”نئی نسل کو مطالعے کا شوق نہیں۔“ یہ جملہ اکثر سننے کو ملتا ہے۔ اسی طرح کا ایک اور جملہ جو سننے کو ملتا ہے وہ یہ کہ ”نئی نسل اپنی ثقافتی و اخلاقی اقدار سے دور ہوتی جا رہی ہے۔“ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ امر توجہ طلب ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟
پہلا جملہ کہ نئی نسل کو مطالعے کا شوق نہیں اپنی جگہ حقیقت ہے۔ اس ضمن میں کچھ سوالات اٹھتے ہیں جو یقیناً درست وجوہات تلاش کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گے۔
پہلا سوال: کیا بچوں کے لیے مطلوبہ مقدار میں معیاری اور دلچسپ ادب تخلیق ہو رہا ہے؟
دوسرا سوال: اس حوالے سے درس گاہیں اور اساتذہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟
تیسرا سوال: گھر میں مطالعے کے لیے سازگار ماحول فراہم کیا جا رہا ہے؟ میرے خیال سے یہ بنیادی سوال ہے۔
چوتھا اور آخری سوال: کیا معاشرہ اور اہلِ دانش اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟
ایک وقت تھا کہ جب تفریح کے ذرائع محدود تھے اور جرائد و رسائل تفریح کا ذریعہ تھے، تب مطالعہ کے شوق کی آبیاری بہت سہل تھی مگر آج وقت بدل چکا اور تفریح کے ایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ اور دلکش ذرائع موجود ہیں ان حالات میں مطالعے کا شوق پروان چڑھانے کے لیے نئے زمانوں کے مطابق حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں اہلِ دانش اور مطالعے کی عادی افراد اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، وہ اس طرح کہ اپنے زیرِ مطالعہ کتب پر تبصرے کیے جائیں، کتابوں سے متعلق رائے دی جائے، اور نئے پڑھنے والوں کی اس ضمن میں رہنمائی کی جائے۔ معاشرہ میں کتابیں تحفتاً دینے کے رواج کو فروغ دیا جائے۔ یہ درست ہے کہ دلیل جیسی ویب سائٹس کے آنے سے لوگوں میں مطالعے کا شوق بڑھا ہے مگر اس سے جملہ معترضہ کی خاطر خواہ تشفی نہیں ہوتی۔
دوسرا جملہ کہ نئی نسل اپنی ثقافت سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ یہ واقعی بہت پریشان کن ہے اور یہ صرف جملہ نہیں بلکہ ایک المیہ ہے۔ اس ضمن میں معاشرے، ذرائع ابلاغ اور اہلِ دانش کا کردار نا ہونے کے برابر ہے اور شاید انہیں اس حوالے حالات کی سنگینی کا اندازہ بھی نہیں۔ ایسے میں جب دنیا ایک عالمی گاوں کی صورت اختیار کر چکی ہے اور ثقافتوں کا ادغام جاری ہے اور بڑی ثقافتیں چھوٹی ثقافتوں کو نگلتی جا رہی ہیں، ہمیں اپنی ثقافت کو بچانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ درست ہے ثقافتیں اثر قبول کرتی ہیں مگر ایسا نہ ہو کہ پاکیستانی ثقافتیں اثر قبول کرتے کرتے اپنی بنیاد ہی گم کر بیٹھیں۔ اس ضمن میں فنکار برادری جو کہ عموماً ثقافت کی علمبردار/ نمائندہ سمجھی جاتی ہے، کا کردار بھی مایوس کن ہے اور فنکاروں کی ایک بڑی تعداد دوسری ثقافتوں سے مرعوب نظر آتی ہے۔ ذرائع پر مکمل طور پر بیرونی ثقافتوں کا غلبہ ہے اور جو تھوڑی بہت مقامی پیداوار ہے فلموں اور ڈراموں کی وہ بھی بیرونی ثقافتوں سے مرعوب ہے۔ ایسے حالات میں جب ہر طرف بیرونی ثقافتوں کی یلغار ہو نئی نسل کیسے اپنی ثقافت کو اپنائے۔
ہم نئی نسل کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں ہمیں بس اسی طرح کا ماحول فراہم کرنا ہوگا بقول شاعر
ذرا نم تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
تبصرہ لکھیے