امام ابوداؤد الطیالسی ؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ اپنی اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں؛
[pullquote]قال حذيفۃ: قال رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم: تكون النبوۃ فيكم ما شاء اللہ أن تكون، ثم يرفعھا إذا شاء أن يرفعھا، ثم تكون خلافۃ على منھاج النبوۃ، فتكون ماشاء اللہ أن تكون، ثم يرفعھا إذا شاء اللہ أن يرفعھا، ثم تكون ملكا عاضا، فيكون ما شاء اللہ أن يكون، ثم يرفعھا إذا شاء أن يرفعھا، ثم تكون ملكا جبريۃ، فتكون ما شاء اللہ أن تكون، ثم يرفعھا إذا شاء أن يرفعھا، ثم تكون خلافہ على منھاج النبوۃ ثم سكت[/pullquote]
حضرت حذیفہ ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تمہارے درمیان، نبوت موجود رہے گی جب تک اللہ چاہےگا پھر اللہ نبوت کو اٹھا لے گا، اس کے بعد نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ خلافت کو بھی اٹھا لے گا اس کے بعد کاٹ کھانے والی بادشاہت قائم ہوگی اور اس وقت تک قائم رہے گی جب تک اللہ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اس دنیا سے اٹھا لے گا اس کے بعد زور زبردستی والی بادشاہت قائم ہوگی اور وہ اس وقت تک باقی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس بادشاہت کو بھی اٹھا لے گا، اس کے بعد پھر نبوت کے طریقہ پر خلافت قائم ہوگی ۔ اتنا فرما کر آپ خاموش ہوگئے۔
خلافت علی منہاج النبوت کے ادوار کے بارے میں اس معروف حدیث کی سند پر بعض اہل علم نے کچھ اعتراضات کیے ہیں۔ جن کا مدار ایک راوی داؤد بن ابراہیم الواسطی کی شناخت اور اس کی توثیق ہونے پر ہے؛ پہلا مقدمہ یہ ہے کہ داؤد بن ابراہیم الواسطی دراصل ایک اور راوی قاضی قزوین داؤد بن ابراہیم العقیلی کا ہی نام ہے جس کو عام طور سے ضعیف و متروک کہا گیا ہے۔ کتب رجال کے تتبع سے اس مقدمہ کا غلط ہونا واضح ہے؛ دراصل التباس کی وجہ یہ ہے کہ داؤد بن ابراہیم نام کے بعض رواۃ میں کچھ مشابہت ہے۔ پہلے ہم متعلقہ رواۃ کے بنیادی کوائف بیان کرتے ہیں تاکہ سمجھنے میں آسانی رہے؛
- داؤد بن ابراہیم الواسطی جو حبیب بن سالم سے روایت کرتے ہیں اور جن سے ابوداؤد الطیالسی روایت کرتے ہیں (تاریخ الکبیر ٨٠٤ ، الجرح و التعدیل ١٨٦٥) خلافت و ملوکیت کے ادوار والی حدیث بھی اسی سند سے ہے۔
- داؤد بن ابراہیم قاضی قزوین جو شعبہ سے روایت کرتے ہیں اور جن سے محمد بن ایوب وغیرہ روایت کرتے ہیں (الجرح و التعدیل ١٨٦٦)
التباس کی وجوہ یہ ہیں؛
خود تمام الرازی ؒ(الفوائد، رقم ٢٥٣) کی اور انہی کے حوالے سے حافظ ابن عساکر ؒ کی تاریخ دمشق (جلد ٥٥، ص ٦٠) کی ایک روایت میں آیا ہے”داؤد بن إبراھیم العقیلی قاضی قزوین۔“ امام سخاوی ؒ کی ”التحفۃ اللطیفۃ فی تاریخ المدینۃ“ میں بھی ایک سند میں اسی طرح آیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قاضی قزوین داؤد بن ابراہیم العقیلی تھے۔ اور العقیلی اور الواسطی میں التباس کی وجہ یہ ہے کہ ابن الجوزیؒ کی کتاب ”الضعفاء والمتروکون“ میں ”داؤد بن إبراھيم العقیلی الواسطی“ درج ہے اور ساتھ ہی منقول ہے کہ ”یروی عن خالد بن عبد اللہ قال الازدی مجھول کذاب“ (جلد١، ص٢٥٩)۔ اس کی تائید ابو القاسم الرافعیؒ کی ”التدوین فی أخبار قزوین“ سے بھی ہوتی ہیں جس میں لکھا ہے؛ ”داؤد بْن إبراھیم العقیلی أبوسلیمان الواسطی كان قاضیا بقزوین۔“ (تھذیب الکمال میں بھی ایک جگہ ایسے ہی ہے، گو خود ابن الجوزیؒ نے قاضی قزوین کو علیحدہ راوی شمار کیا ہے) یعنی داؤد بن ابراہیم جو قاضی قزوین تھے اور جن پر سخت جرح ہوئی وہ العقیلی بھی تھے اور الواسطی بھی۔
لیکن بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ درحقیقت التباس کی اصل وجہ یہ ہے حافظ ابن الجوزیؒ کی کتاب میں مذکورہ بیان سے اگلا صفحہ نہیں دیکھا گیا جہاں ”داؤد بن ابراہیم الواسطی“ سمیت داؤد بن ابراہیم نام کے ٤ دیگر رواۃ کے نام ذکر کرنے کے بعد امام ابن الجوزیؒ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ”و لایعلم انہ طعن فی أحد منھم“ یعنی ان میں سے کسی پر بھی جرح و طعن معلوم نہیں۔ (جلد١، ص٢٦٠) چنانچہ معلوم ہوا کہ اگرچہ قاضی قزوین العقیلی بھی الواسطی تھے لیکن اس نام سے معروف نہ تھے اور داؤد بن ابراہیم الواسطی نام کے ایک اور صاحب بھی تھے جن پر کوئی جرح نہیں ہوئی۔
