Tag: یورپ

  • اسلامی تہذیب کو درپیش مشکلات کا حل – سید سردار علی

    اسلامی تہذیب کو درپیش مشکلات کا حل – سید سردار علی

    ظہورِ اسلام کےایک ہزار سال بعد تک مسلمان قرآن کے اخلاقی احکامات کے تناظر میں ہی اپنی تاریخ کی تعبیر اور تجزیہ کرتے رہے۔ مسلمانانِ عرب نے اسلام کے اخلاقی تصور ِحیات کو افریقہ اور دجلہ و فرات کے علاقوں میں پچھلے چار ہزار سالوں کے دوران پروان چڑھنے والے رائج الوقت معاشرتی نظام اور پیداواری نظام سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی۔ امتزاج کا یہ کام اموی دور میں شروع ہوا، عباسی خلافت میں فکری طور پہ بار آور ہونے لگا ، اور عثمانی خلافت میں اس کوشان و شوکت اور غلبہ حاصل ہوا۔ جدیدیت کی پیراڈائم شفٹ کےبعد حالات کا تقاضا تھا کہ مسلمان یہ ادراک کر لیتے کہ کوئی سابھی اخلاقی نظام ہو، وہ اپنے اظہار کے لئے بہرحال اسی مادی دنیا کے اسباب اوروسائل کا محتاج ہوتا ہے، مسلم شعور آج تک تاریخ کو اس تناظر میں دیکھنے کی صلاحیت ہی پیدا نہیں کر سکا۔ اس لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ان کی وہ تمام کوششیں جو اسلامی دنیا اور مسیحی مغرب کے درمیان فوجی طاقت، مادی دولت، اور ثقافتی اثر و رسوخ کےمسلسل بڑھتے ہوئے فرق کی تشخیص کرنے کے لئے تھیں، سودمند ثابت ہوتیں۔ کیونکہ ان کی تشخیص انسانی معاشروں کے عروج و زوال کے معروضی اور آفاقی پیمانوں کی بجائےان کے اپنے عقائد کےزیرِاثر ، جزوی، اورسطحی مفروضوں پر مبنی تھی۔ نتیجتاً، ان کی تمام کوششیں جو صورتحال کو بہتر بنانے کے لئے تھیں، ناکام ثابت ہوئیں۔اسی لئےاس بات سے اب ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ قوت اور وسائل میں یہ تفاوت ، صرف مسلم معاشروں اور مغرب کے درمیان ہی نہیں ہے، بلکہ اب تو مسلم معاشروں اور کئی دیگرغیرمغربی معاشروں کے درمیان بھی یہ فرق بڑھتا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ صرف اخلاقی زوال یا مذہب کی راہ سے بھٹکنا ان کی اس کمزوری کا سبب نہیں ہے۔ ہمارے دور میں مختلف تہذیبوں کے درمیان طاقت کےاس عدمِ توازن کے ادارک کے لئے ضروری ہے کہ ہم پہلے اس بات کو شعوری طور پر سمجھ لیں کہ ایک جدید صنعتی معاشرہ ماضی کےپیداواری نظاموں اور سماجی بندوبست سے بنیادی ہیئت ہی میں مختلف ہے۔ جب تک مسلمان تجزیے اور اصلاحِ احوال کی کوششوں کوان مبادیاتی غلطیوں سے پاک نہیں کریں گے تب تک، اپنی عظمتِ رفتہ کی بازیافت کے لئے کی گئی مسلمانوں کی تمام کوششیں ماضی کی طرح لا حاصل ہی رہیں گی۔

    قبولِ اسلام کے بعد مسلمانانِ عرب چند ہی دہائیوں میں اپنے آبائی صحرائی مسکن جزیرہ نمائے عرب کے گرد پھیلے زرخیز ہلال نما خطے ( فرٹائل کریسنٹ) پر قابض ہو گئے ۔ عراق، شام، مغربی ایران اور مصر پر مشتمل یہ علاقہ اپنی مخصوص جغرافیائی ہیئت اور ہزاروں برس قبل اس زمین پر باقاعدہ کاشتکاری کا اولین مرکز ہونے کے ناطے اس نام سے پہچانا جاتا ہے۔ اور پھرصرف ایک صدی میں وہ دریائے سندھ سے لے کر اسپین کے ساحل تک پہنچ چکے تھے۔ مگراس دنیا میں ایسی سلطنت قائم کرنے والے وہ نہ تو پہلے فاتح تھے اور نہ ہی آخری۔ ان سے پہلے سائرسِ اعظم، سکندرِ اعظم اور رومی فاتحین اور ان کے بعد منگول، مغربی یورپی اور روسی فاتحین فتوحات کرتے آئے۔ گو کہ اسلام نے ہی عربوں کو وہ ولولہ، اتحاد اور اشاعتِ دین کا جذبہ دیا جو اس کارِ عظیم کا محرک بنا، مگر فتوحات کے لئے انہیں وہی جنگی حربےاور نظم و نسق کے طریقے استعمال کرنے پڑے جو اس زمانے کے دیگر تمام معاشروں میں رائج تھے۔ عرب جن ہتھیاروں اور جنگی چالوں کا استعمال کر تے تھے وہی ان کے دشمن بھی کر تے تھے۔ جب وہ وسیع و عریض علاقوں پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے، تو انہیں ریاست کے نظم و نسق کو چلانے کے لئے انہی انتظامی ڈھانچوں کا سہارا لینا پڑا جو پرانی میسوپوٹیمین اور مصری سلطنتوں نے بنائے تھے۔ ان کے شوقِ شہادت اور جذبۂ ایمانی کی میدانِ جنگ میں اہمیت اپنی جگہ مگر میدانِ جنگ میں فتح و شکست کا فیصلہ صرف جذبے کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔ اسلامی فوج ہربار ہر جنگ میں فتح یاب نہیں ہو سکی۔ اموی خلافت کےدوران قسطنطنیہ پر کئے گئے تمام حملے ناکام رہے، فاطمی حکمران یروشلم شہر کو صلیبیوں کے قبضے میں جانے سے نہ بچا سکے ، اور بنو عباس کا دارالخلافہ بغداد ہلاکو خان کےلشکر نے تاخت و تاراج کر دیا ۔ جنگ میں فتح و شکست جن مادی اسباب پر منحصر ہوتی تھی وہ اسباب کافر، عیسائی یامسلمان فوج سبھی کی دسترس میں ہوا کرتے تھے۔

    جو بھی مادی ترقی عرب اور مسلمانوں نے اپنی سلطنت کے قیام کے بعد حاصل کی وہ صرف دین پر عمل کرنے کا ہی انعام نہیں تھی بلکہ اس میں ان کی فکری اورہمہ جہت عملی جدوجہد بھی شامل تھی۔ عباسی خلافت کے سنہری دور کے دوران اسلامی تہذیب اپنے دور کی باقی تہذیبوں سے دنیاوی خوشحالی اور آسائش کے حوالے سےکوئی خاص بہتر نہیں تھی۔ ایک ہزار سال پہلے، دنیا میں تین بڑے تہذیبی مراکز تھے۔ اس دور کا سب سے زیادہ خوشحال معاشرہ چین کا تھا۔ سونگ خاندان کی چینی سلطنت میں 10 کروڑ سے زیادہ لوگ باقی تہذیبوں سے کہیں بڑھ کے ایک ترقی یافتہ اور اعلیٰ تمدن کے پر امن ماحول میں زندگی گزار رہے تھے۔ سلطنتِ روم کی شان و شوکت کی وارث بازنطینی سلطنت کا دارالسلطنت قسطنطنیہ، دنیا کا امیر ترین شہر تھا۔ جبکہ اس دور کی تیسری بڑی طاقت عباسی خلافت کے مسلمان شہریوں کی خوشحالی اور معیارِ زندگی ان دو ہم عصر تہذیبوں کےشہریوں سےیک گونہ مماثلت رکھتے تھے۔ عربوں اور مسلمانوں کی فتوحات کےنتیجے میں ہمسایہ ریاستوں کے زرخیز علاقےان کے زیرِ قبضہ آگئے اور فاضل زرعی پیداوار اب دمشق اور بغداد آنے لگی جس کے نتیجے میں انہیں مادی ترقی اور خوشحالی دیکھنے کا موقع ملا۔ مسلمان زراعت کے طریقوں میں کچھ جدت بھی لائےمگردولت کی تخلیق کے کسی نئے نظام کو جنم نہیں دےسکے۔ اس دور کی اسلامی خلافت سمیت تمام معاشروں میں زیادہ تر آبادی بمشکل ہی گزر بسر کر پاتی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ساڑھے پانچ ہزار سال پہلے انسانی تہذیب کے آغاز سے انسان کی فی کس آمدنی آج کے حساب سے دو سے تین ڈالر یومیہ تک ہی محدود چلی آ رہی تھی۔ اس معمولی گزر بسر کے قابل فی کس آمدنی میں بڑھوتری کے آثار تواٹھارویں صدی کے وسط میں صنعتی انقلاب کےنتیجے میں آنا شروع ہوئے۔ ورنہ چین ہو یا ہندوستان، مشرقِ وسطیٰ ہو یا یورپ، انسانی تاریخ کی ان سبھی عظیم تہذیبوں میں کم و بیش ایک ہی طرح کا معیارِ زندگی اور معاشی حالات تھے۔ اسلامی دنیا کے حالات بھی ان سے چنداں مختلف نہیں تھے۔

    اسلام کے آغاز سے ایک ہزار سال تک مسلمانوں کو ملنے والی فتوحات، مال و دولت اور طاقت کے مذہبی اسباب کے باوجود یہ سب انہی دنیاوی آلات و ذرائع کے سہارے ممکن ہوا جو اس دور میں مروج تھے اور دنیا کے تمام دوسرے معاشروں کو بھی یکساں میسر تھے۔ اپنی سلطنت کے قیام اور استحکام کے دوران دنیا میں دستیاب ان مادی ذرائع سے فائدہ اٹھانے میں مسلمان اکثر اوقات بہت کامیاب رہے لیکن کبھی ایسا بھی ہوا کہ انہیں زیادہ کامیابی نہ مل پائی۔ اس دنیا میں ا سلامی تہذیب کا عروج اپنے مخصوص اخلاقی جوہر کے باوجود زمان و مکاں میں کارفرما علت و معلول کے ان آفاقی اصولوں کے باعث ممکن ہوا جو باقی تمام معاشروں پربھی اسی طرح لاگو ہوتےتھے، یعنی علت و معلول کے قانون سے کسی کو مفر نہیں ۔ چوں کہ عربوں کے اسلام قبول کر لینے کے بعد سے فتوحات اور خوشحالی کے ایک طویل دور کا آغاز ہوا تھا اس لئے فطری طور پر مسلمانوں کے نزدیک ان کو ملنے والی طاقت، عظمت اور مادی خوشحالی اسلام کی فیوض و برکات کا لازمی نتیجہ تھیں ۔ سماجی عوامل اور نتائج کے لئے مادی اسباب و عِلل کی بجائے اخلاقی توجیہات تلاش کرنے کا یہ اندازِ فکر آج تک مسلمانوں میں مقبول ہے۔اپنے مخصوص تاریخی تجربے کے نتیجے میں مسلمان جس تجزیاتی طریقۂ کار کو آفاقی سمجھے بیٹھے تھے وہ غیر اسلامی تہذیبوں کے عروج و زوال کےدرست تجزیے میں یکسر ناکام ثابت ہوا۔ یہ اندازِ فکر آج تک جدید صنعتی مغربی تہذیب کے عروج اور اس کے نتیجے میں عالمِ اسلام کے زوال کی درست تشخیص کرنے میں مکمل طور پہ ناکام ثابت ہوا ہے۔

    اسلامی تہذیب سمیت دورِ جدید سے پہلے کی تمام تہذیبوں کا استحکام ایک مخصوص سماجی نظام اور تخلیقِ دولت کے روایتی نظام پر منحصرہوا کرتا تھا۔ لیکن یورپی نشاۃِ ثانیہ کے ساتھ ہی مغربی یورپ کے ممالک میں یہ دونوں نظام ایک جوہری تبدیلی سے گزرنے لگے۔ یونان اور روم کے قدیم علوم، فلسفہ و منطق کی تکنیکی مہارت اور انسانی عظمت و عزم سے بھرپورفلسفۂ زندگی کو اپنا لینے کے بعد یورپی فلاسفرز نے ان کلاسیکل علوم میں اضافے بھی کئے۔ کائنات کے ہیلیؤ سینٹرک ماڈل کو تسلیم کر لینے سے انسان اور زمین کی مرکزیت کا عقیدہ متزلزل ہو گیا۔ استقرائی استدلال، تجرباتی سوچ اورعلمِ ریاضی کے ملاپ نے جدید سائنس اور نیوٹن کے قوانین کو جنم دیا۔ کرۂ ارض کے گرد بحری مہمات اور امریکی براعظموں کی دریافت نےانسان کے ذہنی اُفق کو مزید وسعت بخشی۔ انسان کی یہ دریافتیں اور پیش قدمیاں کئی عملی اہمیت کی ایجادات، انسانی زندگی میں بہتری کے ساتھ سماجی ، معاشی اور سیاسی اداروں میں جدتیں لےکے آئیں۔ پرنٹنگ پریس کی آمد نےوسیع پیمانے پراشاعتِ علم کو آسان کر دیا۔ کولمبیئن ایکسچینج اور دوسرے زرعی انقلاب نے یورپی باشندوں کی غذا کو پہلے سے بہت بہتر بنا دیا۔ ریفارمیشن کے بعد، چرچ کی سیاسی اجارہ داری کے خاتمے سے جدید نیشن اسٹیٹس کے نظام کو پنپنے کا موقعہ ملا۔ یورپ میں ہونے والی مذہبی جنگوں بالخصوص تیس سالہ جنگ کے نتیجے میں ان کے فنِ حرب و ضرب میں بہت بہتری آئی ۔ اور بالآخر19ویں صدی میں صنعتی انقلاب نے صنعتی پیداواراور سروسز کی فراہمی کے ذریعے مغرب اور باقی دنیا میں ایک ایسی تفریق پیدا کر دی جو دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔

    مغرب کا عروج، صرف اسلامی دنیا کے لئے ہی نہیں بلکہ تمام غیر مغربی تہذیبوں کے لئےبھی تباہ کن ثابت ہوا۔ برصغیر میں برطانوی نوآبادی کے قیام سے نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو اور سکھ اقوام کو بھی ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 19ویں صدی کے دوران، امریکیوں نے جاپان میں تقریباً 700 سال سے قائم شوگن نظام کو ختم کر دیا اوراس ملک کو باقی دنیا کے ساتھ رابطے پر مجبور کر دیا۔ 1911 میں، پہلی جنگ عظیم سے ذرا پہلے، چین کے انقلابیوں نے 2000 سال پرانے بادشاہت کے نظام کو ختم کر دیا، اور پہلی جنگ عظیم نے روسی اور عثمانی سلطنتوں کا بھی خاتمہ کر دیا۔ پرانی کولمبیئن تہذیبوں اور سب صحارن افریقہ کی آبادیوں کا حال تو اور بھی برا ہوا۔ صرف پانچ سو سال پہلے تک، مغربی یورپ کی کوئی قوم اپنی سرزمین کے علاوہ کسی اور جگہ موجود نہیں تھی۔ لیکن 1913 میں اس دنیا کا84 فی صد رقبہ یورپی طاقتوں کے قبضے میں تھا۔ تہذیبوں کی کشمکش میں بازی کا ایسے پلٹ جانا انسانی تاریخ کا ایک ناقابل یقین واقعہ تھا۔

    اسلامی تہذیب کے بر عکس بہت سی غیر مغربی تہذیبوں نے مغرب کی بےپناہ قوت کو دیکھتے ہوئے جلد ہی یہ بھانپ لیا تھا کہ اب ان کا وجود خطرے میں ہے اور دنیاوی طاقت کے ہر ایک پیمانے پر مغرب کے ہم پلہ بن کر ہی اپنی اقدار کا تحفظ کیا جا سکتا ہے ۔ تھا۔ ان اقوام نے اپنے عقیدے، اقدار، اور روایات کے ضروری خواص اور مغربی تسلط کی بنیاد یعنی صنعتی پیداواری نظام کے امتزاج کے لئے بھرپور کوششیں شروع کر دیں۔ یہ کوششیں رنگ لائیں اور وہ مکمل بربادی سے بچ گئے۔ حالانکہ ان تمام غیرمغربی تہذیبوں کے مقابلے میں یہ مسلمان ہی تھے جو نہ صرف مغرب کی فلاسفی، کلچر اور مذہب کو زیادہ اچھی طرح سے سمجھتے تھے بلکہ ایک لمبے عرصے سے اس کے ساتھ برسرِ پیکار بھی تھے۔ اسی لئے توقع کی جا سکتی تھی کہ مغرب کے مقابلے میں طاقت کے اس غیر معمولی فرق کو وہ جلد ہی دور کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تو آخر کیا وجہ بنی کہ تین سو سال سے جاری کوششوں کے باوجود مسلمان اپنے اور مغرب کے مابین طاقت اور وسائل کے اس غیر معمولی تفاوت کو ختم نہیں کر سکے۔

