ایک دفعہ پھر سول ملٹری تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔ بے چارے ایک دفعہ پھر کٹہرے میں کھڑے ہیں۔
مزے کی بات ہے‘ ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔ یہی دیکھ لیں کہ ایک دور تھا جب بے نظیر بھٹو نے اپنی پہلی حکومت میں راجیو گاندھی کو اسلام آباد بلایا تھا تو اس وقت کی ملٹری اور انٹیلی جنس قیادت نے انہیں (بینظیر بھٹو کو) سکیورٹی رسک قرار دے دیا تھا۔ کچھ عرصے بعد بینظیر حکومت توڑ دی گئی۔ وہ آخری دم تک سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے لیے سکیورٹی رسک رہیں کیونکہ وہ گاندھی خاندان کے قریب سمجھی جاتی تھیں۔ جب راجیو گاندھی قتل ہوئے تھے تو بینظیر بھٹو افسوس کے لیے نیو دہلی گئیں۔ وہاں ان کی ملاقات سابق بھارتی وزیر اعظم آئی کے گجرال سے بھی ہوئی۔ اپنی آٹو بائیوگرافی میں گجرال لکھتے ہیں کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کو بتایا کہ ایک دفعہ ان کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان نے نیو دہلی آ کر یہ دھمکی دی تھی کہ اگر معاملات درست نہ ہوئے تو پاکستان بھارت پر بم مار دے گا۔ گجرال حیران تھے کہ سویلین وزیر اعظم ہوتے ہوئے وہ کیسے اپنے وزیر خارجہ کو یہ دھمکی دے کر بھارت بھیج سکتی تھیں۔ گجرال لکھتے ہیں کہ یہ سن کر بینظیر بھٹو کو جھٹکا سا لگا اور وہ بولیں: بھلا میں کیسے ایٹم بم کی دھمکی دے کر اپنے وزیر خارجہ کو بھارت بھیج سکتی ہوں؟ بعد میں پتا چلا کہ اس وقت کی فوجی قیادت نے وزیر خارجہ کو بھارت کو یہ دھمکی دینے کے لیے بھیجا تھا‘ اور اس پیغام کا وزیر اعظم بینظیر بھٹو کو علم نہ تھا۔
اسی بینظیر بھٹو کا بیٹا کشمیر کے الیکشن میں نواز شریف کے خلاف نعرے لگا رہا تھا کہ 'مودی کا جو یار ہے غدار ہے غدار ہے‘۔ کبھی یہ نعرہ بینظیر بھٹو کے خلاف لگتا تھا۔ وہی کھیل اب بلاول بھٹو کھیل رہا تھا۔ اپنے اپنے وقت پر دونوں اس وقت کی ملٹری قیادت پر یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ وہ اپنے مخالف سیاستدانوں سے زیادہ محب وطن ہیں‘ اور دوسرا غدار ہے۔
ہر دور میں اپوزیشن کے سیاستدان فوجی قیادت کو اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ پھانسیاں بھی لگتے ہیں، قتل بھی ہوتے ہیں‘ دہشت گردی کے الزام میں عمر قید کی سزا بھی پاتے ہیں اور جلاوطنی بھی بھگتتے ہیں۔
سویلین اپنے تئیں کوشش بہت کرتے ہیں‘ پھر بھی کہیں نہ کہیں پھنس جاتے ہیں۔ نواز شریف کچھ زیادہ ہی پھنس جاتے ہیں‘ اگرچہ ماضی میں وہ ہر وقت زرداری اور گیلانی کو طعنے دیتے رہتے تھے کہ وہ ملٹری کے نیچے لگے ہوئے ہیں اور ان کی سکیورٹی اور فارن پالیسی آزاد نہیں ہے‘ اور یہ کہ وہ اگر وزیر اعظم ہوتے تو ان معاملات کو خود چلاتے۔ ایک دفعہ نواز شریف صاحب صدر زرداری سے ملنے ایوان صدر گئے تو باتوں باتوں میں حسبِ عادت زرداری صاحب نے کچھ بڑھکیں ماریں۔ یہ دعویٰ کیا کہ سب کچھ انڈر کنٹرول ہے۔ اس پر نواز شریف نے کہا: جرنیلوں پر زیادہ بھروسہ نہ کرنا۔ اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے نواز شریف صاحب نے ایک واقعہ بھی سنایا تھا‘ جو بعد میں مجھے اس ملاقات کے شرکا نے سنایا۔ نواز شریف صاحب کے بقول‘ ان کے دوسرے دورِ حکومت میں ایک دفعہ ایک اہم وزارت کے سیکرٹری ایک فائل ان کے پاس لائے‘ جو اس وقت کے ایک سرونگ کور کمانڈر کی فیصل آباد میں زمین کو کمرشل بنانے کے حوالے سے تھی۔ نواز شریف ہچکچاہٹ کا شکار ہوئے تو سیکرٹری صاحب بولے: سر آپ کو پتہ ہے کبھی کوئی کام آ جاتا ہے۔ یہ سن کر وزیر اعظم فوراً قائل ہو گئے اور وہ فائل کلیئر کر دی‘ جس سے اس جنرل کو بیٹھے بٹھائے کروڑں روپے کا فائدہ ہوا۔ جب بارہ اکتوبر کی بغاوت ہوئی تو وزیر اعظم کو اسی جنرل نے گرفتار کیا جس کی فائل انہوں نے کلیئر کی تھی۔ نواز شریف صاحب کا کہنا تھا کہ آپ کچھ بھی کر لیں ان جرنیلوں نے کرنا وہی ہے جو ان کا اپنا ایجنڈا ہے۔
