ہوم << عذاب آخرت، قیامت سے پہلے اور مرنے کے بعد - فیاض الدین

عذاب آخرت، قیامت سے پہلے اور مرنے کے بعد - فیاض الدین

فیاض الدین بعض لوگ قرآن کی سادہ اور آسان باتوں کی عجیب وغریب تاویلات کرتے ہیں. وہ تاویلات نہ نبی کریم ﷺسے اور نہ صحابہ کرام سے ثابت ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر اگر اللہ نے آدم علیہ السلام کو کہا کہ فلاں درخت کے قریب مت جانا۔ یہاں بات ختم ہو جاتی ہے لیکن بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں یہ کون سا درخت تھا؟ اس کا رنگ کیسا تھا؟ چھوٹا تھا کہ بڑاتھا؟ یہ فضول سوالات ہیں ہم اس کے مکلف ہی نہیں ہیں، ہم سے اس کے متعلق پوچھ نہیں ہوگی۔ اللہ تعالی نے شہیدوں کو زندہ کہا ہے، ہمیں یہ بتایا ہے کہ یہ رزق بھی پاتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ کیسے پاتے ہیں؟ کیسے زندہ ہیں؟ اس کے متعلق اللہ پاک کہتے ہیں کہ تم اس کی حقیقت کو سمجھ نہیں سکتے ہو، تم اس کو جان نہیں سکتے ہو۔ جب اللہ تعالی بتائے کہ تم اس کا شعور نہیں رکھتے اور اس کے باوجود ہم جاننے کی جستجو کرتے ہیں اور اہل علم سے اس طرح کے عجیب و غریب سوالات کرتے ہیں تو ان جیسے لوگوں کے لیے اللہ کا پیغام یہی ہے کہ
[pullquote]وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِہ عِلْمٌ [١٧:٣٦][/pullquote] اور (اے بندے) جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑو.
بعض لوگ مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے عذاب اور راحت کے بالکل منکر ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہتے ہیں کہ عذاب اور راحت کا معاملہ صرف قیامت کے روز ہی ہونا ہے۔ اس حوالے سے یہ لوگ بھی ایسے ہی بے حقیقت سوالات کرتے ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی، ہم ان باتوں کا شعور نہیں رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسان کو مرنے کے بعد اگر عذاب یا راحت ملنی ہے تو یہ سوال کریں گے کہ یہ عذاب کس کو ہوتا ہے، روح کو ہوتا ہے یا خود انسان کو؟ یہ عذاب ہوتا کہاں ہے، قبر میں یا کہیں اور؟ یہ بھی اسی طرح کے سوالات ہیں جس کی مثال اوپر دی گئی۔
بات یہ ہے کہ ہم زندہ اس عذاب یا راحت کی کیفیت کو کیسے جان سکتے ہیں، ہم جب اس جگہ جائیں گے تو معلوم ہوگا، وہاں جانے سے پہلے ہم اس مقام کا ادراک نہیں کر سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی سادہ سی بات ہے لیکن یہ لوگ قیامت سے پہلے اور مرنے کے بعد عذاب و راحت کے منکر ہوتے ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ قیامت سے پہلے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے، جو ہونا ہے قیامت کو ہونا ہے اس عقیدے کا جائزہ قرآن کی روشنی میں لیتے ہیں۔
اللہ پاک فرماتے ہیں
[pullquote]كَيْفَ يَھدِي اللہ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إيمَانِھمْ وَشَھدُوا أَنَّ الرَّسُولَ حَقٌّ وَجَاءَھمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَاللہ لَا يَھدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ [٣:٨٦][/pullquote] خدا ایسے لوگوں کو کیونکر ہدایت دے جو ایمان لانے کے بعد کافر ہوگئے اور (پہلے) اس بات کی گواہی دے چکے کہ یہ پیغمبر برحق ہے اور ان کے پاس دلائل بھی آگئے اور خدا بے انصافوں کو ہدایت نہیں دیتا
[pullquote]أولَٰئِكَ جَزَاؤُھمْ أَنَّ عَلَيْھمْ لَعْنَۃ اللہ وَالْمَلَائِكَۃ وَالنَّاسِ أجْمَعِينَ [٣:٨٧][/pullquote] ان لوگوں کی سزا یہ ہے کہ ان پر خدا کی اور فرشتوں کی اور انسانوں کی سب کی لعنت ہو
[pullquote]خَالِدِينَ فِيھا لَا يُخَفَّفُ عَنْھمُ الْعَذَابُ وَلَا ھمْ يُنظَرُونَ [٣:٨٨][/pullquote] ہمیشہ اس لعنت میں (گرفتار) رہیں گے ان سے نہ تو عذاب ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں مہلت دے جائے گی
جو لوگ ایمان لانے کے بعدکافر ہوگئے، اللہ ایسے لوگوں کوہدایت نہیں کرےگا اور ان لوگوں کا بدلہ یہ ہے کہ ان پر لعنت ہے۔ کن کن کی لعنت ہے؟
ان پر اللہ کی لعنت ہے، ان پر ملائکہ کی لعنت ہے، اور سارے لوگوں کی لعنت ہے۔