    ایک تو مسلمان ابھی تک یہ نہیں جان سکے کہ ان کے موجودہ بحران کی وجوہات داخلی نہیں۔ پچھلے پانچ سو سال کے دران، دنیا کاکوئی بھی سیاسی نظام مغرب کی یلغار کے سامنے نہیں ٹھہر سکا۔ 18ویں صدی کے اواخر سے کوئی بھی معاشرہ معاشی پیداوار کے میدان میں مغرب کا مقابلہ نہیں کر سکا۔بلا تفریق سبھی غیرمغربی اقوام ،مغرب کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوئیں۔ پھر بھی مسلمان یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ وہ اپنی کسی کوتاہی یا کمزوری کی وجہ سے پیچھے نہیں رہ گئے بلکہ مغرب اپنی غیر معمولی ترقی اور پیراڈائم شفٹ کی وجہ سے دوسری تمام تہذیبوں سے آگے نکل گیا۔ وہ اپنے “زوال” کے اسباب کو اپنے ہی ماضی میں ڈھونڈتے ہیں۔ وہ آج بھی اپنی تاریخ کے اس لمحے کی کھوج میں ہیں جب وہ صراطِ مستقیم سے بھٹک گئے تھے۔ وہ یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ ان کا انسانی تاریخ کواپنے دینی مقاصد کے تناظر میں دیکھنے کا مخصوص نقطۂ نظر آفاقی اور معروضی نتائج نہیں دے سکتا۔ اپنی تہذیب کے عروج کے دوران مسلمان اپنے دین کے مِن جانب اللہ ہونے اوراسی کی طرف سے دنیا پر اس کے غلبے کو مقدر کردینے پر نازاں تھے۔ لیکن انہوں نے اس خدائی منصوبے کی تکمیل میں کام آنے والے وسائل اور انسانی کاوش کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی ۔ اس لئے ان کی طرف سے تاریخ کو دیکھنے کا ایک دینی زاویۂ نظر تراش لینا عین فطری تھا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی طاقت اور آن بان ماضی میں ان کے خالص ایمان اور اچھے اعمال کی وجہ سے تھی، اسی لئے اب ایمان میں کمی اور اخلاقی گراوٹ ہی ان کی شان و شوکت چھن جانے کی وجہ ہو سکتے ہیں۔ اس تجزیاتی فریم ورک کی ناکامی ظاہر ہوئے تین صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود، مسلم ذہن اب تک اس نظریے کی جگہ علت و معلول کے فطری اور آفاقی قوانین کی روشنی میں اپنے مسائل کا تجزیہ کرنے پہ آمادہ نہیں ہو سکا۔

    جب مسلمان مغرب سے کچھ سیکھنے پر مجبور ہو بھی جائیں تو وہ مغرب کے فکری پیمانوں کو اپنا نہیں سکتے یا پھر ان کے سطحی استعمال سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ وہ جو بھی تجزیہ کرتے ہیں وہ تاریخی اور منطقی طور پر غلط ہوتا ہے۔ مسلمان غیر ارادی طورپر اپنے اخلاقی نظریۂ تاریخ کی روشنی میں ہی مغرب کے عروج کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مغرب کی تاریخ میں وہی اخلاقی قوت کارفرما دیکھتے ہیں جو کبھی خود ان کی اپنی کامیابی کا باعث تھی۔ فرق صرف یہ ہے کہ مغرب میں یہ اخلاقی تعلیمات اور اقدار کسی بھی مابعد الطبیعاتی نظام کا نتیجہ نہیں۔ ان کے نزدیک مغرب سیکولر ہوتے ہوئے بھی اس لئے کامیاب ہے کیونکہ وہ مسلمانوں کے دین اور ایمان سے کشید کی گئی آفاقی اقدار کا حامل ہے۔ مغرب کے عروج کی یہ سطحی سی وضاحت ایک تو ان کے اپنے اندازِ فکر کی تصدیق کردیتی ہے اور اس کے نتیجے میں معاملات کے درست ادراک کے لئے تاریخ کے کسی بھی معروضی اور تنقیدی تجزیے کی راہیں بھی مسدود ہو جاتی ہیں۔

    مغربی طاقتوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے والی مسلم اقوام جب اپنے خوابوں کو شرمندۂ تعبیر نہ کر پائیں تو پھرمغربی کالونائزیشن کے دور کو ہی اپنی موجودہ ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہیں۔ اسی کالونائزیشن نے ان کی شان وشوکت کو برباد کیا تھا اور یہ انہی جیسی یورپی کالونیوں سے لوٹی ہوئی دولت تھی جس کے سہارے یورپ میں صنعتی انقلاب آیا۔ جب آج کے جدید دور کو ماضی پر قیاس کرنے کی غلطی کی جائے گی تو اسی قسم کے تجزیے ہی سامنے آئیں گے۔ اگر یہ مسلم اقوام طاقت اور عوامی فلاح و بہبود کے پیمانوں پر مغربی اقوام سے بہتر ہوتیں تو کوئی ایک تو جدیدیت کی اس یلغار کو روکنے میں کامیابی حاصل کر لیتی۔ آخر آزادی کے بعد بھی ان میں سے کوئی ایک قوم بھی اپنی عظمتِ رفتہ کا احیاء کیوں نہ کر سکی؟ اور کیوں کوئی ایک بھی مسلم ملک اپنے نوآبادیاتی دور کے آقا کی طاقت کے ہم پلہ نہیں آ سکا؟ دراصل صنعتی دور سے پہلے کی بادشاہتوں کے طرزِ حکمرانی اور جدید دور کی یورپی نیشن اسٹیٹس کے غلبے میں مماثلت قائم کر کے کیا جانے والا تجزیہ نہ تو ماضی میں فاتح اور مفتوح کی دولت اور طاقت کے فرق کی کوئی درست وضاحت کرتا ہے اور نہ ہی نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے صدیوں بعد بھی اس فرق میں مسلسل اضافے کی کوئی قابلِ قبول وضاحت پیش کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دو سو سال سے مغرب کے عروج کو سمجھنے کے لئے کی جانے والی کوششیں ابھی تک یہ عقدہ نہیں حل کرسکیں کہ جدیدیت در اصل ماضی اور حال کے درمیان ایک واضح تقسیم، ایک کوانٹم لیپ اور انسان کو دستیاب مادی اسباب میں ایک پیراڈائم شفٹ کا نام ہے۔

    جب بھی مسلمان محققین یورپ کے عروج کا معروضی تجزیہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کی فکری کم مائیگی ان کے آڑے آتی ہے۔ وہ یورپی تاریخ میں عہدِ وسطیٰ کے بعد پیش آنے والے واقعات کے تسلسل میں سے معاشرتی ترقی کے ایسے تصورات اور نظریات اخذ نہیں کر پاتے جو آفاقی ہوں اور وقت کی قید سے آزاد بھی۔ وہ کچھ مخصوص تاریخی واقعات میں ہی الجھے رہتے ہیں یاوہ علامات اور نتائج کو ہی اصل مسئلہ سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں اور یوں ان کا تجزیہ منطقی مغالطے کا شکار ہو جاتا ہے ۔ کچھ مسلمان مؤرخین نے غیرالہامی فلسفۂ تاریخ پر کام کا آغازتو ضرور کیا لیکن مسلم معاشرے بحیثیتِ مجموعی کبھی ایسے علمی پیمانے تشکیل نہیں دے سکے جو اس عالمِ اسباب میں پیش آنے والے تاریخی واقعات کی عقلی توجیہہ کرنے کی ضرورت کو پورا کر پاتے۔ مسلم شعور نے واقعات یا شخصیات کے مشاہدے سے کوئی ایسا عقلی استدلال تشکیل نہیں دیا جو ہر مابعدالطعبیاتی نظام کے لئے معیار اور حوالہ بن سکے اور نہ ہی مسلمانوں کا علمی ذخیرہ اتنا وسیع ہے کہ وہ یورپی تاریخ کے ہر سیاسی، سماجی اور معاشی واقعہ کا درست تناظر سمجھتے ہوئے اس کی نوعیت اور اہمیت پر کوئی یونیورسل ججمنٹ دے سکیں ۔ اپنی روایتی علمیت کی تنگ دامنی کا اندازہ ہو جانے کے باوجود مسلمان کوئی ایسا متبادل نظامِ فکر نہ بنا سکے جو جدید مغرب کو اسی کے فکری پیمانوں، اسی کی علمی روایات اور اس کے فلسفیانہ سرچشموں کے تناظر میں سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔

    مسلم شعور نہ صرف مغرب کی کامیابیوں کی فلسفیانہ بنیادوں کا کھوج لگانےمیں ناکام ثابت ہوا بلکہ وہ یورپ کے سائنسی اور سماجی تجربات کے نتائج اورثمرات سے استفادے کا بھی کوئی داخلی معیار قائم نہ کر سکا۔ کم و بیش تین سو سال سے جدید جنگی ساز و سامان، صنعتی مشینری، قانونی اور آئینی فریم ورک، جدید انتظامی سسٹم اور سماجی اور معاشی اداروں سے استفادہ کرنے کے باوجود مسلمان ایک ایسا نظامِ فکر تشکیل دینے میں ناکام رہے ہیں جس میں وہ اپنے ناقابلِ تغیر اخلاقی تصورات اور ان تصورات کے حصول یا تنفیذ کے لئے درکار ہر دم تغیر پذیر ذرائع میں واضح تفریق کر سکیں۔ مسلمان جدید ٹیکنالوجی، جدید تصورات اور جدید اداروں سے استفادہ کرتے ہوئے ایک نفسیاتی تذبذب کا شکار بھی رہتے ہیں۔ وہ اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ قُرونِ اولیٰ میں کسی خاص روحانی مداخلت کے باعث مسلم تہذیب اور ریاست کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا۔ مسلمانوں کے اندر ایسے نظریات نہیں پنپ سکے جو انہیں اطمینان دلاتے کہ سائنس، عقل اور سماجی ارتقاء سے حاصل کئے گئے ذرائع کا ستعمال قطعاً غیر اسلامی نہیں، اور یہ بھی کہ ایمان ان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ جدید سے جدید تر علم اور ذرائع کے استعمال سے انسانی تاریخ میں اپنا کردار ادا کریں۔ ایسےعلم الکلام کے نہ ہونےکی وجہ سے جدید ٹیکنالوجی، جدید تصورات اور جدید ادارے جب کبھی مسلم معاشروں میں راہ پاتے ہیں تو اسلام کے پیغام کی حقانیت پر شکوک و شبہات جنم لینے لگتے ہیں اور اسی لئےان کو بے دلی سے اپنایا جاتا ہے جس سے ان میں کسی مزید بہتری کا امکان بھی باقی نہیں رہتا۔

    مسلم شعور کے مطابق تاریخ کا آغاز ہی اس وقت ہوا جب پیغمبر ِاسلام کی دعوت پر انہوں نے کفر اور شرک چھوڑ کے اسلام قبول کیا، اس تاریخ کا نقطۂ اختتام انسان کی اُخروی نجات ہے، علت و معلول کی پابند یہ مادی دنیا ہماری تاریخ کو ایک ضروری پس منظر فراہم کرتی ہےمگر اس کی اہمیت اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ جب تک دنیا کے تمام معاشروں میں مادی حالات ایک جیسے تھے تو یہ مسلم سوچ عالمی تاریخ کا ایک سادہ اور عملی نوعیت کا تجزیہ کرنے کے لئے کافی تھی ۔ لیکن انسانی تہذیب میں آنے والی پیراڈائم شفٹ کے بعد تجزیے کے اس طریقۂ کار کی کمزوریاں واضح ہونے لگیں۔ دوسری طرف اپنی ناکامیوں اور ہزیمتوں کی وجوہات سے آنکھیں بند کر کے مسلمان صدیوں بعد بھی پھر اسی اندازِ فکر کو اپنا کر ،احیاء کی اسی حکمت عملی پر اعتماد کرتے ہیں جو پہلے بھی انہیں بار بار ناکامی سے دوچار کرتی رہی ہے۔

    یورپ کی طاقت کا درست ادراک نہ ہونے کے جو اثرات ہندوستان میں مسلم احیاء کی کوششوں پر پڑے، ان کا ذکر کرتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ لکھتے ہیں” حیرت تو یہ ہے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کے زمانہ میں انگریز بنگال پر چھا گئے تھے اور الٰہ آباد تک ان کا اقتدار پہنچ چکا تھا، مگر انہوں (سید احمد شہیدؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ) نے اس نئی ابھرنے والی طاقت کا کوئی نوٹس نہ لیا ۔۔۔” ۔مولانا مودودی ان حضرات کی شہادت کے ایک صدی بعد تجزیہ کرتے ہوئے درست نشاندہی کرتے ہیں کہ سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید نے “سارے انتظامات کئے مگر اتنا نہ کیا کہ اہلِ نظر علماء کا ایک وفد یورپ بھیجتے اور یہ تحقیق کراتے کہ یہ قوم جو طوفان کی طرح چھاتی چلی جا رہی ہے اور نئے آلات، نئے وسائل ، نئے طریقوں اور نئے علوم و فنون سے کام لے رہی ہے ، اس کی اتنی قوت اور اتنی ترقی کا کیا راز ہے” ۔

    اسلام انسانیت کو اخلاقی زندگی کے مثالی اصول پیش کرتا ہے۔ ظہورِ اسلام کے وقت معاشرے کے سیاسی، معاشی اور سماجی بندوبست کو اس وقت کے جدید ترین پیمانے اور ادارے استعمال کرتے ہوئے اسلامی اخلاقی پیراڈائم میں نافذ کیا گیا۔ ان اداروں کی ترقی میں بازنطینیوں، ساسانیوں اور مصریوں کے علاوہ بھی کئی اقوام کا کردار رہا تھا۔ اسلامی تہذیب میں ایمان کی روح تو تھی لیکن اس کی تعمیرو ترقی میں اس زمانے کے مادی اسباب اور انسانی محنت ہی بروئے کار آئے۔ 1400 سال بعد آج اس سلطنتِ ایمان کو جو صورت حال درپیش ہے اس سے بچاؤ کیلئے عقل اور انسانی کاوش ہی کی مدد درکار ہوگی۔ مولانا مودودی بھی اسی نتیجے پر پہنچے تھے”پس نبیﷺاور اصحابِ نبیؐ کا صحیح اتباع یہ ہے کہ تمدن اور اور قوانینِ طبعی کے اکتشافات سے اب جو وسائل پیدا ہوئے ہیں ان کو ہم اسی طرح تہذیبِ اسلامی کا خادم بنانے کی کوشش کریں جس طرح صدرِ اول میں کی گئی تھی” ۔

    (فہیم بلال نے اس کا ترجمہ کیا ہے)

  • ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ایک چینی ویڈیو اسٹریمنگ ایپ ٹک ٹاک کے امریکہ میں تاریک ہونے کے اگلے دن ہی ایک اور چینی ڈیجیٹل پروڈکٹ جغرافیائی ٹیکنالوجی کی سیاسی حرکیات تبدیل کرنے کے لیے دھماکے دار انداز میں نمودار ہو گئی۔ اے آئی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے ایک لارج لینگویج ماڈل (LLM) جاری کیا ہے جو ممکنہ طور پر بعض چیزوں میں اوپن آے آئی کی (چیٹ جی پی ٹی) جیسی یا بہتر کار کرکردگی کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن یہ مکمل کہانی نہیں ہے۔

    سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ڈیپ سیک نے بظاہر یہ کارنامہ اوپن سورس سے پیدا ہونے والے AI کو اور اپنے LLM کو سکھانے کے لیے استعمال کیا۔ ڈیپ سیک نے ایک پروسیس جسے ” فائن ٹیوننگ“ کہتے ہیں کو استعمال کرکے چیٹ جی پی ٹی ہی کے موجودہ اوپن سورس ماڈل سے حاصل کیا۔ اوپن اے آئی نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ”ہم اس بات سے واقف ہیں اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ڈیپ سیک نے نامناسب طور پر ہمارے ماڈلز استعمال (چوری) کیے ہیں، ہم اپنی ٹیکنالوجی کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کریں گے۔“

