آئیے جناب! سوشل میڈیا کی دنیا میں آپ کو خوش آمدید. سوشل میڈیا کی اس وسیع دنیا میں جہاں آپ کو کچھ کام کی باتیں ملے گی وہیں آپ کو انواع اقسام کی خرافات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا.
یہاں آپ کو کبھی کوئی بلی کسی ویڈیو میں نماز پڑھتی نظر آئے گی، کبھی کوئی پرندہ سجدہ کرتا دکھائی دے گا. کبھی خانہ کعبہ کے اوپر ایک فرشتہ نمودار ہوگا جو خود بیت اللہ میں کسی کو دکھائی نہیں دے گا مگر ہم فیس بُکی مسلمانوں کو نظر آئے گا. کبھی مائیکل جیکسن زین بہیکا کی آواز میں مشہور انگریزی حمد ( say thanks to ALLAH ) گا رہا ہوگا اور سب اندھا دھند سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ رہے ہوں گے.
یہیں کہیں کسی پوسٹ میں آپ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی سلائی مشین بھی دکھائی دے گی. کیا کہا نہیں نظر آئی؟ ارے بھئی سبحان اللہ اور ماشاءاللہ کے کمنٹس ہٹا کر دیکھیں، یہیں کہیں پائی جائے گی.
فیس بُکی دنیا میں ہی کبھی کسی دیوار یا صفحے کی کھدائی کریں تو یہ بات بھی آپ کے بھی علم میں آئے گی کہ مشہور خلا باز نیل آرم اسٹرانگ جب چاند پر گئے تو انہیں وہاں صرف ایک آواز سنائی دی جو کہ اذان کی آواز تھی اور انہوں نے چاند سے واپسی پر فی الفور اسلام قبول کر لیا. اب اس تفصیل میں کون جائے کہ چاند پر فضا ( atmosphere) زمیں جیسی نہیں، وہاں آواز سنائی نہیں دیتی، پھر کوئی اس تحقیق میں بھی نہیں پڑے گا کہ اس امریکی خلا باز کے چاند پر جانے اور نہ جانے کے بارے میں بھی دو رائے ہیں.
کبھی بدھوں کے رہنما دلائی لاما ہمارے حضور پاک ﷺ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اسلام امن کا دین ہے تو ہم اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس ویڈیو کو اتنا شیئر کرو کہ تمام مسلمانوں کو اس بات کا یقین/علم ہوجائے. کوئی مجھے بتائے کہ ہمارے عقیدے اس قدر کمزور ہیں کہ ہمیں محمد صلی للّہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس کی عظمت کی گواہی ان غیر مسلموں سے لینی پڑے گی؟
یہیں آپ کو سچے اور پکے مسلم بھائیوں کی طرف سے پیش کی گئی وہ پوسٹ بھی نظر آئی گی کہ جو آپ نے آگے شیئر نہ کی تو آپ دائرہ اسلام سے خارج ہوجائیں گے اور اگر ماشاءاللہ اور سبحان اللہ نہ کہا گیا تو آپ دنیا کے سب سے بڑے کنجوس کہلائے جائیں گے.
اللہ کے بندو کچھ تو زور اپنے ذہن پر بھی ڈالا کرو کہ اسے زنگ نہ لگ جائے. اس بات سے کسے انکار ہے کہ اللہ کی یہ مخلوق چرند پرند اُس کی حمد میں مصروف ہیں مگر اُن کا طریقہ ہم سے مختلف ہے، نماز ہم پر فرض ہے نہ کہ ان بلیوں پر جنہیں مسلمان بنانے کی تگ و دو میں آپ لگے ہیں. کسی چیز کو شیئر کرنے یا نہ کرنے سے لوگ کافر ہونے لگے تو ہوگیا کام، ہم تو دائرہ اسلام سے خارج قرار پائیں گے پھر. ضرورت اس اَمر کی ہے کہ اندھی تقلید کرنے کے بجائے کسی بھی چیز پر یقین اور شیئر کرنے سے پہلے اس بات کا یقینی بنا لیا جائے کہ آیا یہ سچ ہے یا اس کی کوئی حیثیت ہے بھی کہ نہیں۔
تبصرہ لکھیے