ہوم << خروج کے متعلق حنفی مذہب؛ علامہ شامی کی تحقیق - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

خروج کے متعلق حنفی مذہب؛ علامہ شامی کی تحقیق - ڈاکٹر محمد مشتاق احمد

محمد مشتاق ظالم حکمران کے خلاف اٹھنے کے فریضے کے متعلق امام ابوحنیفہ کے موقف پر کافی تفصیلی بحث پہلے ہی کی جاچکی ہے۔ اس موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ ظالم حکمران کو ظلم سے روکنا واجب ہے اور اس کے لیے خروج کی راہ بھی اختیار کی جاسکتی ہے لیکن چونکہ اس راہ میں بڑی خونریزی کا امکان ہوتا ہے، اس لیے خروج سے پہلے اس کی کامیابی کے امکانات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ نیز اس بات کا بھی اطمینان کرنا ضروری ہے کہ ظالم حکمران کے خلاف نکلنے والے ایک متبادل صالح قیادت لا رہے ہیں کیونکہ یہ بھی اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں کسی بڑے شر کی راہ ہموار نہ ہوجائے۔ اگر خروج میں زیادہ خونریزی ہو رہی ہو اور حکمران کے ہٹانے کا کام ممکن نظر نہ آتا ہو یا متبادل صالح قیادت میسر نہ ہو تو پھر خروج سے باز رہنا چاہیے کیونکہ اس طرح خروج کرنے والے نہ صرف خود کو ہلاکت میں ڈالتے ہیں بلکہ دوسرے صالحین کے حوصلے پست کرنے کا بھی باعث بنتے ہیں۔ چنانچہ جب تک خروج کے لیے مناسب موقع نہ ملے ضروری ہے کہ حکمران کے ناجائز کاموں اور غلط فیصلوں پر تنقید جاری رکھی جائے، اس کے ناجائز احکام ماننے سے انکار کیا جائے، اس کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش کی جائے اور جہاں تک ہو سکے شریعت کی بالادستی یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔
اس کے بعد اس موضوع پر بھی تفصیلی بحث کی گئی کہ حنفی مذہب اور امام ابوحنیفہ کے مؤقف میں کوئی فرق نہیں ہے۔ کل ایک مختصر پوسٹ اس موضوع پر کی کہ ہر وہ شخص باغی نہیں ہوتا جو حکومت کے خلاف اٹھے بلکہ بعض اوقات حکمران ہی شرعاً باغی کہلاتے ہیں۔ چند اصحابِ علم کو یہ بات انوکھی لگی۔ اس لیے ضروری محسوس ہوا کہ خروج اور بغی کی یہ بحث تکمیل تک پہنچائی جائے۔ اس مقصد سے یہاں علامہ ابن عابدین شامی کی تحقیق پیش کی جا رہی ہے تاکہ معلوم ہو کہ بالکل آخری دور میں بھی حنفی فقہائے کرام نے خروج کے متعلق امام ابوحنیفہ کے موقف ہی کی اتباع کی ہے۔ و باللہ التوفیق ۔
پہلے تو یہ یاد دہانی کرادوں کہ علامہ شامی کی کتاب دراصل حاشیہ ہے۔ اصل متن ”تنویر الابصار“ علامہ تمرتاشی کا ہے؛ اس کی شرح ”الدر المختار“ علامہ حصکفی نے لکھی؛ اور پھر اس شرح پر حاشیہ ”ردالمحتار“ علامہ شامی نے لکھا۔ کتاب سے بہتر طور پر مستفید ہونے کے لیے یہ مدارج یاد رکھنے ضروری ہیں۔
پہلا سوال: ”امام ِبرحق“ کون ہے اور ”باغی“ کون ہیں؟
علامہ تمرتاشی نے بغاۃ (جمع باغی) کی تعریف ان الفاظ میں پیش کی ہے :
[pullquote]ھم الخارجون عن الامام الحق بغیر الحق[/pullquote] (یہ وہ لوگ ہیں جو امامِ برحق کی اطاعت سے بغیر شرعی جواز کے نکل جائیں)۔