    ڈیپ سیک نے ایک پری ٹرینیڈ ماڈل اپنی ضرورت کے مطابق تیار کرلیا ہے، اور وہ بھی انتہائی کم اخراجات کے ساتھ (تقریباً چھ ملین ڈالر)، اور اوپن اے آئی و دیگران نے اپنی مشین لرننگ ماڈلز سیکھنے میں جو وقت لگایا اس کے مقابلے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے اپنا AI ماڈل Nvidia کی اعلیٰ ترین AI چپ کے بغیر بنایا ہے، جبکہ فی الوقت ٹیکنالوجی کی دنیا میں AI کی کسی بھی سسٹم کے لیے Nvidia کی چپ کا کوئی متبادل نہیں ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے بغیر کوئی سیکھنے والا AI ماڈل بن ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس اعلان کے جھٹکے سے Nvidia کی آرٹی فیشل انٹیلی جنس پر اجارہ داری کے خاتمے کے خدشے کی وجہ سے نیویارک کی شیئر مارکیٹ میں کمپنی کے حصص بری طرح گرے، لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو جنوری گذشتہ جنوری میں اس کمپنی کے حصص پچاس ڈالر کے قریب تھے، اور ڈیپ سیک کے اس دھماکے سے ایک دن قبل 148 ڈالر کو چھو کر ڈیپ سیک کے اعلان کے بعد 118 پر بند ہوئے اور 120/125 کے درمیان مستحکم ہو گئے۔

    (اگر واقعی چین Nvidia کی چپ کے بغیر AI سسٹم چلانے کے قابل ہو گیا ، تب بھی نویڈیا کمپنی کی اجارہ داری ختم ہونے سے منافع میں کمی تو ضرور ہو گی اور شیئر کی قیمتوں میں کمی کے امکانات رہیں گے، لیکن کمپنی کی ساکھ اور بنیاد پھر بھی مضبوط ہے، یا کم از کم مستقبل قریب میں اسے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے)

    بین الاقوامی سیاست پر ہونے والے دور رس اثرات
    ڈیپ سیک کی آمد سے بین الاقوامی سیاست کے دو محاذوں پر دور رس اثرات رونما ہو سکتے ہیں ۔۔

    پہلا :- ڈیپ سیک نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) کے باہمی ربط کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنادیا ہے، اصول یہی ہے کہ جس کے پاس دنیا کے جدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) ہیں وہ AI کی دوڑ بھی کنٹرول کرے گا۔ سیمی کنڈکٹر چپس تمام جدید ایجادات کی بنیادی ٹیکنالوجی ہے۔ لیکن اگر اس آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) ربط کو اوپن سورس کی کھلی اور ہر خاص و عام کے لیےموجود ٹیکنالوجی کے ذریعے مہنگی اور جدید ترین AI چپ کے بغیر کام چلایا جاسکتا ہے تو پھر یہ پوری دینا کے لیے مساوی کھیل کا میدان بن جائے گا۔

    دوسرا:- اگر یہ واقعی سچ ہے (اس پر شبہات ہیں)۔ تو اس کے نتیجے میں امریکہ کے ہاتھوں میں دیگر ممالک و حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے کم از کم آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی حدتک ، ایکسپورٹ کنٹرول، ٹیکنالوجی ٹرانسفر و دیگر پابندیوں کا ہتھیار چھِن جائے گا۔بالخصوص اس سے امریکہ – چین کی چِپ وار کی حرکیات تبدیل ہو جائیں گی۔

    ڈیپ سیک کے کارنامے کو ٹیکنو – قوم پرستی کے وسیع تناظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، جس کے مطابق ملک کی سالمیت ، سماجی استحکام، اور معاشی طاقت کا منبع قومی اداروں (سرکاری یا نجی) کے ٹیکنالوجی میں مہارت پر منحصر ہے۔ اس تناظر میں امریکہ اور چین دونوں طاقت کو تیزی سے ضرب دینے والی تمام اہم صنعتوں (ایڈوانس مینوفیکچرنگ سے کوانٹم سائنس تک) میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے ہاتھا پائی میں مصروف ہیں ۔ اگر اسے ٹیکنو – قوم پرستی کے تناظر میں دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ڈیپ سیک نے بیجنگ کو بین الاقوامی تعلقات میں حقیقی وزن کے ساتھ نئے چینی سال (جو 28 جنوری کو شروع ہوا ہے) کا شاندار تحفہ دیا ہے۔

    کیا امریکہ کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچا؟
    واشنگٹن اور اس کے اتحادی چین کے ساتھ ہونے والی چِپ کی جنگ میں بھرپور سبقت رکھتے ہیں، کیونکہ وہ جدید ترین چِپ بنانے کے لیے لازمی ٹیکنالوجی جسے اس تناظر میں دَم گھونٹے والے پوائنٹس کہا جاسکتا ہے، کا ان کے پاس مکمل کنٹرول ہے۔ یہ دم گھونٹنے والے پوائنٹس بشمول ہالینڈ کی ASML کے تیار کردہ extreme ultraviolet (EUV) ایکسٹریم الٹرا وائلیٹ ایکویپمنٹ ، یا ایچنگ اور میٹلرجی مشینیں جو امریکی کمپنیاں ایپلائیڈ ریسرچ یا LAM ریسرچ بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ الیکٹرونک ڈیزائن سافٹ وئیر ، خصوصی کیمیکل اور دیگر سامان امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان و یورپی کمپنیاں ۔۔ یہ تمام ممالک مکمل طور پر امریکہ کے زیراثر ہیں ۔ اب تک چین اپنی ایڈوانسڈ چپ بنانے کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ان اہم اور ضروری ٹیکنالوجیز کو نہیں حاصل کر پایا۔ AI اور سیمی کنڈکٹر دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اس لیےجدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) کی ٹیکنالوجی کے بغیر بہت دور تک نہیں جایا جاسکتا ۔

    جدید ترین چِپ ٹیکنالوجی جو اس ٹیکنو – قوم پرستی کی طاقت کو کئی گُنا بڑھا سکتی ہے، کے دسترس میں نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ ایرواسپیس، ٹیلی کمیونیکیشن، توانائی، بائیوٹیک، کوانٹم اور پھر AI جس میں سپر کمپیوٹنگ ، مشین لرننگ ، الگورتھم اور سافٹ وئیر ، ان تمام شعبوں میں مکمل مہارت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اب ڈیپ سیک کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ کسی نہ کسی حدتک ان دم گھونٹے والے پوائنٹس سے بچ کر نکلنے کا راستہ مل سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے درجے کی سیمی کنڈکٹر بنانے والی اقوام بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس میں پہلے درجے کا مقام حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے کئی فوائد بشمول فوجی صلاحیت اور معاشی مسابقت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

    دنیا میں ٹیکنالوجی کے تین بلاک
    دسمبر 2024 میں اس وقت کے امریکی صدر بائیڈن نے جاتے جاتے سیمی کنڈکٹر سے متعلق ٹیکنالوجی کو چین کے ہاتھ جانے سے روکنے کے لیے کئی برآمدی پابندیاں عائد کیں، پابندیوں کے اس تازہ ترین اعلان میں 24 گروپ کے چپ بنانے کے اوزار اور تین اقسام کے چِپ ڈیزائن سافٹ وئیر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چین کی 140 نئی چِپ بنانے والی کمپنیوں پر بھی پابندی لگائی گئی۔ ان پابندیوں کی فہرست میں پرانے ازکار رفتہ چپ بنانے کی مشینیں بھی شامل ہیں۔

    واشنگٹن کے یہ اقدامات نام نہاد ”چھوٹا آنگن پر اونچی دیوار“ پالیسی کا حصہ ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کے ہاتھوں میں فیصلہ کن اختیار رہے کہ کسے اسٹریٹجک امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے اور کس کو آنگن میں گھُسنے نہ دیا جائے۔ اس اقدام کا اہم نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکنو ۔ قوم پرستی نکتہ نظر سے واشنگٹن نے رسمی طور پر دنیا کی اقوام کو تین واضح گروپوں میں تقسیم کردیا ہے، بلکہ یہ اس تقسیم کی رفتار کو تیز اور مزید واضح کرنے کا اعلان تھا۔ پہلا گروپ امریکہ کے روایتی حلیف و دفاعی اتحادی ، ان تمام ممالک کو اس آنگن میں مکمل آزادانہ آمد و رفت کی اجازت ہے جن میں ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، مغربی یورپ، جرمنی، فرانس، جاپان و جنوبی کوریا شامل ہیں۔ دوسرا گروپ درمیانے درجے پر جن میں مشرقی یورپ، انڈیا ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پورے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک شامل ہیں ۔جنہیں کچھ بہتر مگر مکمل نہیں کے اصول کے تحت اس ٹیکنالوجیکل آنگن میں داخلے کی محدود و مشروط اجازت دی جاتی ہے۔ اس طرح امریکہ ان ممالک کو کاروباری اور اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے تعاون کے لیے بشمول آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم، ڈیٹا سینٹرز، توانائی کے انفراسٹرکچر اور فوجی و معاشی طاقت کو ضرب دینے والی (multiplier) ٹیکنالوجی پر اپنے کنٹرول کے ذریعے چین کے ساتھ ہونے والی رسّہ کشی میں اپنے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرے گا۔ تیسرا گروپ روس، چین، ایران و شمالی کوریا، ان ممالک کے لیے سخت ترین پابندیاں ہیں، انھیں دونوں اوّلین دونوں گروپوں سے بھی ٹیکنالوجی کے حصول پر پابندی ہے، اگر کوئی ملک انھیں ممالک کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرتا ہے، تو اسے سزا دی جاتی ہے۔

    لیکن اگر ان تینوں گروپوں کے سرکاری یا نجی ادارے بھی (ڈیپ سیک کی طرح) اوپن سورس یعنی آزادانہ موجود آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں تو اس کی وجہ سے بھی دور حاضر کی ٹیکنو-قوم پرستی کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی ہو گی، بالخصوص درمیانے (دوسرے) گروپ کے ممالک (امریکی دباؤ سے) آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

    ناقابل یقین ۔۔۔۔
    اس بات کا اتنا جلد یقین نہیں کیا جاسکتا کہ ڈیپ سیک نے واقعی یہ سب کچھ اوپن سورس کے AI سسٹم کے ذریعے ہی کیا ہے . ابتدائی طور پر امریکی پابندیوں کے نافذ ہونے سے قبل کمپنی نے 10 ہزار Nvidia کی 100A GPU AI چپ خریدی تھیں۔ ممکن ہے ان چپس نے ڈیپ سیک کے AI پروگرام میں (ڈیپ سیک کے اعتراف سے زیادہ بڑا) کردار انجام دیا ہے یا اب بھی دے رہی ہیں ۔ یا کسی اور غیر ملکی ٹیکنالوجی نے ان کے AI پروگرام میں اہم تعاون کیا جو اب تک نظروں سے اوجھل ہے۔ اس سے قبل بھی ایسا ہو چُکا ہے جب 2023 میں چینی کمپنی Huawei کی کمپنی HiSilicon اور چینی چپ بنانے والی کمپنی نے مشترکہ طور پر یہ اعلان کیا کہ انھوں نے امریکی پابندیوں کو ناکام بناتے ہوئے مکمل طور پر چینی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے Huawei کے Mate 60 اسمارٹ فون کے لیے 7 نینو میٹر کی چپ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس میں امریکی پابندیوں کے نفاذ سے قبل خریدی ہوئی ہالینڈ کی بنائی ہوئی ڈیپ الٹرا وائلیٹ مشین DUV استعمال کی گئی تھیں ۔

    چاہے ڈیپ سیک کا دعوی درست ہو یا نہیں ۔۔ اس کے ساتھ وہی مسائل پیش آنے ہیں جو ٹک ٹاک کے ساتھ امریکہ میں پیش آئے تھے. بطور چینی ملکیتی پلیٹ فارم ان کے بارے میں پرائیویسی نہ ہونے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے عمل دخل اور اثرات کا خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح ٹک ٹاک کے ساتھ کیا ، اسی طرح ڈیپ سیک کے لیے امریکی ملکیت کا مطالبہ کرسکتے ہیں، یا کسی دوسرے طریقے سے بھی رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے حالیہ اعلان شدہ 500 بلین ڈالر کے امریکی اسٹار گیٹ AI پروگرام کے تحت چینی ریسرچ میں بھی امریکی سرمایہ کاری کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ بظاہر ناممکن لگتا ہے کہ چین اس سلسلے میں امریکی یا کوئی اور دباؤ قبول کرے. ٹک ٹاک ایک کمرشل پلیٹ فارم ہے جو امریکہ میں بھی کاروبار کرتا ہے، اسے کاروباری مفاد کے طور پر دباؤ میں ڈالا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی اس میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جبکہ AI ایک قومی پروجیکٹ ہے، اسے کسی بھی مالی مفاد کے دباؤ میں قربان نہیں کیا جاسکتا۔

    گذشتہ روز صدر ٹرمپ نے Nvidia کے CEO جینسن ہوانگ (جو ایک تائیوانی نژاد امریکی ہیں) سے ملاقات کی جس میں ڈیپ سیک کے اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ امکان ہے کہ Nvidia کی AI چِپ کی برآمدات پر مزید پاپندیاں لگائی جائیں گی تاکہ طاقتورترین کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی میں بالادستی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں میں سے نہ نکلنے پائے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی حکومت یقیناً اہم اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے اوپن سورس پلیٹ فارم سے پھیلاؤ کو بھی روکنے کی کوشش کرے گی تاکہ آئندہ کوئی ان سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔

    جیسا بھی ہے اب یہ بات واضح ہےکہ ڈیپ سیک نے AI کے کھیل کے قوانین تبدیل کردیے ہیں، اور اس کے ساتھ ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کے قوانین بھی۔ دوسری طرف ڈیپ سیک نے امریکہ کو AI کے میدان میں ایک شاک یا جھٹکا تو دیا ہے لیکن جب تک چین سیمی کنڈکٹر چِپ ٹیکنالوجی میں اپنی کمزوری کا حل تلاش نہیں کرپاتا ، اس کے مکمل فوائد سے استفادہ ممکن نہیں ہو گا۔

    (اس مضمون کی تیار میں ایلیکس کیپری ۔۔ NUS بزنس اسکول اور لی کوان یو اسکول آف پبلک پالیسی ۔۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے استاد اور Techno-Nationalism: How it’s Reshaping Trade, Geopolitics and Society (Wiley) کے مصنف، کئی چینل و نیوز ایشیا میں 29 جنوری 2025 کو شائع شدہ تحریر سے استفادہ کیا گیا ہے)

  • ایٹمی جنگ ہوئی تو کیا تباہی ہوگی ! محمد عرفان ندیم

    ایٹمی جنگ ہوئی تو کیا تباہی ہوگی ! محمد عرفان ندیم

    ہم اس وقت اکسیویں صدی میں جی رہے ہیں اور اکسیویں صدی مغرب کی صدی کہلاتی ہے ۔ مغربی طاقتیں پچھلی تین چار صدیوں سے دنیا پر حکمرانی کر رہی ہیں ۔ مغرب کا یہ عروج انسانیت اور خود زمینی سیارے کے لیے کیا تباہی لا سکتا ہے اس کے لیے آپ یہ رپورٹ پڑھیں۔حال ہی میں معروف جریدے Food Nature میں ایک تحقیقی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں دنیا میں ایٹمی جنگ کی صورت میں ممکنہ تباہی کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کو کمپیوٹر سیمولیشن (Simulations) کی مدد سے تیار کیا گیا ہے جس میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال سے پیدا ہونے والی تابکاری، حدت اور دھماکے کی شدت اوراس سے پیدا ہونے والی تباہی کی منظر کشی کی گئی ہے۔

