ایدھی صاحب بھی چل بسے۔ ایک سادہ صاف گو اور معصوم سے ایدھی صاحب۔ ان سے میری ایک ہی ملاقات تھی۔ اس کی یادیں جب تک سانسیں چل رہی ہیں، ایک متاع عزیز بن کر ساتھ رہیں گی۔
مصطفیٰ کمال ان دنوں ناظم کراچی تھے۔ میں ایک نجی ٹی وی چینل کے لیے ان کا انٹرویو کرنے اسلام آباد سے کراچی پہنچا۔ مصطفی کمال کے انٹر ویو کے بعد میں نے مقامی ٹیم سے کہا کہ ممکن ہو تو میں عبد الستار ایدھی کا انٹرویو بھی کرنا چاہوں گا۔ رابطہ کیا گیا اور ایدھی صاحب نے اسی وقت ہمیں اپنے پاس بلالیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک تنگ سی گلی کی نکڑ پر واقع ایدھی سنٹر میں موجود تھے۔
انٹر ویو شروع ہوا اور اس کا نصف حصہ خاصی سنجیدہ گفتگو کی نذر ہوگیا۔ بریک کے بعد میں نے سوال کیا: ’’ایدھی صاحب آپ کو کیا چیز پسند ہے؟‘‘۔۔۔۔۔ اور اس سوال کے جواب میں جو ایدھی صاحب کھلے تو ایسا کھلے کہ میں ہی نہیں وہاں موجود ہر شخص حیران رہ گیا۔ آج خیال آتا ہے کاش میں نے ان سے سنجیدہ گفتگو کی ہی نہ ہوتی اور پہلا سوال ہی یہی پوچھ لیا ہو تا کہ ’’ایدھی صاحب آپ کو کیا چیز پسند ہے؟‘‘
ایدھی صاحب کے مشن کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کے بعد میں نے بریک لی۔ بریک کے بعد میں نے پوچھاآپ کو کیا چیز پسند ہے؟ ایدھی صاحب ترنت بولے ’’لڑکیاں ‘‘۔
باریش بزرگ کا یہ جواب سن کر ایک لمحے کو تو میں سن سا ہوگیا۔ ان کا ایک اور ہی امیج میرے ذہن میں تھا۔ مجھے لگا شاید وہ کچھ اور کہنا چاہ رہے ہیں میں سمجھ نہیں سکا۔ اس لیے میںنے پوچھ لیا: ’’کیا کہا آ پ نے؟‘‘
ایدھی صاحب اسی روانی میں اور اسی معصومیت کے ساتھ جواب دیا، ’’لڑکیاں بولا میں‘‘ اور انتہائی سنجیدگی کے ساتھ مجھے دیکھنے لگ گئے۔
میرے لیے یہ ایک انتہائی غیر متوقع صورت حال تھی۔ میں اگلا سوال بھی نہ کر سکا ، ٹک ٹک ان کے چہرے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ مجھے کنفیوز ہوتے دیکھ کر وہ بولے، ’’تم نے لڑکیاں کبھی نہیں دیکھیں؟‘‘
اب تک میں کچھ سنبھل چکا تھا، عرض کی، ’’ قبلہ لڑکیاں تو دیکھ رکھی ہیں، ایسا لڑکا کبھی نہیں دیکھا۔ ‘‘
ایدھی صاحب ذرا نہ جھینپے، اسی رسان اور معصومیت سے بولے، ’’ مجھے گوری پوپٹ لڑکیاں اچھی لگتی ہیں۔‘‘
میں نے کہا ، ’’ قبلہ آپ کی عمر کیا ہے؟‘‘
کہنے لگے، ’’ اسی کے قریب ہو گی‘‘۔
میںنے مسکرا کر کہا، ’’ اسی کے قریب آپ کی عمر ہے اور آپ ابھی تک لڑکیوں کو پسند کرتے ہیں؟‘‘
’’گوری اور پوپٹ لڑکیوں کو‘‘۔۔۔بچوں سی معصومیت کے ساتھ انہوں نے غالباً میری تصحیح فرمائی۔
’’اس عمر میں آپ یہ تکلف کیوں فرما رہے ہیں؟ میں نے انہیں چٹکی کاٹی کہ اب میں بھی صورت حال انجوائے کر رہا تھا۔
ایدھی صاحب نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال داغ دیا ’’ تمہاری عمر کتنی ہے ؟ ‘‘
’’اکتیس سال ‘‘
’’سادی ( شادی ) ہوا؟ ‘‘
’’جی ابھی نہیں ہوئی ‘‘۔
’’کسی نے تیرے کو بولا ادھر کراچی میں یا لاہور میں کہ مجھ سے سادی ( شادی ) کر لو؟ ‘‘۔۔انٹر ویو کرنے میں گیا تھا لیکن سوال ایدھی صاحب پوچھ رہے تھے۔
