شاعر نے کہا تھا: جس قبیلے کے سارے لوگ بہادر ہو جائیں ، کوئی چیز اسے تباہی سے نہیں بچا سکتی ۔ اے دلاورانِ عصر، اے دلاورانِ عصر!
اب ایک تو اخبار نویس ہے ، ایک اخبار ہے اور ایک انہیں خبر دینے والا ۔ دلیل یہ ہے کہ اخبار نویس ہماری برادری کا حصہ ہے؛ چنانچہ معصوم ۔'' محض ایک پیامبر ‘‘ ۔ جی ہاں! شک کا فائدہ تو اسے ضرور دینا چاہئیے ۔بیچارہ سمجھ نہ سکا کہ کس کام میں آلہ ء کار بنا ہے،محلاتی سازش میں۔ جنگی فضا میں اپنے عساکر کا حوصلہ پست کرنے کی کوشش میں ۔ اس وقت ، جب اختلافات بھلا دئیے جاتے ہیں ۔ بظاہر نیک نام، وہ ایک ہنر مند آدمی ہے ، حرف و بیاں کے قرینوں سے آشنا۔ وہ مگر ایک فریق ہے ۔ اس کی تحریریں گواہ ہیں کہ تعصبات رکھتا ہے ۔ ڈٹ کر ان کا اظہار کرتاہے ۔ ہاں! ہاں !شک کا فائدہ اسے ملنا چاہئیے ۔
ایک اخبار ہے ، جس کے سرورق پر بانیء پاکستان کی تصویر چھپتی ہے ؛اگرچہ تحریروں میں اس اجلے آدمی کا حوالہ خال ہی ہوتاہے ۔ عام اخبارات کے مقابلے میں دس فیصد سے بھی کم ۔ اس حیرت انگیز سیاستدان نے ، جو ایک قوم کی تشکیل ، اس کی آزادی اور اس کے لیے ایک ملک کے حصول کا قصوروار ہے ، سیکولر ازم کا لفظ کبھی ایک بار بھی استعمال نہ کیا ۔ یہ اخبار سیکولر ازم کا علمبردار ہے ۔ ہوتا رہے ، یہ اس کاحق ہے مگر لیڈروںکے لیڈر سے اسے کیوں منسوب کیاجائے ؟ علمی دیانت نام کی کوئی چیز بھی ہوتی ہے یا نہیں ہوتی؟ اخلاق، اقدار اور اصولوں کی کوئی اہمیت اگر نہ ہو توطاقت فیصلہ کن ہوتی ہے ۔ جنگل کا قانون ہوتاہے ، جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس۔
غالباً اخبار نویس اس تک پہنچ چکے ۔ معلوم نہیں ، خبر چھپوانے والے کا نام وہ کیوں نہیں لیتے ۔ شاید وہی آدمی ، جس نے کہا تھا کہ فوجی جنرل مسائل پیدا کرتے ہیں اور وزیرِ اعظم کو انہیں حل کرنا پڑتاہے ... وزیرِ اعظم مسائل حل کرتے ہیں ؟
پاکستانی فوج فرشتوں پر مشتمل نہیں ۔پہاڑ سی غلطیاں اس نے کی ہیں ۔ کچھ کامیابیاں بھی مگر اس کے دفترِ عمل میں ہیں ۔ سوات، وزیرستان ، کراچی ، بلوچستان اور قبائلی پٹی میں دہشت گردوں سے جنگ اسی نے لڑی ہے ۔اس اخبار نے نہیں ، اس وزیر نے نہیں ، جو اپنے وطن کے اخلاقی اور سیاسی جواز کا قائل ہی نہیں ۔ سیاچن میں دنیا کے سب سے رفیع برف زار پر ، اسی کے سپوت تین عشروں سے زندگیاں نذر کرتے ہیں ۔ خانہ جنگی اور ہر طرح کے دشمنوں کے مقابل چھ ہزار سے زیادہ دیے، اب تک بجھ چکے ۔ ع