    رپورٹ کی تیار ی کے لئے تصوراتی طور پر 750 کلوٹن طاقت کے بم کے حملے کو بنیاد بنایا گیااوریہ بم ناگا ساکی پر گرائے جانے والے بم سے تین گنا زیادہ طاقت کاحامل ہو گا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگردنیا میں ایٹمی جنگ چھڑتی ہے تو 6 ارب 70 کروڑ افراد لقمہ اجل بن جائیں گے اور خوراک کی ترسیل کا سار انظام تباہ وبربادہو جائے گا۔ امریکہ ، کینیڈااور یورپ کے اکثر حصوں میں قحط جیسی صور تحال پیدا ہو جائے گی۔جنگ میں براہ راست شریک ہونے والے ممالک مثلا امریکہ، یورپ ، روس، جنوبی ایشیا کے ممالک کے ستر فیصد آبادی تباہ ہو جائے گی۔ جنوبی امریکہ ، آسٹریلیا اور کئی چھوٹے خطے ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کو نسبتا بہتر طور پر سہہ پائیں گے کیونکہ ان ممالک کی زراعت زیادہ مستحکم بنیادوں پر استوار ہے ۔ارجنٹائن ، برازیل، یوراگوئے، پیراگوئے، آسٹریلیا ، آئس لینڈ اور عمان زراعت کے معاملے میں مستحکم ممالک ہیں اس لیے ایٹمی جنگ کی صورت میںیہ ممالک عالمی بحران کے باوجود اپنے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے قابل رہیں گے۔ایٹمی جنگ کی صورت میں لائیو اسٹاک پر انحصار کرنے والا غذائی نظام دو طرح کے حالات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ اول یہ کہ مویشی ہلاک نہیں ہوتے اور غذائی نظام کام کرتارہتا ہے۔ دوم یہ کہ پہلے سال دنیا کے آدھے مویشی ہلاک ہو جائیں گے اور آدھے مویشی انسانی خوراک کے کام آئیں گے۔ جنگ اگردوسرے سال میں داخل ہو گئی تو لوگوں کو کم ترین غذائیت کے ساتھ زندہ رہنا پڑے گا۔

    رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایٹمی جنگ کی صورت میں محفوظ ترین جگہ گھر کا وہ کمرہ ہو گا جو دروازے کھڑکیوں سے دور کسی کونے میں ہو گا۔ یا ایسی خندق اور گہرا گھڑا جو کسی مناسب جگہ پرہو اور شدیددھماکے اور شدید آندھی سے تحفظ دے سکے۔ رپورٹ کے مطابق ایٹمی جنگ کی صورت میں بعض علاقے ایسے ہیں جو جغرافیائی اعتبار سے اپنی الگ تھلگ حیثیت کی وجہ سے نسبتا محفوظ رہیں گے۔ مثلا انٹاری کٹیکا ایٹمی جنگ کی صورت میں محفوظ ترین مقام ہو گا۔ یہ دنیا کے آخری کنارے پر واقع ہے اور یہ انتہائی وسیع و عریض علاقہ ہے۔ ایٹمی جنگ کی صورت میں ہزاروں لوگ یہاں پناہ حاصل کر سکتے ہیں۔کچھ ممالک جنگ میں غیر جانبدار رہنے کی وجہ سے محفوظ رہ سکتے ہیں مثلا آئس لینڈ جنگ میں کسی کی حمایت نہیں کرے گا لیکن یورپ پر ہونے والے حملوں کے کچھ اثرات یہاں بھی پہنچیں گے۔ نیوزی لینڈبھی غیر جانبدار ملک ہے اور دوسرا یہ کہ یہ پہاڑی علاقوں سے بھرا پڑا ہے اس لئے ایٹمی اثرات سے محفوظ رہے گا۔ سوئٹزرلینڈ بھی پہاڑی علاقوں سے بھرا پڑا ہے اس لئے محفوظ رہے گا ۔

    مغرب پچھلی کئی دہائیوں سے مسلم ممالک پرتو جارحیت جاری رکھے ہوئے تھا اب چند سالوں سے مغربی دنیا کے مابین بھی کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے ۔ روس یوکرین تنازع کسی بھی وقت کسی بھی بڑے سانحہ کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ پچھلے دنوں روس کے سابق صدر دمتری میدوف نے کہا تھا کہ روسی میزائل مغربی ممالک کے دفاعی حصار کو چکما دے کر آنا فانا یورپی شہروں کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور اگر ان میزائلوں کے وار ہیڈایٹمی ہوئے تو یورپ اس نقصان کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ان میزائلوں کو مار گرانا یورپ کے جدید ترین دفاعی نظام کے لیے ممکن نہیں ہوگا اوریہ ساراکھیل چند منٹوں میں مکمل ہو جائیگا۔ روس نے پہلے ہی خبردار کر رکھا ہے کہ اگر روس اور اس کے اتحادیوں کے خلاف روایتی ہتھیاروں سے بڑھ کر کوئی طاقت استعمال کی گئی تو روس اس کے جواب میں ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔مغرب کی ان حرکتوں کے نتیجے میں اگر ایٹمی جنگ چھڑتی ہے توا س کے ممکنہ نتائج ہم اور ذکر کرچکے ہیں ۔

    اس سارے منظر نامے کو دیکھنے کا ایک زاویہ یہ ہے کہ آج مغرب کے دور عروج میں انسانیت اور یہ زمینی سیارہ تباہی سے صرف چند قدم دور ہے ۔جبکہ اس کے برعکس ماضی میں جب مسلمان عروج پر تھے تو انہوں نے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ عالمی سطح پر امن، استحکام اور ترقی کو یقینی بنایاتھا۔ خاص طور پر عباسی خلافت اور عثمانی سلطنت کی مثالیں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ مسلمانوں کی حکمرانی نے عالمی استحکام کو فروغ بخشا۔ مسلمانوں کے دور عروج میں دنیا کا مجموعی نظام معاشی، سائنسی اور ثقافتی ترقی کی طرف مائل تھا اورانسانوں نے عالمی تجارت، تعلیم، فنون اور علوم میںبے شمار کامیابیاں حاصل کی۔اس کے برعکس جب مسلمان زوال پذیر ہوئے تو عالمی سطح پر کئی مسائل نے جنم لیا۔ مسلمانوں کے زوال کا ایک بڑا نتیجہ یہ تھا کہ عالمی طاقتوں کے درمیان سیاسی خلاء پیدا ہو گیا جس کا فائدہ مغربی طاقتوں نے اٹھایا۔ مغرب نے اپنی اقتصادی، فوجی اور سائنسی طاقت کو فروغ دیا اور عالمی سطح پر تسلط قائم کیا۔ اس تسلط کی بنیاد پر مغربی ممالک نے اپنے مفادات کے لیے جنگوں اور وسائل کا استحصال کیا جس سے نہ صرف مسلم دنیا بلکہ مجموعی طور پر دنیا بھر میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوئی۔ بیسویں صدی میںمغرب نے عالمی سطح پر 50 سے زائد جنگوں اور تنازعات کو جنم دیا جن میں لاکھوں افراد ہلاک اور کروڑوں بے گھر ہوئے۔ ان جنگوں کا ایک بڑا حصہ مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ میں تھا جو قدرتی وسائل کی لڑائی اور سیاسی اثر و رسوخ کے لئے لڑی گئیں۔ اگر مغرب کا یہ عروج جاری رہا اور اس عروج کی سرپرستی میں ایٹمی جنگ ہوئی تو دنیا میںکتنی بڑی تباہی آسکتی ہے اس کا تذکرہ ہم اوپر کر چکے ہیں ۔جبکہ ماضی میں مسلمانوں کے دور عروج میں ایسا کوئی عالمی تصادم یا جنگ نہیں ہوئی جو اتنی بڑی تباہی کا سبب بنی ہوبلکہ بحثیت مجموعی مسلمانوں کے عہد عروج میں عالمی سیاست میں توازن،سماج میں امن،علوم و فنون میں ترقی اورزمینی سیارے پر اعتدال قائم رہا۔

  • دیارِ غیر میں رہنے والے میرے پاکستانیو! – جمال عبداللہ عثمان

    دیارِ غیر میں رہنے والے میرے پاکستانیو! – جمال عبداللہ عثمان

    دیارِ غیر میں رہنے والے میرے پاکستانیو!
    خصوصا امریکا اور یورپ کے میرے بہت ہی عزیز پاکستانیو! اُمید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے۔

    اپنے وزیراعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کے وزرا کے زبانی معلوم ہوا کہ باہر کی دُنیا میں مہنگائی کا طوفان آیا ہوا ہے۔ خصوصا امریکا اور یورپ سے متعلق ہماری حکمران جماعت پی ٹی آئی نے جو تصویرکشی کی ہے، وہ دِل دہلا دینے والی ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اس قدر مہنگائی کا سامنا کبھی ان اقوام کو نہیں کرنا پڑا ہے۔

    میرے پاکستانیو!
    اپنی حکومت کے ذریعے ہمیں جن حقائق کا پتا چلا، ان سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یورپ اور امریکا اس وقت مشکل ترین دور سے گزررہے ہیں۔ وہاں لوگ فاقوں پر مجبور ہیں۔ فی کس آمدنی شدید متاثر ہوئی ہے۔ کووڈ 19 کے اثرات سے، وہاں لوگوں کو جان کے لالے پڑے ہیں۔

    میرے پیارے پاکستانیو!
    آپ نے ہمیشہ مشکل میں اس ملک وقوم کا ساتھ دیا ہے۔ ترسیلاتِ زر کی وجہ سے ہماری معیشت اس وقت آسمان کی بلندیوں کو چھورہی ہے۔ اس دن ایک چینل پر مشہور ماہرِ معیشت چوہدری غلام حسین صاحب فرمارہے تھے کہ حکومت نے جان بوجھ کر Growth روک رکھی ہے، ورنہ معیشت زیادہ آگے نکل سکتی ہے۔

    سو آپ سے بس اتنی سی گزارش کرنی تھی کہ اگر ان مشکل ترین حالات کا سامنا کرنے کی سکت آپ میں نہ رہی ہو اور آپ کو مستقبل بھی تاریک نظر آرہا ہو تو بلاکسی جھجک آپ اپنے ملک واپس آجائیں۔

    میرے پیارے پاکستانیو!
    میں آپ کا دُکھ اور درد سمجھ سکتا ہوں لیکن مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ پاکستان اس وقت دنیا کا سب سے سستا ترین ملک ہے۔ الحمدللہ! یہاں فی کس آمدنی بھی بہت بہتر ہوگئی ہے۔ پوری دنیا میں پیٹرول یہاں سب سے سستا ہے۔ آبادی بڑھنے کی وجہ سے چینی کچھ مہنگی ہوگئی ہے، اور مٹھاس بھی کچھ کم رہ گئی ہے، لیکن ہمیں بتایا گیا ہے کہ اب بھی ہمارے ہاں چینی دنیا میں سب سے سستی ہے۔

    سو، جب اور جس وقت آپ کا جی چاہے آپ امریکا اور یورپ پر لعنت بھیج کر اپنے ملک آجائیے۔ اگر اس مشکل وقت میں پاکستان اور اہالیانِ پاکستان آپ کے کام نہ آئیں تو کب آئیں گے۔

