مجھے آج تک معلوم نہیں تھا کہ پہاڑوں کے ڈیتھ زون بھی ہوتے ہیں یا پورٹر کون ہوتے ہیں۔ میں تو یہ سمجھتی تھی کہ اکیلا کوئی انسان پہاڑ پر چڑھائی کرتے کرتے ایک دن چوٹی پار کر لیتا ہے۔ میں کبھی اس کو گہرائی میں نہیں سوچا۔ کبھی سوچنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
لیکن یہ کتاب ہنزہ ٹائیگر (امیر مہدی ) پڑھنے سے مجھے معلوم ہوا کہ کوہ پیما کون ہوتے ہیں۔ پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کے لئے باقاعدہ اجازت نامے درکار ہوتے ہیں، وغیرہ وغیرہ۔مجھے یہ بات کہنے میں کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے میں کوہ پیمائی سے بالکل نابلند تھی مجھے معلوم نہیں تھا کہ پہاڑوں کی بہت ذیادہ اونچائی پر بھی کیمپ لگائے جاتے ہیں۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ پہاڑ کی چوٹی سر کرنے کے لئے ایک مکمل ٹیم ہوتی ہے۔ گیس کے سلنڈر ہوتے ہیں، یہ کتاب ایک پورٹر جو کو پیماؤں کے ساتھ سامان اٹھا کر پہاڑوں پر چڑھتے ہیں ان کے ساتھ ناروا سلوک کے بارے میں لکھی گئی ہے۔لیکن یہ کتاب اپنے آپ میں مکمل ایک دلچسپ معلوماتی سرگزشت ہے جو آپ کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے۔اس کتاب کا مضمون کچھ ایسا ہے کہ وہاں کوہ پیما منجمد کر دینے والی سردی میں چڑھائی کر رہے ہیں۔
اور یہاں میں ٹھنڈے ہاتھوں میں کتاب پکڑے ورق گردانی کرتی ہوں اور سردی کی شدت کا احساس کچھ اور بڑھ جاتا ہے اور پھر میاں جی سے کہتی ہوں ہیٹر کا رخ میری طرف کیجیے پلیز۔ کچھ آگے پڑھتی ہوں بوہل کیسے ساری رات ڈیتھ زون میں منجمد کرنے والی سردی میں کھڑا ہی رہا۔ اس کے پاس نہ آگے کو راستہ تھا نہ پیچھے کو اور پھر میں دوبارہ کہتی ہوں۔ پلیز ہیٹر کو بیڈ کے قریب کر دیجیے۔ میں یاسمین کو سیلوٹ پیش کرتی ہوں کہ انہوں نے ہمارے سامنے ایک چھپی ہوئی دردناک کہانی ظاہر کی کہ پاکستان میں اور پتہ نہیں اور کتنی ایسی دردناک کہانیاں ہیں ،کتنے نام ہیں، کتنے چہرے ہیں جن کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔
جن کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتا۔ میں یہ بھی نہیں سوچ پا رہی کہ امیر مہدی کے پاس اپنے سائز سے چھوٹے بوٹ تھے تو وہ ان میں کس اذیت سے چل رہے ہوں گے کہ لیکن وہ اس کے ساتھ پہاڑوں کی چڑھائی پر گئے۔کچھ مہینے قبل یاسمین نے امیر مہدی کے نام والا پوسٹ کارڈ فل کیا میرے لئے۔ تب مجھے معلوم نہیں تھا کہ اصلیت کیا ہے۔ اب ان کی یہ کتاب تحفتاً موصول ہوئی تو علم ہوا کہ امیر مہدی اصل میں کون تھے۔ امیر مہدی جیسے پورٹرز کی قربانیاں کوہ پیمائی کی دنیا کا وہ غیر مرئی پہلو ہیں جنہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ افراد، جو پہاڑوں کے قدموں میں اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں.
