اسلامی تاریخ کا اگر مطالعہ کیا جائے تو شاید ہی کوئی دن ہوگا جس میں اسلام کے لیے قربانی پیش نہ کی گئی ہو، چنانچہ اسلامی سال کے پہلے دن یکم محرم الحرام کو مراد رسول، تاجدار عدل و انصاف سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ کی شہادت ہوتی ہے جبکہ دس محرم کو نواسہ رسول، جگر گوشہ بتول سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اپنے خاندان سمیت جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ شہدائے اسلام کی ہر شخصیت اور تاریخ اسلام کے ہر ورق سے ہمیں شہادت کا درس ملتا ہے۔
شہادت کیا ہے؟
”شہادت“ اللہ کی راہ میں اپنی جان فدا و قربان کر دینے کا نام ہے۔ اللہ کی طرف سے انعام یافتہ لوگوں میں پہلا طبقہ انبیائے کرام، دوسرا صدیقین جبکہ تیسرا طبقہ شہدائے کرام کا ہے. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہادت کی تمنا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا جی چاہتا ہے کہ اللہ کی راہ میں شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیاجاؤں۔
شہید کیوں کہا جاتا ہے؟
اس لیے کہ شہید ”مشہود لہ بالجنہ“ ہے، اس کے لیے جنت کی بشارت دی گئی ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھے سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے تین لوگ بتاۓ گئے، شہید، حرام سے بچنے والا اور ایسا شخص جو اچھی طرح اللہ کی عبادت کرے اور اپنے آقا کے حقوق بھی ادا کرے۔ (ترمذی)
نیز شہید بوقت شہادت اللہ کی طرف سے مغفرت اور جنت میں اپنے مقام کا مشاہدہ کرتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہید کو چھ انعامات دیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ بوقت شہادت اسے جنت میں اپنا مقام دکھایا جاتا ہے. (ترمذی )
یہی وجہ ہے کہ اسے دنیوی زندگی کے خاتمہ کا احساس تک نہیں ہوتا
شہید کی وجہ تسمیہ ایک اور بھی ہو سکتی ہے کہ وہ توحید و رسالت کی شہادت اپنے عمل سے دیتا ہے. یہی وجہ ہے کہ اسلام میں شہادت ایک عظیم عمل ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے شہید کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں، سواۓ قرض کے۔ (ترمذی)
حیات جاودانی اور تمنائے شہادت
جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں، بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ مرگئے ہیں اور ان کی زندگی کا خاتمہ ہوگیا لیکن درحقیقت انہیں ہمیشہ کی زندگی دے دی گئی۔
چنانچہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کیے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں لیکن تم نہیں جانتے۔ (سورہ بقرہ۔ ١٥٤)
ایک دوسرے مقام پر فرمایا کہ جو اللہ کے راستہ میں قتل کیے جائیں انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھو بلکہ وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں جنہیں رزق دیا جاتا ہے (سورہ آل عمران ١٦٩)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شہیدوں کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں ہیں اور جنت میں جہاں چاہیں جاتی ہیں اور پھر ان قندیلوں میں آجاتی ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں. ان کے رب نے ان سے پوچھا کہ اب تم کیا چاہتے ہو؟ تو کہنے لگے کہ ہمیں دنیا میں دوبارہ بھیج تاکہ ہم پھر شہید ہو کر تیرے پاس آئیں، اللہ جل شانہ نے فرمایا کہ یہ نہیں ہو سکتا کیونکہ میں نے لکھ دیا ہے کہ موت کے بعد کوئی بھی دنیا کی طرف نہیں بھیجا جائے گا. (مسلم)
یعنی شہداء کی روحیں جنت میں ہوتی ہیں جبکہ شہداء کے جسموں کے ساتھ ان کا گہرا تعلق ہوتا ہے، جس کی بناء پر اللہ کی طرف سے شہداء کو خاص زندگی عطاء کی جاتی ہے۔
فنا فی اللہ کی تہہ میں بقا کا راز مضمر ہے
جسے مرنا نہیں آتا اسے جینا نہیں آتا
شہداء کا پیغام
شہید اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے ہمیں کیا پیغام دیتے ہیں؟
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ایک شہید کا ذکر فرمایا جسے انبیائے کرام کی تائید کرنے کی وجہ سے شہید کیا گیا، پھر اس کے پیغام کو بیان فرمایا جو اس نے اپنی قوم کو دیا، شہید کو کہاگیا کہ جنت میں داخل ہوجا، تو کہنے لگا کہ کاش میری قوم کو علم ہوجائے جو میرے رب نے میری بخشش کی اور مجھے عزت والوں سے کردیا. (سورہ یس آیت ٢٦ـ٢٧)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ صحابہ سے فرمایا کہ جب تمہارے بھائی احد کے دن شہید کیے گئے تو اللہ جل شانہ نے ان کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں ڈال دیں جو جنتی پھل کھائیں، جنتی نہروں کا پانی پئیں اور عرش کے نیچے لٹکتی قندیلوں میں آرام کریں۔ جب کھانے پینے اور رہنے سہنے کی یہ بہترین نعمتیں انہیں ملیں تو کہنے لگے کاش ہمارے بھائیوں کو بھی ان نعمتوں کی خبر مل جائے تاکہ وہ جہاد سے منہ نہ پھیریں اور اللہ کی راہ میں جہاد سے تھک کر نہ بیٹھ جائیں. (مستدرک حاکم)
خلاصہ یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کے ہاں شہداء کا بہت بڑا مقام ہے، انہیں حیات جاودانی حاصل ہے اور وہ ہمیں یہ پیغام دے رہے ہیں کہ تم بھی ہماری راہ پر چلتے ہوئے اس مقام و اعزاز کے حقدار بن جاؤ۔
شہداء نے پکارا ہے جنت کے بالاخانوں سے
ہم راہ وفا میں کٹ آئے، تمہیں پیار اپنی جانوں سے
تبصرہ لکھیے