بُرا ہو اس پاکستانی صحافت کے موجودہ رحجانات کا کہ جس نے پوری قوم کو’جلسہ جلسہ‘ کے کھیل پر لگا رکھا ہے اور ’ترقیاتی خبروں‘ کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں جانے دیا جا رہا۔ گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک کے معاشی منظرنامے پر بہت بنیادی قسم کی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور سب سے بڑی تبدیلی تو یہ تھی کہ خطِ متارکہ جنگ (ایل او سی) پر کشیدگی کے باعث جہاں بھارت کی سٹاک ایکس چینج دھول چاٹ رہی ہے وہاں پاکستان کی سٹاک ایکس چینج روزانہ نئی بلندیوں کی طرف رو بہ پرواز ہے۔ عالمی اداروں کی طرف سے پاکستان سٹاک ایکس چینج اس سے پہلے ہی چین اور روس کی سٹاک ایکس چینجوں سے بہتر قرار دی جا چکی ہے۔ چین اور روس کے نجی اداروں کی طرف سے پاکستان کی معیشت میں نئی سرمایہ کاری کے مضبوط اشارے مل رہے ہیں اور بات چیت حتمی مراحل کی طرف رینگ رہی ہے جو پاکستانی معیشت کے مستقبل کے لیے بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
پاکستان کی طرف سے عالمی مالیاتی منڈی میں سکوک (اسلامی) بانڈ ساڑھے چھ فی صد کے بجائے ملکی تاریخ کے سب سے کمترین سطح یعنی ساڑھے پانچ فیصد پر بیچا گیا ہے۔ پاکستان نے اعلان کیا تھا کہ وہ ساڑھے چھ فیصد پر پچاس کروڑ ڈالر عالمی منڈی سے قرض لینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ہم جیسے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ بھارت کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے باعث شاید یہ وقت ایسے بانڈ کی فروخت کے لیے مناسب نہیں۔ لیکن اسحاق ڈار صاحب اپنی ضد پر ڈٹے رہے۔ اور جب صرف پچاس کروڑ روپے کے سامنے دو ارب چالیس کروڑ ڈالر کی پیش کشیں موصول ہوئیں تو اسحاق ڈار صاحب کی ’’نیت‘‘ بدل گئی۔ انہوں نے کہا کہ ہم پچاس کروڑ کے بجائے ایک ارب ڈالر کا قرض لیں گے اور وہ بھی ایک فیصد کم شرحِ منافع یعنی ساڑھے پانچ فیصد پر، جس نے قرض دینا ہے دو، جس نے نہیں دینا نہ دو۔ دنیا کے 124 سرمایہ کاروں نے اس میں حصہ ڈالا جن میں سے نوے ایسے مالیاتی ادارے تھے جن کی کسی سودے میں شرکت میں عالمی خبر ہو جایا کرتی ہے۔ یہ ایک کھلا پیغام ہے کہ دنیا بھر کے نجی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے بے چین ہیں۔
اس کے علاوہ ہاورڈ یونیورسٹی نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں پاکستان کے لیے آئندہ دس برسوں کی اقتصادی شرحِ نمو کے 5.7 فیصد تک رہنے کی پیش گوئی کی ہے جبکہ موجودہ مالی سال کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کی شرح ترقی کو 5.2 فیصد اور آئی ایم ایف پانچ فیصد پر دیکھ رہا ہے۔ اور یوں پاکستان ایک دہائی کے وقفے کے بعد پانچ فیصد سے شرحِ نمو کی سطح سے اوپر لانے میں کامیاب ہوا ہے۔ معاشی محاذ پر یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