ان عظیم چوٹیوں کو سر کرنے کے لیے جان، جذبے، اور محنت کی ایسی داستان رقم کرتے ہیں جس کا ادراک صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو ان کے ساتھ رہتے ہیں یا ان کے درد کو محسوس کرنا جانتے ہیں یاسمین کی طرح ۔ یہ گمنام ہیرو اپنی جان جوکھم میں ڈال کر پہاڑوں کی بلندیوں پر سامان پہنچاتے ہیں اور کوہ پیماؤں کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی زندگیوں میں چھپی ہوئی مشکلات اور مسائل ایسے پہلو ہیں جن پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے۔پورٹرز کا سامنا ہمیشہ خطرناک حالات سے ہوتا ہے۔ بلند پہاڑوں کی سخت سردی، برفانی طوفان، اور گلیشیئرز کی غیر متوقع حرکت ان کی زندگیوں کو ہر لمحہ خطرے میں ڈالے رکھتی ہیں۔
ان خطرناک راستوں پر وہ آکسیجن کی کمی کے باعث صحت کے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، لیکن ان کے پاس اپنی مدد کے لیے کوئی خاص سہولیات نہیں ہوتیں۔ وہ اپنے جسم پر کئی کلوگرام وزنی سامان اٹھائے، کھڑی چڑھائیوں کو عبور کرتے ہیں، اور ہر خطرہ مول لے کر اپنا کام جاری رکھتے ہیں۔معاشی استحصال پورٹرز کی زندگی کا ایک تلخ پہلو ہے۔ ان کی خدمات کے عوض انہیں جو معاوضہ دیا جاتا ہے، وہ ان کی محنت کے شایان شان نہیں ہوتا۔ کوہ پیماؤں کی کامیابی کا جشن منایا جاتا ہے، لیکن ان کامیابیوں کے پیچھے موجود ان گمنام ہیروز کی قربانیوں کا ذکر تک نہیں ہوتا۔
وہ اپنی محنت اور جانفشانی سے پہاڑوں کی مشکلات کو آسان بناتے ہیں، مگر ان کی زندگیوں کے دکھ اور جدوجہد کو دنیا کم ہی دیکھتی ہے۔پورٹرز کے پاس اکثر جدید حفاظتی سامان یا مناسب لباس نہیں ہوتا۔ وہ ناقص وسائل کے ساتھ کام کرتے ہیں، جس سے ان کی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ان کے جسمانی مسائل، جیسے جوڑوں کا درد اور کمر کی تکلیف، زندگی بھر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ انہیں طویل عرصے کے لیے اپنے خاندان سے دور رہنا پڑتا ہے، اور یہ دوری ان کے لیے جذباتی مشکلات بھی پیدا کرتی ہے۔
ان گمنام ہیروز کو نہ تو وہ عزت ملتی ہے جس کے وہ مستحق ہیں اور نہ ہی ان کی خدمات کو مناسب طور پر سراہا جاتا ہے۔ ان کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد ہے، جس میں وہ موت کے قریب رہتے ہوئے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ اگرچہ ان کی قربانیاں عظیم ہیں، لیکن ان کے نام تاریخ کے صفحات میں کہیں کھو جاتے ہیں۔یہ ضروری ہے کہ پورٹرز کے لیے بہتر سہولیات فراہم کی جائیں۔ ان کے معاوضے میں اضافہ ہو، انہیں جدید آلات اور حفاظتی لباس مہیا کیے جائیں، اور ان کی خدمات کو تسلیم کرنے کے لیے انہیں عالمی سطح پر اعزازات دیے جائیں۔
یہ گمنام ہیروز ہمارے احترام اور اعتراف کے سب سے زیادہ حقدار ہیں۔ ان کی داستانیں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ محنت، قربانی، اور بے لوثی کے بغیر دنیا کی سب سے بڑی کامیابیاں ممکن نہیں۔



تبصرہ لکھیے