ہماری کالونی نہر کے کنارے واقع ہے اور نہر کے دونوں جانب تین لین کی ایکسپریس وے گزرتی ہے۔ عید کے دوسرے دن ایک شخص اپنی فیملی کے ساتھ گاڑی میں جا رہا تھا بجائے ون وے فالو کرنے کے اور تھوڑی دور سےیو ٹرن لے کر درست سمت میں جانے کے اس نے ون وے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گاڑی غلط رخ پر ڈال دی کہ چلو خیر ہے شارٹ کٹ مار لیتے ہیں۔
ہوا یہ کہ مخالف سمت سے ایک دوسری تیز رفتار گاڑی جو کہ اپنی درست سمت میں آرہی تھی ، اس گاڑی کے ساتھ ٹکرا گئی نتیجتاً دونوں گاڑیاں تباہ ہوگئیں اور دو لوگوں کی جان بھی گئی۔ اک ذرا سی لاپرواہی ایک لمحے میں کتنے لوگوں کی زندگی کا رخ ہی بدل گئی۔ کوئی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور کوئی زخمی ہو کر ہسپتال جا پہنچا اور عمر بھر کے لیے معذور ہو گیا۔
اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم سب ہر وقت شارٹ کٹ کے چکر میں پڑے رہتے ہیں۔ صبر نام کی کوئی چیز ہماری زندگی میں نہیں پائی جاتی اور نہ ہی اس کی تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ یہ صرف سڑک پر چلنے والی ٹریفک کا ہی مسئلہ نہیں زندگی کے ہر شعبے میں دیکھیں تو یہی بے صبری نظر آتی ہے۔ نا ہم اشارےکی پابندی مانتے ہیں نا ون وے کی،نا ہی قطار میں کھڑے ہونا پسند کرتے ہیں اور ہر جگہ کوشش یہ کرتے ہیں کہ دوسروں کو پھلانگ کر ہم آگے نکل جائیں۔ اپنے اس غیرمناسب طرز عمل پر کسی قسم کی شرمندگی کی بجائے سمجھانے والے سے الجھنے لگتے ہیں۔
آخر ہم کیوں یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے دین میں صبر اور برداشت کی کتنی اہمیت اور تاکید کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں حضور اکرم صل اللہ علیہ و سلم کو بار بار ارشاد فرمایا گیا کہ اے نبی آپ لوگوں کو اللہ کے دین کی طرف بلاتے رہیے اور صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیے۔ اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا گیا کہ اللہ تعالٰی سے مدد مانگو صبر اور نماز کے ساتھ۔ بے صبری اور جلد بازی کو دین میں پسند نہیں کیا گیا۔
دنیاوی لحاظ سے جن لوگوں کو ہم کامیاب سمجھتے ہیں ان کی زندگیوں کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی اس مقام پر ایک دن میں نہیں پہنچ گئے ان کے ساتھ بھی صبر اور مسلسل جدوجہد کی ایک داستان ہوتی ہے جو عام لوگوں کو نظر نہیں آتی۔ آخرت میں اللہ تعالٰی نے مومنوں کےساتھ جنت کا وعدہ کیا ہے لیکن وہ بھی صبر کرنے والوں کو ملے گی۔
یاد رکھیے کامیابی حاصل کرنے کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا۔ اس لئے دنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب ہونے کے لئے صبر کے ساتھ سیدھے راستے پر چلنا ہو گا کہ شارٹ کٹ کا انجام بالآخر تباہی و بربادی ہے کامیابی نہیں۔
تبصرہ لکھیے