ملک ایک بار پھر قدرتی آفات کی لپیٹ میں ہے، خصوصاً خیبر پختونخوا میں بارشوں اور سیلاب نے تباہی مچادی ہے۔ گاؤں کے گاؤں مٹ گئے، فصلیں برباد ہوئیں، بے شمار خاندان چھت سے محروم ہوگئے، بچے یتیم اور عورتیں بیوہ ہوئیں۔ اس کڑے وقت میں جہاں حکومتی دعوے محض بیانات کی حد تک محدود دکھائی دیتے ہیں، وہیں ایک بار پھر اہلِ مدارس، دینی جماعتیں اور رفاہی تنظیمیں عملی طور پر متاثرہ عوام کے درمیان کھڑی ہیں۔
یہ کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ زلزلہ ہو، سیلاب ہو، یا مہاجرین کا مسئلہ—ہمیشہ یہی طبقہ سب سے پہلے پہنچا ہے، سب سے زیادہ محنت کی ہے اور سب سے بڑھ کر قربانی دی ہے۔ مدارس کے طلبہ اور اساتذہ اپنی علمی و دینی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بغیر کسی مفاد، شہرت اور سیاسی نعرے کے، سچے جذبے کے ساتھ مصیبت زدہ عوام کی خدمت کرتے ہیں۔ ان کے لنگر لاکھوں بھوکوں کو کھانا دیتے ہیں، ان کے ہسپتال زخمیوں کو سہارا دیتے ہیں اور ان کے رضاکار خطرناک علاقوں میں داخل ہوکر زندگیوں کو بچاتے ہیں۔
دوسری طرف صوبائی اور وفاقی حکومتیں ہیں جنہیں بیرونِ ملک سے بھاری امداد تو مل جاتی ہے، مگر عملی اقدامات کے میدان میں وہ بری طرح ناکام نظر آتی ہیں۔ پروٹوکول، اجلاس، اعلانات اور فوٹو سیشن، یہی ان کا سرمایۂ عمل ہے۔ متاثرین کے خیموں میں خالی دعوے پہنچتے ہیں، لیکن روٹی، دوائی اور کپڑا دینے والے ہاتھ پھر بھی انہی دینی طبقات کے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ قدرتی آفات کے معقع پر یہ اربوں روپے کی امداد کہاں جاتی ہے؟ کیوں متاثرین اپنی زندگیاں خود سمیٹنے پر مجبور رہتے ہیں جبکہ حکومت محض دیکھتی رہتی ہے؟
اعدادوشمار بھی حکومت کی بے عملی کا ثبوت ہیں۔ مثال کے طور پر:
2005 کے کشمیر زلزلے کے بعد دنیا بھر سے 5.4 بلین ڈالر سے زائد امداد فراہم کی گئی۔
2010 کے سیلاب میں عالمی برادری نے 2.65 بلین ڈالر دیے، جن میں سب سے بڑا حصہ امریکہ کا (25.8%) تھا، اس کے بعد جاپان اور دیگر ممالک نے تعاون کیا۔
2022 کے تباہ کن سیلاب کے بعد عالمی اداروں اور ممالک نے پاکستان کے لیے 9 بلین ڈالر سے زائد امداد کا وعدہ کیا۔ اس میں اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کا سب سے بڑا اعلان تھا، یعنی 4.2 بلین ڈالر۔ ورلڈ بینک نے تقریباً 2 بلین ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا، یورپی یونین نے 93 ملین یورو، جرمنی نے 84 ملین یورو، فرانس نے 370 ملین یورو (جس میں 10 ملین فوری امداد شامل تھی) اور امریکہ نے مزید 100 ملین ڈالر فراہم کیے۔
یہ سب بڑے بڑے اعدادوشمار ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خطیر رقم کہاں استعمال ہوتی ہے؟ کیا خیبر پختونخوا کے سیلاب زدہ دیہاتوں میں ان اربوں ڈالرز کی جھلک نظر آتی ہے؟ اگر نہیں، تو اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ حکومت صرف امداد لینے اور دعوے کرنے تک محدود ہے۔ عملی میدان میں عوام کے درمیان جو لوگ موجود ہیں وہ اہلِ مدارس اور رفاہی کارکن ہیں۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ اگر حکومت واقعی اپنی رعایا کی خیرخواہ ہے تو اسے چاہیے کہ صرف امداد وصول کرنے اور کھوکھلے اعلانات کرنے پر اکتفا نہ کرے بلکہ دینی طبقات اور رفاہی اداروں کو اعتماد میں لے کر مشترکہ منصوبہ بندی کرے۔ یہ لوگ عملی کام کی صلاحیت رکھتے ہیں، عوام میں ان پر اعتماد ہے اور وہ بلا تفریق رنگ و نسل ہر ایک کی مدد کرتے ہیں۔
آج خیبر پختونخوا کے متاثرہ علاقوں میں اہلِ مدارس اور رفاہی تنظیموں کی دوڑتی بھاگتی ٹیمیں، سیلابی پانی میں پھنسے لوگوں کو نکالنے والے نوجوان، اور اپنی جیب سے لائے ہوئے راشن بانٹنے والے رضاکار، یہ سب حکومت کو آئینہ دکھا رہے ہیں۔ اصل سرمایہ وہی ہے جو دلوں کو جوڑتا ہے، انسانیت کو بچاتا ہے اور دکھوں کا مداوا کرتا ہے۔ قوم ان دینی خدمت گاروں پر بجا طور پر فخر کرتی ہے، کیونکہ یہ ثابت کرچکے ہیں کہ خدمتِ خلق ہی اصل سیاست ہے اور مشکل وقت میں یہی طبقہ قوم کی ڈھارس بنتا ہے۔



تبصرہ لکھیے