یہ الگ کہانی ہے کہ وہی نواز شریف جو زرداری کو سمجھدار بنانے کی کوشش کر رہے تھے‘ بعد میں میمو گیٹ پر جنرل کیانی اور جنرل پاشا کی دی ہوئی لائن پر چلتے ہوئے سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ اُس وقت یہ پروا بھی نہ کی گئی کہ قانون کے تقاضوں کے مطابق جب سپریم کورٹ نے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے جواب طلب کیے تو یہ جوابات وزارتِ دفاع کو بھیجے جانے چاہئیں تھے‘ اور پھر وہ جوابات وزارتِ دفاع سپریم کورٹ کو بھجواتی‘ لیکن آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے حکومت کو بائی پاس کیا۔ اس پر وزیر اعظم گیلانی نے ایک چینی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ غیر قانونی عمل ہے‘ حکومت کی اجازت کے بغیر یہ جوابات داخل نہیں کرائے جا سکتے۔ اس پر جنرل کیانی سخت ناراض ہوئے اور بعد میں وزیر اعظم گیلانی کو ہی معذرت کرنا پڑی تھی۔
اس وقت نواز شریف اور شہباز شریف صاحبان جنرل کیانی اور جنرل پاشا کے ساتھ کھڑے تھے۔ کیا نواز شریف، گیلانی اور زرداری کی مخالفت میں سب قاعدے قوانین بھول گئے تھے؟ وہ حکومتِ وقت کو غدار قرار دلوانے کے لیے سپریم کورٹ جا پہنچے تھے۔ انہوں نے اس وقت سویلین کی کوئی فکر نہیں کی تھی۔
اس سے پہلے نواز شریف صاحب نے لندن میں بینظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت پر دستخط کیے تو اس میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اپوزیشن پارٹیاں کسی بھی سرونگ جنرل سے خفیہ ملاقات نہیں کریں گے۔ لیکن پھر ایک دن خبر نکلی کہ چوہدری نثار علی خان (اپوزیشن لیڈر) اور شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب‘ جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں کرتے رہے۔ دو ہزار تیرہ کے الیکشن سے پہلے ان کی بارہ خفیہ ملاقاتیں ہوئیں۔ جب بعد میں رپورٹر اعزاز سید نے یہ خبر بریک کی تو چوہدری نثار نے قومی اسمبلی میں خود اس خبر کی تصدیق کی لیکن وہ رپورٹر پر تبّرہ بھیجنا نہ بھولے۔
اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب یہ اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو ان کی گفتگو کچھ اور ہوتی ہے۔ ارشد شریف کو یاد ہو گا کہ دو ہزار سات میں جب نواز شریف لندن میں صحافیوں کو ملتے تھے تو کیا کیا بڑھکیں ماری جاتی تھیں... کیا کیا دعوے کیے جاتے تھے۔ لگتا تھا کہ بندہ بدل گیا ہے اور اگر انہیں موقع مل گیا تو وہ راتوں رات اس ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔نواز شریف صاحب جب بھی صحافیوں سے ملتے تو فخر سے فرماتے کہ انہوں نے ہمیشہ ملٹری قیادت کے ساتھ ٹکر لی‘ چاہے اس کی انہیں کتنی ہی بڑی قمیت کیوں نہ ادا کرنا پڑی ہو۔ شاید ان کا اشارہ اس بات کی طرف ہوتا تھا کہ جنرل مشرف کے ساتھ لڑائی کی وجہ جہاں کارگل کی جنگ تھی‘ وہیں ان دنوں ان کی ایک خفیہ ملاقات اس وقت کے کوئٹہ کے کور کمانڈر جنرل طارق پرویز سے بھی ہوئی تھی۔ جنرل مشرف نے چونکہ خود بھی جنرل کرامت کے مستعفی ہونے کے بعد آرمی چیف بننے سے پہلے‘ نواز شریف سے خفیہ ملاقات کی تھی‘ لہٰذا وہ جانتے تھے نواز شریف اس طرح کی خفیہ ملاقاتیں کس کام کے لیے کرتے ہیں۔ اسی لیے جنرل مشرف نے دوسرے دن ہی جنرل طارق پرویز کی چھٹی کرا دی تھی۔
