مجھے ابھی تک سمجھ نہیں آ سکا بلاول میں لیڈروں والی کو ن سی بات ہے۔ بلا ول کا عوام سے رابطے کا واحد ذریعہ 27دسمبر کا جلسہ اور ٹوئٹر ہے اور اٹھارہ کروڑ عوام میں سے صرف دس فیصد لو گ ٹو ئٹر استعما ل کرتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ2018کے الیکشن میں اگر پی پی کو گو رنمنٹ بنانے کا مو قعہ ملا تو بلاول بھٹو ہمارے وزیراعظم ہو ں گے ۔مجھے بلاول کے وزیر اعظم بننے پر کوئی اعتراض نہیں لیکن کیا بلاول خود کو بیس کروڑ عوام کا لیڈر ثبت کر سکتے ہیں ، ان میں کو ن سی ایسی بات ہے یا کو ن سی ایسی اضافی خصوصیات ہیں جن کی بنیاد پر وہ خود کو ایک لیڈر ثابت کر سکتے ہیں ۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ ان سے ذیادہ ٹیلنٹڈ، پڑھے لکھے اور با شعور نوجوان پاکستان میں موجود ہیں اور ان میں لیڈر شپ کی خصوصیات موجود ہیں۔
بلاول بھائی آپ بھی کمال کرتے ہیں ،آپ آکسفورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور یہ سیاسی ڈرامے بازی آپ کو زیب دیتی ہے اور نہ یہ آپ کے بس کی بات ہے،آپ عمران خا ن کے تجربے سے فائدہ اٹھائیں اور عمران خان سے سبق سیکھیں۔آپ کے پاؤں ابھی تک سیاست کی دلدل سے پاک ہیں ،آپ نے ابھی تک مفادات کی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے ،آپ کا وجود ابھی تک گندی سیاست سے پاک ہے ،آپ ابھی تک سیاست کی غلاظت سے دور ہیں اور آپ کا لباس ابھی تک سیاست کی بدبودار چھینٹو ں سے دور ہے ،آپ دنیا کی صف اول کی یونیورسٹی کے گریجویٹ ہیں اور آپ کے پاس وقت ،پیسہ ،عزت ،دولت ،شہرت ،وسائل اور اختیارات سب کچھ موجود ہے ،آپ سیاست کے گندے اور غلیظ جو ہڑ سے باہر نکلیں اور تعلیم پر سرمایہ کاری کریں ،آپ پورے ملک میں اسکولو ں اور کالجوں کے جال بچھا دیں ،آپ پاکستان میں دنیا کی صف اول کی یونیورسٹی قائم کردیں ،انٹر نیشنل معیار کا کو ئی ہسپتال بنائیں اور غریب عوام کے لیے کو ئی فلا حی اور ترقیاتی منصوبہ لا نچ کریں یقین کریں یہ آپ کا اس قوم پر بہت بڑا احسان ہو گا ۔
تبصرہ لکھیے