ہوم << حسن رضا چنگیزی اور انعام رانا صاحب کے نام - امتیاز خان

حسن رضا چنگیزی اور انعام رانا صاحب کے نام - امتیاز خان

مجھے میرا کوئٹہ واپس چاہیے کے عنوان سے حسن رضا چنگیزی صاحب کا مضمون دلیل پر دیکھا، محترم انعام رانا صاحب نے بھی اس کو اپنی فیس بک وال پر دردمندانہ اپیل کے ساتھ شیئر کیا ہوا تھا. پہلے تو چنگیزی صاحب کی ہمت و حوصلے کی داد دینی چاہیے کہ انھوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر سچ لکھا اور یہ نہیں دیکھا کہ اس کی زد میں ان کا اپنا فرقہ، قبیلہ اور برادری آ رہی ہے.
یہ وہ مسئلہ ہے جس کا حل ہر دردمند انسان کو چاہیے لیکن مؤدبانہ گزارش یہ ہے کہ وجوہات ختم کیے بغیر مسئلے کو سلایا تو جاسکتا ہے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ کیا بے ہوشی کا انجیکشن کسی مرض کی دوا ہوسکتا ہے؟
چنگیزی صاحب اور انعام رانا صاحب کو اپنا کوئٹہ اور لاہور واپس چاہیے جہاں عاشور ہوتا تھا لیکن خوف کے سائے سے پاک، محبتوں سے لبریز اور الفتوں سے معمور۔
بجا!۔ ہم سب کو بھی وہی پاکستان چاہیے جہاں کشت و خون کے بغیر ہم آباد تھے تو ہم اسے پانے کے لیے تھوڑا پیچھے کیوں نہیں چلے جاتے۔
کیا شیعہ سنی علمی و فکری جدال و اختلاف ”ضیادور کی پیداوار“ ہے؟
کیا 13 صدیوں سے شیعہ اپنی کتب میں اہل سنت اور اہل سنت اپنی کتب میں شیعہ کے خلاف فتوے نہیں دیتے چلے آرہے؟
کیا پاکستان میں 80 کی دہائی کے وسط سے پہلے شیعہ سنی کا اختلاف نہیں تھا اور یہ ایک دوسرے کو باطل نہیں ثابت کیا کرتے تھے؟
پھر یہ شیعہ سنی فسادات ابن تیمیہ کے دور میں کیوں نہ چھڑ گئے؟ تحفہ اثنا عشریہ کی تالیف کے وقت کیوں نہ ہوگئے؟ باگڑ سرگانہ خانیوال میں تین دن تین راتیں شیعہ اور سنی ایک ہی میدان میں بیٹھے ابطال شیعیت و سنیت کے دلائل سنتے رہے تو فساد کیوں نہ پھوٹ پڑا؟ وجہ اصل میں وہ ہے ہی نہیں جس کا ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے اور جسے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
میری داڑھی 70 فیصد سفید ہو چکی ہے، میں نے اپنی زندگی میں کسی سنی عالم کی نہ کتاب میں پڑھا ہے نہ خطبے میں سنا ہے اور نہ مدرسے میں گذرے 33 سالوں میں کسی کو یہ پڑھتے پڑھاتے سنا ہے کہ شیعہ عاشور کے جلوس نکالتے ہیں، اس لیے انہیں مارو، یا شیعہ ماتم کرتے ہیں اس لیے واجب القتل ہیں، یا شیعہ ائمہ کو معصوم مانتے ہیں اس لیے ان کا خون حلال ہے، یا شیعہ ولایت علی کے قائل ہیں اس لیے انہیں مار ڈالو، یا شیعہ کا عقیدہ توحید و عقیدہ رسالت ہم سے مختلف ہے اس لیے انھیں مٹادو، یا شیعہ ذوالجناح کو سجدہ کرتے ہیں اس سے مرادیں مانگتے ہیں اس لیے انھیں قتل کردو۔ مولانا عبدالشکور لکھنوی سے لے کر مولانا عبدالستار تونسوی تک کسی ایک کی ایسی کوئی تقریر و تحریر ملے تو دکھائیے۔
میں نے اپنی حیات مستعار میں یا ماضی کے جھرونکوں میں جب بھی اہل سنت کو شیعہ کے خلاف نکلتے، بولتے، شدت میں آتے اور آپے سے باہر ہوتے دیکھا ہے، صرف ایک مسئلے پر دیکھا ہے، صرف ایک، اور وہ ہے؛
گالی گالی اور صرف گالی۔
وہی گالی چنگیزی صاحب نے اپنے مضمون میں جس کا ذکر کیا ہے. جب بھی کوئی مسئلہ ہوا، اسی وجہ سے ہوا۔ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند اگر احتجاجا لکھنؤ کی طرف چل پڑا تو اسی گالی کے ردعمل میں اور پاکستان میں جو کچھ ہوا، کرنے والوں کے اپنے بیان شاہد ہیں کہ انہیں چڑ کسی کے وجود سے نہیں، گالی سے ہے۔ مرنے مارنے پر اکسانے والوں نے اسی گالی کو بنیاد بنایا نہ کہ کسی کے عقیدے یا عمل کو.
کیا وجہ ہے کہ سیدنا مولا علی و سیدنا امام حسین کا مقدمہ سنی لڑتا ہے۔ اپنوں سے بھی اور غیروں سے بھی۔ مضبوط دلیل کی بناء پر لڑتا ہے اور مسکت انداز میں لڑتا ہے اور جب ادھر دیکھتا ہے کہ گالیاں ہی گالیاں، جیسے انھیں عبادت کا درجہ حاصل ہو گیا ہے، تو برداشت ضرور جواب دیتی ہے۔
دست بستہ درخواست ہے کہ ”گالی“ بند کروائیے۔ میں اس کوئٹہ اور پاکستان کی واپسی کےلیے آپ کے ساتھ مل کر جدوجہد کروں گا۔ میں اور آپ قتل و مقاتلے کے قائل نہیں ہیں، ہم بھی دلیل کے ساتھ مکالمہ چاہتے ہیں، مگر جس بنیاد پر عام و خاص کو اکسایا جاتا ہے، وہ وجہ ختم کروانے کے لیے سب دوست مل کر کام کیجیے، سوشل میڈیا پر، اپنی ویب سائٹس کے ذریعے، اپنی محافل اور حلقہ احباب میں توجہ دلائیے. یاد رکھیے کہ یہ مسئلہ روتے رلاتے افسانے لکھنے، مذمتی قراردادیں پاس کرنے سے نہیں، اسباب مٹانے سے حل ہوگا۔

Comments

Click here to post a comment