پاکستان کا قیام دراصل کرۂ ارض پر مسلط دو نظریات کی بدترین شکست تھی۔ ایک سیکولر جمہوری سرمایہ دارانہ معیشت پر مبنی طرز معاشرت اور دوسرا مزدور کی آمریت کے ذریعے کمیونسٹ معاشی نظام۔ پاکستان بننے سے پہلے ان دونوں نظریات کے پیروکار ایک دوسرے سے برسرپیکار تھے۔ برصغیر پاک و ہند میں انگریز کی نو آبادیاتی حکومت قائم تھی جو سرمایہ دارانہ سیکولر جمہوری معیشت و معاشرت کی محافظ تھی۔ اس کے مقابلے میں 17، اکتوبر 1920ء کو سوویت روس کے شہر تاشقند میں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی بنیاد رکھی گئی۔
یہ دراصل ہندوستان میں کام کرنے والے بے شمار کمیونسٹ گروہوں کا کنونشن تھا۔ یہ تمام گروہ دنیا کے مختلف ممالک کی مدد سے ہندوستان میں کام کررہے تھے اور ان پر برطانوی حکومت کی سختیاں بھی جاری تھیں۔ سوویت یونین نے ان کو اکٹھا کیا اور کمیونسٹ پارٹی بنا ڈالی، جس کا ہندوستان میں پہلا کنونشن 25 دسمبر 1925ء میں کانپور میں منعقد ہوا۔ برصغیر کے کمیونسٹ گروہ مسلح بغاوت اور انقلاب پر یقین رکھتے تھے۔
ان کے خلاف 1920ء سے لے کر 1935ء تک لگ بھگ پچاس کے قریب بغاوت کے مقدمات مختلف عدالتوں میں چلائے گئے جن میں پانچ مقدمات پشاور سازش کیس اور اتنے ہی مقدمات میرٹھ سازش کیس سے متعلق تھے۔ بھگت سنگھ بھی ایک کمیونسٹ تھا جس نے ایسے بہت سارے گروہوں میں حصہ لیا اور بالآخر ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن کا اہم کارکن بن گیا۔ اسے برطانوی پولیس آفیسر جون سونڈرس کے قتل کے جرم میں سزائے موت دی گئی۔ کمیونسٹ پارٹی کے لوگ مہاتما گاندھی پر یہ الزام لگاتے رہے کہ اس نے نہ صرف بھگت سنگھ کو بچانے کی کوشش نہ کی بلکہ الٹا برطانوی سرکار سے مل کر اس کی پھانسی کی راہ ہموار کی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ گاندھی برصغیر میں ایک سیکولر، جمہوری سرمایہ دارانہ معیشت کا ایجنٹ ہے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سے متاثر ادیبوں، شاعروں اور مصنفوں نے 1936ء میں لکھنو میں انجمن ترقی پسند مصنفین کی بنیاد رکھی۔
سجاد ظہیر اس کے بانی سربراہ چنے گئے۔ برصغیر کا شاید ہی کوئی بڑا ادیب ہو جو اس انجمن کاخوشہ چین نہ رہا ہو۔ متاثرین کا تو ایک وسیع حلقہ مدتوں قائم رہا۔ فیض احمد فیض سے احمد ندیم قاسمی کرشن چندر سے عصمت چغتائی اور امرتا پریتم سے لے کر ساحر لدھیانوی تک سب کمیونسٹ انقلاب کے داعی اور سیکولر جمہوری سرمایہ دارانہ طرز حکومت و معاشرت کے مخالف تھے۔ کمیونسٹ معاشرت کا علمبردار برطانوی اور امریکی حکومتوں کو سامراج تصور کرتا تھا اس لیے وہ اس سامراج کے خلاف نعرہ زن رہے۔ دوسری جانب سیکولر جمہوری سرمایہ دارانہ قوتیں رنگ، نسل، زبان اور علاقے کی بنیاد پر دنیا میں قومی ریاستوں کی تشکیل میں لگی ہوئی تھیں۔
جنگ عظیم اول کے بعد یہ تقسیم ایک حقیقت بن گئی اور دنیا چھوٹی چھوٹی قومی ریاستوں میں تقسیم ہوگئی، اور ان کی ایک تنظیم بھی بنادی گئی جس کا نام لیگ آف نیشنز رکھا گیا۔ سوویت یونین کی کمیونسٹ حکومت کو بنے ہوئے ابھی صرف تین سال ہی ہوئے تھے کہ انھوں نے اس حقیقت کا ادراک کرلیا اور آزربائیجان کے شہر باکو میں قومیتوں کی ایک کانفرنس بلائی جس میں دنیا بھر کی ان قومیتوںکو بلایا گیا جو نئی بننے والی سیکولر جمہوری قومی ریاستوں میں اپنی جگہ نہیں بناسکی تھیں۔ سوویت یونین کا خواب تھا کہ ان قومیتوں کی آزادی کے نعروں کو بلند کرکے انھیں نئی بننے والی ریاستوں سے علیحدہ کردیا جائے تاکہ اپنی مرضی کی نئی کمیونسٹ ریاستیں وجود میں آجائیں۔