علامہ حصکفی نے شرح میں اس پر اضافہ کیا ہے :
[pullquote]فلو بحق، فلیسوا ببغاۃ ؛ و تمامہ فی جامع الفصولین [/pullquote] (پس اگر وہ شرعی جواز رکھتے ہوں تو وہ باغی نہیں ہیں؛ اور اس کی پوری بحث ”جامع الفصولین“ میں ہے)۔
علامہ شامی نے ایک حاشیہ ”الامام الحق“ پر قائم کیا ہے اور اس کی وضاحت میں لکھا ہے:
[pullquote]الظاھر ان المراد بہ : ما یعم بہ المتغلب لانہ بعد استقرار سلطنتہ و نفوذ قھرہ لا یجوز الخروج علیہ کما صرحوا بہ[/pullquote] (اس سے بظاہر عموم مراد ہے جس میں متغلب بھی شامل ہے کیونکہ جب اس کی سلطنت قرار پائے اور اس کا غلبہ نافذ ہوجائے تو اس کے خلاف نکلنا جائز نہیں رہتا، جیسا کہ فقہاء نے صراحت کی ہے)۔
یہ وہی مؤقف ہے جسے دوسو بنام ریاست مقدمے میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے اپنایا تھا کہ انقلاب غیر دستوری تھا لیکن جب اس نے استقرار پالیا اور غلبہ بظاہر مستقل ہوا تو وہ جائز حکومت کی طرح ہوگیا۔ اس مؤقف کی بنیاد ”سد ذریعہ“ کے تصور پر ہے کہ اگر اس حکومت کے خلاف لوگ اب اٹھیں گے تو مزید خونریزی اور فساد متوقع ہے۔ اس کی تائید اس اقتباس سے بھی ہوتی ہے جو علامہ شامی یہاں ”الدر المنتقیٰ“ سے پیش کرتے ہیں:
[pullquote]ان ھذا فی زمانھم ؛ و اما فی زماننا فالحکم للغلبۃ ؛ لان الکل یطلبون الدنیا فلا یدری العادل من الباغی۔[/pullquote] (یہ حق و ناحق کا حکم اُن کے دور میں تھا۔ ہمارے دور میں تو حکم یہ ہے کہ غالب آنے والوں کی اطاعت کی جائے کیونکہ سب دنیا کی طلب میں لگے ہوئے ہیں اور اس وجہ سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ عدل کرنے والا کون اور بغی کرنے والا کون ہے؟)
اس اقتباس کے آخر میں جو وجہ ذکر کی گئی ہے وہ اہم ہے۔ ہم پہلے ہی یہ واضح کرچکے ہیں کہ امام سرخسی اور دیگر متقدمین نے یہ اصول ذکر کیا ہے کہ اگر معلوم ہو کہ لڑنے والے گروہوں میں حق پر کون ہے تو اس کا ساتھ دینا لازم ہے لیکن اگر یہ معلوم نہ ہو پا رہا ہو کہ کون حق پر ہے؟ یا معلوم ہو کہ سبھی ناحق لڑ رہے ہیں، تو ایسی صورت میں کسی کا ساتھ دینا بھی جائز نہیں ہے۔ پس یہاں متاخرین نے فتوی تبدیل نہیں کیا بلکہ صرف یہ بتایا ہے کہ فتوی کے کس جزو پر عمل کیا جائے اور کیوں کیا جائے؟
پس یہ ضروری ہوگیا ہے کہ اصل سوال پر واپس آیا جائے کہ امامِ برحق کون ہے اور حکومت کے خلاف اٹھنے کے لیے شرعی جواز کیا ہے؟
دوسرا سوال: حکومت کے خلاف اٹھنے کے لیے شرعی جواز کیا ہے؟
علامہ شامی نے باغیوں کی تعریف کے دوسرے اہم جزو ”بغیر حق“ پر یہ حاشیہ لکھا ہے :
[pullquote]ای فی نفس الامر؛ و الا فالشرط اعتقادھم انھم علی حق بتاویل؛ و الا فھم لصوص[/pullquote] (یعنی وہ جو جواز پیش کر رہے ہوں وہ نفس الامر میں حق ہو؛ ورنہ قانونی لحاظ سے شرط صرف یہ ہے کہ حکومت کے خلاف اٹھنے والوں کے پاس ایسی تاویل ہو جس کی بنا پر وہ خود کو برحق سمجھتے ہوں؛ ایسی تاویل کی عدم موجودگی میں اگر وہ اٹھیں گے تو ان کی حیثیت چوروں کی ہے۔)
