Tag: Nvidia

  • ڈیپ سیک آرٹی فیشل ٹیکنالوجی کی چوری ۔ اعظم علی

    ڈیپ سیک آرٹی فیشل ٹیکنالوجی کی چوری ۔ اعظم علی

    چینی کمپنی ڈیپ سیک نے اپنے آرٹی فیشل انٹیلی جنس پلیٹ فارم کولانچ کیا تو دنیا زلزلے کی کیفیت کا شکار ہو گئی۔ کہا جانے لگا کہ چینی کمپنی نے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس پر امریکی اجارہ داری کو توڑ دیا۔ پہلا جھٹکا تو اسٹاک مارکیٹ میں آیا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی کمپنی OpenAI تو لسٹڈ نہیں ہے لیکن اس آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے لئے چپ بنانے والی کمپنی Nvidia اور اوپن اے آئی کے مل کر نئی چِپ بنانے والی کمپنی Broadcom کے حصص کو شدید گراوٹ کا سامنا ہوا ۔

    کسی بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم کے دو حصے سافٹ وئیر اوراسے چلانے کے لیے طاقتور پروسیسر چپ جو دنیا بھر میں اس وقت واحد کمپنی Nvidia ہی بناتی ہے، درکار ہوتے ہیں۔ سافٹ وئیر کی بات تو بڑی حدتک واضح ہے کہ OpenAI نے اپنا اے آئی سافٹ وئیر ڈیولپرز کے لیے کھلا رکھا ہوا تھا تاکہ کوئی بھی (مفت یا تھوڑی سی فیس دے کر) ڈاؤن لوڈ کرکے استعمال کرلے۔

    ڈیپ سیک نے یہ نہیں بتایا کہ اُنہوں نے اپنے R1 ماڈل بنانے کے لیے ڈیٹا کہاں سے حاصل کیا لیکن ایسے اشارے موجود ہیں کہ انھوں نے اوپن سورس ہی کے سسٹم کو ڈاؤن لوڈ کرکے اپنے ماڈل کی تربیتی صلاحیت اگلے درجے پر پہنچائی ہے۔ ڈیپ سیک کا یہ ماڈل اتنا کارگر ہے کہ اسے اپنے مدمقابل میٹا کے Llama 3.1 کے مقابلے میں صرف دس فیصد کمپیوٹنگ پاور کی ضرورت پڑتی ہے۔

    ڈیپ سیک پر ٹیکنالوجی کی چوری کا الزام
    ”ہم اس بات سے واقف ہیں کہ ڈیپ سیک نے نامناسب طور پر ہمارے ماڈلز سے معلومات کشید (چوری) کئے ہیں ، ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور جوں جوں تفصیلات سامنے آئیں گی فوری طور پر (عوام و میڈیا کو) آگاہ کریں گے، ہم اپنی ٹیکنالوجی کے تحفظ کے لئے بھرپور اقدامات کریں گے۔“ (اوپن اے آئی کا اعلامیہ)

    دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا ڈیپ سیک کے یہ سب کچھ ‏Nvidia کی چِپ حاصل کیے بغیر حاصل کیا ہے؟
    یہ بات پہلے ہی ریکارڈ پر ہے کہ کہ 2022 میں امریکی حکومت نے چینی AI کمپنیوں کو جدید ترین Nvidia کی چپ فروخت پر پابندی لگادی تھی ، لیکن ڈیپ سیک پابندیاں لگنے سے پہلے ہی Nvidia کی H100 چپ 10,000 عدد خرید چُکی تھی، جو ان کی ضرورت کے لئے ناکافی تھی۔ اس معاملے میں اس وقت پوری دنیا کے بڑے تجارتی ممالک بشمول سنگاپور میں اس بات کی تحقیقات ہورہی ہے کہ کیا چین نے Nvidia کی چپ وہاں سے حاصل کی ہے۔

