انگریزی اخبار کے صحافی کا قصہ ختم ہونے میں نہیں آرہا حالانکہ مسئلہ یہ صحافی نہیں ہے، کوئی اور ہے۔ ہوا یوں کہ ن لیگ کے رکن قومی اسمبلی نے اخبار نویس کو بتایا کہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے اجلاس میں یوں اور یوں کہاگیا۔ اس اخبار نویس کا تعلق اس طبقہ سے ہے جو دو قومی نظریہ کا بدترین مخالف ہے، جو پاکستان اور بھارت کو دوبارہ ایک دیکھنا چاہتا ہے، جو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی شخصیت اور خیالات کے بجائے گاندھی کی شخصیت اور خیالات پر سر دھنتا ہے۔ رکن اسمبلی نے جو بتایا، اس پر ایسے اخبار نویس کا مارے خوشی اور جوش کے اچھلنا بنتا تھا کیونکہ اس کے بیانیہ اور بھارت کے بیانیہ میں کوئی رتی برابر فرق نہیں۔
اخبار کی اس بات کو تسلیم کیاجاناچاہیے کہ اس نے خبر کو کئی چھلنیوں سے گزارنے کے بعد شائع کیا، تاہم اخبار نویس کا خبر میں کہنا ہے کہ حکومتی ذمہ داران سے اس خبر کی تصدیق کا پوچھا گیا تو اس کی تردید کی گئی۔ ضابطہ یہ ہے کہ اگر ایک بات ہوئی ہو لیکن حکومت اس کی تردید کر دے تب وہ بات خبر نہیں بن سکتی، شائع نہیں ہوسکتی۔ اخبارنویس مارے خوشی اور فرط جذبات کے یہ ضابطہ یاد رکھ نہ سکا یا پھر خاطر میں نہیں لایا۔ وہ یہ بھی ادراک نہ کرسکا کہ وہ کسی کے ہاتھوںاستعمال ہو رہا ہے۔ اسے اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ بعض لوگ کسی کو استعمال کرتے ہیں اور پھر اس کی آڑ میں چھپ جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ اخبارنویس سزا پائے، ممکن ہے کہ معاملہ تنبیہ پر ہی ختم ہوجائے۔
ایک بار پھر عرض ہے کہ مسئلہ انگریزی اخبار یا اس کا صحافی نہیں، مسئلہ وہ لوگ ہیں جو آج بھی اور اس صورتحال میں بھی بھارت کی مانتے ہیں، بھارت کہتا ہے کہ حافظ سعید دہشت گرد ہے لیکن پاکستانی عدلیہ کہتی ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں ہے۔ یہ بھارت نوازی کا جذبہ اتنا غالب ہے کہ بھارتی حکمرانوں کی ہر بات مانی جاتی ہے چاہے وہ نریندر مودی جیسا مسلمان اور پاکستان دشمن ہی کیوں نہ ہو۔ انھی میں سے ایک نے یہ خبر (جھوٹی ہے یا سچی) اخبار نویس کو دی، ہو سکتا ہے کہ اس سے پہلے نئی دہلی تک بھی پہنچا دی ہو۔ نہ جانے مزید کیا کیا خبریں وہاں نہ پہنچاتے ہوں گے۔ اصل مسئلہ یہ لوگ ہیں، ان کے ہوتے ہوئے قومی سلامتی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
حسن ظن سے کام لیا جائے تو وزیراعظم نوازشریف کو قومی سلامتی اسی طرح عزیز ہے جس طرح کسی دوسرے اور تیسرے محب وطن پاکستانی کو۔ حسن ظن یہ ہے کہ انھیں پاکستانی مفادات عزیز ہیں، بھارت کے نہیں۔ حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ پاکستان میں ہر شعبہ زندگی سے بھارت نوازوں کو نکالنے کا کام شروع کریں اور پھر اسے پوری ذمہ داری سے منطقی انجام تک پہچائیں۔ میری خواہش ہے کہ یہ کارنامہ میاں نوازشریف ہی سرانجام دیں۔ بصورت دیگر پاکستانی قوم کو قومی سلامتی سے زیادہ کچھ بھی عزیز نہیں، میاں نوازشریف، عمران خان اور آصف زرداری، کوئی بھی نہیں۔
(عبیداللہ عابد سینئر صحافی اور روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہیں)
تبصرہ لکھیے