ہوم << حدود کی تعریف اور نظریۂ حد کا ارتقا - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

حدود کی تعریف اور نظریۂ حد کا ارتقا - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

محمد مشتاق 2006ء میں جنرل پرویزمشرف نے حدود قوانین میں تبدیلی کا فیصلہ کیا تو اسلامی نظریاتی کونسل نے حدود کے متعلق ایک تفصیلی رپورٹ تیار کی۔ استاد محترم ڈاکٹر محمود احمد غازی رحمہ اللہ کی خواہش کی تعمیل میں میں نے اس رپورٹ پر تفصیلی تنقید لکھی۔ اس تنقید کا کچھ حصہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔(مصنف)
کونسل کی رپورٹ کا غالبا سب سے دلچسپ حصہ وہ ہے جہاں فاضل مرتبین نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ حد کا نظریہ فقہائے اسلام نے بتدریج وضع کیا ہے، اور اپنی آخری شکل تک پہنچنے میں یہ ارتقا کے مختلف مراحل سے گزر چکا ہے۔ اس سے اصل میں یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ حدود سزاؤں کو ناقابل تبدیل و تغیر کہنا ٹھیک نہیں ہے، نہ ہی اسے خالص خدائی قانون قرار دیا جاسکتا ہے، بلکہ اس کے وضع کرنے میں انسانی کاوش کارفرما رہی ہے۔ گویا یہ نتیجہ برآمد کرنا اصل ہدف ہے کہ نہ صرف حدود قوانین بلکہ حدود اللہ میں بھی تغیر و تبدل ممکن اور جائز ہے!
اس کے بعد فاضل مرتبین نے اس ارتقا کے مختلف مراحل متعین کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ بتایا گیا ہے کہ موطا امام مالک میں کتاب الحدود میں صرف زنا، قذف اور سرقہ کا ذکر ہے، جبکہ امام الشافعی کی کتاب الام میں کتاب الحدود کے عنوان کے تحت سرقہ، زنا، شرب خمر، حرابہ اور ارتداد کا ذکر ہے۔ امام سرخسی کی المبسوط کی کتاب الحدود میں صرف زنا اور قذف کا ذکر ہے، جبکہ مرغینانی کی الھدایۃ میں کتاب الحدود کے تحت زنا، شرب اور قذف مذکور ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر امام مالک نے موطا کی کتاب الحدود میں حد شرب کا ذکر نہیں کیا تو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ اسے حد کے طور پر نہیں مانتے؟ یا اگر سرخسی نے کتاب الحدود میں شرب خمر، ارتداد اور سرقہ و حرابہ کا ذکر نہیں کیا تو کیا انہوں نے ان کو حدود کے دائرے سے نکال دیا؟ اور اسی طرح مرغینانی نے کتاب الحدود میں سرقہ، حرابہ اور ارتداد کا ذکر نہ کرکے ان کو حدود ماننے سے انکار کیا؟ مجھے اپنی کم علمی کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ فقہ اسلامی پر تحقیق کا یہ انداز، جو کونسل نے اپنایا ہے، میں نے پہلی دفعہ دیکھا ہے۔ کونسل کی رپورٹ کے فاضل مرتبین خود یہ اقرار کرتے ہیں کہ موطا میں شرب خمر کا ذکر ایک الگ کتاب الاشربۃ میں ہے۔ کیا وہاں اس کا ذکر بطور حد ہوا ہے یا بطور تعزیر؟ اسی طرح وہ مانتے ہیں کہ سرخسی کتاب السرقۃ کے تحت سرقہ اور حرابہ کا ذکر کرتے ہیں، جبکہ کتاب الشرب میں وہ شرب خمر کے متعلق احکام لاتے ہیں اور ارتداد کا ذکر کتاب السیر میں کرتے ہیں۔ اگر فاضل مرتبین مبسوط کی کتاب السرقۃ ، کتاب الاشربۃ اور کتاب السیر کا سرسری جائزہ بھی لیتے تو ان کو معلوم ہوجاتا کہ سرخسی سرقہ، حرابہ اور ارتداد کو بطور حدود ذکر کرتے ہیں اور ان پر حدود کے وہ سارے احکام لاگو کرتے ہیں جن کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا ہے۔ چنانچہ کتاب الحدود کی بالکل ابتدا میں وہ کہتے ہیں:
[pullquote]و ھی انواع، و ھذا الکتاب لبیان نوعین منھا: حد الزنا و حد النسبۃ الی الزنا۔[/pullquote] (اور حدود کی کئی قسمیں ہیں۔ اس کتاب میں ہم ان میں دو قسموں کا ذکر کریں گے، زناکی حد اور زنا کی طرف نسبت کی حد۔)
پھرکتاب السرقۃ کے آغاز میں کہتے ہیں:
[pullquote]فھذا الکتاب لبیان ھذین الحدین و کل واحد منھما ثابت بالنص۔[/pullquote] (پس یہ کتاب ان دو حدود (سرقہ اور حرابہ) کے بیان کے بارے میں ہے۔ اور ان میں ہر ایک نص سے ثابت ہے۔)
اسی طرح کتاب السیر کے باب المرتدین کی ابتدا میں کہتے ہیں:
[pullquote]والاصل فی وجوب قتل المرتدین قولہ تعالی (او یسلمون) و قولہ ﷺ (من بدل دینہ فاقتلوہ)۔ و قتل المرتد علی ردتہ مروی عن علی و ابن مسعود و معاذ و غیرھم من الصحابۃ رضی اللہ عنھم ۔[/pullquote] (اور قتل مرتدین کے وجوب کے بارے میں اصل ارشاد باری تعالیٰ ہے ”تم ان کے ساتھ جنگ کروگے یہاں تک کہ وہ مسلمان ہوجائیں گے“ ( سورۃ الفتح، آیت 16)۔ اور رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے ”جس نے اپنا دین تبدیل کیا اسے قتل کردو۔“ اور مرتد کو اس کے ارتداد کی وجہ سے قتل کرنا حضرت علی، حضرت عبداللہ بن مسعود، حضرت معاذ بن جبل اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے۔)
اور کتاب الاشربۃ میں مختلف قسم کی شرابوں اور مسکرات کے احکام بیان کرنے کے بعد جب سزا کی بحث تک پہنچتے ہیں تو ابتدا میں ہی واضح کردیتے ہیں:
[pullquote]و الاصل فی حد الشرب ما روی ان رسول اللہ ﷺ اتی بشارب خمر، و عندہ اربعون رجلا، فامرھم ان یضربوہ۔ فضربوہ کل رجل بنعلیہ۔ فلما کان زمان عمر رضی اللہ عنہ جعل ذلک ثمانین سوطا۔ و الخبر، و ان کان من اخبار الآحاد فھو مشھور، و قد تاکد باتفاق الصحابۃ رضی اللہ عنھم۔ انما العمل بہ فی زمن عمر رضی اللہ عنہ، فانہ جعل حد الشرب ثمانین سوطا من ھذا الحدیث، لانہ لما ضربہ کل رجل منھم بنعلیہ کان الکل فی معنی ثمانین جلدۃ۔ و الاجماع حجۃ موجبۃ للعلم، فیجوز اثبات الحد بہ۔[/pullquote] (حد شرب کے متعلق اصل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک شارب خمر لایا گیا۔ اس وقت آپ کے پاس چالیس صحابہ تھے۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ اس کو ماریں۔ تو ہر ایک نے اپنے دو جوتوں کے ذریعے اسے مارا۔ پھر جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور تھا تو آپ نے اسے اسی کوڑے بنادیا۔ اور یہ روایت اگرچہ اخبار آحاد میں ہے مگر یہ مشہور ہے اور اسے صحابہ رضی اللہ عنہم کے اتفاق نے مزید مؤکد کردیا۔ اس پر صرف عمل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور سے ہوا، کیونکہ جب ان میں ہر شخص نے اسے اپنے دو جوتوں سے مارا تو مجموعی طور پر سزا اسی کوڑوں کے برابر ہوئی۔ اور اجماع علم کے لیے موجب حجت ہے، پس اس کے ذریعے حد کا ثابت کرنا جائز ہے۔)
باقی رہی یہ بات کہ جب وہ اسے حدود میں شمار کرتے ہیں تو پھر اس کا ذکر کتاب الحدود میں کیوں نہیں کرتے؟ تو یہ کوئی اہم بات نہیں۔ کتاب کے مؤلف کے ذہن میں احکام کی جو ترتیب مناسب تھی اس نے وہی ذکر کی۔ بعد میں لوگوں کو کوئی اور ترتیب اچھی لگی تو انہوں نے اس ترتیب کو اپنایا۔ مثلاً حدزنا اور حد قذف کا ذکر ایک جگہ ہو تو زیادہ مناسب لگتا ہے اس لیے اکثر مؤلفین نے ان کا ذکر اکٹھے کیا ہے۔ (دلچسپ بات یہ ہے کہ حدود قوانین کے بہت سے ناقدین تجویز کرتے ہیں کہ حد زنا اور حد قذف کو دو الگ آرڈیننسز میں ذکر کرنے کے بجائے بہتر یہی ہے کہ ان کو ایک آرڈیننس میں یکجا کیا جائے۔) اسی طرح کتاب السرقۃ میں سرقہ اور حرابہ کا اکٹھے ذکر بالکل مناسب ہے، اور کتاب السیر میں ارتداد اور بغاوت کا ذکر موضوع کے لحاظ سے نہایت مناسب ہے۔ نیز المبسوط میں کتاب الحدود، کتاب السرقۃ اور کتاب السیر یکے بعد دیگرے آتے ہیں۔ مختلف قسم کی شرابوں اور مسکرات کے متعلق چونکہ تفصیلی احکام بہت زیادہ ہیں اور ان میں کب حد کی سزا اور کب تعزیری سزا دی جائے گی، یہ موضوع چونکہ تفصیل کا طالب ہے اس لیے اس کا ذکر الگ کتاب (Chapter) میں ہوتا ہے۔
عصر حاضر میں مسلمان اہل علم نے مغربی قوانین کے طرز پر فقہ اسلامی کی تدوین نو کی کوشش کی تو جرائم اور سزاؤں کا ذکر Criminal Law کے طرز پر وہ دیگر احکام سے الگ کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر وھبۃ الزحیلی کی کتاب الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں تمام حدود کا تذکرہ یکجا ملتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ امام مالک کے دور میں حدود کی تعداد تین تھی اور وھبۃ الزحیلی تک پہنچتے پہنچتے ان کی تعداد آٹھ ہوگئی۔ اور پھر ارتقا کا یہ نظریہ اس وقت اپنی موت آپ مرجاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ امام سرخسی پانچویں صدی ہجری میں کتاب الحدود صرف دو حدود کا تذکرہ کرتے ہیں اور امام شافعی ان سے تین سو سال قبل دوسری صدی ہجری میں کتاب الحدود میں پانچ حدود کا ذکر کرتے ہیں۔ کیا یہ معکوس ارتقا کا عمل تھا؟!