اس مقام پر علامہ شامی ”جامع الفصولین“ سے وہ اہم اقتباس نقل کرتے ہیں جس کا حوالہ اوپر علامہ حصکفی نے دیا تھا [pullquote](و تمامہ فی جامع الفصولین):
ان المسلمین اذا اجتمعوا علی امام وصاروا آمنین ، فخرج علیہ طائفۃ من المؤمنین ؛ فان فعلوا ذلک لظلم ظلمھم بہ ، فھم لیسوا من اھل البغی ؛ و علیہ ان یترک الظلم و ینصفھم ۔ و لا ینبغی للناس ان یعینوا الامام علیھم لان فیہ اعانۃً علی الظلم ؛ و لا ان یعینوا تلک الطائفۃ علی الامام ایضاً لان فیہ اعانۃً علی خروجھم علی الامام ۔[/pullquote] (جب مسلمان کسی حکمران پر متفق ہوں اور امن سے رہتے ہوں اور ایسے میں اس کے خلاف مؤمنوں کا کوئی گروہ اٹھے تو دیکھیں گے کہ اگر وہ اس وجہ سے اٹھے ہوں کہ حکمران نے ان کے خلاف کوئی ظلم کیا ہو تو اس حالت میں وہ اہلِ بغی نہیں ہیں۔ چنانچہ حکمران پر لازم ہوگا کہ ان پر ظلم ترک کردے اور ان کے ساتھ انصاف کرے۔ اس حالت میں عام لوگوں کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف حکمران کی مدد کریں کیونکہ یہ ظلم میں اس کی مدد ہوگی؛ نہ ہی ان کے لیے جائز ہوگا کہ وہ ان اٹھنے والوں کی مدد کریں کیونکہ یہ حکمران کے خلاف نکلنے میں مدد ہوگی۔)
علامہ شامی اس اقتباس کی تائید کرتے ہیں لیکن اس آخری بات کے بارے میں (کہ عام مسلمان اس گروہ کی مدد نہ کریں) قرار دیتے ہیں کہ یہ صحیح نہیں ہے۔ وہ آگے قرار دیتے ہیں کہ ان مظلوموں کی مدد لازم ہے۔ اس بات پر آگے بحث آرہی ہے ۔
تیسرا سوال: حکومت کے خلاف اٹھنے والوں کی کتنی قسمیں ہیں ؟
علامہ حصکفی فرماتے ہیں :
[pullquote]ثم الخارجون عن طاعۃ الامام ثلاثۃ: قطاع طریق و بغاۃ و خوارج[/pullquote] (حکمران کی اطاعت سے نکلنے والے تین طرح کے لوگ ہیں: رہزن، باغی اور خوارج)۔
علامہ شامی علامہ ابن الہمام کا قول نقل کرکے رہزنوں کو دو ذیلی قسموں میں تقسیم کر دیتے ہیں:
[pullquote]و ھم قسمان : احدھما الخارجون بلاتاویل بمنعۃ و بلا منعۃ ، یاخذون اموال المسلمین و و یقتلونھم و یخیفون الطریق ؛ و الثانی قوم کذلک الا نھم لا منعۃ لھم و لکن لھم تاویل[/pullquote] (ان کی دو قسمیں ہیں: ایک یہ کہ نکلنے والے تاویل نہ رکھتے ہوں ، خواہ ان کے پاس جتھا ہو یا نہ ہو؛ اور دوسری یہ کہ ایسے لوگ ہوں جن کے پاس جتھا نہ ہو لیکن تاویل ہو۔)
پس جب جتھا نہ ہو ، یا تاویل نہ ہو تو ان کو رہزن کہا جاتا ہے؛ لیکن جب دونوں ہو تو پھر ان کو باغی کہا جاتا ہے، بشرطیکہ وہ امامِ برحق کے خلاف اٹھیں :
[pullquote]اھل البغی کل فئۃ لھم منعۃ یتغلبون و یجتمعون و یقاتلون اھل العدل بتاویل[/pullquote] (اہلِ بغی ہر وہ گروہ ہے جس نے مضبوط جتھا بنایا ہو اور وہ جمع ہو کر اہلِ عدل سے جنگ کریں، تاویل کے ساتھ )۔
خوارج کون ہیں؟ علامہ حصکفی کہتے ہیں :