    والسلام۔۔۔ آپ کا اپنا

  • اسلام امریکا کا تیسرا بڑا مذہب کیوں اور کیسے بنا؟ عابد محمود عزام

    اسلام امریکا کا تیسرا بڑا مذہب کیوں اور کیسے بنا؟ عابد محمود عزام

    عابد محمود عزام کچھ دیر پہلے ایک تازہ خبر پڑھ کر خوشی ہوئی کہ اسلام، لاکھوں مسلمانوں کے قاتل ملک اور عیسائیت کے گڑھ امریکا میں تیسرا بڑا مذہب بن چکا ہے اور آبادی کے لحاظ سے مسلمان چوتھے نمبر پر آگئے ہیں۔ سنسس بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق کل امریکی آبادی کا ایک فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے، جو لگ بھگ 33 لاکھ بنتے ہیں، تاہم مسلمان تنظیموں کے مطابق اصل تعداد 70 لاکھ سے بھی زاید ہیں تو صرف نیویارک سٹی میں ہی 8 سے 10 لاکھ مسلمان آباد ہیں۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد مجھے ایک بار پھر اس آفاقی سچائی پر یقین آگیا کہ حق ہمیشہ غالب آ کر رہتا ہے اور باطل مٹ جاتا ہے، کیونکہ حق آیا ہی غالب ہونے کے لیے ہے۔ اسلام کی پراثر تعلیمات کی وجہ سے مسلمانوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی تعداد کے خوف سے اہل مغرب یکجا ہوکر ایک عرصے سے اسلام کے خلاف محاذ سنبھالے بیٹھے ہیں، لیکن ان کو ہمیشہ منہ کی کھانی پڑی ہے،کبھی کامیابی حاصل نہیں ہوئی، بلکہ ہر بار اسلام کے خلاف ان کے پروپیگنڈے کا فائدہ مسلمانوں کو ہی ہوتا ہے، کیونکہ اہل مغرب اسلام کے خلاف جتنا پروپیگنڈا کرتے ہیں، اتنا ہی زیادہ اسلام موضوع بحث بنتا ہے۔ لوگ اسلام کی جانب متوجہ ہوکر اس کا مطالعہ کرتے ہیں اور اسلام سے متاثر ہوکر اسلام قبول کر لیتے ہیں۔
    نائن الیون کے بعد ایسا ہی ہوا۔نائن الیون کے بعد امریکا نے تین درجن ممالک کے ساتھ ملک کر اسلام کو مٹانے کے لیے اسلامی دنیا پر دھاوا بول دیا اور بیشتر مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا۔ ان کا سکون چھین لیا۔دنیا بھر میں مسلمانوں کو بزور طاقت دبانے کی ہر عسکری کارروائی کو حق بجانب قرار دیا گیا، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اسلام دشمنوں کا خیال تھا کہ ”غلبہ اسلام“ کی مالا جپنے والوں کا مکمل خاتمہ کر کے ”نیو ورلڈ آرڈر“ نافذ کر دیا جائے گا۔ اہل مغرب نے پوری قوت سے مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلمان ساری دنیا میں موضوع بحث بن گئے۔ اسلام امریکا و یورپ کے عوام کی توجہ و دل چسپی کا محور بن گیا۔ تاریخ میں پہلی باربھاری تعداد میں قرآن کریم کے نسخے اور اسلامی کتب امریکی و یورپی مارکیٹوں میں کثرت سے فروخت ہوئیں۔ یونیورسٹیوں میں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق پی ایچ ڈی کرنیوالوں کا تانتا بندھ گیا۔ یورپ وامریکا کے سیکڑوں اداروں نے اسلامک اسٹڈیزکے شعبے قائم کیے، اسی مطالعہ وتحقیق کی بدولت اسلام سے متاثر ہوکر مغرب کے ذہین اور اعلیٰ دماغ اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی یورپ کی بڑی بڑی شخصیات نے اسلام کے دامن عافیت میں پناہ لے لی۔
    اسلام کے خلاف یورپ کے پروپیگنڈے کا ہی نتیجہ ہے کہ وہاں سب سے زیادہ لفظ ”محمد“ اور ”اسلام“ کو سرچ کیا جاتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق عالمی شہرت یافتہ بلاگ پیپل کین چینج دی ورلڈ نے انکشاف کیا ہے کہ رمضان المبارک میں دنیا بھر میں استعمال ہونیوالے سرچ انجن گوگل پر صارفین کی طرف سے سرچ کیے جانے والے الفاظ میں لفظ ”محمد“ کوسب سے زیادہ سرچ کیا گیا، جب کہ عالمی شہرت یافتہ سوشل میڈیا ایجنسی میڈیا ڈورکی ایک تحقیقاتی رپورٹ کیمطابق عالمی مذاہب میں لفظ ”اسلام“ انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ سرچ کیا گیا۔ پوری دنیا میں اسلام، قرآن مجید اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں تحقیق و مطالعے کا شوق عام ہوا اور غیر مسلموں میں اسلام کو جاننے کی لگن پیدا ہوئی۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، اسپین، جرمنی، ہالینڈ اور دیگر ممالک کے ہزاروں فلم اسٹار، سائنس دان، کھلاڑی، ڈاکٹر، انجینئر اور سیاستدانوں نے دائرہ اسلام میں داخل ہو کر دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ترقی یافتہ تہذیب و تمدن، خیرہ کن سائنسی و سماجی ترقی اور عہد حاضر کی قیادت کے علمبردار امریکا و یورپ کا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈا مذہبی تعصب، نسلی امتیاز اور اقتصادی و معاشی مفادات کا آئینہ دار ہے اور تمام تر مفادات سے بالاتر اور تمام خوبیوں کا مجموعہ صرف اور صرف اسلام ہی ہے۔ سلام کے خلاف تمام کوششوں کے باوجود آج اسلام مغرب میں سب سے زیادہ مقبول اور تیزی سے پھیلنے والا مذہب بن گیا ہے۔
    اسلام سے خوفزدہ امریکا اور اہم مغرب نے اپنے ممالک میں بھی مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی، لیکن یہ بھی اسلام کی قبولیت میں کمی کا باعث بہ بن سکا۔محمد علی کلے ایک امریکی باکسر تھے، وہ امریکی ریاست کنیکٹی کٹ کے شہر لوئسویل میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے تین مرتبہ باکسنگ کی دنیا کا سب سے بڑا اعزاز”ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن شپ“جیتا اوراولمپک میں سونے کے تمغے کے علاوہ شمالی امریکی باکسنگ فیڈریشن کی چیمپیئن بھی جیتی۔ وہ تین مرتبہ ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ چیمپیئن شپ جیتنے والے پہلے باکسر تھے۔ محمد علی کلے نے باکسنگ میں اس وقت کے عالمی چیمپیئن سونی لسٹن کو شکست دی۔ اس کے بعد مسلسل سات مقابلوں میں اس وقت کے مایہ ناز باکسروں کو زیر کیا۔ باکسنگ میں محمد علی کی زندگی 20 سال رہی جس کے دوران انھوں نے 56 مقابلے جیتے اور 37 ناک آو¿ٹ اسکور کیا۔ اس طرح وہ 20 ویں صدی کے عظیم ترین کھلاڑی قرار پائے۔ محمد علی کلے اپنے کیریئر کے آغاز میں عیسائی تھے، نام تھا کیسیس کلے۔ عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کیا اور ان کا نام محمد علی رکھا گیا۔ جب محمد علی نے اسلام قبول کیا تو یورپی معاشرے نے اس عظیم ترین قابل قدرکھلاڑی کو اسلام لانے کی پاداش میں طرح طرح سے زچ کرنا شروع کردیا۔ جس دن انھوں نے پریس کانفرنس کے سامنے مسلمان ہونے کا اعلان کیا تو ایک امریکی صحافی نے پوچھا کہ کیا تم واقعی مسلمان ہوگئے ہو؟ انھوں نے کہا ”ہاں“ تو صحافی نے طنزاً کہا:
    ”A BLACK MUSLIM ایک کالا مسلمان“
    محمد علی کلے نے فوراً کہا کہ تم لوگوں نے کبھی کسی کو کالا عیسائی یا کالا یہودی کیوں نہیں کہا؟صرف مسلمان کو ہی کہتے ہو۔
    انھی دنوں امریکا ویت نام میں قتل عام کررہا تھا، امریکا میں ہر صحت مند نوجوان پر فوج میں بھرتی ہوکر ویت نام جانا ضروری تھا۔چرچ کے پادری اس سے مستثنیٰ تھے۔محمد علی اس وقت اپنے محلے کی مسجد میں امامت کرتے تھے۔ ایک دن اس عالمی چیمپیئن کو کہا گیا کہ تمہیں آرمی میں جانا ہوگا، انھوں نے جواب دیا کہ میں امریکا کے قانون کے مطابق فوج سے مستثنیٰ ہوں، کیونکہ میری حیثیت بھی مذہب اسلام میں ایک پادری کی طرح ہے۔ لیکن امریکا کا تعصب اور مسلمانوں سے نفرت ان کے پیچھے پڑگئی۔محمد علی کلے کو فوج میں جانے سے انکار کرنے پر پانچ سال قید اور دس ہزار ڈالر جرمانے کی سزا سنائی گئی۔ محمد علی سے باکسنگ کا اعزاز بھی واپس لے لیا۔ 11ستمبر کے بعد ایک دن محمد علی نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرمیں مرنے والوں سے یکجہتی کرنے کے لیے آئے تو ایک صحافی نے ان سے پوچھا ”تم کیسا محسوس کرتے ہو کہ تمہارا اور دہشت گردوں کا مذہب ایک ہے؟“ انھوں نے جواب دیا ”تم کیسا محسوس کرتے ہو کہ تمہارا اور ہٹلر کا مذہب ایک ہے؟“ محمد علی کو ایک عظیم کھلاڑی ہونے کے باوجود صرف اسلام قبول کرنے کے جرم میں مختلف طریقوں سے پریشان کیا جاتا تھا۔
    امریکا و یورپ میں اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت سے اہل مغرب انتہائی خوفزدہ ہیں۔ یورپ کے لوگ اسلام کو انتہائی طاقتور، دل کش اور اثرانگیز محسوس کرتے ہیں، اسی لیے اسلام کے پھیلاوکے خوف میں مبتلا رہتے ہیں اورآئے روز مختلف طریقوں سے اپنے اسی خوف اور ڈرکا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔ یورپ میں اسلام فوبیا کی وجہ یہ ہے کہ یورپی ملکوں میں نو مسلموں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے اور اسلام کو خطے کا سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب قرار دیا جارہا ہے۔ محمد حسن عسکری لکھتے ہیں”یورپ میں جو مسلمان ہیں، وہ عموماً اپنے اسلامی نام نہیں لکھتے اور نہ اپنے اسلام کا عام طور پر اعلان کرتے ہیں۔ جیسے ہی یورپ کے لوگوں کو پتہ چلتا ہے کہ فلاں شخص مسلمان ہوگیا ہے، فوراً اس کی مخالفت شروع ہوجاتی ہے۔“
    اس وقت دنیا کی آبادی 7 ارب کے قریب پہنچ چکی ہے جس میں سے ایک ارب 60 کروڑ سے زائد آبادی مسلمانوں کی ہے، عالمی سطح پر اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب جب کہ دنیا کا ہر چوتھا فرد مسلمان ہے ، دنیا کی آبادی کا25 فیصدحصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے جس میں آیندہ 20 برس میں 35 فیصد اضافہ ہو جائے گا۔ مختلف عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہور ہا ہے۔ اس وقت کینیڈا میں 9 لاکھ 40 ہزار مسلمان آباد ہیں جو 2030ء تک 20 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ جائیں گے۔ امریکا میں اس وقت مسلمانوں کی آبادی 30 لاکھ کے قریب ہے جو 2030ء تک بڑھ کر 60 لاکھ 20 ہزار تک پہنچ جائیں‌گے۔ شمالی امریکا میں 1990ء سے 2010ء تک مسلمانوں کی آبادی میں 91 فیصد کی رفتار سے اضافہ ہوا اور مسلم افراد کی تعداد 10 لاکھ 80 ہزار سے بڑھ کر 30 لاکھ 50 ہزار تک پہنچ گئی جبکہ آنے والے 20 سالوں میں شمالی امریکا میں مسلم افراد کی تعداد 80 لاکھ 90 ہزار ہونے کا امکان ہے۔ برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی 20 لاکھ 30 ہزار سے بڑھ کر 50 لاکھ 60 ہزار اور فرانس میں 40 لاکھ 70 ہزار سے بڑھ کر 60 لاکھ 90 ہزار کے قریب پہنچ جائے گی جبکہ فرانس میں اس وقت بھی مساجد کی تعداد کیتھولک چرچ سے زائد ہے۔ 2010 تک یورپ میں مسلمانوں کی آبادی 5 کروڑ کے قریب تھی جو 2030 تک بڑھ کر 6 کروڑ کے قریب پہنچ جائے گی۔
    فورم آن ریلیجن اینڈ پبلک لائف نامی ایک امریکی ادارے نے عالمی سطح پر بین المذاہب شرح آبادی کاایک سروے کیا ہے ،جس کے مطابق 2030ء میں جب دنیا کی آبادی تقریباً 8ارب 3کروڑ سے تجاوز کرجائے گی اس وقت دنیا میںمسلمانوں کی آبادی 2ارب20کروڑ ہوگی۔ اسلام کے پھیلتے دائرہ کی وسعت کا یہ عالم ہے کہ مغربی خاتون صحافی اوریانہ فلاسی کہتی ہیں کہ آنے والے بیس سال میں پورے یورپ کے کم از کم چھ بڑے شہر اسلام کی کالونی بن جائیں گے ،کیونکہ ان شہروں میں مسلمان کل آبادی کا تیس سے چالیس فیصد تک ہو جائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام قبول کرنے والوںمیں بڑی تعداد عورتوں کی ہے، یورپ میں اگر چار افراداسلام قبول کرتے ہیںتو ان میں تین خواتین ہوتی ہیں۔ یورپ میں مسلمانوں کی اسی بڑھتی ہوئی تعداد سے پورا یورپ خوفزدہ ہے اور مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے تنگ کررہا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسلام دشمن قوتیں اسلام کو دبانے کی جتنی بھی کوشش کرلیں لیکن اسلام اسی طرح بڑھتا جائے گا جس طرح امریکا میں بڑھ رہا ہے۔