    میری زندگی کا بڑا حصہ سنگاپور کے الیکٹرونکس پرزہ جات کی ہول سیل مارکیٹ میں گذرا ہے ۔ جہاں میرا تو اس قسم کی چپ سے واسطہ نہیں پڑا لیکن اس قسم کی وارداتیں عام ہیں ۔ عموما ڈسٹربیوٹر اپنے منافعے کے لیے اکثر جان بوجھ کر کسی پابندیوں سے مبرا ملک یا ادارے کے نام پر یہ سامان جاری کرایا جاتا ہے۔ اس کے لئے کاغذ کا پیٹ بھرنے کے لیے جعلی کاغذات و کوائف فراہم کئے جاتے ہیں۔ لیکن سامان کسی اور ملک یا ادارے کو فروخت کردیا جاتا ہے ۔جب تک کوئی بڑی شکایت سامنے نہ آئے یہ معاملہ خاموشی کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔

    عموما پرزہ جات و کسی قسم کے آلات کا ڈسٹربیوٹر کے گودام سے نکلنے کے بعد اگر ممنوعہ جگہ و ممالک میں پہنچ جانے کے بعد کہیں پکڑے جانے کی صورت میں اس کی فراہمی کے ذریعے کا درست سراغ لگانا بڑی حدتک ناممکن ہوتا ہے، لیکن حسا س پرزہ جات اور تقریبا تمام الیکٹرونک آلات کا فیکڑی سے لیکر ڈسٹری بیوٹر تک فروخت کا ریکارڈ اس کے سیریل نمبر کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ سیریل نمبر پرزے یا مشیب پر چھپے ہوئے ہی نہیں بلکہ ڈیجیٹل پروسیس کے ذریعے مشین کے پروسیسر میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں مٹا کر شناخت ختم کرنا ناممکن ہوتا ہے ۔

    کوئی حساس پرزہ یا مشین کسی بھی “غلط” جگہ پائے جانے کی صورت میں مینوفیکچرر فوری طور پر اپنے ڈسٹری بیوٹر، اور ڈسٹری بیوٹر اپنے گاہک کی شناخت کر سکتا ہے۔ اس طرح تفصیلی تحقیقات کی صورت میں ذمہ دار کی شناخت ناممکن نہیں ہوتی ۔ بات کھلنے پر جو بھی اس قسم کی حرکت میں ملوث ہوتا ہے اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ 2012 میں سنگاپور کی ایک کمپنی نے وہاں کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی سنگاپور ٹیلی کام کے جعلی آرڈر کے ذریعے امریکہ سے کچھ پرزہ جات منگوا کر ایران بھیجے تھے۔ بات کھُلنے کے بعد اس کمپنی کا ایرانی مالک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا پر وہاں کام کرنے والے تین افراد مقامی کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کردیا گیا جہاں انہیں قید کی سزا دی گئی۔

    امریکی آئی ٹی کمپنی Hp کا واقعہ یاد آتا ہے ۔ جب پاکستان و دیگر چند ممالک کے نام سے فروخت کردہ لیپ ٹاپ و پرنٹر ایران میں پائے گئے ۔ اس وقت کسی کےخلاف قانونی کاروائی تو نہیں ہوئی پر اس کمپنی کے کئی ملازمین برطرف کردئیے گئے اور متعلقہ ڈسٹری بیوٹر کو بھی اپنی ڈسٹریبیوٹر شپ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے منسلک ایک اور دلچسپ قصہ بھی ہے مشھور امریکی آئی ٹی کمپنی Hp کے بعض پاکستانی ڈسٹری بیوٹر پاکستان کے نام پر سامان لیکر دوسرے ممالک میں فروخت کرنے کے لئے سنگاپور میں اپنا نمائندہ دفتر کھول پاکستان کے نام پر سامان وہاں وصول پر کرنے کے بعد دیگر ممالک بالخصوص دوبئی میں فروخت کرتے تھے (دوبئی سے ایران و دیگر ممالک پہنچنا آسان تھا)۔ ڈسڑی بیوٹرشپ کے معاہدے کے خلاف ورزی ہوتی ہے پھر بھی اکثر متعلقہ لوگ جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی جو کچھ سامان پاکستان جاتا بھی تھا تو اس کی قیمتیں ٹیکس بچانے کے لئے انوائس میں کم قیمتیں یعنی انڈر انوایسنگ کرکے بھیجا جاتا تھا۔۔Hp جیسی بین الاقوامی کمپنیاں کبھی خود کو براہ راست انڈر انوائسنگ یا کسی غیر قانونی حرکت میں ملوث نہیں کرتیں اس لیے (یہ حرکت ان کے ڈسٹری بیوٹر یا ان کے نمائندہ دفتر ہی کرتا ہے)۔ اس زمانے میں Hp کا پاکستان میں دفتر بھی ہوتا تھا پاکستانی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے Hp سے کئی سالوں کے پاکستان کے نام پر جاری ہونے والے سامان کی اصلی انوائس طلب کیں۔۔ چونکہ ساری ڈیلیوری و شپمنٹ Hp کے سنگاپور کے دفتر سے جاری ہوتے تھے اس لیے زیادہ امکان یہی تھا کہ یہاں پر اس کا مکمل ریکارڈ نہیں تھا اس لئے Hp پاکستان نے معذرت کرلی ۔ چونکہ اس وقت Hp پاکستان کے سربراہ پاکستانی اگر غیر ملکی ہوتا تو شاید ہچکچاتے، اس لئے انہوں نے اسے غالبا غیر رسمی طور پر گرفتار کرکے شرط عائد کردی کہ جب تک Hp سنگاپور انہیں پاکستان کے لئے جاری ہونے والے تمام سامان کی اصلی انوائس ان کے حوالے نہیں کریں گے اسوقت تک انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔ مجبوراً Hp سنگاپور نے ساری تفاصیل ان کے حوالے کے کر اپنا آدمی چھڑا لیا اور پاکستان میں اپنا دفتر بند کردیا ۔

    عموما امپورٹر کسٹم ڈیوٹی کی چوری کے دو طریقے سے کرتے ہیں پہلا اصل قیمت سے کم قیمت کی انوائس ظاہر کرکے دوسرا آنے والے سامان کی تعداد کو کم ظاہر دوسری طرف چونکہ اب کسٹم یا ایف بی آر کے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہے انہوں نے متعلقہ ڈسٹری بیوٹرز کے ریکارڈ سے تقابل کیا تو قیمتوں کا فرق تو درست طریقے سے پکڑ میں آگیا ۔۔ لیکن تعداد کا معاملہ تھوڑا مشکل تھا کہ زیادہ تر سامان پاکستان کےنام پر وصول ضرور کیا گیا تھا لیکن درحقیقت وہ سامان کہیں اور بھیجا گیا تھا (اس لحاظ سے اس پر پاکستانی کسٹم ڈیوٹی لاگو نہیں ہوتی لیکن) کسٹم نے ان کی اس عرصے میں نہ صرف انڈر انویسنگ کے فرق کا ٹیکس طلب کیا، بلکہ جو اضافی سامان درحقیقت پاکستان نہیں آیا تھا لیکن چونکہ Hp کے کاغذات میں پاکستان کا لکھا ہوا تھا اس کی بنیاد پر اُن کے اوپر بھی کسٹم ڈیوٹی و یگر ٹیکس کی ادائیگی کا حُکم جاری کردیا۔چند سالوں قبل کی آخری اطلاعات کے مطابق معاملہ عدالت میں تھا۔ موجودہ صورتحال کا علم نہیں ۔

    اس بات کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا چین نے درحقیقت امریکی چپ استعمال کی ہیں ۔۔اگر ایسا ہوا ہے تب بھی چین کا یہ کارنامہ بالکل اسی طرح ہے جیسے پاکستان نے دنیا بھر کی پابندیوں کا سامنا و مقابلہ کرتے ہوئے ایٹم بم بنایا تھا۔ اس صورتحال میں اپنی ضرورت کے لیے ٹیکنالوجی ، آلات و پززہ جات حاصل کرنا چوری نہیں کارنامہ کہلاتا ہے۔۔دنیا بھر ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل کبھی نہیں رُکتا ۔۔ اگر کوئی علم چھپائے تو ملکی قومی مفاد میں اس علم کو چُرانا بھی فرض ہوتا ہے۔ ( یہ الگ بات ہے کہ ان معاملات میں کسی کا مجرم کسی کا ہیرو ہوتا ہے)۔

    چین نے امریکی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔۔ یقیناً چپ کی فراہمی میں پابندیوں کی وجہ سے اس کے مکمل فوائد حاصل کرنے میں ان کی محدودات آڑے آئیں گی۔ چین میں سیمی کنڈکٹر چپ مینو فیکچرنگ کی فیکٹریاں موجود ہیں چاہے وہ ٹیکنا لوجی میں کتنے بھی پیچھے ہوں لیکن آگے بڑھنے کی بنیاد ان کے پاس موجود ہے۔۔ اس میں کوئی شک نہیں جلد یا بدیر چین بھی یہ چپ بنانے کے قابل ہو جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ‏Nvidia کا چیف ایگزیکٹو آفسر بھی تائیوانی نژاد چینی النسل جینسن ہوانگ ہے۔۔ اس طرح کے نہ جانے کتنے جوہر قابل امریکہ میں حساس مقامات پر موجود ہیں ۔۔ کیا پتہ وہاں سے چین کو بھی کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان مل جائے جو پہلے سے موجود بنیاد کو نئی بلندیوں تک پہنچا دے۔

    اس حمام میں سب ننگے ہیں
    بیسویں صدی کی ابتدا میں امریکہ صنعتی انقلاب کی ابتدا ہی برطانوی و یورپی ٹیکنالوجی کی چوری سے ہوئی تھی ۔ حالیہ دور میں تیز رفتاری سے ترقی پذیر معیشت چین بھی اسی مرحلے سے گُذر رہا ہے ۔ اس کے علاوہ بھارت، چین، روس، جنوبی کوریا اور جاپان یہ تمام ممالک ہی اپنی صنعتی ترقی کے ابتدائی دور میں ٹیکنالوجی کی چوری کے الزامات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل کی ٹیکنالوجی بھی بہت کچھ امریکہ سے چُرایا ہوا مال و مصالحہ شامل ہے لیکن اسکا آفیشیل ریکارڈ اس لحاظ سے ممکن نہیں ہے اپنے اس لاڈلے بچے کی شرارتوں پر محلے میں شور نہیں مچایا جاتا۔ امریکی حکومت کے اکاؤنٹ ایبلٹی آفس کی 1983 کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ٹیکنالوجییکل مصنوعات میں امریکی ٹیکنالوجی و پرزہ جات کا حصہ 35 فیصد ہے اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً اسرائیل پر ایٹم بم کے لئے یورینیم چُرانے سے لیکر ٹیکنالوجی و دیگر راز چرانے تک کے الزامات لگتے رہتے ہیں ۔ امریکیوں کا عشق اسرائیل اس درجے کا ہے کہ اسے سات نہیں 43 خون بھی معاف ہیں ، 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی ائیر فورس نے امریکئ بحریہ کے کمیونیشن مانیٹرنگ جہاز USS Liberty پر اسرائیلی فضائیہ نے حملہ کرکے 43 امریکی ہلاک اور 171 کو زخمی کردیا پھر بھی اسرائیلی کی معذرت اور غلط فہمی کے بہانے کو قبول کرلیا گیا۔ یہاں بھی امریکی انٹیلی جنس کے ادارے امریکہ میں اسرایئلی جاسوسوں کے ٹیکنالوجی و یگر راز چُرانے کی حرکتوں سے بخوبی واقف ہونے کے باجود سوائے اسرائیلی سفارتخانے میں متعین اپنے ہم منصب کو خاموشی سے تنبیہ کرنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ کہ اس پیار بھری شکایت پر بھی FBI کو امریکی کانگریس و سینٹ کے اسرائیلی حامی ممبران کی جانب سے تنبیہی فون کالیں آجاتی ہیں اور سارا معاملہ غتربود ہو جاتا ہے۔

  • ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ایک چینی ویڈیو اسٹریمنگ ایپ ٹک ٹاک کے امریکہ میں تاریک ہونے کے اگلے دن ہی ایک اور چینی ڈیجیٹل پروڈکٹ جغرافیائی ٹیکنالوجی کی سیاسی حرکیات تبدیل کرنے کے لیے دھماکے دار انداز میں نمودار ہو گئی۔ اے آئی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے ایک لارج لینگویج ماڈل (LLM) جاری کیا ہے جو ممکنہ طور پر بعض چیزوں میں اوپن آے آئی کی (چیٹ جی پی ٹی) جیسی یا بہتر کار کرکردگی کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن یہ مکمل کہانی نہیں ہے۔

    سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ڈیپ سیک نے بظاہر یہ کارنامہ اوپن سورس سے پیدا ہونے والے AI کو اور اپنے LLM کو سکھانے کے لیے استعمال کیا۔ ڈیپ سیک نے ایک پروسیس جسے ” فائن ٹیوننگ“ کہتے ہیں کو استعمال کرکے چیٹ جی پی ٹی ہی کے موجودہ اوپن سورس ماڈل سے حاصل کیا۔ اوپن اے آئی نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ”ہم اس بات سے واقف ہیں اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ڈیپ سیک نے نامناسب طور پر ہمارے ماڈلز استعمال (چوری) کیے ہیں، ہم اپنی ٹیکنالوجی کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کریں گے۔“

    ڈیپ سیک نے ایک پری ٹرینیڈ ماڈل اپنی ضرورت کے مطابق تیار کرلیا ہے، اور وہ بھی انتہائی کم اخراجات کے ساتھ (تقریباً چھ ملین ڈالر)، اور اوپن اے آئی و دیگران نے اپنی مشین لرننگ ماڈلز سیکھنے میں جو وقت لگایا اس کے مقابلے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے اپنا AI ماڈل Nvidia کی اعلیٰ ترین AI چپ کے بغیر بنایا ہے، جبکہ فی الوقت ٹیکنالوجی کی دنیا میں AI کی کسی بھی سسٹم کے لیے Nvidia کی چپ کا کوئی متبادل نہیں ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے بغیر کوئی سیکھنے والا AI ماڈل بن ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس اعلان کے جھٹکے سے Nvidia کی آرٹی فیشل انٹیلی جنس پر اجارہ داری کے خاتمے کے خدشے کی وجہ سے نیویارک کی شیئر مارکیٹ میں کمپنی کے حصص بری طرح گرے، لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو جنوری گذشتہ جنوری میں اس کمپنی کے حصص پچاس ڈالر کے قریب تھے، اور ڈیپ سیک کے اس دھماکے سے ایک دن قبل 148 ڈالر کو چھو کر ڈیپ سیک کے اعلان کے بعد 118 پر بند ہوئے اور 120/125 کے درمیان مستحکم ہو گئے۔

    (اگر واقعی چین Nvidia کی چپ کے بغیر AI سسٹم چلانے کے قابل ہو گیا ، تب بھی نویڈیا کمپنی کی اجارہ داری ختم ہونے سے منافع میں کمی تو ضرور ہو گی اور شیئر کی قیمتوں میں کمی کے امکانات رہیں گے، لیکن کمپنی کی ساکھ اور بنیاد پھر بھی مضبوط ہے، یا کم از کم مستقبل قریب میں اسے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے)

    بین الاقوامی سیاست پر ہونے والے دور رس اثرات
    ڈیپ سیک کی آمد سے بین الاقوامی سیاست کے دو محاذوں پر دور رس اثرات رونما ہو سکتے ہیں ۔۔

    پہلا :- ڈیپ سیک نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) کے باہمی ربط کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنادیا ہے، اصول یہی ہے کہ جس کے پاس دنیا کے جدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) ہیں وہ AI کی دوڑ بھی کنٹرول کرے گا۔ سیمی کنڈکٹر چپس تمام جدید ایجادات کی بنیادی ٹیکنالوجی ہے۔ لیکن اگر اس آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) ربط کو اوپن سورس کی کھلی اور ہر خاص و عام کے لیےموجود ٹیکنالوجی کے ذریعے مہنگی اور جدید ترین AI چپ کے بغیر کام چلایا جاسکتا ہے تو پھر یہ پوری دینا کے لیے مساوی کھیل کا میدان بن جائے گا۔

    دوسرا:- اگر یہ واقعی سچ ہے (اس پر شبہات ہیں)۔ تو اس کے نتیجے میں امریکہ کے ہاتھوں میں دیگر ممالک و حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے کم از کم آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی حدتک ، ایکسپورٹ کنٹرول، ٹیکنالوجی ٹرانسفر و دیگر پابندیوں کا ہتھیار چھِن جائے گا۔بالخصوص اس سے امریکہ – چین کی چِپ وار کی حرکیات تبدیل ہو جائیں گی۔

    ڈیپ سیک کے کارنامے کو ٹیکنو – قوم پرستی کے وسیع تناظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، جس کے مطابق ملک کی سالمیت ، سماجی استحکام، اور معاشی طاقت کا منبع قومی اداروں (سرکاری یا نجی) کے ٹیکنالوجی میں مہارت پر منحصر ہے۔ اس تناظر میں امریکہ اور چین دونوں طاقت کو تیزی سے ضرب دینے والی تمام اہم صنعتوں (ایڈوانس مینوفیکچرنگ سے کوانٹم سائنس تک) میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے ہاتھا پائی میں مصروف ہیں ۔ اگر اسے ٹیکنو – قوم پرستی کے تناظر میں دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ڈیپ سیک نے بیجنگ کو بین الاقوامی تعلقات میں حقیقی وزن کے ساتھ نئے چینی سال (جو 28 جنوری کو شروع ہوا ہے) کا شاندار تحفہ دیا ہے۔

    کیا امریکہ کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچا؟
    واشنگٹن اور اس کے اتحادی چین کے ساتھ ہونے والی چِپ کی جنگ میں بھرپور سبقت رکھتے ہیں، کیونکہ وہ جدید ترین چِپ بنانے کے لیے لازمی ٹیکنالوجی جسے اس تناظر میں دَم گھونٹے والے پوائنٹس کہا جاسکتا ہے، کا ان کے پاس مکمل کنٹرول ہے۔ یہ دم گھونٹنے والے پوائنٹس بشمول ہالینڈ کی ASML کے تیار کردہ extreme ultraviolet (EUV) ایکسٹریم الٹرا وائلیٹ ایکویپمنٹ ، یا ایچنگ اور میٹلرجی مشینیں جو امریکی کمپنیاں ایپلائیڈ ریسرچ یا LAM ریسرچ بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ الیکٹرونک ڈیزائن سافٹ وئیر ، خصوصی کیمیکل اور دیگر سامان امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان و یورپی کمپنیاں ۔۔ یہ تمام ممالک مکمل طور پر امریکہ کے زیراثر ہیں ۔ اب تک چین اپنی ایڈوانسڈ چپ بنانے کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ان اہم اور ضروری ٹیکنالوجیز کو نہیں حاصل کر پایا۔ AI اور سیمی کنڈکٹر دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اس لیےجدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) کی ٹیکنالوجی کے بغیر بہت دور تک نہیں جایا جاسکتا ۔

    جدید ترین چِپ ٹیکنالوجی جو اس ٹیکنو – قوم پرستی کی طاقت کو کئی گُنا بڑھا سکتی ہے، کے دسترس میں نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ ایرواسپیس، ٹیلی کمیونیکیشن، توانائی، بائیوٹیک، کوانٹم اور پھر AI جس میں سپر کمپیوٹنگ ، مشین لرننگ ، الگورتھم اور سافٹ وئیر ، ان تمام شعبوں میں مکمل مہارت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اب ڈیپ سیک کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ کسی نہ کسی حدتک ان دم گھونٹے والے پوائنٹس سے بچ کر نکلنے کا راستہ مل سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے درجے کی سیمی کنڈکٹر بنانے والی اقوام بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس میں پہلے درجے کا مقام حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے کئی فوائد بشمول فوجی صلاحیت اور معاشی مسابقت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

    دنیا میں ٹیکنالوجی کے تین بلاک
    دسمبر 2024 میں اس وقت کے امریکی صدر بائیڈن نے جاتے جاتے سیمی کنڈکٹر سے متعلق ٹیکنالوجی کو چین کے ہاتھ جانے سے روکنے کے لیے کئی برآمدی پابندیاں عائد کیں، پابندیوں کے اس تازہ ترین اعلان میں 24 گروپ کے چپ بنانے کے اوزار اور تین اقسام کے چِپ ڈیزائن سافٹ وئیر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چین کی 140 نئی چِپ بنانے والی کمپنیوں پر بھی پابندی لگائی گئی۔ ان پابندیوں کی فہرست میں پرانے ازکار رفتہ چپ بنانے کی مشینیں بھی شامل ہیں۔

    واشنگٹن کے یہ اقدامات نام نہاد ”چھوٹا آنگن پر اونچی دیوار“ پالیسی کا حصہ ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کے ہاتھوں میں فیصلہ کن اختیار رہے کہ کسے اسٹریٹجک امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے اور کس کو آنگن میں گھُسنے نہ دیا جائے۔ اس اقدام کا اہم نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکنو ۔ قوم پرستی نکتہ نظر سے واشنگٹن نے رسمی طور پر دنیا کی اقوام کو تین واضح گروپوں میں تقسیم کردیا ہے، بلکہ یہ اس تقسیم کی رفتار کو تیز اور مزید واضح کرنے کا اعلان تھا۔ پہلا گروپ امریکہ کے روایتی حلیف و دفاعی اتحادی ، ان تمام ممالک کو اس آنگن میں مکمل آزادانہ آمد و رفت کی اجازت ہے جن میں ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، مغربی یورپ، جرمنی، فرانس، جاپان و جنوبی کوریا شامل ہیں۔ دوسرا گروپ درمیانے درجے پر جن میں مشرقی یورپ، انڈیا ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پورے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک شامل ہیں ۔جنہیں کچھ بہتر مگر مکمل نہیں کے اصول کے تحت اس ٹیکنالوجیکل آنگن میں داخلے کی محدود و مشروط اجازت دی جاتی ہے۔ اس طرح امریکہ ان ممالک کو کاروباری اور اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے تعاون کے لیے بشمول آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم، ڈیٹا سینٹرز، توانائی کے انفراسٹرکچر اور فوجی و معاشی طاقت کو ضرب دینے والی (multiplier) ٹیکنالوجی پر اپنے کنٹرول کے ذریعے چین کے ساتھ ہونے والی رسّہ کشی میں اپنے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرے گا۔ تیسرا گروپ روس، چین، ایران و شمالی کوریا، ان ممالک کے لیے سخت ترین پابندیاں ہیں، انھیں دونوں اوّلین دونوں گروپوں سے بھی ٹیکنالوجی کے حصول پر پابندی ہے، اگر کوئی ملک انھیں ممالک کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرتا ہے، تو اسے سزا دی جاتی ہے۔

    لیکن اگر ان تینوں گروپوں کے سرکاری یا نجی ادارے بھی (ڈیپ سیک کی طرح) اوپن سورس یعنی آزادانہ موجود آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں تو اس کی وجہ سے بھی دور حاضر کی ٹیکنو-قوم پرستی کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی ہو گی، بالخصوص درمیانے (دوسرے) گروپ کے ممالک (امریکی دباؤ سے) آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

