رومی سلطنت کا شیرازہ بکھرنے کے بعدبر اعظم یورپ مختلف ریاستوں میں تقسیم ہو گیا ۔ یہ قومی ریاستیں کئی صدیوں تک آپس میں لڑتی رہیں تاہم جب جنگ عظیم اول دو کروڑ کے قریب انسانوں کو ہڑپ کر گئی تو وہاں کے دانشور انسانی سرشت کے اس خونخوار پہلو کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گئے اورانسانی تاریخ میں پہلی بار بڑے پیمانے پر ایک ایسی فکری تحریک نے جنم لیا جو ان سر چشموں کو دریافت کرنا چاہتی تھی جہاں سےہزاروں سال تک لہو بہانے کی خواہشات جنم لیتی رہیں ۔ یہ اچھوتا طرز فکر تھا کیونکہ تہذیب انسانی کے طویل سفر میں اگرچہ بہت سے مرحلے طے ہو چکے تھے مگر کسی نہ کسی فلسفے کے تحت جنگ کرنا ابھی تک ایک لائق تحسین عمل ہی سمجھا جاتا تھا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ جنگ کی ہر صورت سے بیزاری نے ایک فکری تحریک کی صورت اختیار کر لی۔
اس تحریک کا سرخیل برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل تھا جس نے پہلی جنگ عظیم کی ہولناکی کا مشاہدہ کرنے کے بعد اپنی تمام عمر یہ دریافت کرنے میں صرف کر دی کہ کیسے انسان کی وحشی جبلتوں پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اس نے ہر شعبہ ہائے زندگی کا تجزیہ کیا اور ایک ایسا نظام زندگی پیش کیا جس پر عمل پیرا ہو کر جنگ کے ادارے کو انسانی سماج سے ختم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔رسل کے ساتھ ساتھ نفسیات دان ، ماہر عمرانیات اور دیگر شعبہ ہائے علوم پر دسترس رکھنے والے مفکرین نے بھی اس ضمن میں طویل عرق ریزی کی۔
تاہم عوامی سطح پر اس سوچ کو بہت زیادہ پذیرائی نہ مل سکی جو کہ بہرحال ایک فطری امر تھا کیونکہ انسان روز آفرینش سے ہی لہو بہانے کی لذت سے ہمکنار ہو چکا تھا ۔ انسانی تہذیب نے ہزاروں سال کے سفر میں قتل و غارت کو اپنی فطرت کا ایک جزو لا ینفک ہی سمجھا تھا ۔ اس کا ایک ثبوت قدیم دور سے لکھی جانے والی وہ شاعری ہے جس میں جنگ کی عمومی طور پر تحسین کی گئی ہے اورانسانی خون بہانےپر کسی نہ کسی بہانے اظہار تفخر کیا گیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کا عفریت 6 کروڑ انسانی جانوں کی بھینٹ وصول کر کے سیر ہوا تو جنگ سے نفرت کی ایسی ہوا چلی کہ یہ سوچ دانشوروں کے حلقہ سے نکل کر مغربی سماج میں نفوذ کر گئی۔ایک بہت بڑی قربانی نے انسانی تہذیب کو ایک نئے راستے پر رواں دواں کر دیا جس پرچل کریہ حقیقی امید کی جا سکتی تھی کہ مستقبل میں جنگ کا ادارہ نسل انسانی کے لئے قصہ پارینہ بن جائے گا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی ریاستیں عمومی طور پر یہ کوشش کرتی رہیں کہ وہ کسی نئی آویزش سے دور رہیں ۔معاشی ترقی کے لئے امن ناگزیر تھا اور علم و تحقیق ، جو کہ بالاتری حاصل کرنے کے جدید ہتھیار تھے، ان کے لئے معاشی استحکام امر لازم تھا۔
ایک ایسے دور میں جب دنیا خونریزی کے پتھریلے راستے سے گزر کر امن کی پر سکون وادیوں کی طرف رخ کر رہی تھی، مولانا مودودی صاحب ( 1930 کے آس پاس) "الجہاد فی الاسلام" لکھ رہے تھے جس میں مدافعانہ جنگوں کے تصور کو رد کر کے اس نظرئیے کی تبلیغ کی گئی کہ مسلمان پوری دنیا پر حکمرانی کرنے کے لئے آئے ہیں اور اس ارفع مقصد کے حصول کے لئے جارحانہ جنگ ایک مقدس ذریعہ ہے۔
سید قطب شہید نے تو دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریا ں دیکھنے کے باوجود بھی اسی روایت کی پیروی کرتے ہوئے مسلمانوں کو جنگ و جدل کی راہ اختیار کرنے کا درس دیا۔ ان دونوں صاحبان قلم نے اور دیگر آنے والے دانشورو ں نے فکر اسلامی کی روایت کو اسقدر متاثر کیا کہ مسلمانوں کا قتال سے ایک بہت ہی رومانوی رشتہ قائم ہو گیا۔ یہ سوچ عام ہو گئی کہ زوال کی اتھاہ گہرائیوں سے ابھرنے کا واحد راستہ جہاد فی سبیل اللہ ہے۔
تاریخ کے ایک ایسے موڑ پر جب انسانیت اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ تشدد کی بجائے علم اور تحقیق ہی برتری کے حصول کا واحد راستہ ہے، اس رجعت پسندانہ سوچ نے مسلمانوں کی کئی نسلوں کو سائنس اور دیگر سماجی علوم کے اس راستے سے دور کر دیا جس پر چل کر وہ حقیقی طور پر سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہو سکتے تھے۔ نسیم حجازی کی مقبولیت کی وجہ بھی یہی جنگجویانہ طرز فکر تھا جو مسلمان معاشرے کی جڑوں میں سرایت کر چکا تھا۔ افغانستان کی جنگ بھی اسی فلسفے کی بدولت لڑی گئی اور آج بھی بہت سی جگہوں پر جو فساد فی الارض بپا ہے، اس کے پیچھے بھی یہی فکر کارفرما ہے۔
یہ بھی اسی سوچ کا شاخسانہ ہے کہ مسلمانوں میں نہ ہی سائنسدان پیدا ہو رہے ہیں اور نہ ہی عمرانی علوم کو نئے زاوئے بخشنے والے دانشور جنم لے رہے ہیں۔ایک ایسا شدید قحط الرجال ہے کہ الامان والحفیظ۔ جب تک فکری دھارے درست سمت کی جانب رواں دواں نہیں ہوں گے، یہ زوال قائم و دائم رہے گا۔
تبصرہ لکھیے