دوسری طرف آرمی چیف راحیل شریف کا چند ماہ قبل دیا گیا وہ بیان ہے کہ وہ ہمسایہ ملک چین سے اقتصادی راہداری سے گزر کر گوادر پہنچنے والے پہلے تجارتی قافلے کو خود گوادر بندرگاہ پر خوش آمدید کہیں گے۔ یار لوگوں نے اندازہ لگایا کہ چونکہ راحیل شریف اپنے اعلان کے مطابق نومبر میں گھر جانے کا اعلان کر چکے ہیں اس لیے یہ قافلہ اسی ماہ پہنچےگا۔ اُدھر چینی ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے خبروں کی فراوانی ہے کہ پاکستان کے راستے اس پہلے تجارتی قافلے کی تیاری کے حوالے سے وہاں پر جوش و خروش پایا جاتا ہے۔جبکہ ہم اس اہم قومی موقع پر اپنی سیاست کے گندے کپڑے بیچ چوراہے کی دھونے کے درپے ہیں۔ ہم نے اقتصادی راہداری کے معاہدوں پر دستخط کے لیے آنے والی چینی قیادت کے استقبال کے لیے بھی یہی رویہ اپنایا تھا۔
لیکن ہمارے ابلاغی ادارے عوام کی نظر اس طرف جانے ہی نہیں دے رہے مبادا اس سے عوام کو امید کی کوئی کرن نظر آ جائے یا پھر اس کا مورال بحال ہو جائے۔ جبکہ اس کے برعکس اقتصادی راہداری کے مخالفین، جن میں ہمسایہ ملک ایران کے زیر اثراقلیتی گروہ پیش پیش ہے، ان منصوبوں پر تبریٰ کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ تازہ ترین شدنی یہ چھوڑی گئی کہ چین نے بھارتی پنجاب میں ’’ٹیکسٹائل سٹی‘‘ کا افتتاح کر بھی دیا ہے جہاں چینی اداروں نے پارچہ بافی اور پاچہ سازی میں بھاری سرمایہ کاری کر بھی دی ہے جبکہ ہمارے ہاں اس حوالے سے کسی کام کا آغاز ہی نہیں ہوا اور یوں یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ گویا اس شعبے میں پاکستان آنے والی چینی سرمایہ کاری اب بھارت چلی گئی ہے۔ ایسے عناصر کو فیصل آباد انڈسٹریل اسٹیٹ ڈویلپمنٹ اینڈ مینیجمنٹ کمپنی (فیڈمک) کے زیر اہتمام بننے والے ٹیکسٹائل سٹی کی خبر بھی ملاحظہ کر لیں۔ چوں کہ ہمارے ہاں بجلی کی کمی تھی اس لیے چینی اداروں کو وہاں پر ڈیڑھ سو میگاواٹ کا بجلی گھر پہلے لگانا پڑگیا ہے اس لیے اس میں تاخیر ہوئی ہے لیکن منصوبہ جاری ہے۔
خیر سے وزیر منصوبہ بندی چوہدری احسن اقبال اپنے ایک اور دورہ چین سے لوٹے ہیں اور انہوں نے یہ خبر سنائی ہے کہ چین نے پاکستان ریلوے کی مکمل بحالی کے لیے ساڑھے پانچ ارب ڈالر کے قرض کی منظوری دے دی ہے۔ اس منصوبے کے تحت کراچی سے لاہور اور پشاور (طورخم) تک دوہری پٹڑی کی تعمیر، پہلے سے موجود کی بحالی اور اس کو سگنلنگ کے جدید نظام سے مزین کرنا شامل ہے۔ جس سے ریلوے ٹرینوں کی اوسط سپیڈ ڈیڑھ سو کلومیٹر تک بڑھانے میں آسانی ہو جائے گی۔ کیا اس روٹ پر دوڑنے والی ٹرینوں کو کم لاگت میں چلنے والے ماحول دوست بجلی سے چلنے والے انجن کھینچیں گے، اس بارے میں ابھی تفصیلات کا انتظار ہے کیونکہ امریکہ کے علاوہ جہاں بھی ریلوے کو ڈیزل انجن سے چلایا جاتا ہے وہاں پر ریلوے کے منافع کے بارے میں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ چوہدری احسن اقبال نے مزید کہا کہ یوں اب اقتصادی راہداری کے تحت پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری 46 ارب ڈالر سے بڑھ کر ساڑے اکیاون ارب ڈالر ہو گئی ہے۔ لیکن یہ کہانی بھی ہمارے میڈیا میں نیچے دب گئی۔