اب آتے ہیں موجودہ بحران کی طرف۔ یہ سب جانتے ہیں کہ نواز شریف صاحب کے خیالات ان ایشوز پر واضح ہیں۔ وہ اس خطے میں امن چاہتے ہیں۔ وہ ہندوستان اور افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے حامی ہیں۔ یہ کریڈٹ ان کو جاتا ہے کہ انہوں نے واجپائی صاحب کو لاہور لا کر اہم پیش رفت کی تھی‘ جب دونوں ملک کشمیر سمیت تمام ایشوز کو حل کرنے پر تیار ہو گئے تھے۔ نواز شریف صاحب کو داد دینا پڑے گی کہ جنرل مشرف کی بھارت کے ساتھ کارگل پر جنگ کو لے کر ان کی حکومت برطرف کی گئی تھی، لیکن جب وہ تیسری دفعہ وزیر اعظم بنے تو مودی صاحب کی دعوت پر نیو دہلی گئے اور ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی تھی۔ مودی نے نواز شریف کے ساتھ غلط کیا‘ جب بنگلہ دیش جا کر پاکستان کو توڑنے کا کریڈٹ لیا۔ اس سے نواز شریف کمزور ہوئے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر دفعہ مودی صاحب نے نواز شریف کو اپنی باتوں یا حرکتوں سے کمزور کیا‘ اور وہ (نواز شریف) امن کی خواہش دل میں ہی لے کر رہ گئے۔ شاید بھارتی قیادت بھی جانتی ہے کہ پاکستان میں سیاستدانوں کی کوئی نہیں سنتا‘ لہٰذا فوجی حکومتوں میں بھارت کے اندر سکون رہتا ہے۔ بھارت کو علم ہے کہ سیاستدانوں کے تلوں میں تیل نہیں ہے۔
جس اجلاس کو لے کر طوفان کھڑا ہو گیا ہے کہ اندرونی اجلاس کی کہانی کیسے باہر نکلی، اس پر بھی سیاستدان شرمندہ ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے۔ چار سابق سفیروں نے کھل کر لکھا ہے کہ ہمارے بارے میں دنیا میں غلط یا درست تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ ہمارے نان سٹیٹ ایکٹر بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اسے کیسے دور کیا جائے؟ ہم کب تک انکار کی حالت میں رہیں گے؟ رانا افضل پارلیمانی سیکرٹری نے قائمہ کمیٹی میں جو کہانی سنائی وہ خوفناک ہے کہ فرانس کے دورے میں انہیں اپنے نان سٹیٹ ایکٹرز کے بارے میں کیا کیا کچھ سننا پڑ گیا... اور یہ کہ بنگلہ دیش، سری لنکا، افغانستان کے علاوہ روس، امریکہ اور جرمنی‘ سب بھارت کے موقف کو وزن دے رہے ہیں۔ وہ بھارت کے سرجیکل سٹرائیک کے حق کو مان رہے ہیں۔
کل رات میں جنرل مشرف کا ایک انٹرویو سن رہا تھا‘ جس میں انہوں نے فرمایا کہ مسعود اظہر کی جیش محمد ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور اسے قتل کرانے کی کوشش اسی تنظیم نے کی تھی۔ اسی گروپ کے لیڈر مسعود اظہر کے خلاف اقوام متحدہ میں کارروائی کو چین نے پاکستان کے کہنے پر ویٹو کر دیا تھا۔ ایسا خطرناک کھیل ہم کیوں کھیل رہے ہیں؟
حب الوطنی ایک حد کے اندر اچھی لگتی ہے‘ ورنہ جرمن نازی بھی حب الوطنی کے نام پر یورپ کو دوسری جنگ عظیم میں گھسیٹ لے گئے تھے جس میں چھ کروڑ انسان مارے گئے۔
جہاں تک اس اجلاس کی بات ہے‘ جہاں سے یہ خبر نکلی ہے‘ جس میں پہلی دفعہ کھل کر سیاسی قیادت نے ایک سٹینڈ لیا تھا اور اس کے بعد جس طرح حکومت مکر گئی ہے‘ اس سے مجھے اردو غزل کے غالب کے بعد بڑے شاعر ظفر اقبال کا شعر یاد آ گیا ہے:
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے!
تبصرہ لکھیے