جوں جوں ہمارے ہاں ذرائع ابلاغ بڑھے تو ہر قسم کے خیالات کی یلغار شروع ہو گئی، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک میں موجود اربابِ اختیار، علماء، فقہاء اور اساتذہ ان تمام خیالات کی اپنے کلچر و مذہب کے تناظر میں دیکھتے ہوئے مثبت و منفی پہلوؤں کو اُجاگر کرتے تاکہ عوام ان تمام چیزوں کو آسانی سے اپناتے یا رد کرتے۔ مگر یہاں ایک عجب صورتحال پیدا ہوگئی کہ جدت کے نام پر ہر ان پڑھ اور گنوار میڈیا کا بھونپو لے کر نازل ہو گیا۔ پھر کیا تھا کسی کی کانوں پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس سارے ہنگامے میں بے چارے عوام کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ آخر مانیں تو کس کی مانیں اور تو اور سونے پہ سہاگہ کے مصداق ویسے ہی پاکیستان میں شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہے تو اس ساری صورتحال نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ جب بھی کسی معاشرے کی ایک کثیر تعداد کسی چیز کو اپنا لے تو پھر اقلیت کو نہ چاہتے ہوئے بھی اُن تمام رسومات کو ادا کرنا پڑ جاتا ہے۔ جیسے شادی بیاہ کی تمام رسومات کو ہی دیکھ لیں ہر عمر، مرتبے اور نظریے کا انسان آپ کو شادی بیاہ کے موقع پر ایک ہی راگ الاپتا نظر آئے گا کہ کیا کریں جناب، اب کس کس کو سمجھائیں یہاں آوے کا آواہ ہی بگڑا ہوا ہے۔ یعنی معاشرے کے افعال ایسی چیز ہیں اگر ایک بار ان کی سمت غلط ہو جائے تو پھر درست سمت کو لوٹنا بہت کٹھن ہو جاتا ہے۔
ہم بچپن سے ہی دیکھتے آ رہے تھے کہ جب بھی کسی نئے کام کا آغاز کیا جاتا تو ابتداء میں دُعا کی جاتی تھی ۔ اسی طرح سے کسی غم کے موقع پر بھی اظہارِ افسوس کے طور پر دُعائیہ کلمات کہے جاتے تھے۔ ہم کو یہی بتایا گیا تھا کہ ہر چیز کا آغاز اپنے رب کے با برکت نام سے کرنا چاہیے۔ یعنی اُس خدائے بزرگ و برتر کو ہر حال میں اپنے کاموں خوشی ہو یا غم میں شامل رکھا جائے تو اس سے برکت نازل ہوتی ہے۔ اس چیز نے ہمارے ہاں معاشرتی قدر کے طور پر اپنی جگہ بنا لی تھی۔ اور اب بھی ہمارے بیشتر کاموں کو اسی طرح سرانجام دیا جاتا رہا ہے۔
مگر کچھ سالوں سے دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مختلف قسم کے تعلیمی، سماجی ، صنعتی اور رفاعی اداروں کی جانب سے ، صدیوں سے رائج کلچر کو اپنے سماجی مقام کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہر طرف ایک نئی طرز کے اظہارِ افسوس کا کلچر رائج کر دیا گیا اور یہ تھا "موم بتی کلچر"۔ اس سارے عمل کو کچھ مذہبی حلقوں نے تنقید کا نشانہ بنایا۔ مگر یہ تنقید برائے اصلاح کے بجائے طعنہ و تشنیع تھی اس وجہ سے اس ساری تنقید کا اُلٹا اثر ہوا اور جو لوگ اس کلچر کو ابھی صحیح طور پر سمجھ بھی نہیں پائے تھے انہوں نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا۔ اور یوں اس سارے عمل نے اپنی جڑیں مضبوط کرنا شروع کر دیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا کسی کے غم میں شرکت یا اظہارِ افسوس کے موقع پر موم بتی جلانا واقعی اُس کے غم میں شرکت کرنا ہے یا ہم جانے انجانے میں کسی بے معنی اور لغو چیز کو بڑھاوا دے رہیں۔ اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں صدیوں سے رائج دعاؤں کے مذہبی و سماجی کلچر کی اچانک لوگوں کی نظر میں اہمیت کیوں کم ہو گئی یا کر دی گئی۔ عدل کا تقاضا ہے کہ جب بھی ہم کسی چیز کو عوام کی عدالت میں پیش کریں تو پھر دونوں رُخ کو اُجاگر کیا جائے۔ کسی چیز کو جدت یا مذہبی ہونے کی وجہ سے رد کرنا سرا سر نا انصافی ہے۔ کسی چیز کو اپنانے اور رد کرنے کا واضع معیار ہونا چاہیۓ یہ ایک صحت مند معاشرے کی پہچان ہے۔
دُعا کے بارے میں سب بخوبی جانتے ہیں کہ دُعاؤں کو ہمارے دین میں بہت اہمیت حاصل ہے اور دعا ہر مذہبی معاشرے میں ایک اعلیٰ مقام رکھتی ہے۔ عام طور پر دعا ایک ایسی جائز خواہش کا نام ہے جو کسی بھی وجہ سے پوری نہ ہو پارہی ہو اور انسان اپنی عاجزی کا اظہار اپنے حقیقی خالق سے کرتے ہوئے یہ درخواست پیش کرتا ہے کہ وہ خواہش پوری ہو سکے۔ اب یہ اُس کی اپنی زبان میں عام فہم انداز سے بھی ہو سکتی ہے اور علماء فقہاء نے نہایت باریک بینی سے دُعاؤں کو مرتب بھی کیا ہے جن کے کا سہارا لیا جا سکتا ہے یہ بلکل ایسے ہی ہے جیسے ہم کسی پروفیشنل سے ایک لیٹر یا درخواست بنوا کر عدالت یا کسی بھی معزز آفیسر کے رو برو پیش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے کسی خاص مذہب کی بات نہیں ہے حتاکہ غیر الہامی مذاہب میں بھی یہ احسن اور مروجہ طریقہ کار ہے۔