1920ء میں ہونے والی اس کانفرنس میں بلوچ قوم پرستوں کا ایک گروہ کامریڈ مصری خان مری کی سربراہی میں شریک ہوا۔ یہ تھی وہ کشمکش جودنیا کو کمیونسٹ یا سرمایہ دارانہ معیشت کے زیراثر لانے کے جاری تھی۔ دونوں قوتیں دنیا کو انھی نظریات کی بنیاد پر تقسیم کرتی تھیں۔ ان کے تصور اور گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک دن اس خطۂ ارضی پر ایک ایسا ملک بھی وجود میں آجائے گا جو ان دونوں نظریات کی نفی کرتے ہوئے اسلام کے آفاقی نظریے کی بنیاد پر تشکیل ہوگا، جس میں ایک دادا کے پوتے آپس میں ایک قوم نہیں ہوں گے اس لیے کہ ایک نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا تھا۔
یہ ان دونوں نظریات کی حامل قوتوں کی اتنی بڑی شکست تھی کہ اس کی ٹیسیں آج بھی ان کی تحریروں سے اٹھتی ہیں اور ان کے بیانات اور سرگرمیوں سے نفرت کے پرچم بلند کرتے ہیں۔پاکستان بن گیا۔ اس کا وجود ہی ان لوگوں کے لیے سوالیہ نشان تھا جو گزشتہ کئی سو سال سے دنیا کو دو سبق پڑھارہے تھے، ایک یہ کہ قومیں رنگ، نسل، زبان اور علاقے سے بنتی ہیں اور دوسرے یہ کہتے تھے کہ اصل لڑائی تو معاشی ہے اور بقول کارل مارکس یہ مذہب تو ایک افیون ہے جو غریب آدمی کو جدوجہد سے روکتا ہے۔ اس کے بعد قرارداد مقاصد منظور ہوگئی۔
ان کے نزدیک یہ بہت بڑی گڑبڑ ہوگئی تھی۔ قیام پاکستان سے انھوں نے اپنی تحریروں میں یہ لکھنا شروع کردیا تھا کہ پاکستان معاشی وجوہات کی بنیاد پر بنا تھا۔ قرارداد مقاصد کے منظور ہونے کے بعد یہ گروہ اور سرگرم ہوگیا۔ 1950ء میں ڈاؤ میڈیکل کالج میں ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی بنیاد رکھی گئی جس میں کمیونسٹ نظریات کے تمام طلبہ شامل تھے۔ اس تنظیم کا 1953ء کا احتجاج اور پولیس مقابلہ بہت مشہور ہوا۔ لیکن جب جنرل اکبر نے جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کی تو کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اس تنظیم پر بھی پابندی لگادی گئی۔نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک اہم ستون حسن ظفر عارف تھے جو کراچی یونیورسٹی میں فلسفہ کے استاد بھی رہے۔ نظریاتی طور پر کٹر کمیونسٹ ہیں۔
حکومت سندھ کی خاص نوازش سے انھیں ایم کیو ایم لندن کا مؤقف بیان کرنے کے لیے پریس کلب میں جگہ ملی۔ ان کے ساتھ ایک سیکولر نظریہ کے حامی، برسوں سے پیپلزپارٹی کے جیالے وکیل ساتھی اسحاق بھی شامل تھے۔ اگر پاکستان مردہ باد کہنے کے باوجود الطاف حسین کے ساتھیوں کو پریس کلب میں اپنا مؤقف بیان کرنے کی آزادی ہے تو پھر طالبان کو بھی کوئی پریس کلب دے دیا جائے۔دانشوری اور تحریر میں آپ کو جب کبھی پاکستان ٹوٹنے کے خواب دیکھنے والا کوئی ملے گا تو وہ انھی صفوں میں سے ملے گا جنہوں نے پاکستان کے نظریاتی وجود سے ہمیشہ نفرت کی۔ نواز شریف اس دن سے ان کا محبوب رہنما ہے جس دن سے اس نے اپنی گزشتہ روش چھوڑ کر سیکولر نظریات کو اوڑھنا بچھونا بنایا۔ الطاف حسین، محمود خان اچکزئی، اسفندیارولی، اختر مینگل، یہ سب انھیں محبوب ہیں۔ شاید خواجہ آصف بھی ان کی صف میں اپنی تقریر کے بعد شامل ہوگیا ہو۔
وجہ صرف اور صرف ایک ہے اور وہ ہے پاکستان کی فوج۔ یہ فوج ان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ فوج پوری کی پوری سیکولر بھی ہوجائے تو نعرہ تکبیر بلند کرنے کے بغیر اس کا چارہ نہیں۔ آپ قیام پاکستان سے لے کر آج تک فوج کے خلاف لکھے گئے مضامین جمع کرلیں۔ خبریں اکٹھا کرلیں، تقریریں اور بیان نکال لیں۔ آپ کو مقرر، دانشور اور قلمکار وہی لوگ ملیں گے جنہوں نے 1947ء کی چودہ اگست کو شکست کھائی تھی۔ اگر پاکستان کی فوج بدنام ہو گی، کمزور ہوگی تو ریاست پاکستان کمزور ہوگی۔ ریاست پاکستان کمزور ہوگی تو ایک نعرہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گا۔ پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا اللہ۔
تبصرہ لکھیے