اک چراغ اور چراغ اور چراغ اور چراغ اگرچہ اس طرح کے کارنامے سپاہ نے انجام نہیں دئیے ، جس کی انگریزی بولنے ، انگریزی کھانے ، انگریزی اوڑھنے اور انگریزی جینے والی اشرافیہ امید رکھتی ہے لیکن پھر بھی کچھ تو ! اس ضربِ عضب نے ، حکومت جس پر آمادہ نہ تھی ، امریکہ اور بھارت کی مشترکہ سازش کو ناکام بنا دیا ۔ ان میں سے ایک پاکستان کو محتاج، منحصر چنانچہ اپاہج دیکھنا چاہتاہے اور دوسرا اس کے خاتمے کا آرزومند ہے۔ کراچی، بلوچستان اور قبائلی پٹی میں جو قوم پرستوں ، مذہبی جنونیوں اور خریدے گئے لسانی لیڈروں کی مالی اور اسلحی پشت پناہی فرماتاہے ۔ جو اعلان کرتا ہے کہ وہ اس ملک کو تنہا کر کے رہے گا ۔ دہشت گرد ریاست قرار دلوائے گا۔ پاکستان کو عراق اور شا م بنانے کا خواب اسی فوج نے پورا ہونے نہیں دیا، جس کے لتّے لیے گئے ۔
کیا اس عمل میں سیاستدان فوج کے مددگار تھے ؟ خادمِ پنجاب نے طالبان سے کہا تھاکہ انہیں پنجاب پر حملوں سے گریز کرنا چاہیے ۔ اس مشورے کے باوجود کہ دہشت گردوں سے مذاکرات میں انتہا پسند مولوی صاحبان کو شریک نہ کیا جائے ، مولانا سمیع الحق کوکمان سونپ دی گئی ۔کیا پنجاب کے 5000بلدیاتی نمائندوں میں سے 550کا تعلق دہشت گردتنظیموں سے نہیں ؟ کس نے ان کی طرف سے آنکھیں بند رکھیں ؟کیا پاکستان کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے نریندر مودی سے اس ملک کے وزیرِ اعظم نے کٹھمنڈو میں خفیہ ملاقات نہ کی؟ اس ملاقات کا ایجنڈا کیا تھا؟ نریندر مودی کے جشنِ تاجپوشی پر ،دہلی میں وہ پاکستان دشمن ابلاغی اداروں کی پاکستان دشمن شخصیات سے کیوں ملے ، وہ بھی ہائی کمیشن کو اندھیرے میں رکھ کر۔ ان بھارتی تاجروں اور صنعت کاروں کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کیوں کرتے رہے ، جن میں سے بعض دشمن ریاست کے لیے وہ کام کرتے ہیں ۔ ا ن میں سے ایک کے گھر پہ وہ حاضر ہوئے ۔ اپنے فرزندِ ارجمند کے ساتھ ۔ برسوں سے اس شخص سے ان کے نجی مراسم ہیں ۔ کیا جدّہ کی سٹیل مل کے لیے ملازمین اور ماہرین کاانتخاب اس کے مشورے پر نہ کیا گیا ؟
فوجی قیادت سے اختلاف ہو سکتاہے مگر کس طرح ؟ پاکستانی عوام کے نقطۂ نگاہ سے یا بھارت اور امریکی ترجیحات کے مطابق؟ کیا یہ اس ملک کی تقدیر ہے کہ دائمی طور پر وہ سامراج کا آلۂ کار رہے ؟ اس سے نجات حاصل کرنے کی ہرگز کوئی کوشش نہ کی جائے ؟ فقط اس لیے کہ کاروباری حکمرانوںکے مفادات آسودہ رہیں ؟
بے شک تعصبات سے آدمی کو رہائی نہیں ۔ ایک چیز مگر انصاف بھی ہوتی ہے ۔ ایک چیز وطن سے محبت بھی ۔ افواج سے اختلاف بجا مگر کیا ہر حال میں اس کی مذمت کی جائے گی ۔ اس وقت بھی ، جب ملک خطرے میں ہو ؟
