عمران خان کے رائیونڈ جلسے کے بعد پاکستان کی سیاست میں کئی موڑ آرہے ہیں۔ ایک دوسرے کو بچانے، ایک دوسرے کی کرپشن کی پہرہ داری کرنے کے لیے اقدامات جاری ہیں۔ ڈاکٹر شاہد مسعود کی وہ بات یاد آرہی ہے کہ ”پاکستانی سیاست سے اگر عمران خان کو نکال دیا جائے تو باقی مک مکا رہ جاتا ہے“۔ ان کا یہ کہنا آج کے سیاسی منظر نامے کی صحیح عکاسی کر رہا ہے۔ عمران کی کرپشن کے خلاف مہم نے زور کیا پکڑا، اس ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کو خود زور پڑ گیا۔ آج نواز شریف سے لے کر اسفند یار تک اور آصف زرداری سے لے کر الطاف حسین تک سب ایک پیج پر ہیں کہ کسی طرح اس سونے کے انڈے دینے والی مرغی جمہوریت کو دونمبر ہی رکھا جائے اور عمران خان کا راستہ روکا جائے۔
بلاول زرداری کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں مہمانوں کی گیلری میں بیٹھنا اور پھر مختلف سیاسی قائدین سے رابطے کرنا دراصل عمران خان کے اسلام آباد جلسے کو روکنے کی کڑی ہے۔ اس کے ساتھ وہ مستقبل میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں اس لیے پریس کانفرنس میں کہا کہ اگلے الیکشن میں نوازشریف جیل میں اور پی پی کا جیالا وزیراعظم ہاؤس میں ہوگا۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ اتنا اندھا یقین کیسے ہے؟ عوام کے نزدیک تو سیاست اور کرپشن میں کوئی فرق نہیں۔ نوازشریف کے احتساب سے پہلے اپنے والد محترم کا احتساب تو کروائیں۔ ڈاکٹر عاصم کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے، شرجیل میمن کا بھی۔ اپنے لیڈران سے احتساب کا عمل شروع کریں جس طرح عمران خان نے اپنے صوبائی وزیر کو کرپشن کی بنا پر گرفتار کروا دیا تھا۔
بلاول صاحب! غدار وطن کبھی انکل نہیں ہوتے، کرپٹ عناصر کبھی رشتہ دار نہیں ہوتے اور نہ ہی سیاسی اتحادی۔ اس سے عمران خان کی سیاسی پذیرائی سے وحشت محسوس ہوتی ہے۔ کہیں آپ اسلام آباد مارچ کے چکر میں تیسرا اتحاد بنانے کی تیاری میں تو نہیں۔ اس آڑ میں ڈاکٹر عاصم کےلیے کلین چٹ اور زرداری صاحب کی ضمانتی واپسی کا سودا تو نہیں کیا جا رہا۔ یا پھر انکلز کے ساتھ مل کر عمران خان کو سیاسی طور پر تنہا کرنے کی پالیسی پر عمل کیا جا رہا ہے؟ لیکن یہ بات ذہن میں رکھنی ہوگی کہ پاکستان کے عوام اتنے بھولے نہیں کہ ماضی بھول جائیں۔
عمران خان صاحب! لیڈر وہی ہوتا ہے جس کے بارے میں چوکوں، چوراہوں، ہوٹلوں اور حماموں پر بحث ہو، اور آج کل آپ کی ذات، آپ کی خوبیوں اور خامیوں پر کافی بحث ہو رہی ہے۔ آپ نے تن تنہا جو کرپشن کے خلاف جنگ لڑنے کی تیاری کی ہے، اس میں ضرور کامیاب ہوںگے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ تیسری قوت کی مداخلت چاہتے ہو۔ میرے نزدیک تیسری قوت عوام ہیں اور کوئی نہیں۔ آپ کی سیاسی جدوجہد اب ایک تحریک میں ڈھل چکی ہے جس کے دیرپا اثرات ہوں گے۔ ورکرز موجودہ سیاسی پوزیشن اور سٹینڈ سے خوش ہیں اور کافی جوش و جذبہ پایا جاتا ہے۔
عمران خان نے 2011ء کے جلسہء لاہور کے بعد جو شہرت حاصل کی، درمیان میں اس میں کمی آئی تھی، اور پارٹی کا گراف بھی نیچےگیا تھا لیکن رائیونڈ جلسے کے بعد عمران کی سیاسی پوزیشن اور شہرت بحال ہو چکی ہے اور ایک بار پھر عوام میں جوش ہے۔ میرے مطابق عمران حکومت کے خاتمے کے بجائے اگلے الیکشن کی تیاری میں ہے اور اس کے نزدیک جتنا ممکن ہو عوام سے رابطہ رہنا چاہیے. حالیہ جلسے اسی کی ایک کڑی ہیں۔
تبصرہ لکھیے