ہوم << ہمارے غیر سیاسی حکمران - پروفیسر رشید احمد انگوی

ہمارے غیر سیاسی حکمران - پروفیسر رشید احمد انگوی

رشید انگوی کیا آپ کو یہ جان کر حیرانی ہوگی کہ آج ملک کی حکمرانی غیرسیاسی لوگوں کے ہاتھوں میں ہے۔ مگر یہ سچ ہے اوراس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے ووٹروں یعنی عوام کو ایک منظم اورمسلسل سرکاری پالیسی کے تحت جاہل وبے خبر رکھنے کے ساتھ ساتھ مخصوص عصبیتوں کا شکار رکھا گیا ہے۔دنیا بھر میں سیاسی کامیابیاں حاصل کرنے سے پہلے سالہاسال سیاسی جدوجہد کرنا پڑتی ہے ( جس طرح آج عمران خان کر رہا ہے) اوراس راہ میں کبھی جیلوں میں جانا پڑتا ہے کبھی کوئی اورسزائیں بھگتنا پڑتی ہیں مگر ہمارے حکمرانوں کی میدانِ سیاست میں انٹری ایسی کسی بھی سیاسی جدوجہد کا نتیجہ نہیں بلکہ لوہے کی صنعت سے وابستہ ایک صاحب نے ضیاء الحق کے دور میں گورنر پنجاب جنرل جیلانی سے کسی سطح پر کوئی ڈیل کی اورمحض پیسے ٹکے کی بنیاد پر بچوں کو سیاست میں بھرتی کرادیا اورانہوں نے اپنی کاروباری مہارتوں کو کام میں لاکر لفافے وغیرہ ٹیکنالوجی استعمال کرکے سیاست کو بھی خاص الخاص کاروبار بنا لیا اور انجام برطانیہ کے فلیٹ اورپانامہ کے خزانوں کی صورت میں بچے بچے کی زبان پر ہے اورگلی گلی میں خاص قسم کا شور برپا ہے۔ یہ انجام ہے اس ڈیل اورکاروباری سٹائل میں سیاست کا۔
آج ملک عالمی تباہیوں ٗ سازشوں ٗ بربادیوں کی زد مین ہے مگر ادھر کوئی وزیر خارجہ تک نہیں ٗ اندرونی بیرونی مسائل کا حل سمدھیوں اورخواجگان جیسوں کے ہاتھوں میں محدود ہے۔ کیبنٹ اس کمال کی کہ اب کے وزرائے ذی وقار کی باہم بات چیت نہ ہونے کے قصے عام ہیں اورآخری حکومتی کارنامہ صرف یہی کہ وزیر ٗ مشیر ٗ وکیل پنامہ کی آفت میں مگن ہیں اورنوبت بایں جارسید کہ اخباری رپورٹر کا نام تک ای سی ایل میں ہے۔ماشاء اللہ کیا کمال کی حکمرانی جس پر جتنا بھی سردھن لیں کم ہے۔عدالت حکم جاری فرماتی ہے کہ خود ہی احکام جاری نہ کردیا کرو پہلے کیبنٹ کے سامنے رکھا کرو۔شان دار تاریخ یہ رقم ہوئی کہ حاکم اعظم بیرون ممالک میں کسی صوبائی وزیر اعلیٰ کو لے کر جانا چاہیں تو صرف وہی ایک ہستی مراد ہو۔پانامہ لیکس کے ردِّ عمل میں تو جو کچھ چھ ماہ سے ہورہا ہے اس کا تذکرہ بچے تاریخ کی کتابوں میں پڑھا کریں گے۔پارلیمنٹ کی قدردانی کا یہ ہال ہے کہ سینیٹ کو قانونی طور پر ’’ڈھنگے‘‘بنانے پڑے کہ عالی مرتبت کو ایوان میں لایا کرے۔ کہاں صدیوں سے مسلمانانِ ہند کے خوابوں کی تعبیر کے لیے بنی مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان ٗ اورکہاں حکمرانانِ عالی مقام کا سیاسی شعور واحساس ذمہ داری کا مقام۔راقم یونیورسٹیوں کے سیاسیات وتاریخ کے ماہرین سے درخواست گزار ہے کہ ’’میاں شریف وجنرل جیلانی ڈیل‘‘کی تفصیلات پاکستانی قوم کے سامنے لائی جائیں۔ آج جب خاندانِ شریفاں نے سیاست ونظم وطن کو تہس نہس کرڈالا ہے ۔’’زی اے این‘‘تگڑم نے کم وبیش تین عشروں میں سیاست کو اپنے مخصوص انگوں میں رنگ دیا ہے تو خدارا اب تو ریاست مالکوں کے سپرد کردی جائے ۔ امریکہ وبرطانیہ جیسے ممالک کے سربراہانِ وطن زیادہ سے زیادہ دوبارہ منتخب ہوسکتے ہیں اور پھر سیاست سے ریٹائرڈ ہوجاتے ہیں مگر ادھر تین عشروں بعد بھی اپنی نسلوں کو مسلط کرنے کا جنون دماغوں پر سوار ہے۔