    ناقابل یقین ۔۔۔۔
    اس بات کا اتنا جلد یقین نہیں کیا جاسکتا کہ ڈیپ سیک نے واقعی یہ سب کچھ اوپن سورس کے AI سسٹم کے ذریعے ہی کیا ہے . ابتدائی طور پر امریکی پابندیوں کے نافذ ہونے سے قبل کمپنی نے 10 ہزار Nvidia کی 100A GPU AI چپ خریدی تھیں۔ ممکن ہے ان چپس نے ڈیپ سیک کے AI پروگرام میں (ڈیپ سیک کے اعتراف سے زیادہ بڑا) کردار انجام دیا ہے یا اب بھی دے رہی ہیں ۔ یا کسی اور غیر ملکی ٹیکنالوجی نے ان کے AI پروگرام میں اہم تعاون کیا جو اب تک نظروں سے اوجھل ہے۔ اس سے قبل بھی ایسا ہو چُکا ہے جب 2023 میں چینی کمپنی Huawei کی کمپنی HiSilicon اور چینی چپ بنانے والی کمپنی نے مشترکہ طور پر یہ اعلان کیا کہ انھوں نے امریکی پابندیوں کو ناکام بناتے ہوئے مکمل طور پر چینی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے Huawei کے Mate 60 اسمارٹ فون کے لیے 7 نینو میٹر کی چپ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس میں امریکی پابندیوں کے نفاذ سے قبل خریدی ہوئی ہالینڈ کی بنائی ہوئی ڈیپ الٹرا وائلیٹ مشین DUV استعمال کی گئی تھیں ۔

    چاہے ڈیپ سیک کا دعوی درست ہو یا نہیں ۔۔ اس کے ساتھ وہی مسائل پیش آنے ہیں جو ٹک ٹاک کے ساتھ امریکہ میں پیش آئے تھے. بطور چینی ملکیتی پلیٹ فارم ان کے بارے میں پرائیویسی نہ ہونے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے عمل دخل اور اثرات کا خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح ٹک ٹاک کے ساتھ کیا ، اسی طرح ڈیپ سیک کے لیے امریکی ملکیت کا مطالبہ کرسکتے ہیں، یا کسی دوسرے طریقے سے بھی رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے حالیہ اعلان شدہ 500 بلین ڈالر کے امریکی اسٹار گیٹ AI پروگرام کے تحت چینی ریسرچ میں بھی امریکی سرمایہ کاری کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ بظاہر ناممکن لگتا ہے کہ چین اس سلسلے میں امریکی یا کوئی اور دباؤ قبول کرے. ٹک ٹاک ایک کمرشل پلیٹ فارم ہے جو امریکہ میں بھی کاروبار کرتا ہے، اسے کاروباری مفاد کے طور پر دباؤ میں ڈالا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی اس میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جبکہ AI ایک قومی پروجیکٹ ہے، اسے کسی بھی مالی مفاد کے دباؤ میں قربان نہیں کیا جاسکتا۔

    گذشتہ روز صدر ٹرمپ نے Nvidia کے CEO جینسن ہوانگ (جو ایک تائیوانی نژاد امریکی ہیں) سے ملاقات کی جس میں ڈیپ سیک کے اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ امکان ہے کہ Nvidia کی AI چِپ کی برآمدات پر مزید پاپندیاں لگائی جائیں گی تاکہ طاقتورترین کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی میں بالادستی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں میں سے نہ نکلنے پائے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی حکومت یقیناً اہم اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے اوپن سورس پلیٹ فارم سے پھیلاؤ کو بھی روکنے کی کوشش کرے گی تاکہ آئندہ کوئی ان سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔

    جیسا بھی ہے اب یہ بات واضح ہےکہ ڈیپ سیک نے AI کے کھیل کے قوانین تبدیل کردیے ہیں، اور اس کے ساتھ ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کے قوانین بھی۔ دوسری طرف ڈیپ سیک نے امریکہ کو AI کے میدان میں ایک شاک یا جھٹکا تو دیا ہے لیکن جب تک چین سیمی کنڈکٹر چِپ ٹیکنالوجی میں اپنی کمزوری کا حل تلاش نہیں کرپاتا ، اس کے مکمل فوائد سے استفادہ ممکن نہیں ہو گا۔

    (اس مضمون کی تیار میں ایلیکس کیپری ۔۔ NUS بزنس اسکول اور لی کوان یو اسکول آف پبلک پالیسی ۔۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے استاد اور Techno-Nationalism: How it’s Reshaping Trade, Geopolitics and Society (Wiley) کے مصنف، کئی چینل و نیوز ایشیا میں 29 جنوری 2025 کو شائع شدہ تحریر سے استفادہ کیا گیا ہے)