کاروبارِ حکومت میں بالادستی بے شک سول کی ہونی چاہیے۔ جو شخص یہ بات نہیں سمجھتا ، جاہلِ مطلق نہیں تو پرلے درجے کا بے خبر ضرور ہے ۔ سیاست کی بالادستی مگر سول اداروں کے بل پر ہوتی ہے ۔ اخلاقی عظمت نہیں تو کم از کم اخلاقی ساکھ کے ساتھ ۔ وہ سول ادارے کہاں ہیں ؟ وہ ساکھ کہاں ہے ؟ کیا دنیامیں کوئی دوسرا وزیرِ اعظم ، دوسرا اپوزیشن لیڈر بھی پایا جاتاہے ، جن کی دولت کا بڑا حصہ ملک سے باہر ہو؟ کوئی اور قوم بھی یہ گوارا کرتی ہے ؟ کیا یہ مطالبہ بھی ان سے نہیں کیا جا سکتا کہ جو ہوا سو ہوا۔ کم از کم اب تو اپنا سرمایہ وہ وطن واپس لے آئیں ۔ اگر وہی ایسا نہ کریں گے تو کون کاروباری کرے گا ؟ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں ۔ دل اندھے ہو جاتے ہیں ۔ بالکل سامنے کی حقیقت آدمی کو دکھائی نہیں دیتی ۔
جی ہاں ، جمہوریت ہی واحد نظام ہے ۔ فوجی اقتدار تو ایسا ہے جیسے انجینئر سے ڈاکٹر کا اور ڈاکٹر سے انجینئر کا کام لینے کی کوشش کی جائے ۔ یہ مگر کیسے ہو سکتاہے کہ ایک ملک کے حکمران کاروبارِ سیاست سے زیادہ زرگری میں مصروف ہوں ۔ آدمی کی ترجیحات ہوتی ہیں ۔ اوّل ، دوم اور سوم ۔ زرگری ہی اگر ترجیحِ اول ہے تو ملک کے ساتھ وہ انصاف کیسے کر سکتے ہیں۔ یہی اگر شعار ہے تو ہر تھانے داراور ڈی سی او کو کاروبار کی اجازت کیوں نہ دے دی جائے؟
اعلانات او روعدے اپنی جگہ ۔ قرائن یہ ہیں کہ کوئی تحقیق نہیں ہوگی ۔ کسی کو سزا نہیں ہو گی ۔ الّا یہ کہ کوئی چارئہ کار نہ رہے۔ ایک وفاقی وزیر کو یہ جرأت کیسے ہو سکتی ہے کہ دفاعی موضوعات پر حسّاس تفصیلات اخبار میں چھپوائے۔ پورے اہتمام سے وہ اخبار چھاپے اور معصومیت کا علم لہراتا رہے ۔ مملکت کا راز اگر راز نہیں تو اس کا دفاع بھی کوئی نہیں ۔ جس ملک کا کوئی دفاع نہیں ، وہ باقی کیسے رہے گا ؟
اختلافات ہوتے ہیں اور گاہے بغض و عناد بھی ۔ ایک حد تک ہر معاشرے میں ۔ ایک حد تک انہیں گوارا بھی کیا جا تا ہے مگر اس وقت ، جب اس کے وجود کو خطرات لاحق ہوں ؟أَلَیْسَ مِنکُمْ رَجُل رَّشِید۔ کیا تم میں سے کوئی ایک بھی ہوش مند نہیں۔
شاعر نے کہا تھا: جس قبیلے کے سارے لوگ بہادر ہو جائیں ، کوئی چیز اسے تباہی سے نہیں بچا سکتی ۔ اے دلاورانِ عصر، اے دلاورانِ عصر!
پس تحریر: چودھری نثار علی خان نے مکمل تحقیقات کا وعدہ کیا ہے۔ ان پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ سچی تحقیقات اگر انہوں نے کی اور یہی کرتے رہے تو کب تک ان کی وزارت باقی رہے گی؟
تبصرہ لکھیے