دو سال بعد اپنے آبائی شہر گوجرانوالہ پہنچا تو دل کیا کہ پرانے دوستوں سے ملوں، یہی سوچ کر گھر سے نکلا، مٹھائی کا ڈبہ لیا اور حفیظ کے گھر جا پہنچا۔ گھنٹی بجانے پر ایک خوبصورت سا نوجوان باہر آیا جو ہوبہو حفیظ جیسا دکھ رہا تھا، شاید اُس کا چھوٹا بھائی تھا۔ اُس سے حفیظ کے بارے میں پوچھا تو وہ آنسو بھری آنکھوں کے ساتھ حیران ہو کر مجھے دیکھنے لگا۔ یہ دیکھ کر حیرانی و پریشانی ہوئی اور کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس لڑکے کی آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں۔ شاید وہ اپنے آنسوؤں سے کچھ بتانا چاہ رہا تھا جو میں سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ مجھے وہ نوجوان ڈرائنگ روم میں بٹھا کر گھر کے اندر چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد حفیظ کے بڑے بھائی کے ساتھ واپس آیا، جو مجھے اچھی طرح جانتے تھے. وہ مل کر رو دیے اور بتایا کہ حفیظ کا ایک سال قبل نشے کی زیادتی سے انتقال ہوگیا تھا۔ موت کی خبر نے مجھے بھی رنجیدہ کردیا، اور میں شکستہ دل کے ساتھ کسی اور دوست سے ملے بغیر ہی گھر واپس آگیا.
اس واقعہ کو چار سال بیت چکے ہیں لیکن آج بھی جب کسی منشیات کی لت میں مبتلا نوجوان کو دیکھتا ہوں تو آنکھوں کے سامنے حفیظ کا چہرہ آجاتا ہے۔ وہ بہت ہی خوبصورت، صحت مند اور ذہین نوجوان تھا، تعلیمی میدان میں وہ ہم سب دوستوں سے آگے تھا، اور سارے استاتذہ اس سے بہت اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے.
وطن عزیز میں روزانہ بہت سے نوجوان منشیات کے ناسور کی وجہ سے موت کی آغوش میں جا رہے ہیں، بہت سے منشیات کی لت میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں منشیات کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح دہشت گردی سے بھی بہت زیادہ ہے۔ یواین او ڈی سی کی 2013ء میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق وطن عزیز میں 67 لاکھ سے زیادہ منشیات کے عادی افراد ہیں جن میں روز بروز بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور ایک محتاط اندازے کے مطابق 2025ء میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ افراد منشیات کے عادی ہوں گے. منشیات کی وجہ سے پاکستانی معاشرے کو بہت ہی سنگین نوعیت کے مسائل لاحق ہیں، اس لیے حکومتی اور عوامی سطح منشیات کی روک تھام کے لیے بہت زیادہ اقدامات کرنے کی اشد اور فوری ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں کو منشیات کی لت سے محفوظ رکھا جا سکے.
(حیدر علی ڈرگ فری نیشن کے صدر ہیں)
تبصرہ لکھیے