قائدِ اعظم سے صحافی نے پوچھا ’’ آپ سیاستدان نہ ہوتے تو کیا ہوتے‘‘ فرمایا۔ ’’صحافی‘‘۔ پھر اس کی وضاحت یوں فرمائی’’ہم جہاز میں سوار ہوکے کسی جگہ اترتے ہیں تو عین دروازے پر ایک صحافی کسی ایسے واقعہ پر ہم سے رائے جاننے کو آ موجود ہوتا ہے کہ جو واقعہ ابھی ابھی کہیں رونما ہوا ہوتا ہے اور جسے ہم نے ابھی قطعا جانا نہیں ہوتا۔ سو میں سیاستدان نہ ہوتا تویقینا ایک صحافی ہونا پسند کرتا۔‘‘
یہ قائدِ اعظم تھے، اور ظاہر ہے، ہماری طرح صحافی نہ تھے، سو ان کی مجبوری تھی کہ واقعہ جانے بغیراس پر رائے نہیں دیتے تھے، ایک صحافی الحمدللہ چونکہ نہ قائدِاعظم ہوتا ہے اور نہ سیاستدان، سو ثم الحمدللہ وہ ایسے ہر واقعہ پر ڈٹ کے رائے بھی دے سکتا ہے اور متعدد کالم بھی رقم فرما سکتاہے۔ تفنن برطرف صحافت واقعی ایک مستعد بیداری، ہمہ وقتی ہوشیاری اور خرد مندانہ خبرداری کا نام ہے، جس سے ہم جیسے کبھی تو دور ہوتے ہیں اور کبھی کوسوں دور۔
صاحبو! ہم بھی عجب ہی صحافی ہیں کہ جب کبھی کسی مصروفیت و غفلت کے جہاز سے اترتے ہیں تو سامنے کوئی مفتی عبدالقوی مد ظلہ العالی یا پھر مولانا الیاس گھمن صاحب اپنی گھمن گھیریوں سمیت ہماری بےخبری کا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔ اب کے پتا چلا کہ کسی اور نے نہیں، یہ پھول شبلی ہی نے تاک مارا ہے، میرا مطلب چاند چڑھانے والے (مفتی عبدالقوی صاحب) نے نہیں، بلکہ چاند دیکھنے والے سنجیدہ و متین مفتی صاحب کے کالم نے بہت سے مسلمانوں کو خوفزدہ کر رکھا ہے۔ خطِ نستعلیق میں بااعراب عربی (جس میں کہیں کہیں اردو بھی تھی) میں لکھا اور دنیا و دلیل پر چھپا یہ کالم دیکھا تو میں نے بھی تھا مگر پھر اسے مفتی صاحب کو عینک لگنے کی وجہ سمجھ کے چھوڑ ہی دیا تھا۔ پھر مگر گھبرائی گھبرائی سی آتی تفصیلات کے مجبور کرنے پر یہ کالم پڑھنا ہی پڑا۔
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش نہ جانتا تیری رہ گزر کو میں
واقعی یہ ایک حیران کن بلکہ پاکستان و عالم اسلام کے موجودہ حالات میں خاصا پریشان کن کالم تھا، جسے شاید مدیر صاحب نے بھی محض عربی سے متاثر ہو کے اور مضمرات کا اندازہ لگائے بغیر چھاپ دیا۔ قصہ یہ تھا کہ چیچنیا کے دارالحکومت میں جمع ہو کر چند بھاری بھر کم غیر ملکی ناموں والے پروفیسروں نے، جو ظاہر ہے کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی یونیورسٹی وغیرہ میں زیرِ جاب بھی تھے، ’’اہلِ سنت کون ؟‘‘ کے عنوان کے تحت یہ نیک کام کیا کہ امت کے کچھ لوگوں کو تو ازراہِ مہربانی اہلِ سنت ہی رہنے دیا جبکہ باقی کئی اہم ترین لوگوں کو اس دائرہ سنت و الجماعت سے فی الفور نکال باہر کیا کہ چلو باہرنکلو، کیا رش لگا رکھا ہے۔
اب تک تو ہم نے اسلافِ امت سے یہی سنا تھا کہ فی الاصل اس امت کے دو ہی فرقے یا گروہ ہیں، یعنی اہل تشیع اور اہلِ سنت۔ اگرچہ اس سے آگے یہ دونوں از خود بھی کافی خود کفیل ہیں۔ یہ مگر پہلی دفعہ ہوا کہ صدیوں سے چلی آتی اس تقسیم کو پیوٹن کے زیرِسایہ تقسیم مزید کے عملِ زہ سے بھی گزارا گیا۔ یکلخت میں نےسوچا کہ جب سعودیہ ان دنوں ایران کے مقابل وہابیوں کے علاوہ بھی سبھی اہلِ سنت کو قریب بلکہ قریب تر کر رہا ہے تو پھر اس کانفرنس کومہبطِ وحی مکہ و مدینہ سے اتنی دور لے جانے کی آخر کیا ضرورت تھی؟ یادش بخیر، اقبال کے پاس غالباً مولانا ظفر علی خان پریشان آئے کہ انگریز حجاز میں ہسپتال کھولنے کے بہانے اپنا کوئی اڈا کھولنا اور مسلمانوں سے چندہ بٹورنا چاہتا ہے۔ اقبال نے کاغذ پکڑا اور یہ نسخہ لکھ کے تھما دیا کہ جاؤ اب یہ ہسپتال نہ بنے گا؎
اک پیشوائے قوم نے اقبال سے کہا
کھلنے کو جدہ میں ہے شفاخانہ حجاز
اوروں کو دیں حضور! یہ پیغام زندگی
میں موت ڈھونڈتا ہوں زمین حجاز میں
یاحیرت! اقبال موت بھی حجاز میں ڈھونڈے، اور اقبال کا شاہین اپنا دین بھی پیوٹن کے گروزنی میں جا ڈھونڈے؟ ویسے ظاہر ہے کہ جو چیر پھاڑ پنجۂ عیسیٰ میں آئے ہسپتال میں ممکن ہے وہ مطبِ نبوی کی حکیمانہ حکمت میں کہاں ممکن ہے۔ خیر، لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے فارمولۂ تقسیم کی طرح گروزنی کی تقسیم اہلِ سنت کا فارمولہ بھی بڑا سادہ سا تھا۔ یعنی جو مسلمان فلسفہ یونان کی عقلی موشگافیوں کے وضع کردہ نظامِ علم الکلام کے بجائے محدثین کے بتائے سادہ طریقے سے رب کی صفات کو مانے، نکلے یہاں سے، اس کا کوچۂ اہلِ سنت میں بھلا کیا کام؟ لارڈ ماؤنٹ بیٹنی یہ فارمولہ ہے کیا؟ آپ سادہ انداز میں یوں سمجھیے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر قرآنِ مجید، سورہ فتح میں ایک آیت نازل ہوئی۔ ’’وہ جو تمھاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔‘‘
( ترجمہ احمد رضا خاں بریلوی)
اب یہاں اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے لفظ ’ہاتھ‘ (ید)کو سمجھنے میں کچھ مسلمانوں کو مشکل پیش آئی۔ صحابہ کو نہیں، فلسفہ یونان کے علم الکلام کے زیر اثر آنے والے بعد کے کچھ لوگوں کو۔ انھوں نے کہا، ہیں ہیں؟ تو گویا اللہ کا بھی ہاتھ ہے؟ ہرگز نہیں، ہاتھ تومخلوق کا ہوتا ہے، اللہ کا ہاتھ مان لیا توگویا اللہ کو تونعوذ باللہ مخلوق جیسا مان لیا، نہیں جی، ہرگز نہیں، یوں تو ہم نہ مانیں گے، چلیے جلدی کیجیے، اس ید کا معنیٰ کچھ اور کیجیے، جو بھی کرو بس اللہ کا ہاتھ نہیں ہونا چاہیے۔ حالانکہ علاوہ اور علمی دلائل کے علماء نے علم بلاغت (زبان و بیان کے علم) سے بھی انھیں سمجھایا کہ لفظی مشارکت اور تشبیہ سے یہ قطعا ًلازم نہیں آتا کہ جس سے تشبیہ دی گئی ہو، تشبیہ دیا جانے والا بھی سو فی صد ویسا ہی مانا جائے۔ مثلاً ن لیگ والے نواز شریف کو اگر شیر کہتے ہیں تومعاف کیجیے گا کیا اس سے یہ بھی لازم آئے گاکہ اب میاں صاحب بےچارے کی شیر کی طرح دم بھی مانی جائے؟ مثلاً منہ انسانوں کا بھی ہے اور جانوروں کا بھی۔ تو اگر انسان یہ کہیں کہ ہمارے منہ کو آج سے ٹانگ کا پٹ کہا جائے وگرنہ ہماری جانوروں سے مشابہت لازم آئے گی؟ تو کیا ایسا سمجھنا درست ہو گا؟ یقینا نہیں۔ چنانچہ محدثین نے یہ رائے مسترد کردی، انھوں نے کہا کہ بھئی معنیٰ تو ہم وہی کریں گے جو بنتا ہے، البتہ ہم یہ کہیں گے کہ ہے تو ہاتھ ہی مگر یہ ہاتھ مخلوق جیسا نہیں ہے۔ پھر کیسا ہے؟ بھئی جیسا اللہ کی شان کے شایاں ہے۔ ہم نے دیکھا تھوڑی ہے؟ جنت میں دیکھیں گے تو تفصیل بھی بتا دیں گے.
لیجیے صاحب! محدثین کے سچے اور سچے موقف والوں کو آج چند پروفیسروں کے زورِ بیاں نے گروزنی میں قابلِ گردن زدنی ٹھہرا دیا ہے۔ کہیے نعرہ ٔ تکبیر!اللہ اکبر! دیکھا کیسی شاندار کانفرنس تھی!
قارئین! بات لیکن اتنی سادہ بھی نہیں کہ کسی کے پرجوش نعرہ تکبیر میں لپیٹ دی جائے۔ کیونکہ اگر یہی اصرار ہے تو پھر امام بخاری، امام مسلم سمیت سارے محدثین یعنی امام احمدابنِ حنبل، امامِ مالک، امام شافعی کے علاوہ فقہا و علماء امام ابوحنیفہ، امام ابنِ تیمیہ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، ابو الکلام آزاد، ثنااللہ امرتسری، مولانا داؤد غزنوی، علامہ احسان الٰہی ظہیر، پروفیسر ساجد میر، حافظ سعید، علامہ ابتسام الٰہی ظہیر اور نہ جانے کتنے اور لوگ اسی ایک گروزنی کانفرنس سے اور مفتی صاحب کے ایک کالم سے تا حکمِ ثانی کالعدم اہلِ سنت قرار پائیں گے۔ کیا یہ واقعی اتنا ہی آسان ہے؟ پھر یہ بھی تو سوچیے کہ جو صحابہ و تابعین دور عباسی میں فلسفہ یونان آنے سے پہلے پہلے رب کے پاس جا پہنچے، آیا انھیں گروزنی کانفرنس سے بچا لیا جائے گا یا گئی ان کی بھی اہلِ سنیت؟ شورش یاد آگیا۔ عجیب شخص تھا، ’شب جائے کہ من بودم‘ کے نام سے اپنے سفرِ عمرہ کی روداد لکھی توشاہوں پر اپنے کاٹ دار انداز میں تنقید کی، لکھا کہ وہ بدعت سے خائف ہو کے یا عدم توجہی کی بنا پر سنت کی یادگاریں گم کر رہے ہیں۔ جی اسی شورش نے جب سنا کہ کسی نے قائدِ اعظم کے ساتھی اور مسلک ِاہلِ حدیث کے رہنما داؤد غزنوی کے بارے میں کہا ہے کہ وہ جنت میں نہیں جائیں گے۔ پھر کیا تھا موچی دروازے میں شورش بپھر گیا۔ اپنے خاص طنطنے، دبدبے، دغدغے اور ہمہمے سے کہا، اگر داؤد غزنوی جنت میں نہیں جائے گا تو میں اس کے ساتھ جہنم میں بھی جانے کو تیار ہوں، لیکن تمھارے ساتھ تو میں جنت جانے کو بھی تیار نہیں۔ اللہ اللہ ! کیاخاص ڈکشن، خاص سانچے کےاور خاص طرح کے بڑے اور باصفا لوگ تھے وہ۔ جناب مفتی صاحب! خدارا اتنا تو سوچیے کہ اگر اسلام کے صفِ اول کے یہ سارے متذکرہ لوگ اہلِ سنت نہیں تو پھر اہلِ سنت ہے کون؟
تبصرہ لکھیے