لعنت کے معنی ہیں اللہ کی رحمت سے دور ہوجانا اور اللہ کے غضب میں مبتلا ہوجانا۔ آگے اللہ بات کو مزید واضح کرتے ہیں کہ اس لعنت میں ہمیشہ رہیں گےاور اس عذاب و غضب اور لعنت میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ اللہ پاک کہتے ہیں اور نہ ان کو مہلت دی جائے گی۔ یاد رہے قیامت کا ذکر نہیں ہو رہا ہے، عام بات ہو رہی ہے۔ دنیا اور آخرت میں ان لوگوں پر اللہ، ملائکہ اور لوگوں کی لعنت ہے۔ ہاں ایک چیز ہوسکتی ہے، اس لعنت و عذاب سے یہ بچ سکتے ہیں۔ اللہ پاک فرماتے ہیں
[pullquote]إلَّا الَّذِينَ تَابُوا مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ [/pullquote] اگر یہ توبہ کریں اپنی اصلاح کریں تو اس لعنت سے بچ سکتے ہیں۔ یہ لعنت ہمیشہ رہے گی۔ اب مرنے کے بعد قیامت تک یہ لعنت رہے گی، اس میں کوئی کمی نہیں ہوگی اور اس طرح ہوتے ہوتے قیامت آجائے گی اور پھر مالک فرماتے ہیں
[pullquote]سَنُعَذِّبُھم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ [/pullquote] ہم ان کوعذاب عظیم سے پہلے دو مرتبہ عذاب دیں گے اور پھر ان کو عذاب عظیم کی طرف لوٹا دیا جائےگا۔ سورہ توبہ
یہ بات عیاں ہوئی کہ قیامت سے پہلے بھی ایسے لوگ آرام سے نہیں ہوں گے اللہ کی لعنت ہی میں ہوں گے۔
ایک مومن اور کافر مشرک کا حال ایک جیسے نہیں ہوسکتا۔ مرتے ہی کافر مشرک اللہ کے غضب اور لعنت میں گرفتار ہوتا ہے اور مومن اللہ کی رحمت میں آجاتا ہے۔ قیامت سے پہلے اور مرنے کے بعد اگر کچھ بھی نہیں ہے تو مؤمن اور کافر و مشرک کی موت دونوں کی ایک جیسی ہوگی جو کہ اللہ کی کتاب لاریب کے 180 ڈگری خلاف ہے۔ اللہ کہتے ہیں کہ
[pullquote]أمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَھمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاھمْ وَمَمَاتُھمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ [٤٥:٢١][/pullquote] جو لوگ برے کام کرتے ہیں، کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں جیسا کردیں گے جو ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے اور ان کی زندگی اور موت یکساں ہوگی۔ یہ جو دعوے کرتے ہیں برے ہیں۔
اہل علم کے نزدیک جو قرآن کا جو ہم ترجمہ کرتے ہیں اس ترجمے سے ہم قرآن کے قریب تو آجاتے ہیں مگر وہ پورا حق ادا نہیں ہوتا جس سے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں. اس آیت میں لفظ ”محیا“ آیا ہے یہ انسان کی وہ حالت ہے جب یہ زندہ ہے اور ”ممات“ وہ حالت ہے جب یہ مر جاتا ہے موت اس پر آجاتی ہے، اللہ پاک فرماتے ہیں موت اور زندگی مؤمن اور کافر کی برابر نہیں ہے، نہ دنیا میں نہ موت کے بعد اور نہ قیامت میں اور نہ قیامت کے بعد۔ ”محیا“ اور ”ممات“ میں یہ سب چیزیں آگئیں۔ نزاع کا وقت، موت کے بعد، قیامت میں اور اس طرح قیامت کے بعد دونوں کے حال میں فرق ہوگا۔ آگے اللہ کیا خوبصورت فتوی دیتے ہیں کہ جو سمجھتے ہیں کہ یہ موت اور زندگی دونوں کی یکساں ہے، ان کی یہ بات ان کا یہ عقیدہ بہت برا ہے۔ یہ فیصلہ اللہ کو پسند نہیں ہے، یہ بہت برا فیصلہ ہے۔ دونوں کی حالت قیامت سے پہلے کبھی بھی یکساں نہیں ہو سکتی ہے، اس لیے اللہ فرماتے ہیں۔
إنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَمَاتُوا وَھمْ كُفَّارٌ أولَٰئِكَ عَلَيْھمْ لَعْنَۃ اللہ وَالْمَلَائِكَۃ وَالنَّاسِ أجْمَعِينَ [٢:١٦١] جو لوگ کافر ہوئے اور کافر ہی مرے ایسوں پر خدا کی اور فرشتوں اور لوگوں کی سب کی لعنت
خَالِدِينَ فِيھا ۖ لَا يُخَفَّفُ عَنْھمُ الْعَذَابُ وَلَا ھمْ يُنظَرُونَ [٢:١٦٢] وہ ہمیشہ اسی (لعنت) میں (گرفتار) رہیں گے۔ ان سے نہ تو عذاب ہی ہلکا کیا جائے گا اور نہ انہیں (کچھ) مہلت ملے گی.
میرے مالک نے کیا عظیم الشان بات کہی ہے کہ جو لوگ کافر ہیں اور وہ مر جاتے ہیں تو مرتے ہی اللہ کی لعنت میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور یہ لعنت کم نہیں ہوگی۔ یہاں قیامت کی بحث نہیں چل رہی ہے، انہیں بتایا جارہا ہے کہ اگر اس کفر کی حالت میں موت آئی تو مرتے ہی اللہ کی گرفت ہے۔ قرآن کی ان آیتوں سے ثابت ہے کہ مرنے کے بعد اور قیامت سے پہلے عذاب و راحت ہوتی ہے، اس سے انکار کرنا درست نہیں ہے۔

Comments

Click here to post a comment