  • غیر قانونی تارکینِ وطن، مشکلات و مسائل – ناصر محمود

    غیر قانونی تارکینِ وطن، مشکلات و مسائل – ناصر محمود

    ناصر محمودآج کل ہمارے خطے کے زیادہ تر نوجوان یورپ کے خواب آنکھوں میں سجائے عمرِ رفتہ کی منازل طے کرتے ہیں۔ کسی کو اپنی ساری پریشانیوں کا حل یورپ میں نظر آتا ہے تو کوئی یہاں کی چکا چوند سے مرعوب ہے۔ کسی کو پیسے کی ضرب تقسیم چین نہیں لینے دیتی تو کوئی آزاد طرزِ زندگی کا دلدادہ ہے۔ اب چونکہ یورپ کا کوئی بھی ملک، عربوں کی طرح، اپنا ویزا نہیں بیچتا تو خواہش مند افراد یقینی طور پر غیرقانونی راستوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ جن میں ڈنکی (پیدل اور کشتیوں پر سرحدیں عبور کرنے والوں کے لیئے استعمال ہونے والی عمومی اصطلاح) سب زیادہ معروف اور سستا طریقہ ہے۔ کچھ سیاحتی ویزے پر واپس ناں جانے کی نیت سے سفر کرتے ہیں تو کچھ اور تعلیمی ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ ان کا تعلیم حاصل کرنے یا جاری رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا۔ عام طور پر اس طرح کے سپنے بننے والوں کا مطمع نظر یورپ کی روشنیاں، رنگینیاں اور دولت کی ریل پیل ہوتی ہے اور کسی موڑ پر بھی یہاں کی تکالیف اور مسائل کے بارے میں ناں تو سوچا جاتا ہے اور ناں ہی کسی سے رہنمائی لی جاتی ہے۔ اور نتیجے میں عمومی طور پر، جانے انجانے میں، دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی اذیت کا سامان کر لیا جاتا ہے۔
    ڈنکی لگانے والے بلوچستان سے ایران میں داخل ہوتے ہیں اور ایران سے ہوتے ہوئے ترکی پہنچ جاتے ہیں۔ کچھ ترکی کو ہی منزل بنا کر کام میں جت جاتے ہیں تو باقی سمندر کے راستے یونان کا رخ کرتے ہیں اور وہاں سے اپنے حالات اور رجحان کے مطابق دوسرے ملکوں کا انتخاب کرتے ہیں۔ یہ سارا سفر بنا کسی بھی طرح کی دستاویزات کے کیا جاتا ہے اور نہایت ہی دردناک اور دل دہلا دینے والا ہوتا ہے۔ چونکہ غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کی جاتی ہیں تو لازمی طور پر جنگلوں اور ویرانوں کا راستہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں تمام لوگ ایجنٹ کے رحم و کرم پرہوتے ہیں۔ کبھی ایک گھونٹ پانی کی قیمت ہزاروں میں طلب کی جاتی ہے تو کبھی پیچھے رہ جانے پر ڈنڈوں سے عزت افزائی ہوتی ہے۔ کہیں گاڑی میں گندم کی بوریوں کی طرح اوپر نیچے لٹایا جاتا ہے تو کبھی سنگلاخ پہاڑوں اور کانٹوں بھری زمین پر بنا آواز کیئے دوڑنے کا حکم دیا جاتا ہے۔ اور اس دوران اگر کوئی بدقسمت کسی ناگہانی آفت کا شکار بن جائے تو لاش کھلے آسمان تلے جنگلی جانوروں کی لیئے چھوڑ دی جاتی ہے۔ ایجنٹ کے لیئے یہ لوگ صرف ایک “پارسل” کی حیثیت رکھتے ہیں جس کے ناں تو جذبات ہوتے ہیں اور ناں ہی احساسات۔ جہاں کہیں ایجنٹ کو خطرہ محسوس ہو وہ پارسل کو چارہ بنا کر خود نکل جاتا ہے پھر چاہے پارسل آدم خور گدھوں کے ہتھے ہی کیوں ناں چڑھ جائے۔ یہ ساری مشقتیں یہ سوچ کر برداشت کر لی جاتی ہیں کہ یورپ پہنچتے ہی ساری تکلیفوں کا ازالہ ہو جائے گا لیکن جب خواب ٹوٹتا ہے تو اس وقت تک کشتیاں جل چکی ہوتی ہیں۔ جب یہ لوگ تصویر کا دوسرا رخ دیکھتے ہیں تو کفِ افسوس ملتے ہیں اور اپنے ملک کی جو زندگی بے کار نظر آتی تھی وہی شاہانہ روپ اختیار کر لیتی ہے۔ جن گلیوں سے گذرنا توہین خیال کیا جاتا تھا وہی نیندیں اڑا دیتی ہیں۔ جن رشتوں کو درخوئے اعتنا نہیں سمھجا جاتا تھا انہیں کی یاد دل میں کسک بن کر چبھتی ہے اور اوپر سے یورپ میں پہلے سے بسے اپنوں کی سرد مہری، بے اعتنائی اور مطلب پرستانہ مزاج مل کر انسان کو بہت تھوڑے عرصے میں جذبات اور احساسات سے عاری کر کے ایک مشین کا روپ دے دیتا ہے جس کا انتہائی مقصد پیسہ ہوتا ہے پھر چاہے وہ کسی بھی طریقے سے آئے۔
    مختلف یورپی ممالک تارکینِ وطن کے ساتھ مختلف رویہ اختیار کرتے ہیں۔ کچھ اپنے ملک میں رہنے کا عارضی اجازت نامہ دے کر کماؤ اور کھاؤ کی بنیاد پر چلتا کر دیتے ہیں تو کچھ رہائش کا انتظام بھی کر دیتے ہیں۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو رہائش، کھانا اور دوا کے ساتھ ساتھ ماہانہ بنیادوں پر اچھا خاصا جیب بھی دیتے ہیں۔ جرمنی بھی انہیں چند ملکوں میں سے ہے جو اپنے ملک میں داخل ہونے والے تارکینِ وطن کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان کی مکمل کفالت کرتا ہے اور دوسری سہولیات کے ساتھ ساتھ ماہانہ جیب خرچ بھی دیتا ہے۔ یہاں پر تارکینِ وطن کو بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ایک وہ جن کی جان کو یقینی طور پر خطرہ ہوتا ہے جیسے کہ جنگ میں مبتلا ملکوں کے باشندے اور دوسرے وہ جو ایسے ملکوں سے آتے ہیں جہاں جنگ وغیرہ کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا جیسے کہ پاکستان، بھارت اور بنگلادیش وغیرہ۔ پہلی قسم کے لوگوں کو چونکہ آنے کی دعوت دی جاتی ہے اور ان کے لیئے باقاعدہ طور پر سرحدیں کھولی جاتی ہیں تو ان کو حکومت ہمیشہ سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے اور ابتدائی چند ماہ کے بعد ان کو باقاعدہ طور اس شرط کے ساتھ ویزا جاری کر دیا جاتا ہے کہ جب ان کے ملکی حالات درست ہو جائیں گے تو یہ لوگ واپس چلے جائیں گے۔ اس دوران ان کی مکمل کفالت کا انتظام کیا جاتا ہے، خاندان کے افراد کے حساب سے گھر دیئے جاتے ہیں، ہر فرد کا ماہانہ خرچ دیا جاتا ہے اور زبان سیکھا کر قابلیت کے اعتبار سے ملازمت کا انتظام کیا جاتا ہے۔ چند سال بعد قابل لوگ چونکہ معاشرے کا کارآمد حصہ بن جاتے ہیں تو چند نہایت معمولی شرائط کی بنیاد پر ان کو شہریت لینے کی اجازت بھی دے دی جاتی ہے۔
    اور دوسری قسم کے افراد چونکہ ذاتی وجوہات کی بنا ہر ملک چھوڑتے ہیں تو ان کی پناہ کی درخواست پر غور و فکر کرنے لے لیئے ان کو مختصر مختصر وقفوں کے اجازت نامے جاری کیئے جاتے ہیں اور اس دوران ان کی کفالت بھی حکومت ہی کرتی ہے۔ ابتدائی چھ ماہ ان کو پناہ گزینوں کے کیمپوں میں رکھا جاتا ہے اور پھر کسی مستقل رہائش گاہ میں منتقل کر دیا جاتا ہے جس کے اخراجات حکومت ادا کرتی ہے۔ عدالت میں ان سے آنے کی وجہ پوچھی جاتی ہے جس کے جواب میں ننانوے فیصد جھوٹ بولا جاتا ہے جس میں عموما اپنے ملک اور مذہب کا چہرہ مسخ کر کے دیکھایا جاتا ہے اور پھر اس کی بنیاد پر ویزا کے لیئے اپیل کی جاتی ہے۔ اس دوران چونکہ کفالت کی مکمل ذمہ داری حکومت پر ہوتی ہے تو ان کو قانونی طور پر کسی بھی طرح کا کام کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اور پھر یہاں سے ظلم، بربریت اور ذلت کا ایسا دور شروع ہوتا ہے کہ الامان والحفیظ۔
    غیر قانونی تارکینِ وطن (حصہ دوم)
    جو افراد ذاتی وجوہات کی بنا پر ان ملکوں سے آتے ہیں جہاں عمومی طور پر جمہوریت اور امن ہوتا ہے۔ ان کے لیئے پناہ کا طریقہ کار کچھ مختلف ہوتا ہے۔ یورپی اتحاد میں پناہ کی درخواست کا ٖفیصلہ جس قانون کے تحت کیا جاتا ہے وہ “ڈبلن ریگولیشن” کے نام سے جانا جاتا ہے جس کی بنیاد تو جون ۱۹۹۰ میں رکھی گئی لیکن باقاعدہ عمل سیتمبر ۱۹۹۷ سے شروع ہوا۔ اس قانون کے تحت دنیا کے ہر انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جان کا خطرہ ہونے کی صورت میں یورپی اتحاد کے کسی بھی ملک میں پناہ کی درخواست دائر سکتا ہے۔ اور بیان کی گئی وجوہات کی تصدیق ہونے پر نہ صرف یہ کہ باعزت طریقے سے سکونت کی اجازت دے دی جاتی ہے بلکہ صلاحیت، قابلیت اور دلچسپی کی بنیاد پر مناسب روزگار کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ پناہ کی درخواست کا طریقہ کار انتہائی سادہ اور آسان ہےجس کے مطابق پناہ کے متلاشی کو ملک میں داخل ہونے کے فوری بعد حکومتی نمائندوں جیسے پولیس وغیرہ کے پاس جانا ہوتا ہے اور متعلقہ اشخاص چند بنیادی سوالات اور اندراج کے بعد اس شخص کو قریب ترین واقع پناہ گزینوں کے کیمپ میں بھیج دیتے ہیں جہاں اس کو نہ صرف یہ کہ رہائش دی جاتی ہے بلکہ کھانے پینے کے ساتھ صحت کا بھی مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔ چند دنوں میں طبی معائنے کے بعد ان کو مرکزی کیمپ میں منتقل کر دیا جاتا ہے اور وہاں ان سے باقاعدہ طور پناہ کی درخواست دلوائی جاتی ہے جس کی مکمل رہنمائی حکومتی نمائندے کرتے ہیں اور بوقتِ ضرورت ترجمان کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ عموما ابتدائی تین سے چھ ماہ مختلف کیمپوں میں رکھا جاتا ہے (آجکل چونکہ پناہ گزینوں کی بہت بڑی تعداد جرمنی آرہی ہے تو اکثر لوگوں کو اس سے زیادہ وقت بھی گزارنا پڑ جاتا ہے) اور پھر کسی مستقل رہائش گاہ میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں نہ صرف یہ کہ کھانا پکانے کی سہولت موجود ہوتی ہے بلکہ پرائویسی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔ کیمپوں کے اندر بنیادی مسئلہ کھانے کا ہوتا ہے کہ وہاں حلال کھانے کی سہولت میسر نہیں ہوتی۔ ہر کیمپ میں باقاعدہ طور پر رہائشیوں کو بتایا جاتا ہے کہ گوشت حلال نہیں ہے لیکن افسوس کہ اس کے باوجود اکثریت اس کو بڑی رغبت سے کھاتی ہے۔ چونکہ درخواست کی سماعت کی باری عموما کئی سالوں میں آتی ہے تو اس دوران حکومت رہائش اور کھانے پینے کے علاوہ دیگر ضروریات کے لیے ہر ماہ نقد رقم بھی ادا کرتی ہے۔
    سماعت کی باری آنے پر متعلقہ شخص کو عدالت میں طلب کیا جاتا جہاں ترجمان کے ذریعے اس سے بیالیس سوال کیئے جاتے ہیں جن کا لبِ لباب ذاتی شناخت اور پناہ کی درخواست کی وجہ جاننا ہوتا ہے۔ چونکہ پناہ کی درخواست صرف اسی صورت میں قبول کی جاتی ہے جب جان کو خطرہ ہو تو اس مقام پر عموما جھوٹی کہانیاں سنائی جاتیں ہیں جن کی بنیاد زیادہ تر مذہب اور ریاست کو بنایا جاتا ہے۔ کثرت کے ساتھ جو چند وجوہات بتائی جاتی ہیں ان میں طالبان کی طرف سے دہشت گرد بننے پر اصرار، حکومتی خفیہ اداروں کی طرف سے خود کش بمبار بننے پر مجبور کیا جانا، اور علماء کی طرف سے جہاد پر جانے کے لیئے مجبور کرنا شامل ہیں۔ بہت سارے لوگ مذہبی تنظیموں جیسے کہ جماعۃ الدعوہ وغیرہ کی طرف سے شدت پسندی پر مجبور کیئے جانے کو بنیاد بناتے ہیں تو بہت سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے لال مسجد کو کیش کروانے کی کوشش بھی کی ہے۔ خاص طور پر وہ لوگ جن کا کبھی پولیس یا فوج سے تعلق رہا ہو تو وہ عموما یہ بیان دیتے ہیں کہ چونکہ لال مسجد کے واقعہ میں ہم حکومت کے حمایتی تھے تو اب “مولوی” ہمارے دشمن بن چکے ہیں اور سزا کے طور پر ہمیں زندگی سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ اس طرح کے بیان دیتے ہوئے کبھی یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی جاتی ہے کہ ان کا ملکی کردار پر کیا اثر پڑے گا اور اس کے نتائج کیا نکلیں گے۔ اگر سوچا جاتا ہے تو صرف یہ کہ وہ کونسا ایسا بیان ہے جو ان کے حق میں بہتر ہو گا پھر چاہے وطن کی عزت کی دھجیاں ہی کیوں نہ اڑانی پڑیں۔
    چونکہ زیادہ تر بیانات جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں اور ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی بنیاد پر درخواست رد کیئے جانے کے واضح امکانات ہوتے ہیں تو ہر کوئی چور راستوں کی تلاش میں رہتا ہے جن میں سب سے مختصر جرمن بچے کا باپ بننا ہوتا ہے۔ جرمنی چونکہ بچے کی پیدائش پر ویزا جاری کرتا ہے تو حتی المقدور ہر کوئی اسی کوشش میں لگا رہتا ہے اور عموما پہلا بچہ بنا شادی یا نکاح کے پیدا کیا جاتا ہے کہ یورپی لڑکیاں شادی کے لیئے بہت “بعد” میں تیار ہوتی ہیں۔ یہاں ایسے لوگوں کی بھی کافی تعداد پائی جاتی ہے جو اسی طرح کا بچہ پیدا کر کے ویزا لینے میں تو کامیاب ہو گئے لیکن اب یہ نہیں جانتے کہ وہ بچہ کہاں ہے۔ کیوں کہ جرمن خواتین صرف ان لوگوں کے ساتھ ٹکتی ہیں جو کچھ کما رہا ہو نہ کہ وہ جو خود بھی انہیں کے سہارے بیٹھا ہو۔
    اس دوران ان لوگوں کو چونکہ پیسہ بھی کمانا ہوتا ہے تو یہ کام کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ جرمن ادارے قانونی کاروائی پوری کیئے بنا کسی کو بھی کام پر نہیں رکھتے اور ان لوگوں کو عموما کام کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ لینی پڑتی ہے اور اجازت ملنے کے بعد جب کام مل جائے تو حکومتی امداد بند کر دی جاتی ہے کہ اب خود کمانے کے قابل ہو چکے ہیں۔ جو اگرچہ مستقبل میں قانونی اعتبار سے کافی مددگار ثابت ہوتی ہے لیکن چونکہ فی الفور حکومتی امداد سے ہاتھ دھونے کا خوف ہوتا ہے تو چوری چھپے کام کرنے کو ترجیح دی جاتی ہے جو زیادہ تر پیزا اور برگر وغیرہ کی پاکستانی، ترکش اور انڈین دکانوں میں ملتا ہے۔ جرمن قانون کے مطابق قانونی طور پر کام کی صورت میں ایک گھنٹے کی کم از کم اجرت آٹھ یورو اور پچاس سنیٹ دینا ضروری ہے جو پاکستانی تقریبا ۹۹۰ روپے بنتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ کام دینے والے کو ملازم کا ٹیکس اور ہیلتھ انشورنس کا کچھ حصہ بھی ادا کرنا ہوتا ہے جو کہ ہمارے لوگوں پر کارِ گراں گزرتا ہے تو وہ ہمیشہ ایسے ہی لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو قانونی طور پر کام نہ کرنا چاہتے ہوں۔ اور جن سے کام تو دوگنا لے سکیں لیکن اجرت ناں ہونے کے برابر دینی پڑے۔ نئے آنے والوں کو مختلف طریقوں سے یہ جتلا دیا جاتا ہے کہ ویزا لینے کے لیئے بچہ ضروری ہے اور عقل مندی چوری چھپے کام کرنے میں ہے اور پھر ان لوگوں کو کام پر رکھ کر گدھوں کی طرح ہانکا جاتا ہے اور مزدوری کے نام پر چند ٹکے ہاتھ پر رکھ دیئے جاتے ہیں اور یہ مزدور چونکہ حکومت کے زیرِ کفالت ہوتے ہیں اور دوسری سہولیات کے ساتھ ساتھ حکومت سے ماہانہ اچھی خاصی نقد رقم بھی وصول کر رہے ہوتے ہیں تو جمع تفریق کر کے اپنوں کے ظلم پر راضی ہو جاتے ہیں۔ اور پھر دوسرے مقصد کے طور پر ہر گذرنے والی لڑکی کو چلتے پھرتے ویزے کی شکل میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ مہینے کے آخر میں جب پیسے گھر بھیجنے کی باری آتی ہے تو قانون کی ںظروں سے بچنے کے لیئے ھنڈی اور حوالے کا سہارا لیا جاتا ہے جو بذاتِ خود انتہائی قبیح اور ممنوع عمل ہے اور کسی بھی ملک کی بنیادیں ہلانے میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ گویا اپنے ملک سے نکل کر یورپ آنے اور کام کرنے سے گھر پیسے بھیجنے تک ہر قدم پر قانون اور ملکی وقار کو جوتے کی نوک پر رکھا جاتا ہے اور اپنے عہد کو پورا کرو کہ بیشک عہد کے بارے میں (قیامت کے روز) پوچھا جائے گا، کے تحت اللہ کے قوانین کو بھی بے دردی سے روندا جاتا ہے۔
    بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس پہلو پر نہ تو کسی بھی سطح پر شعور اجاگر کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کی شرعی حیثیت واضح کی جاتی ہے۔ جانے انجانے میں نہ تو مذہبی رہنما اس کو اپنا موضوع بناتے ہیں اور نہ ہی سرکاری سطح پر کوئی شعوری مہم چلائی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ غیر قانونی طریقوں سے سرحدیں عبور کرنا، جھوٹ کی بنیاد پر دوسرے ملکوں میں سکونت اختیار کرنا اور ھنڈی کے ذریعے رقوم کی منتقلی کو نہ تو برا سمھجا جاتا ہے اور نہ ہی کسی بھی درجے میں گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ بلکہ طرفہ تماشا تو یہ ہے اس کام کے لیئے باقاعدہ طور پر دعا کی جاتی ہے، کامیابی کے لیئے قرآن خوانی کروائی جاتی ہے، صدقہ اور خیرات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور منتیں مانی جاتی ہیں۔ گویا اللہ کی مخالفت پر اللہ ہی سے مدد مانگی جاتی ہے اور جس چیز سے قرآن منع کرتا ہے اس کی کامیابی کے لیئے اسی قرآن کی آیات پڑھی اور پڑھائی جاتیں ہیں۔ جبکہ مذہب کا سیدھا سا اصول ہے کہ ہر وہ دنیاوی قانون اور معاھدہ جو ہمارے ایمان اور ایمانی تقاضوں سے نہ ٹکراتا ہو اس کی پاسداری اور پابندی ہم پر اسی طرح لازم ہے جس طرح دوسرے احکام کی۔ بنا ویزوں کے سرحدیں عبور کرنا جس طرح دنیاوی قانون میں جرم ہے بلکل اسی طرح اللہ کے ہاں بھی گناہ اور جرم ہے۔ اب گناہ تو اللہ کریم توبہ اور استغفار کے تنیجے میں معاف فرما دیتے ہیں لیکن جرم کا تعلق چونکہ انسانوں سے ہوتا ہے تو جب تک متعلقہ افراد سے معاملہ ختم نہ کیا جائے اس وقت تک اللہ کریم بھی اس میں دخل اندازی نہیں کرتے کہ یہی عدل کا تقاضا بھی ہے۔ اور غیر قانونی طور پر سرحدیں عبور کر کے، غیر قانونی طریقوں سے کام کر کے، اور کام ہونے کے باوجود حکومتی امداد وصول کر کے، جو عوام کے ٹیکسوں سے ادا کی جاتی ہے، ہم کتنے ہی لوگوں کا حق مارتے ہیں اور اگر ان کو لوٹانا پڑ گیا، جو کہ یقینا لوٹانا پڑے گا، تو سوچیں ہمارا کیا بنے گا؟ کیا ہمارے پاس انتی نیکیاں ہوں گی کہ سب کا حق ادا کرنے کے لیئے کافی ہوں؟ اور یہ حقوق یقینا ادا کرنا پڑیں گے کہ اللہ کا قانون یہی ہے۔ جو خدا جانورں تک کے آپسی جھگڑوں کا ٖفیصلہ عدل کی بنیاد ہر کرے گا وہ انسانوں کے ساتھ کی گئی زیادتی سے کس طرح صرفِ نظر کر سکتا ہے۔