جمہوریت تبدیلی اورعدمِ موروثیت کا نام ہے ۔ امریکیوں نے نکسن جیسے پاپولر صدر کو واٹر گیٹ سے منسوب جرم میں صدارت سے ہٹا دیا مگر واٹر گیٹ سے ہزاروں گنا اہم پانامہ پیپرز یہاں کے حاکموں کا بال بیکا تک نہیں کررہے۔ لگتا ہے قوم بارش کے لیے دیا کی طرح اب ربِّ کائنات کے حضور آنسوئوں کی جھڑیاں لگا کر ’’یااحکم الحاکمین‘‘کاوردکرکے پانامہ جمہوریت کے احتتام کی التجائیں کرے۔تاریخ کا عجب نظارہ ہے ۔ بڑے بڑے جغادری سیاستدان باہم متحد ہوکر جسدِ واحد بن گئیں ہیں اورتن تنہا میاں والی کا جی داری غیور بیٹا’’فرزندِ پاکستان ٗ عمران خان ‘‘بیس کروڑ عوام کا مقدمہ لڑ رہا ہے ۔راقم نے خان کے کئی انٹرویوسنے ہیں اوردل کی گہرائیوں سے گواہی دیتا ہے کہ لمحہ موجود میں پاکستان کا واحد اللہ والا سیاست دان عمران خان ہے۔ اسے لفافہ بردار اینکر جب ستا ستا کر پوچھتے ہیں کہ آپ کو تو فلاں فلاں سیٹوں پر شکست ہوئی ٗ آپ کے ساتھ تو ملک کا کوئی سیاستدان نہیں ٗ تو یہ خان جواب میں بس اتنا ہی کہتا ہے کہ مجھے کسی کے ساتھ دینے نہ دینے کی پرواہ نہیں ٗ میں تواپنے اللہ کے حضور عرض کرسکوں گا کہ میں نے مقدور بھر کوشش کی اورکرپٹ حکمرانوں کے خلاف ڈٹا رہا ۔ یہی جذبہ اورجرأت وحمیت خان صاحب کو نوجوانوں کی آنکھوں کی تارابناتی ہے اوروہ سیاست دانوں کے اس جھرمٹ میں نمایاں شان کے ساتھ سرخرو دکھائی دیتا ہے ۔کوئی شک نہیں کہ آج ’’پاکستان کی آن ٗ پاکستان کی شان ٗ فرزندِ پاکستان ٗ عمران خان‘‘نعرے نہیں عظیم سچائی ہے۔قومی قیادتوں نے جو مایوس کن کردار ادا کی اورملک کے خزانے لوٹ کر بیرونِ ملک دولت کے انبار جمع کیے ہیں تو ان حالات کو سیاسی شاعروں نے اپنے انداز میں سپردِ قلم کیا ہے ۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں:
پانامہ ہووے ٗ لندن ہوے ٗ تے چاہے سوئس
اتوں اتوں تِن تے وچوں سارے اک
سارے لٹیرے آپ وچ اک جان
اکو نعرہ سب دا لٹوتے پھٹو ٗ لٹو تے پھٹو
ایک اورنمونہ ملاحظہ ہو:
سوئس پارٹی ہووے کہ پنامہ والے ہوں
ہماری سیاست کے بڑے نمونے ہیں
نمونے سے بڑھ کر یہ تو عجوبے ہیں
اورقارون سے ملتے ان کے قاروبے ہیں
پناما سلسلے کا ایک اورشعر ملاحظہ ہو:
عمران خان ہووے ٗ شیدا ٹلی ہووے یا کوئی ہور
پنامہ تاں جیویں’’چھیڑ‘‘ بن گئی شریفاں دی
تاریخ کے پس منظر میں ایک سوال دیکھئے:
امریکیاں نے نکسن نوں کاہدے لئی ہٹایا سی
کیا واٹر گیٹ دا جرم پنامہ نالوں وڈا سی؛
ہماری قوم کا المیہ یہ ہے کہ سیاسی لیڈروں کے ساتھ پیروں جیسی عقیدت شروع کردیتے ہیں ۔ جب کہ جمہوریت تقاضا یہ ہے کہ افراد اورپارٹیوں کو کام کا موقعہ دیا جائے اوران کی کارکردگی پر آئندہ کی نئی صف بندی کی جائے۔خاندانی وراثت کا جمہوری سیاست سے دور کا بھی کوئی تعلق اورواسطہ نہیں ہوتا۔

Comments

Click here to post a comment