تمام الرازی ؒ اور ابن عساکر ؒ کی اسناد میں داؤد بن ابراہیم سے روایت کرنے والے محمد بن ایوب ہیں اور داؤد بن ابراہیم خود خالد بن عبدللہ سے روایت کر رہے ہیں۔ چانچہ ابن ابی حاتم اور ابن الجوزی کے بیانات کو تمام الرازی اور ابن عساکر کی روایت کی اسناد کے ساتھ رکھ کر دیکھنے سے معلوم ہوا ہے کہ متروک اور متھم بالکذب قاضی قزوین داؤد بن ابراہیم العقیلی الواسطی الگ ہیں اور غیر مطعن فیہ داؤد بن ابراہیم الواسطی الگ۔ یوں امام ابن الجوزی جن کی عبارت پر ہی یہ مقدمہ کھڑا تھا انھی کے ہاں اشکال کے رفع کا سامان بھی مل گیا۔
امام ابن الجوزی کے مندرجہ بالا بیانات سے ناقدین کے وہ تمام حوالہ جات بھی غیر متعلق ہو گئے جن میں ”داؤد بن إبراھیم الواسطی عن شعبہ“ کی اسناد کو قاضی قزوین اور زیر بحث روایت کے راوی کا ایک ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش گیا تھا (ابن ابی حاتم نے مجروح راوی کو امام شعبہ سے روایت کرنے والا لکھا ہے) کیونکہ امام موصوف کے بیان سے معلوم ہوا ہے کہ دونوں کو ”الواسطی“ تو کہا گیا ہے لیکن دونوں ہیں مختلف۔ چنانچہ ”حلیہ الاولیاء“ کی ایسی ہی ایک سند پر تبصرہ کرتے ہوے شیخ الالبانی کے شاگرد ابو اسحاق الحوینی لکھتے ہیں؛ ”وداؤد ھذا، لیس الذی وثقہ الطیالسی، بل ھو داؤد بن إبراھیم، قاضی قزوین“ (یہ داؤد وہ نہیں جس کی توثیق الطیالسی نے کی ہے، بلکہ داؤد بن ابراہیم قاضی قزوین ہے)۔ دیکھیے ”اسعاف اللبیب بفتاوی الحدیث“ ص ٢١٥۔
اسی لیے ابن ابی حاتم، اور ابن الجوزی کی طرح علم نقد رجال کے جہابذہ، الذھبی ؒ (میزان الاعتدال، و المغنی) اور ابن حجر العسقلانی ؒ (لسان المیزان) نے مذکورہ بالا راویوں میں تفریق کی ہے۔
روایت پر دوسرا اعتراض راوی داؤد بن ابراہیم الواسطی کی توثیق کے حوالے سے ہے کہ اس کی توثیق صرف امام ابو داؤد الطیالسی ؒ نے کی ہے۔ امام بخاری ؒ اور امام ابی حاتم ؒ نے راوی مذکور کی نہ توثیق کی ہے اور نہ ہی اس پر جرح۔ اور امام الطیالسی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ روایتِ حدیث میں تو امام ہیں جرح و تعدیل کے میدان میں نہیں۔
اول تو خود امام ابو داؤد الطیالسی کی جانب سے کی گئی توثیق ہی کافی ہے۔ امام الطیالسی نہ صرف راوی مذکور کے ہم عصر ہیں بلکہ خود بھی اس سے روایت کرتے ہیں لہذا ان کی توثیق بعد کے لوگوں کے اقوال سے زیادہ وزن رکھتی ہے، خصوصاً جب ان میں سے کسی نے جرح بھی نہ کی ہو۔ چناچہ متاخر محققین جیسے الذھبی اور ابن حجر العسقلانی نے داؤد بن ابراہیم الواسطی کے حق میں امام الطیالسی کی توثیق کو بلا نقد و تبصرہ نقل کیا ہے جو قبولیت کی دلیل ہے۔ مزید یہ کہ امام الذھبی اور امام سخاوی نے تو امام ابو داؤد الطیالسی کا نام با قاعدہ معتمد ناقدین رجالِ حدیث میں شمار کیا ہے۔ دیکھیے امام الذھبی کا رسالہ ”ذکر من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل“ اور امام سخاوی کا رسالہ ”المتکلمون فی الرجال“ مشمولہ ”أربع رسائل فی علوم الحدیث“ ص ١٠٢، ١٨٠۔
عام قاعدہ اور مسلّمہ اصول ہونے کا تو دعوی تو نہیں لیکن قابلِ ذکر ہے کہ بعض اہلِ علم نے امام بخاری اور امام ابوحاتم کے سکوت اور عدم جرح کو توثیق و تعدیل پر محمول کیا ہے۔ دیکھیے مولانا ظفر احمد عثمانی کی تصنیف ”قواعد فی علوم الحدیث“ ص ٢٢٣، ٣٥٨-٣٥٩ ، ٤٠٣-٤٠٤۔
نتیجہ بحث:
خلافت و ملوکیت کے ادوار سے متعلق حضرت حذیفہ ؓ کی روایت کی سند پر کیے جانے والے اعتراضات درست نہیں۔ اور روایت کی سند قوی ہے جیسے کہ حافظ العراقی ؒ، شیخ الالبانی ؒ، شیخ شعیب الارناؤط، شیخ احمد حمزہ الزین، اور ڈاکٹر محمد بن عبدالمحسن الترکی وغیرہ نے اس کی تصحیح و تحسین کی ہے۔
تبصرہ لکھیے