جہاں تک کسی بھی رسم میں بذریعہ موم بتی روشنی یا آگ کا استعمال ہے اس کی بھی تاریخ بہت پُرانی ہے۔ قرونِ اول میں رسمی طور پر سب سے پہلے موم بتی کا استعمال مسیح چرچ اور یہودیوں کی عبادت گاہوں میں کیا گیا۔آگ کی پوچا تو اب بھی کم سے کم دو مذاہب یعنی پارسیوں اور اہرمزد میں کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہندوں میں بھی آگ کی پوجا کی جاتی ہے بلکہ دیوالی کے تہوار میں روشنی کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مذہبی رسومات میں روشنی کو مقدس نشان کے طور پر یہودیوں کے ہاں بھی استعمال کیا جاتا ہے جہاں پر چھ موم بتیوں کے ایک چراغ نما کینڈل سٹینڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یونانیوں اور رومیوں کے ہاں بھی مقدم آگ یا مقدس چراغ کا استعمال کیا جاتا رہاہے۔انجیل ِمقدس کو پڑھتے وقت بھی موم بتیاں روشن رکھنا ایک مقدس بات سمجھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مسیحی جلوسوں میں راستوں میں بھی موم بتیاں روشن کرنے کا رواج رہا ہے۔ مقدس جمعہ یا گریٹ سنیچر (مقدس ہفتہ کے دن) کو بھی روشنی کے لیے موم بتیاں جلانے کو ایک مذہبی رسم کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔ ایتھوپیا کے آرتھوڈاکس چرچ میں بھی ٹمکات کے بیان کے موقع پر موم بتیاں یا آگ جلانے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ اسی طرح میت کے قریب مقدس موم بتی یا روشنی رکھ کر دعائیہ کلمات ادا کرنے کی بھی رسم اب تک موجود ہے۔
علاوہ ازیں موم بتیوں کو روشن کرنے کی رسم ہندو ازم، بدھ ازم، سکھ ازم ، ہہودی ازم ، عیسائیت کے علاوہ خوانذہ جو کہ افریقن امریکن مقدس دن کو بھی موم بتیاں روشن کرنے کی رسم ادا کی جاتی ہے ۔ یہ مقدس دن 26 دسمبر سے 1 جنوری کے درمیان منایا جاتا ہے۔ اور تو اور شیطان ازم میں بھی سب سیاہ موم بتیاں اور ایک دھیمی روشنی والی سفید رنگ کی موم بتی جلا کر سحر انگیز ماحول قائم کیا جاتا ہے۔ ویکا اور پیگن ازم میں موم بتی خدا اور دیوی کی موجودگی کی نمائندگی کے لیے جلائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ موم بتی جادو میں بھی استعمال کی جاتی ہے یہاں تک کہ سبز رنگ کی موبتی امریکی ڈالر یعنی دولت کی خواہش کے طور پر اور سُرخ رنگ کی موم بتی رومانی خواہشات کے حصول کےلیے جلائی جاتی ہیں۔ اور رقصِ شرقی میں میں بھی موم بتیاں ایک مفہوم کو طور پر جلائی جاتی ہیں کہیں کہیں پر تو رقاص اپنے جسم پر بھی موم بتیاں لگا کر روشن کرتے ہیں۔ موم بتی جلانے اور بجھانے کی رسم اب پیدائش /جنم دن کا بھی لازمی عنصر ہے۔
ان تمام چیزوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ دینِ اسلام میں موم بتی جلانے یا بجھانے کا وہ مفہوم نہیں ہے جو مفہوم دوسرے مذاہب میں رائج ہے۔ عدل کا تقاضا ہے کہ جب بھی ہم اپنی کسی رسم کو چھوڑیں یا کسی رسم کو تبدیل کریں تو ہمارے پاس اس کے لیے کوئی ٹھوس وجہ ہونی چاہیے۔ کیونکہ نظریات قوموں کی زندگیوں میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جو لوگ موم بتیاں جلانے یا بجھانے کی رسوم ادا کرتے ہیں اُن کا ذکر تفصیل سے آپ کے گوش گزار کر دیا گیا ہے جس کو دیکھتے ہوئے ہر کوئی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اُن کا یہ عمل معاشرتی رسم سے پہلے مذہبی ہے۔ اور دُعائیہ رسم کے مقابلے میں کہیں سے بھی زیادہ برتر نظر نہیں آ رہا۔ تو ہم خواہ مخواہ اپنی اچھی اقدار کو کیوں تبدیل کریں، ہمیں ہر وقت احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ہم ترقی نہیں کر پا رہے اس میں دین یا اس خطے کا کوئی قصور نہیں ہے اگر کسی کا قصور ہے تو وہ ہم ہیں ہمارے رویے اور محنت کی مقدار وہ نہیں ہے جو دوسرے معاشروں کے لوگ کرتے ہیں۔ موم بتیاں جلانے میں کوئی قباحت نہیں ہے مگر ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ ہونا چاہیے کہ یہ دراصل ہے کیا اور اس انداز کو اپنانے کے پیچھے اصل مقاصد کیا ہہیں۔ جو لوگ اس طرز کو اپنا رہے ہیں اُن کا مقصد صرف کم علمی ، تن آسانی ، جدیدیت کا پہلو ہے یا وہ اپنے معاشرے کو کسی دوسرے راستے پر ڈالنا چاہتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے