ہوم << آئینہ خانہ بارِ دوش ہے-ہارون الرشید

آئینہ خانہ بارِ دوش ہے-ہارون الرشید

m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
دوسروں کے نہیں تو کم از کم اپنے حامیوں کے نقطہ ٔ نظر پر عمران خاں کو تھوڑا سا غور کرنا چاہیے۔ ؎
زندگی کی رِہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یوں سمجھ لے‘ کوئی آئینہ خانہ بارِ دوش ہے
بے شک برہمی میں خان صاحب مبالغہ کرتے ہیں۔ اس میں مگر کوئی شبہ نہیں کہ وزیر اعظم پر اس کے جو اعتراضات ہیں‘ بہت سے دوسروں کے بھی وہی ہیں۔ پاناما پر تحقیقات کا مطالبہ پیپلز پارٹی بھی کرتی ہے۔ بلاول بھٹو نے یہاں تک کہہ دیا کہ 2018ء میں میاں محمد نواز شریف جیل میں ہوں گے۔ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں وہ انہیں ''مودی کا یار‘‘ کہتے رہے۔ بلاول بھٹو اور پیپلز پارٹی کو الگ رکھیے۔ تحریکِ انصاف کے اکثر لیڈروں کی رائے یہی ہے کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ ایک بڑی غلطی تھی۔
1859ء میں شروع ہونے والی امریکی خانہ جنگی کے ہنگام‘ دونوں طرف کی افواج نے کم از کم چھ لاکھ افراد کو قتل کر ڈالا تھا۔ صدارتی الیکشن کا مرحلہ آیا تو نامزدگی کے لیے ابرہام لنکن کا استدلال یہ تھا: دریا میں گھوڑے تبدیل نہیں کیے جاتے۔ پارٹی ہی نہیں، قوم نے بھی اس کا موقف مان لیا۔ تلخی شدید تھی، صدر کی بہترین کاوشوں کے باوجود ایوانِ نمائندگان نے کالوں کو آزادی دینے سے انکار کر دیا۔ آخرکار عوامی نمائندے مان گئے‘ لیکن پھر ابرہام لنکن قتل کر دیئے گئے‘ جس طرح آر ایس ایس کے گاڈسے نامی کارکن نے گاندھی جی کو ہلاک کر ڈالا تھا۔ آر ایس ایس والے یہ کہتے تھے کہ مسلمانوں کا قتل عام کرنے کی بجائے‘ گاندھی انہیں بھارتی قوم کا حصہ کیوں بنانا چاہتے ہیں۔ معاشی طور پر پاکستان کا گلا گھونٹنے کی برملا تائید کے برعکس‘ وہ پاکستان کو اس کے اثاثے واپس کرنے پر کیوں مصر ہیں۔ گاندھی اور نہرو پاکستان کے دوست نہیں تھے‘ بس قدرے زیادہ سلیقہ مند۔
انتہا پسندی اور تعصب قوموں کو ہلاک کرتے ہیں۔ جس شخص کو مغربی ممالک نے ویزہ دینے سے انکار کیا تھا، بھارتیوں نے اسے اپنا ملک سونپ دیا۔ یہ ان کی مرضی اور ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ مودی اگر نفرت کی آگ بھڑکائے رکھنا چاہتا ہے تو نتائج بھارتی عوام بھگتیں گے۔ ہمیں تو بھارتی جارحیت کے علاوہ بہت سے دوسرے داخلی اور خارجی چیلنج بھی درپیش ہیں؛ چنانچہ زیادہ تحمل اور زیادہ ہوشمندی سے کام لینا چاہیے۔
جذبات کی آگ میں دانش جل جاتی ہے۔ غصے یا برہمی سے بے قابو فرد یا اجتماع کبھی موزوں فیصلہ نہیں کر سکتا۔ رسول آخرالزماںؐ کے بارے میں قرآنِ حکیم یہ کہتا ہے: اپنی مرضی سے وہ کوئی بات نہیں کہتے‘ بلکہ صرف وہی جو ان پر اتاری جائے۔ حدیثِ رسولؐ کے ساتھ قدسی کا لفظ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ الفاظ بھی عرش بریں سے نازل ہوئے۔ حدیثِ قدسی یہ ہے: اللہ نے عقل کو پیدا کیا تو اس پر ناز فرمایا‘ اس سے کہا‘ چل پھر کے دکھا‘ پھر ارشاد کیا: جو کچھ کسی کو دوں گا‘ تیرے طفیل دوں گا اور جو کچھ کسی سے لوں گا‘ تیری وجہ سے۔
کل کے کالم میں‘ ایک بڑی غلطی ہو گئی۔ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے کی تائید شاہ محمود نے ہرگز نہ کی تھی بلکہ جناب جہانگیر خان ترین اور جناب علیم خان نے۔ ان دونوں ''خوانین‘‘ سے بڑھ کر خود خان اعظم‘ خان عمران خان اس تجویز کے حامی تھے۔ چوہدری محمد سرور‘ شفقت محمود اور یا للعجب شیریں مزاری نے بھی مخالفت کی۔ مردان سے قومی اسمبلی کے رکن علی محمد خان اٹھ کر کھڑے ہوئے اور ہاتھ جوڑ کر کہا کہ ایسا نہ کیا جائے۔ خان صاحب اس پر برہم ہوئے اور کہا کہ اگر یہ فیصلہ انہیں پسند نہیں تو وہ پارلیمنٹ کے اجلاس میں چلے جائیں۔ یہی نہیں‘ راوی کے مطابق یہ بھی فرمایا کہ اجلاس سے چلے جائیں‘ چاہیں تو نون لیگ میں شامل ہو جائیں۔
احد کے دن‘ سرکارؐ مدینہ منورہ میں رہ کر دفاع کے حق میں تھے‘ مگر اصحاب کا مشورہ انہوں نے تسلیم کر لیا۔ پیغمبرؐ پر وحی اترتی تھی اور ان کی دانش‘ ساری کائنات سے بڑھ کر تھی۔ اس کے باوجود رفقا کی بات‘ انہوں نے کیوں مان لی؟ فرمان الٰہی یہ تھا ''و امرھم شوریٰ بینھم‘‘ ان کے فیصلے باہم مشورے سے طے پاتے ہیں۔ ثانیاً آپؐ نے اصحابؓ کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی کہ وہ غور و فکر کریں۔ تربیت یافتہ رہنمائوں ہی کی نہیں‘ عامیوں کی بھی۔ وہ ؐ لوگوں کو اختیار دیتے اور سکھایا کرتے۔ لشکر کے ساتھ مدینہ سے جاتے تو ہر بار نیا امیر مقرر کرتے۔ اسی طرح وہ جماعت آپؐ نے پیدا کی، جس نے تاریخ کا رخ بدل ڈالا۔ ان کے تعصب کو آپؐ نے نفیٔ ذات کی مسلسل عبادت سے دھو ڈالا۔ رسم و رواج کی ماری روحوں کو آزادی بخشی۔ آدمی کی ذات ہی اس کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ ایک فقیر کو یہ کہتے سنا گیا: اللہ سے جب معاملہ ہو تو مخلوق کو بھول جائو۔ مخلوق سے جب واسطہ ہو تو خود کو بھول جائو، اپنی اَنا اور مفاد کو۔ عصر رواں کے عارف نے کہا تھا‘ صوفی وہ شخص ہوتا ہے‘ دوسروں کو جو ہمیشہ رعایت دے سکتا ہے‘ خود کو کبھی نہیں۔
صوفی تو خیر کیا، سکالر تو خیر کیا، عقل عام کا حامل کوئی شخص بھی گرد و پیش کے انسانی جذبات کو نظر انداز نہیں کر سکتا‘ چہ جائیکہ اپنے حامیوں اور ایثار کرنے والوں کو۔ صدر غلام اسحٰق، میاں نواز شریف سے کہیں زیادہ تجربہ کار اور دانا تھے۔ بے حد دیانت دار بھی۔ ناکام اس لیے ہوئے کہ عوامی جذبات کا ادراک نہ تھا۔ 1930ء کے عشرے میں پنجاب مسلم لیگ کی تشکیل پر اقبالؔ کو قائد اعظمؒ کے فیصلوں سے اختلاف تھا۔ برسوں تک شاعر دل سنبھالے رہا۔ ایک عظیم اور جلیل مقصد کے لیے وہ اسی طرح ان کا رفیق رہا۔ یکسوئی میں ذرا سا فرق بھی نہ آیا۔ اصرار رہا کہ تمام مسلمانوں کو قائد اعظمؒ کے علم تلے متحد ہو جانا چاہیے۔ نہرو بھی غالباً جانتے تھے۔ اس لیے بھی شاید اقبالؔ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ کہا: مسٹر جناح متنازعہ ہیں۔ آپ مسلمانوں کے غیر متنازع لیڈر ہیں۔ کرسی پر براجمان ہونے کی بجائے نہرو فرش پہ بیٹھ گئے تھے۔ کہا: آپ کے سامنے میری حیثیت یہی ہے۔ ایک جلال کے ساتھ فرمایا: قائدِ اعظم کا میں ادنیٰ سپاہی ہوں۔ ڈھاکہ سے پشاور تک محمد علی جناح ہرکہیں نوجوانوں کی بات سنتے۔ لیگ کے عہدیداروں سے مشورہ کرتے، علما کرام سے بھی‘ لیکن ان سے زیادہ وکلا سے۔ عصری رجحانات سے وہ زیادہ واقف اور زیادہ لچکدار ہوتے ہیں۔ جید علما کا احترام تھا۔ کراچی میں مولانا شبیر احمد عثمانی اور ڈھاکہ میں ایک دوسرے عالمِ دین کو پہلی بار پاکستانی پرچم لہرانے کا اعزاز بخشا۔
رائے ونڈ روڈ کی ریلی کے بعد‘ پارٹی اور کپتان کا اقبال بلند تھا۔ مخالفت اس کی بھی ہوئی تھی مگر اس کے حامیوں نے پروا نہ کی۔ آزاد اخبار نویس بھی مخالف نہ تھے۔ تین چار دن کے اندر خان نے بہت کچھ کھو دیا۔
عمران خان کا اعتراض درست ہے۔ پاناما لیکس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ باقی سنگین الزامات کی بھی۔ مثلاً کیا بھارت میں وزیر اعظم کی سرمایہ کاری ہے؟ کیا افغانستان کے علاقے حاجی کاک میں لوہے کی کانوں میں وہ ایک بھارتی سرمایہ دار کے شریک کار ہیں؟ اربوں کی دولت کیسے جمع کی؟ ٹیکس ادا کیا یا نہیں؟ کاش کہ سپریم کورٹ پاناما کا از خود نوٹس لیتی۔ اس وقت جنگی جنون کی فضا میں نہیں‘ اس سے بہت پہلے۔ اگر نہیں تو اب دوسرے لوگ خاموشی سے تحقیقات کریں۔ خود تحریک انصاف بھی۔ وقت آنے پر معاملہ اٹھایا جائے۔
اصو ل مگر یہ ہے کہ صاحبِ معاملہ جج نہیں ہوتا۔ فیصلہ عدالت کرے گی یا پاکستانی عوام۔ شریف خاندان کے سیاسی حریف نہیں۔ مکافاتِ عمل سے کبھی کوئی بچا نہیں۔ نواز شریف قصوروار ہیں تو وہ بھی نہیں بچیں گے۔
دوسروں کے نہیں تو کم از کم اپنے حامیوں کے نقطہء نظر پر عمران خاں کو تھوڑا سا غور کرنا چاہیے تھا۔ ؎
زندگی کی رِہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یوں سمجھ لے‘ کوئی آئینہ خانہ بارِ دوش ہے
پسِ تحریر: کالم لکھا جا چکا تو معلوم ہوا کہ عمران خاں نے 30 اکتوبر کو اسلام آباد کا گھیرائو کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کے علاوہ پیپلز پارٹی کے خلاف بھی محاذ کھول دیا ہے۔ اس دانائی پر کسی تبصرے کی شاید کوئی ضرورت نہیں۔

Comments

Click here to post a comment