  • امت مسلمہ اور دوسری امتیں، تاریخ، واقعات اور مستقبل – سرورالدین

    امت مسلمہ اور دوسری امتیں، تاریخ، واقعات اور مستقبل – سرورالدین

    امت مسلمہ کا وجود انسانی وجود کے تسلسل میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے کیونکہ اس امت کا پیغام انسانیت کے لیے آخری پیغام ہے اور یہ امت اللہ رب العالمین کی طرف سے انسانیت کو یہ پیغام پہنچانے کی مکلف ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے کہ: [pullquote]کنتم خیر امۃ اخرجت للنّاس[/pullquote]
    تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کیے گئے ہو
    یورپ والوں نے انسانی تاریخ کو اپنے نقطہ نظر کے مطابق ان حالات اور واقعات کو مد نظر رکھ کر مختلف اقسام میں تقسیم کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ انسانی تاریخ کے چار ادوار ہیں:
    1۔ تاریخ سے قبل: جب انسان پسماندہ تھا اور ستر چھپانے سے بھی واقف نہیں تھا، یہ ان کے لبرل نظریے کے مطابق ہے کیونکہ وہ انبیاء کواہمیت نہیں دیتے۔
    2۔ زمانہ قدیم: ان کے نزدیک یہ انسان کی طرف سے لکھنے سے واقفیت کے سال جو( 3200 ق۔م) سے (476 م) میں روما کے سقوط تک ہے، اس دوران بڑی بڑی سلطنتیں قائم ہوئیں۔
    3۔ قرون وسطی: (476 م) میں روما کے سقوط سے (857ء) میں قسطنطینیہ کی سلطان محمد فاتح کے ہاتھوں فتح تک۔ اس کو کلیسا اور جاگیرداروں کے غلبے کا دور کہا جاتا ہے۔
    4۔جدید دور: قسطنطینیہ کی فتح کے بعد سے موجودہ دور تک۔ اس کو صنعتی انقلاب اور سائنسی دور کہتے ہیں۔ یہ دور پھر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا ہے
    ا۔ جدید تاریخ: 1779ء میں فرانس کے انقلاب پر ختم ہو تی ہے۔
    ب۔ معاصر تاریخ: فرانس کے انقلاب سے شروع ہو کر موجودہ دور تک۔
    یورپ کی جانب سے تاریخ کی اس تقسیم میں یہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ یورپ میں رونما ہونے والے واقعات پر مبنی ہے، اس لیے یورپ کے مرتب کردہ تاریخ کو انسانی تاریخ کہنا انسانیت کے ساتھ بڑا ظلم ہے۔ خودیورپ کے کئی نامور مؤرخین اور سیاست دانوں نے تاریخ کی اس تقسیم کے غلط ہونے اور انسانی زندگی میں اسلام کے فیصلہ کن موڑ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔ بڑا قانون دان اور نصرانی ”فارس خوری“ کہتا ہے کہ: ”یورپ کے مورخین اور علماء نے انسانی تاریخ مرتب کرتے ہوئے انسانی تاریخ کے سب سے بڑے واقعے یعنی اسلام کے ظہور کو نظر انداز کیا ہے“۔
    اسلام کے ظہور سے قبل کی انسانی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی انسانیت کو اسلام کی ضرورت اور انسانیت کے حوالے سے امت کی ذمہ داری کا اندازہ ہوتا ہے۔
    عیسائیت مکمل طور پر بت پرستی بن چکی تھی، شہنشاہ ہرقل 610 سے 641 نے فارس پر غلبے کے بعد ریاست میں موجود تمام مذاہب کو عیسی علیہ السلام کی ذات کے حوالے سے بحث سے منع کیا اور ایک این آر او جاری کیا مگر یہ کامیاب نہ ہو سکا، مصر کے عیسائیوں نے یہ قبول نہیں کیا تو ان کو پکڑ پکڑ کر سمندر میں پھینک دیا گیا یا جلادیا گیا۔ کلیسا نے دین کے نام پر مکمل کنٹرول قائم کیا حتی کہ گناہوں کو معاف کرنے کی باقاعدہ رسید کا اجرا کیا گیا، انحطاط اس درجے تک پہنچا کہ لوگ شادی پر اکیلے رہنے کو ترجیح دیتے تھے، انصاف بکتا تھا، رشوت خیانت کا بازار گرم تھا، گبن کہتا ہے کہ چھٹی صدی عیسیوی کے اواخر میں ریاست ذلت کی تمام لکیریں عبور کر چکی تھی۔
    مصر جیسی وسائل سے بھرپور سرزمین میں لوگ عیسائیت اور رومی ریاست کے ہاتھوں زندگی سے تنگ آئے ہوئے تھے،گوسٹاف لوبون اپنی کتاب ”عرب تہذیب“ میں کہتا ہے ”مصر کو زبردستی عیسائی بنا یا گیا مگر اس سے وہ انحطاط کی وادیوں میں گر گئے جس سے وہ اسلامی فتوحات کے ذریعے ہی نکلے“۔
    مصر ہی رومی سلطنت کی محصولات کا بڑا ذریعہ تھا جبکہ فارس نے روم کے ساتھ دنیا کی حکمرانی کو تقسیم کر رکھا تھا اور اخلاقی تباہی کی پستیوں کی ہر لکیر عبور کر چکا تھا، حتی کہ یزد جرد دوم جو پانچویں صدی کا حکمران تھا، نے اپنی ہی بیٹی سے شادی کی، پھر اس کو قتل کیا، اور ”بہرام جو“ نے اپنی بہن سے شادی کر رکھی تھی۔
    مانی نے تیسری صدی عیسوی میں نکاح کو حرام قرار دیا کیونکہ وہ نسل انسانی کو ختم کرنا چاہتا تھا جس کو 276 میں بہرام نے قتل کیا، پھر پانچویں صدی میں ”مزدک“ آیا جس نے سارے انسانوں کو ایک اور عورت کو پانی، چراگاہ اور آگ کی طرح مشترکہ چیز (عوامی ملکیت) قرار دیا جس کا ذکر شہرستانی نے”الملل والنحل“ میں بھی کیا ہے۔
    اس کی دعوت نے ایران کے نوجوانوں، مالداروں اور بااثر لوگوں میں بہت مقبولیت حاصل کر لی جس کی وجہ سے اخلاقی تباہی اور شہوت رانی کی انتہا ہوگئی، امام الطبری کہتے ہیں کہ: ”کمینے لوگوں نے اس موقع کو غنیمت سمجھا اور مزدک کے مددگار بن گئے، اس وقت لوگ کسی بھی شخص کے گھر جا کر گھر کے مرد کو قابو کر کے عورتوں کے مالک بن جاتے تھے اور اس کو مال غنیمت سمجھتے تھے، حالت یہ ہوگئی تھی کہ کسی شخص کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کون اس کا بچہ ہے اور وہ کس کا باپ ہے“۔
    کسری کہتے تھے کہ ان کی رگوں میں اللہ کا خون دوڑ تا ہے (نعوذ باللہ)، اس لیے قوم اپنے حکمرانوں کو معبود کی طرح پوجتی تھی، وہ مقدس سمجھے جاتے تھے، کوئی شخص ان کا نام لے کر ان کا ذکر نہیں کر سکتا تھا اور ان کی مجلس میں نہیں بیٹھ سکتا تھا، یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان کا ہر انسان پر حق ہے اور کسی انسان کا ان پر کوئی حق نہیں، حکمرانی کو تو صرف انہی کا حق سمجھا جاتا تھا، اگر کوئی مرد نہ ہو تو بچے کو بادشاہ بناتے تھے جیسا کہ ”ازد شیر“ کو بنایا، اگر بچہ بھی نہ ہوتا تو بیٹی کو ملکہ بنایا جاتا جیسا کہ ”بوران“ کو ملکہ بنایا پھر کسری کی دوسری ”ازرمی دخت“ کو ملکہ بنایا مگر انہوں نے رستم جیسے سپہ سالار یا جابان کو اپنا حکمران بنانے کا سوچا بھی نہیں کیونکہ وہ شاہی خاندان سے نہیں تھے۔
    طبقاتی فرق اس قدر بڑھ گیا تھا کہ پروفیسر ارتھرسین اپنی کتاب ”ساسانیوں کے عہد میں ایران کی تاریخ“ میں لکھتا ہے کہ ”فاصلے ناقابل یقین حد تک بڑھ گئے تھے، حکمران نے اعلان کر رکھا تھا کہ کوئی عام شخص سے کوئی پلاٹ بھی نہیں خرید سکتا“۔
    ایرانی حکمران مال کو صرف اپنے لیےجمع کرتے رہتے تھے جب 607 م میں خسرو دوم نے اپنے اموال کو نئی عمارت میں منتقل کیا، اس کی قیمت 468 ملین دینار تھی، حکمران بننے کے تیرھویں سال ان کا مال 800 ملین دینار تھا جو سینکڑوں نہیں ہزاروں ارب ڈالرز کے برابر ہے۔
    زمانہ قدیم میں ایرانی اللہ کی عبادت کرتے تھے، پھر سورج اور ستاروں کی عبادت شروع کی، زرتشت مجوسی تھا، اس نے معبودوں کو یکجا کیا اور ہر چمک دار چیز کو معبود قرار دیا جیسے سورج آگ۔
    چین کی جہاں تک بات ہے وہاں تین مذاہب تھے: لاوتسو، کنفوشیوس اور بدھ مت، لاوتسو بت پر ستی کے ساتھ عملی کاموں کے بجائے تصوراتی باتوں پر یقین رکھتے تھے اور شادی نہیں کرتے تھے اور عورت کی طرف دیکھتے بھی نہیں تھے۔ کنفوشیوس پتھروں اور درختوں کی عبادت کرتے تھے جبکہ بدھ مت والے اپنے پاس بت رکھتے تھے، یہ لوگ انتہائی منفی سوچ رکھتے تھے، جادو اور مال جمع کرنے پر توجہ ہوتی تھی۔
    ہندوستان کی صورت حال تو ناقابل بیان تھی، چھٹی صدی عیسوی میں معبودوں کی تعداد 330 ملین تک پہنچ چکی تھی، ہر دلکش یا ضروری چیز کو معبود سمجھتے تھے، پہاڑ ، سونا، چاندی، جنگی آلات، آلہ تناسل، حیونات جیسے گائے، ہاتھی اور چوہا وغیرہ سب معبود تھے۔
    ہندوستان کے تمام مذاہب پر جنس (سیکس) کا اس قدر غلبہ تھا کہ وہ اپنے معبود کے درمیان جنسی تعلقات کے قائل تھے اور بڑے معبود ”مہادیو“ کے آلہ تناسل کی عبادت کرتے تھے، کچھ لوگ برہنہ عورتوں کی عبادت کرتے تھے اور عورتیں برہنہ مردوں کی عبادت کرتے تھے، مذہبی پیشوا سب سے بڑے فاسق ہوا کرتے تھے، مذہب کے نام پر زنا عام تھا، زیادہ تر لوگ مندر جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے جاتے تھے۔
    ان حالات میں اسلام کا ظہور حقیقی معنوں میں انسانی تاریخ میں ایک فیصلہ کن موڑ ہے جس کو نظرانداز کر کے تاریخ مرتب ہو ہی نہیں سکتی۔ صرف یورپ میں رونما ہونے والے بعض واقعات کو تاریخ کے مختلف ادوار سے تعبیر کرنا تاریخ اور انسانیت کے ساتھ ظلم ہے۔ تاریخ انسانی کو جن حقیقی ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہو سکتے ہیں، اسلام کے ظہور اور اسلامی ریاست کے قیام سے پہلے کا دور (جاہلیت اولی کا دور)، اسلامی ریاست اور دنیا میں اسلام کی قیادت کا دور، 1924ء میں اسلامی ریاست کے انہدام کے بعد کا دور (دوسری جاہلیت کا دور)، اللہ کے اذن سے سے عنقریب قائم ہونے والی خلافت راشدہ کا دور جس کی انسانیت کو سخت ضرورت ہے۔