[pullquote]ھم قوم لھم منعۃ خرجوا علیہ بتاویل یرون انہ علی باطل کفر او معصیۃ توجب قتالہ بتاویلھم ، و یستحلون دماءنا و اموالنا ویسبون نساءنا، و یکفرون اصحاب نبینا ﷺ و حکمھم حکم البغاۃ باجماع الفقہاء[/pullquote] (یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے مضبوط جتھا بنایا ہو اور امام ِ برحق کے خلاف اٹھیں کیونکہ ان کے خیال میں اس نے کفر یا ایسا گناہ کیا ہوتا ہے جو ان کی تاویل کی رو سے اس سے لڑنا واجب کرے ؛ اور یہ لوگ ہمارا خون بہانا اور ہمارے اموال چھیننا حلال سمجھتے ہیں اور ہماری عورتوں کو کنیز بناتے ہیں ، اور ہمارے نبی ﷺ کے صحابہ کی تکفیر کرتے ہیں۔ ان کی قانونی حیثیت وہی ہے جو باغیوں کی ہے اور اس پر فقہاء کا اتفاق ہے۔)
علامہ شامی یہاں ایک اہم بات کا اضافہ کرتے ہیں کہ اگر حکمران کے خلاف نکلنے والے صحابۂ کرام کی تکفیر نہ کریں لیکن جس کے خلاف نکل رہے ہوں اس کی تکفیر کریں تب بھی وہ خوارج ہی ہیں:
[pullquote]علمت ان ھذا غیر شرط فی مسمی الخوارج ، بل ھو بیان لمن خرجوا علی سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ؛ و الا ، فیکفی فیہ اعتقادھم کفر من خرجوا علیہ ۔[/pullquote] (تم جانتے ہو کہ کسی کو خوارج کا نام دینے کے لیے یہ شرط نہیں ہے (کہ وہ صحابہ کی تکفیر کریں) بلکہ یہ اس بات کی وضاحت ہے کہ جنھوں نے سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خلاف خروج کیا، وہ یہ کرتے تھے ۔ ورنہ خوارج کہلوانے کے لیے نکلنے والوں کا یہ اعتقاد کافی ہوتا ہے کہ یہ جس کے خلاف وہ نکلے ہوں اس کے کفر کے بھی قائل ہوں۔)
وہ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ ”بغی“ اور ”خروج“ کی صفات تو ان دونوں گروہوں میں پائی جاتی ہیں کیونکہ دونوں گروہ ناجائز اٹھتے ہیں (جب مفروضہ یہ ہے کہ حکمران برحق ہے ) اور دونوں حکمران کی اطاعت سے نکل جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا قول نقل کرتے ہیں، جب انھوں نے خوارج کے متعلق کہا:[pullquote] اخواننا بغوا علینا[/pullquote] ( یہ ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے خلاف اٹھے ہیں!)
اس کے بعد علامہ تمرتاشی کے متن میں حکمران کے انتخاب کے جائز طریقوں پر بحث ہوئی ہے۔
چوتھا سوال: مسلمانوں کا حکمران کس طرح مسند اقتدار پر فائز ہوتا ہے؟
علامہ تمرتاشی نے اس سوال پر بحث میں بنیادی نکتہ یہ ذکر کیا ہے کہ حکمران کے فیصلے قانوناً تب نافذ ہوتے ہیں جب اسے لوگوں پر قہر اور غلبہ حاصل ہو اور وہ اپنے فیصلوں کی تعمیل ان سے کرواسکے۔ (بہ الفاظِ دیگر، جو حکومت ”رِٹ“ کھو بیٹھے، وہ سندِ جواز بھی کھو بیٹھتی ہے۔)