میں نے کہا ’’جی نہیں ابھی تک تو کسی نے نہیں بولا ‘‘۔
ایدھی صاحب کے چہرے پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ آ گئی، کہنے لگے ،’’مجھ سے تو ابھی کل ایک لڑکی بولا مجھ سے سادی( شادی ) کر لو۔ضد کیا مجھ سے۔بھکر کی ہے۔بہت فون کیا اس نے مجھ کو ‘‘۔
اس لڑکی نے آپ سے شادی کرنے کا کہا؟
’’ہاں مجھ سے بولا۔کئی دفعہ بولا۔ایک یہ لڑکی نہیں بولا مجھ سے۔ بہت سی لڑکی نے بولا ‘‘۔ ۔۔پھر ہاتھ لہرا کر باقاعدہ مجھے طعنہ دینے لگے : ’’تجھ سے تو کوئی نہیں بولا‘ ‘۔
”مجھ سے کوئی نہیں بولا۔مجھے چھوڑیں یہ بتا ئیں پھر آپ نے کیا جواب دیا اس لڑکی کو؟“
ایدھی صاحب قہقہہ لگا کر کہنے لگے ،’’میں نے اس کو بولا میں اب مرد نہیں رہا ‘‘۔
پھر کیا کہا اس نے ؟
’’وہ کہنے لگی کوئی بات نہیں سادی کے بعد میرے کو صرف ساپنگ کروا دیا کرنا ‘‘۔
تو کیا فیصلہ کیا آپ نے؟
’’ابھی کوئی فیصلہ نہیں کیا‘‘۔ ایدھی صاحب نے رازدارانہ انداز میں آگے جھک کر سرگوشی کی’’آہستہ بولو بلقیس سن لے گی ‘‘۔
آپ موبائل فون کیوں نہیں رکھتے اپنے پاس؟
’’مجبوری ہے ‘‘۔اب پھر وہی معصومیت لوٹ آئی تھی ایدھی صاحب کے چہرے پر’’میری گرل فرینڈز ناراض ہو گئی تھیں موبائل کی وجہ سے۔بس میں نے اسی وقت موبائل فون پھینک دیا ‘‘
وہ کیوں ناراض ہو گئی تھیں؟
’’بس ناراض ہو گئیں مجھ سے۔ ایک دن سکیلہ کا فون آیا تو میں سمجھا جمیلہ کا فون ہے میں بولا ہیلو جمیلہ ڈارلنگ۔وہ سکیلہ نکلی۔ ۔ ۔پھر جمیلہ کا فون آیا میں سمجھا سکیلہ کا فون ہے۔میں بولا ہیلو سکیلہ ڈارلنگ۔ لیکن وہ جمیلہ نکلی۔دونوں ہی ناراض ہو گئیں ‘‘۔
اچھا یہ بتائیں کس بات نے آپ کو بہت پریشان اوردکھی کیا؟
’’وہ میری دوسری بیوی تھی ناں۔میں نے اس کو بہت پیار کیا۔بہت سی امانتیں اور سونا اس کے پاس پڑا تھا۔ وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ‘‘
میں نے سوچا ایدھی صاحب دکھی ہو گئے ہیں ان کا غم بانٹنا چاہیے۔میں نے اظہار افسوس کیا تو انہوں نے مجھے روک دیا اور بولے’’ اس بات کا مجھے دکھ نہیں کہ وہ چلی گئی۔اس بات کا دکھ بھی نہیں ہے کہ سونا ساتھ لے گئی۔اللہ مالک ہے۔وہی نظام چلاتا ہے ‘‘۔
تو پھر کس بات کا دکھ ہے؟
’’دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے چھوڑ کر چلی گی تو اس نے سادی کر لیا ‘‘۔
اوہو۔۔۔
’’ابے بات تو پوری سن۔سادی کر لینے کا دکھ نہیں ہے مجھ کو ‘‘۔
تو پھر کس بات کا دکھ ہے آ پ کو؟
’’دکھ اس بات کا نہیں کہ اس نے مجھے چھوڑ دیا‘‘ایدھی صاحب نے رازدارانہ انداز میں آگے کو جھک کر کہا اور پھر اپنے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولے ’’ دکھ اس بات کا ہے کہ مجھے چھوڑ کر سالی ایک مولبی سے سادی کر لیا۔مولبی ہی سے کرنا تھی تو میرے کو کیوںچھوڑا ‘‘۔
اور آج۔ ۔۔۔
ایدھی صاحب ہم سب کو چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کی یادیں ہمارے ساتھ اور ہماری دعائیں ان کے ساتھ۔
تبصرہ لکھیے