چین کی کمپنی شنگھائی الیکٹرک اس وقت کراچی میں بجلی کی ترسیل کے ذمہ دار ادارے ’کے الیکٹرک‘ کے انتظامی اختیارات سنبھالنے کے لیے متحدہ عرب امارات کی موجودہ انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کر رہی ہے اور بات آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے۔ جبکہ اس کے متوازی متحدہ عرب امارات کی ہی ایک کمپنی اتصالات سے بھی چین ہی کی ایک کمپنی کے مذاکرات پی ٹی سی ایل خریدنے کے حوالے سے ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے ٹیلی کام کے شعبے کا ستر فیصد سے زائد پہلے ہی روس نے خرید لیا ہے۔ موبی لنک کے بعد اب وارد کے اکثریتی حصص بھی روسی اداروں نے خرید لیے ہیں۔ اس کے علاوہ گوادر سے کوئٹہ تک مکمل ہونے والی ہائی وے اس سال دسمبر میں کام مکمل کر لے گی جس سے بہت سے منہ بند ہو جائیں گے۔
ایسے میں اندرونِ ملک چھوٹے صوبوں کا خیال ہے کہ وہ اقتصادی راہداری منصوبہ میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کر لیں جس طرح وہ ملکی تاریخ میں بڑے بڑے دیگر منصوبوں کے وقت کر جاتے رہے ہیں۔ لہٰذا کے پی کے کو ایک مرتبہ پھر شدت سے یاد آ گیا ہے کہ اس کے ہاں تو اقتصادی راہداری کا کوئی منصوبہ شروع ہی نہیں ہوا اور اس بات پر قوم پرست کیا اور پی ٹی آئی کیا سب یک زبان ہو گئے ہیں۔ کے پی کے وزیر اعلیٰ نے اپنی خاندانی سیاسی روایات کے برعکس صوبائی حکومت سے استعفیٰ دینے کی بات بھی کر دی ہے۔ انہوں نے بات اس قدر بڑھائی کہ اس موقع پر اسلام آباد کے چینی سفارت خانے نے بھی وضاحت جاری کی ہے جس میں کسی بھی سیاسی پارٹی کی حمایت یا مخالفت کرنے کے بجائے یہ بتایا گیا ہے کہ سندھ، کے پی کے اور بلوچستان میں کتنے منصوبے اقتصادی راہداری کے تحت مکمل ہوں گے لیکن ان بے چارے چینیوں کو کیا پتہ، ہم من حیث القوم قومی اہمیت کے منصوبوں پر بھی گھٹیا سیاست کرنے پر ایمان رکھتے ہیں، اور جاہل ایسے ہیں کہ اپنے ہی کیے گئے جھوٹے پروپیگنڈے پر خود ہی ایمان بھی لے آتے ہیں۔ نہیں یقین تو کالاباغ ڈیم کے منصوبے کو ہی دیکھ لیں۔
ذاتی طور پر خاکسار کو امر کی بہت خوشی ہوتی ہے جب وفاق کے مختلف حصے اپنے مفادات کے لیے سرگرم ہوتے ہیں اور وفاق پر تنقید کرتے ہیں، لیکن عرض صرف اتنی ہے کہ تنقید کو محض تنقید ہی رہنے دیا جائے تو مناسب ہوگا، جب بات طعنوں اور گالم گلوچ تک پہنچ جاتی ہے تو پھر وہاں سے واپسی مشکل ہو جاتی ہے۔ کیونکہ دیکھا یہ گیا ہے کہ دوسرے کو فائدہ پہنچانے والا تربیلا تو بن جاتا ہے لیکن پنجاب کو فائدہ پہنچانے والے کالا باغ پر پھڈا ہوجاتا ہے۔ چونکہ پنجاب پورے ملک کا انجن آف گروتھ ہے اور یہ پورے وفاق کو لے کر چلتا ہے تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جب پنجاب میں ترقی کی شرح متاثر ہوتی ہے، ویسے ہی پورے ملک میں ترقی کی رفتار سست ہو جاتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جن کے پاس پہلے کچھ نہیں وہ مزید افلاس میں گھر جاتے ہیں۔ اس وقت پنجاب کے وزیر اعظم ملک کی سربراہی کر رہے ہیں اور اس حوالے سے ان کی ذمہ داری کئی گنا زیادہ ہے۔
تبصرہ لکھیے