[pullquote]و الامام یصیر اماما بالمبایعۃ من الاشراف و الاعیان ، و بان ینفذ حکمہ فی رعیتہ خوفاً من قھرہ و جبروتہ ۔ فان بایع الناس و لم ینفذ حکمہ فیھم لعجزہ ، لایصیر اماما۔ فاذا صار اماما فجار ، لا ینعزل ان کان لہ قھر و غلبۃ ؛ و الا ینعزل بہ ۔ [/pullquote] (حکمران دوطریقوں سے حکمران بنتا ہے : یا تو معاشرے کے اشراف اور نامی گرامی لوگ اس کی بیعت کریں یا اس کے غلبے اور دبدبے کے خوف کی وجہ سے اس کا حکم لوگوں پر نافذہو ۔ پس اگر لوگ اس کی بیعت کریں اور وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے ان پر اپنا فیصلہ نافذ نہ کرسکے تو وہ حکمران نہیں بنتا۔ پھر جب وہ حکمران بنے اور ظلم کرے تو ظلم کی وجہ سے خود بخود معزول نہیں جب تک اس کے پاس قہر اور غلبہ ہو ؛ لیکن اگر قہر یا غلبہ نہ ہو تو ظلم کی بنا پر وہ خود بخود معزول ہوجاتا ہے۔)
اس مقام پر علامہ شامی نے علامہ ابن الہمام کی اہم تصنیف ”المسایرۃ“ سے چند اقتباسات پیش کیے ہیں۔ پہلا اقتباس یہ ہے:
[pullquote]و یثبت عقد الامامۃ اما باستخلاف الخلیفۃ ایاہ ، کما فعل ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ؛ و اما ببیعۃ جماعۃ من العلماء ، او من اھل الرای و التدبیر۔[/pullquote] (امامت کا عقد یا تو اس طرح ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ خلیفہ اس کی نامزدگی کرے، جیسے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا؛ یا علماء ، اہل رائے اور اہل تدبیر کا گروہ اس کی بیعت کرے۔)
اس کے بعد علامہ شامی نے المسایرہ سے ایک اور اہم اقتباس پیش کیا ہے :
[pullquote]لو تعذر وجود العلم و العدالۃ فیمن تصدی للامامۃ ، و کان فی صرفہ عنھا اثارۃ فتنۃ لا تطاق ، حکمنا بانعقاد امامتہ کی لا تکون کمن یبنی قصرا ًو یھدم مصراً۔ و اذا تغلب آخر المتغلب و قعد مکانہ ، انعزل الاول و صار الثانی اماما۔ و تجب طاعۃ الامام عادلاً کان او جائراً ، اذا لم یخالف الشرع ۔ [/pullquote] (اگر علم اور عدالت کی شرائط اس شخص میں پوری نہ ہوں جو امامت کے لیے اٹھا ہو اور اسے ہٹانے میں ایسا فتنہ ہو جس کا سامنا کرنے کی طاقت نہ ہو ، تو ہم کہیں گے کہ اس کی امامت منعقد ہوگئی تاکہ اس شخص کی طرح معاملہ نہ ہو جو محل بناتا ہے اور شہر برباد کرتا ہے ۔ پھر اگر اس متغلب پر کوئی اور شخص غلبہ پالے اور اس کی جگہ بیٹھ جائے ، تو اسی اصول پر پہلا معزول ہوجائے گا اور دوسرا امام بن جائے گا ۔ اور حکمران کی اطاعت (جائز احکام میں ) واجب ہے خواہ وہ فی نفسہ عادل ہو یا ظالم ، جب تک وہ شریعت کی مخالفت نہ کرے۔)
یہ آخری بات سب سے اہم ہے کیونکہ اسی سے بحث اس طرف واپس مڑ جاتی ہے کہ کن حالات میں حکمران کی معزولی واجب ہوجاتی ہے ۔
پانچواں سوال: کن اسباب سے حکمران کی معزولی واجب ہوجاتی ہے؟
علامہ تمرتاشی نے کہا تھا :
[pullquote]فاذا صار اماماً فجار ، لا ینعزل ان کان لہ قھر و غلبۃ ؛ و الا ینعزل بہ۔[/pullquote] (پھر جب وہ حکمران بنے اور ظلم کرے تو ظلم کی وجہ سے خود بخود معزول نہیں جب تک اس کے پاس قہر اور غلبہ ہو ؛ لیکن اگر قہر یا غلبہ نہ ہو تو ظلم کی بنا پر وہ خود بخود معزول ہوجاتا ہے۔)
اس پر علامہ شامی نے حاشیے میں ”شرح المقاصد“ سے یہ اہم اقتباس پیش کیا ہے:
[pullquote]ینحل عقد الامامۃ بما یزول بہ مقصود الامامۃ ، کالردۃ و الجنون المطبق و صیرورتہ اسیراً لا یرجی خلاصہ ؛و کذلک بالمرض الذی ینسیہ المعلوم ؛و بالعمی و الصمم و الخرس؛ و کذا بخلعہ نفسہ لعجزہ عن القیام بمصالح المسلمین ، و ان لم یکن ظاھراً بل استعشرہ فی نفسہ ، و علیہ یحمل خلع الحسن نفسہ ۔و اما خلعہ لنفسہ بلا سبب ، ففیہ خلاف۔و کذا فی انعزالہ بفسق ۔ و الاکثرون علی انہ لا ینعزل ، و ھو المختار من مذھب الشافعی و ابی حنیفۃ رحمھما اللہ تعالیٰ۔ و عن محمد روایتان۔ و یستحق العزل بالاتفاق ۔ [/pullquote] (عقد امامت ان اسباب سے ختم ہوجاتا ہے جن سے امامت کے مقاصد زائل ہوتے ہیں ، جیسے ارتداد یا جنونِ مطبق یا اس کا اس طرح قید ہوجانا کہ رہائی کی امید نہ رہے ۔ یہی حکم اس مرض کا بھی ہے جو اس سے معلومات بھلادے اور اسی طرح بینائی چلے جانے ، بہرے پن اور گونگے پن کا بھی ۔ اسی طرح جب وہ اپنے آپ کو اس بنیاد پر معزول کردے کہ وہ خود کو مسلمانوں کے مصالح کے قیام کے لیے عاجز پائے ، خواہ بظاہر اس میں ایسا عجز نہ ہو لیکن وہ صرف دل میں ایسا محسوس کرے ؛ اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کا خلافت چھوڑنا اسی پر محمول کیا جائے گا ۔ البتہ جب وہ کسی سبب کے بغیر خود کو معزول کردے تو اس کی خلافت ختم ہونے پر اختلاف پایا جاتا ہے ۔ اسی طرح اس امر پر بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ کیا فاسق ہونے سے وہ خود بخود معزول ہوجاتا ہے ؟ اکثریتی رائے یہ ہے کہ خود بخود معزول نہیں ہوتا ۔ یہی امام شافعی اور امام ابوحنیفہ رحمھما اللہ تعالیٰ کے مذہب کی مختار رائے ہے۔ امام محمد سے اس مسئلے میں دو روایتیں ہیں ۔ البتہ اس پر سب کا اتفاق ہے کہ فاسق ہوجانے پر وہ معزولی کا مستحق ہوجاتا ہے۔)
اس کے بعد علامہ شامی نے علامہ ابن الہمام کی تصنیف ”المسایرۃ“ سے اقتباس دیا ہے جس میں قرار دیا گیا ہے: [pullquote]یستحق العزل ان لم یستلزم فتنۃ[/pullquote] (وہ معزولی کا مستحق ہوجاتا ہے اگر اس سے لازماً فتنہ نہ برپا ہوتا ہو )۔ آگے انھوں نے اس سے زیادہ واضح عبارت ”شرح المواقف“ سے نقل کی ہے:
[pullquote]ان للامۃ خلع الامام وعزلہ بسبب یوجبہ ، مثل ان یوجد منہ ما یوجب اختلال احوال المسلمین و انتکاس امور الدین ، کما کان لھم نصبہ و اقامتہ لانتظامھا و اعلائھا۔ و ان ادی خلعہ الی فتنۃ احتمل ادنی المضرتین ۔[/pullquote] (جب ایسا سبب ہو جو امام کا ہٹانا اور معزول کرنے واجب کردے ، جیسے اس میں کوئی ایسی بات پائی جائے جو مسلمانوں کے حالات کو نقصان پہنچائے اور دینی امور میں خلل پیدا کرے ، تو اسے ہٹانے اور معزول کرنے کا اختیار اسی طرح امت کے پاس ہے جیسے ان مقاصد کے حصول کے لیے اسے مقرر کرنے اور اس منصب پر فائز کرنے کا اختیار اس کے پاس ہے ۔ اگر اسے ہٹانے کے نتیجے میں فتنہ پیدا ہو تو دونوں برائیوں میں سے کم تر برائی برداشت کی جائے گی۔)
یہ بعینہ وہی موقف ہے جو امام ابوحنیفہ نے خراسانی فقیہ ابراہیم الصائغ کے سامنے پیش کیا تھا!
جیسا کہ اس ساری بحث کی ابتدا میں بتایا گیا ہے کہ باغی وہ ہوتے ہیں جو امامِ برحق کے خلاف بغیر شرعی جواز کے اٹھیں۔ اگر ان کے خلاف ظلم ہوا ہو اور اس وجہ سے وہ اٹھیں تو وہ باغی نہیں کہلاتے۔ یہ بات بھی گزر چکی کہ عام مسلمانوں کے لیے یہ ناجائز ہے کہ ظلم کرنے والے حکمران کی مدد کریں۔ کیا اس ظالم حکمران کے خلاف اٹھنے والوں کی مدد کرنی چاہیے؟ یہاں علامہ شامی نے علامہ ابن الہمام کی شرحِ ہدایہ ”فتح القدیر“ سے یہ اہم اقتباس پیش کیا ہے جو اس بحث میں قولِ فیصل کی حیثیت رکھتا ہے:
[pullquote]و یجب علی من اطاق الدفع ان یقاتل مع الامام ، الا ان ابدوا ما یجوز لھم القتال ، کان ظلمھم ظلماً لا شبھۃ فیہ ؛ بل یجب ان یعینوھم حتی ینصفھم و یرجع عن جورہ۔[/pullquote] (جس شخص میں دفاع کی طاقت ہو اس پر واجب ہے کہ باغیوں کے خلاف لڑنے میں امام کا ساتھ دے ، الا یہ کہ وہ لڑنے والے ایسی بات پیش کریں جس کی بنا پر ان کے لیے حکمران کے خلاف لڑنا جائز ہو ، جیسے حکمران نے ان پر یا کسی اور پر ایسا ظلم کیا ہو جس کے ظلم ہونے میں کوئی اشتباہ نہ ہو ۔ بلکہ ایسی حالت میں ان لوگوں پر واجب ہے کہ حکمران کے خلاف اٹھنے والوں کی مدد کریں یہاں تک کہ وہ ان سے انصاف کرنے پر اور ظلم چھوڑنے پر مجبور ہوجائے۔)
پیچھے ”جامع الفصولین“ کی عبارت گزری تھی کہ ایسی حالت میں حکمران کی مدد بھی نہیں کرنی چاہیے اور اس کے خلاف اٹھنے والوں کی مدد سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ علامہ شامی نے اس موقف اور ”فتح القدیر“ کی اس عبارت میں توفیق کی راہ یہ بتائی ہے کہ جب امکان یہ ہو کہ حکمران کے خلاف اٹھنے والوں کی مدد کی جائے تو حکمران ”بغی“ سے باز آجائے گا تو پھر ان اٹھنے والوں کی مدد کرنی چاہیے لیکن اگر اس طرح فساد زیادہ پھیل جانے کا اندیشہ ہو تو پھر کسی فریق کی بھی مدد نہیں کرنی چاہیے
[pullquote] (و یمکن التوفیق بان وجوب اعانتھم اذا امکن امتناعہ عن بغیہ ؛ و الا ، فلا )۔[/pullquote] یہاں بالخصوص اس بات پر نظر رہے کہ بغی کی نسبت حکمران کی طرف کی گئی ہے، نہ کہ اس کے خلاف اٹھنے والوں کی طرف۔
اس سے معلوم ہوا کہ جیسے متقدمین حنفی فقہائے کرام نے امام ابوحنیفہ کے موقف ہی کی اتباع کی، ایسے ہی متاخرین حنفی فقہائے کرام بھی اس موقف پر قائم رہے۔ انھوں نے اگر کہیں ظالم حکمران کے خلاف اٹھنے کی ممانعت کی ہے تو ان شرائط کے پورا نہ ہونے کی بنا پر کی ہے جو ایسے حکمران کے خلاف اٹھنے کے لیے امام ابوحنیفہ نے متعین کی تھیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ ظالم حکمران کے خلاف اٹھنے سے اگر زیادہ فساد اور خونریزی کا خدشہ ہو تو فقہائے کرام اس سے روکتے ہیں لیکن اس کے باوجود قرار دیتے ہیں کہ ایسے حکمران کی مدد ناجائز ہے اور اس کا ہٹانا لازم ہے۔
ھذا ما عندی، و العلم عنداللہ۔

Comments

Click here to post a comment