  • سونے کے پہاڑ پر جنگ-اوریا مقبول جان

    سونے کے پہاڑ پر جنگ-اوریا مقبول جان

    orya

    جنگ عظیم دوئم کے بعد مغرب میں جس معاشرے نے جنم لیا، جس سیاسی اور اقتصادی نظام نے جڑیں پکڑیں اس نے اپنے لیے ایک بنیادی کلیہ طے کر لیا کہ اب ہم آپس میں نہیں لڑیں گے۔ سوال یہ پیدا ہوا کہ گزشتہ دو سو سال سے جو آپ نے اسلحے کے کارخانے لگائے ہیں۔ جنگ و جدل کی ٹیکنالوجی کو وسعت دی ہے۔
    انسانوں کو دنیا سے ملیامیٹ کرنے کے لیے ہتھیار بنائے ہیں، ان سب کا کیا ہو گا۔ عالمی بینکار وںنے تو یورپ کو تباہ کرنے کے بعد انھیں مقروض کر کے اپنی تجوریاں بھرنے کا مستقل بندوبست کر لیا تھا‘ لیکن اسلحے کی صنعت بھی تو انھی کے دیے ہوئے سرمائے سے چلتی تھی۔ اگر اس کی کھپت کم ہوگئی تو یہ ان عالمی سودی بینکاروں کے لیے موت تھی۔ اسی لیے جنگ عظیم دوم کے بعد یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ جنگ تو ہو گی، لوگ تو مارے جائیں گے، گولیاں چلیں گی، بم برسیں گے لیکن اب یہ تماشہ کسی اور علاقے میں ہو گا۔
    یورپ میں امن قائم رکھا جائے گا۔ بتایا جائے گا کہ لوگ کیسے سکون سے رہتے ہیں۔ جنگ عظیم دوم کے بعد ان سود خور بینکاروں کے سرمائے سے قائم کارپوریٹ سسٹم اور اس میں موجود اسلحے کے کارخانے ایک نئے میدان جنگ کی تلاش میں تھے جس کی وسعت عالمی سطح کی ہو۔ لیکن یہ میدان جنگ بہت پہلے سے تیار کر لیا گیا تھا۔ کمیونزم کے خلاف جنگ، یہ جنگ سوویت یونین اور اس کے زیر اثر یورپی ممالک کے ساتھ تھی۔
    پوری دنیا کا میڈیا کمیونزم کو ایک خوفناک خواب بنا  کر پیش کر رہا تھا۔ ایسا خوفناک جس میں جائیدادیں، کاروبار سب چھین لیا جائے گا۔ آدمی ڈبل روٹی اور انڈوں کے لیے ریاست کا محتاج ہو گا۔ سب کچھ اجتماعی ہو جائے گا، یہاں تک کہ بیویاں بھی اجتماعی ہوں گی۔ ہالی ووڈ نے جیمز بانڈ کی فلموں کی ایک سیریز کا آغاز کیا جو آئن فلیمنگ کے پراپیگنڈہ پر مبنی تیرہ ناولوں پر بنائی گئیں۔
    یہ سب فلمیں سوویت یونین اور اس کے کمیونزم کے خلاف سود خور جمہوری نظام کی جنگ پر مبنی تھیں۔ لیکن کمال ہوشیاری سے ان فلموں میں بھی اور حقیقی طور پر بھی جنگ کو یورپ سے دور رکھا گیا۔ جنگ کے میدان ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا بنا دیے گئے۔ ویت نام، انگولا، چلی، برازیل، لاؤس، کمبوڈیا وغیرہ۔ کمیونزم کی جڑ تو سوویت روس تھا۔ ان تمام ممالک کو اسلحہ بیچتا تھا۔
    انھیں فنی امداد دینا تھا، لیکن کسی نے سوویت یونین یعنی لڑائی کی جڑ کوختم کرنے کے لیے جنگ نہ کی ‘اس لیے وہ یورپ کا حصہ تھابلکہ پوری دنیا میں محاذ کھول دیے گئے اور وہاں پر اسلحہ بیچ کر جو سرمایہ حاصل ہوا اس سے یورپ کے بازار رنگین ہونے لگے۔ امریکا کی معاشی خوشحالی کا باب تحریر ہونے لگا۔ جس سوویت یونین کے خلاف ان سود خور جمہوری معاشی نظام کے علمبرداروں نے پوری دنیا میں انسانوں کی لاشیں گرائی تھیں، کروڑوں لوگ جنگ کا ایندھن بنے تھے۔
    اس سوویت یونین نے آدھے جرمنی پر دوسری جنگ عظیم کے بعد معاہدے کے تحت قبضہ کر رکھا تھا۔ برلن شہر آدھا آدھا تقسیم کر دیا گیا اور بیچ میں ایک دیوار برلن بنا دی گئی۔ اس پچاس سالہ جنگ جسے سرد جنگ کہتے ہیں‘ اس کے دوران کسی ایک یورپی ملک یا امریکا نے مشرقی جرمنی کو آزاد کروانے یا برلن کی دیوار گرانے کے لیے ایک فائر تک نہ کیا۔ اس لیے کہ یہ ’’مقدس‘‘ یورپ تھا اور یہاں اب انسان کا خون بہانا سوویت کمیونسٹوں اور سودی خور جمہوری معاشی نظام کے علمبرداروں کے نزدیک حرام تھا۔
    میدان جنگ کیوبا ہو سکتا ہے لیکن امریکا نہیں۔ میدان جنگ افغانستان ہو سکتا ہے لیکن روس نہیں، یورپ میں جو چہل پہل، خوشیاں، رنگارنگی اور خوبصورت زندگی نظر آتی ہے، وہ اصل میں اس لیے نہیں کہ یورپ کے لوگ جنگ نہیں کرنا چاہتے اور انھوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اب ان بکھیڑوں سے دور رہیں گے۔ ان عوام کی کیا مجال اور کیا حیثیت۔ آج تک جنگ کے فیصلے کبھی عوام نے کیے ہیں۔
    یہ فیصلے تو جمہوری طور پر منتخب حکمران بھی نہیں کرتے۔ اس لیے نہیں کرتے کہ ان کی جمہوری جدوجہد پر اربوں ڈالر، پاؤنڈ اور یورو کی صورت سرمایہ جن سود خور بینکاروں اور کارپوریٹ سرمایہ داروں نے لگایا ہے وہ کان سے پکڑ کر جنگ کا فیصلہ کروا لیتے ہیں۔ پورا یورپ عراق کے خلاف جنگ کو رکوانے کے لیے سڑکوں پر نکل آیا تھا۔ کیا عراق جنگ رک گئی۔ ہرگز نہیں۔ ٹونی بلیئر معافی مانگے یا یہ کہتا پھرے کہ خفیہ رپورٹیں غلط تھیں لیکن لاکھوں انسان موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔
    یورپ کو اب سکون اور اطمینان ایک حکمت عملی کے تحت بخشا گیا ہے۔ اسی طرح چین اور بھارت کی معیشت کو زبردست معاشی ترقی کے لیے تاکہ وہ جنگ کے میدانوں سے نفرت کرے۔کھلا میدان دیا گیا۔ روس کو سود خور جمہوری معاشی نظام میں واپس لانے کے بعد اس کی بدحال معیشت کو اس حد تک سنبھلنے دیا گیا کہ وہ دوبارہ ایک عالمی طاقت بننے کے خواب دیکھنے لگے۔
    یہ سب کے سب اب معاشی طور پر مضبوط ہیں۔ جس سرمایہ دار کے پاس پیسہ ہوگا اگر اس کی کسی کے ساتھ دشمنی ہو جائے تو وہی گارڈ رکھ سکتا ہے، بندوقیں خرید سکتا ہے، گھر اور فیکٹری کے باہر سیکیورٹی سسٹم لگا سکتا ہے۔ کسی بھی بڑی جنگ سے پہلے خوف بیچا جاتا ہے۔ ہر اس ملک کو خوفزدہ کیا جاتا ہے، ہر اس معاشرے کو ڈرایا جاتا ہے جس کے پاس جنگ کا خرچہ اٹھانے کی طاقت ہو۔
    گزشتہ بیس سال سے پوری دنیا میں خوف بیچا جا رہا ہے۔ یہ خوف سب سے زیادہ مغرب میں بیچا جا رہا ہے اور اس کا آغاز 9/11  کے بعد ہوا۔ وہ لوگ جو مغرب کی رنگارنگی میں اس قدر خوش و خرم تھے کہ انھوں نے اپنے اردگرد ایک پٹاخے کی آواز بھی نہیں سنی تھی اب چیخیں مارتے ہوئے گلیوں میں بھاگ رہے تھے۔ پوری دنیا عمارت سے چھلانگ لگاتے، ملبے میں دفن ہوتے اور آگ کے شعلوں میں جلتے انسانوں کو ٹیلی ویژن اسکرینوں پر دیکھ رہی تھی۔ خوف کا ردعمل خوفناک تھا۔
    افغانستان، عراق اور اب شام۔ گزشتہ پندرہ سالوں میں جہاں یورپ اور امریکا کے عوام کو خوفزدہ رکھا گیا وہاں اس قدر طویل جنگ نے ان تینوں ملکوں کے لوگوں کو جنگ کے خوف سے آزاد کر دیا گیا۔ ان کے نزدیک اب موت کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی، بے گھر ہونا کوئی نیا تجربہ نہیں، خون سے اب انھیں وحشت نہیں ہوتی۔ اب ان کا ہدف بدل چکا ہے، ان کا ہدف مغرب ہے اور مغرب خوفزدہ ہے۔ اس قدر خوفزدہ کہ پیرس شہر میں فوج کا گشت دیکھ کر لوگ گھروں میں گھس جاتے ہیں۔
    یورپ کو اس طرح خوف میں مبتلا کرنے کا مقصد کیا ہے۔ وہی مقصد جو بلی کو خوفزدہ کر کے لیا جاتا ہے۔ جنگ میں جھونکنا۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے آہستہ آہستہ خوف کے انجکشن لگائے گئے اور اب مغرب بالکل تیار ہے۔ اسے اپنی ٹیکنالوجی پر بھروسہ ہے۔ اسے اس بات کا یقین دلا دیا گیا ہے کہ اب وہ خود جنگ میں نہ کودا تو اس کے ہنستے بستے شہر دہشتگردوں کے ہاتھوں یرغمال ہو جائیں گے۔
    لیکن اس دفعہ جنگ فیصلہ کن ہونے والی ہے۔ گزشتہ ستر سال سے یہودی اپنے عالیشان گھر اور بڑے بڑے کاروبار چھوڑ کر اسرائیل کے بے آب و گیاہ علاقے میں آباد ہو رہے ہیں۔ یہ خود اس سودخور بینکاری معاشی نظام کے مالک ہیں۔ یہ اسرائیل امن کے لیے نہیں بلکہ جنگ کے لیے آئے ہیں۔ کوئی بلاوجہ یورپ اور امریکا کی پرسکون زندگی نہیں چھوڑتا۔ اس وقت جب جنگ عظیم دوم کے بعد یہودی ہی غالب آ چکے ہوں۔
    یہ جوق در جوق ارض مقدس میں جاکر آبادہوتے رہے۔ انھوں نے وہاں کوئی صنعتی مرکز نہیں بنانا، صرف جنگ کرنا ہے جس کے بعد ان کے نزدیک ان کا مسیحا آ کر عالمی حکومت قائم کرے گا۔ لیکن اس جنگ کا ایندھن یورپ بھی ہوگا اور مشرق وسطیٰ ہی نہیں بلکہ تمام مسلمان امت۔ اس کا آغاز سید الانبیاء کی اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’عنقریب دریائے فرات سے سونے کا ایک پہاڑ برآمد ہو گا، پھر وہ اس پر قتال کریں گے، بس سو میں ننانوے آدمی قتل کر دیے جائیں گے(مسلم)۔‘‘
    یہ سونے کا پہاڑ کیا ہے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جب برٹن ووڈ معاہدہ ہوا تو دنیا نے کاغذ کے نوٹ جاری کرنے پر اتفاق کیا۔ لیکن کہا کہ اس کے بدلے میں سونا حکومت کے پاس موجود ہونا چاہیے۔ 1971ء میں فرانس نے امریکا کے صدر نکسن سے اپنا سونا طلب کیا تو اس نے کہا کہ یہ وعدہ پورا کرنے کے لیے نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد سونا نہیں بلکہ ملک کی حیثیت Good Will کو معیار بنایا گیا۔ اور اس وقت دنیا میں یہ Good Will یعنی ڈالر کی قیمت کا اتار چڑھاؤ تیل سے وابستہ ہے اور کون نہیں جانتا کہ یہ تیل فرات کے آس پاس کس کس کو خون میں نہلا رہا ہے۔
    عراقی حکومت، داعش، ایرانی ملیشیا، القاعدہ،امریکا اور یورپ ہر کوئی اس سونے کے پہاڑ پر ٹوٹ پڑا ہے اور فائدہ بھی اٹھا رہا ہے۔ لیکن سید الانبیاء نے فرمایا ’’پس جو اس وقت موجود ہو وہ اس سونے کے پہاڑ میں سے کچھ بھی نہ لے (متفق علیہ) جو اس سونے کے پہاڑ میں حصہ بٹا رہے ہیں ان کے لیے ہلاکت ہے اور جو اللہ کے بھروسے پر جنگ لڑتے ہیں ان کی فتح و نصرت کی بشارت۔
  • لبرلزم کیا ہے؟ ریاض علی خٹک

    لبرلزم کیا ہے؟ ریاض علی خٹک

    ریاض خٹک یہ سوال جتنا آسان ہے، اس کا جواب اتنا ہی مشکل کر دیا گیا ہے جیسے چار اندھے ہاتھی کو اپنے احساسات سے بیان کر رہے ہوں. کسی کے لیے یہ مینار ہے تو کوئی اسے دیوار باور کراتا ہے. لبرلزم کے ہاتھی پر بھی احساسات و خواہشات کی زبان عام ہے.
    میرے لیے لبرلزم کی چنداں اہمیت نہ ہوگی، جب تک مجھے کوئی لبرل ہونے کا نہ کہے گا. لیکن جب لبرلزم کو آج کا مروج نظام باور کرایا جائے گا، یہ احساس دلایا جائےگا کہ لبرل ہی سکہ رائج الوقت ہے، یہی کامیابی کی کنجی ہے. تو میں دلیل کا طالب بنوں گا. یہ دلیل کسی کی ذاتی سوچ، پسند نہ پسند پر نہیں. حقائق پر مبنی ہو. حقائق تاریخ کے تواتر میں ملتے ہیں. میں اسلام کو چودہ سو سال قبل کے نزول پر قبول کرتا ہوں. آج اس کی تفسیر ممکن ہے. پر یہ تفسیر جہاں بھی اسلام کی روح سے متصادم ہوگی، میں اسے نزول کی کسوٹی پر پرکھوں گا.
    لبرلزم کو آج بیان کیسے کیا جاتا ہے؟ اس کی تفسیر کیا بیان کی جاتی ہے، اس کی کسوٹی کیا ہے؟ کیا یہ وہی ہے جو اس نظریہ کو بنانے والوں نے مقرر کی، یا میرے آج کے دوست اس میں سے کچھ لو کچھ چھوڑ دو کی خواہش پر جیسے پیش کرتے ہیں؟
    لبرلزم لاطینی لفظ لیبر سے نکلا ہے جس کا مطلب آزاد خیالی ہے. یہ مکمل اہل مغرب کا فلسفہ ہے، جو وہاں سترھویں (17) صدی میں منظر عام پر آیا، اور اہل مغرب کے سیاسی پس منظر میں یہ ایک بہت پرکشش نعرہ تھا. میں جان لاک سے لے کر جان اسٹورٹ مل تک پھیلے لبرلزم کے دانشوروں کا ذکر نہیں کرنا چاہتا کہ یہ بے وجہ کی طوالت ہے. ہاں میں اس تاریخ سے یہ اخذ ضرور کرنا چاہوں گا کہ آج کے اس لبرلزم کے آنے کا پس منظر کیا تھا.
    لبرلزم جس یورپ میں آیا کہ وہ متضاد کیفیات کا حامل ایک معاشرہ تھا، ایک طویل خانہ جنگیوں کا شکار، مذہب نے چرچ کی صورت بالادستی بنائی ہوئی تھی، حکومت کا ایک ستون بن چکا تھا، اور علم کے آگے دیوار بنا ہوا تھا، عام آدمی بادشاہت، جاگیردار، حکومتی اہلکاروں، چرچ کے نظام سب کی بیک وقت غلامی کر رہا تھا، اور مکتی صرف موت ہوتی تھی. دوسری طرف یہی یورپ سائنس میں ترقی کی راہ پر تھا، نئے علوم کے کھوج کا سفر بھی تھا اور اس کی جستجو کی خواہش بھی، اس پس منظر میں آزادی خیالی یا شخصی آزادی کا نعرہ وہاں بہت پرکشش تھا.
    سپین کی تاریخ ہو کہ سلطنت برطانیہ کی فرانس کی ہو کہ سنٹرل یورپ کی، اس لبرلزم کو ان کے پس منظر میں دیکھیں تو سمجھ آتی ہے. پر اس لبرلزم نے انیسویں صدی کے اوائل تک لبرلزم سے سیکولرزم کا جو سفر کیا سوالات یہاں اٹھنے شروع ہوئے.
    پہلا سوال جو بطور ایک مسلمان ہم سب سے اہم سمجھتے ہیں کہ آیا لبرلزم نے عام آدمی کو چرچ کے شکنجے سے آزاد کیا یا کہ مذہب کے شکنجے سے؟ ہزار سالہ یورپ کی تاریخ میں وہ چرچ اور فرد کی کشمکش تھی. لبرلزم نے عیسائی دنیا کو یہ سوچ باور کرائی کہ فرد مذہبی سوچ پر کامل آزاد ہے، جس طرح چاہے اس پر عمل کرے. لیکن درحقیقت لبرلزم مذہب مخالف ہے کیونکہ مذہب اپنی فطرت میں انسان کو اپنے سامنے جھکنے کا حکم دیتا ہے، کوئی بھی مذہب انسان کو مقتدر قرار نہیں دیتا، مذہب ایک محصوص نظم و ضبط پر زندگی گزارنے کا نام ہے.
    یہی وجہ ہے کہ آج کے یورپ میں اسلام انھی اپنی اقدار سے متصادم لگتا ہے. ایک حجاب برداشت نہیں ہوتا، ورنہ یہ فرد کی آزادی پر لیا جاسکتا ہے. ہم جنس پرستی سے لے کر نیچرلسٹ سوچ و اقدار جو مذہب محالف ہیں، ان کی آبیاری وہاں ممکن ہے. پر مذہب پر فرد اگر حجاب کرلے تو یہ لبرلزم میں قابل قبول نہیں.
    اس سوچ پر اسلامی معاشرے کے مکمل نظام کو جب ہم دیکھتے ہیں تو وہ اپنی روح پر لبرلزم سے مکمل متصادم ہیں. تاریخ میں لبرلزم نظریہ سے زیادہ بطور ہتھیار استعمال ہوا، ابتدا میں برطانوی سرمایہ دار نے اسے برطانوی جاگیردار کے خلاف استعمال کیا، آگے جاکر فرانسیسی انقلاب میں، یورپ میں اور بھی بہت مثالیں ہیں. عثمانی خلافت کے خلاف اس کا استعمال تو قریب کی معلوم تاریخ ہے. اس کے علاوہ فاشزم و کمیونزم کے خلاف کامیاب استعمال ہوا.
    تو ہم یہ کیوں نہ سمجھیں کہ آج یہ اسلامی آئیڈیالوجی کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہورہا ہے؟ مجھے کیا اسلام کافی نہیں؟ مجھے کیا مسلمان ہونا کافی نہیں؟ جو میں مغرب سے لبرل و سیکولر کا خطاب لوں؟

  • وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم-اوریا مقبول جان

    وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم-اوریا مقبول جان

    orya
    اقبال کے بارے میں ہمیشہ یہ میرا یقین اور ایمان رہا ہے کہ یہ دنیا کا واحد شاعر اور فلسفی ہے جو انسان کی زندگی کے ہر مرحلے میں رہنمائی کرتا ہے۔ بچپن میں ہوش سنبھالتے ہی آپ کی انگلی تھام لیتا ہے اور ایک ایسی دعا آپ کو سکھاتا ہے جو آیندہ آنے والی زندگی کے لیے رہنما اور ہادی ثابت ہو۔
    لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
    زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری
    زندگی کے ہر مرحلے، معاشرت و سیاست کے ہر موضوع اور فلسفہ و اقتصاد کے ہر نکتے پر آپ کو اقبال کے افکار سے رہنمائی ضرور ملے گی۔ یہ ہنر اور یہ عظمت دنیا میں کسی شاعر کو نصیب نہیں۔ ہر کوئی اپنے محدود موضوعات اور مخصوص تصورات پر مبنی شاعری کرتا رہا ہے۔ کسی کو محبوبہ کے لب و رخسار اور زلف گرہ گیر سے باہر نکلنے کی فرصت نہیں ملی تو کوئی انقلاب کے گیت گانے یا سرمایہ و محنت کے ترانے لکھتے دنیا سے چلا گیا۔ شیکسپئر جسے دنیا بھر میں سب سے زیادہ متنوع اور وسیع الخیال شخص سمجھا جاتا ہے۔
    اس کے ہاں بھی روم و یونان کی عظمت رفتہ میں چمکتے کرداروں کے سوا کچھ اور نظرنہیں آتا۔ پورا مشرق جو اس دور میں اس کرۂ ارضی پر جگمگا رہا تھا، شیکسپئر کی آنکھوں سے اوجھل رہا۔ یہی کیفیت ان تمام شاعروں اور مفکروں کی ہے جنھیں آج دنیا جدید تہذیب کے درخشندہ ستارے سمجھتے ہوئے علم کے ماخذ اور منبع گردانتی ہے۔ کسی کے ہاں مشرق ہے تو مغرب نہیں تو کوئی سائنسی اخلاقیات کا قائل ہے اور آسمانی ہدایات سے بے بہرہ۔ کوئی صرف فلسفے کی گتھیاں سلجھاتا ہے اور زندگی کی تلخ حقیقتوں سے ناآشنا ہے۔ یہ صرف اقبال ہے جو بندۂ مزدور کے تلخ ایام کی داستان بھی بیان کرتا ہے اور معراج انسانی کے عظیم واقعے سے درس بھی سکھاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف ایک ہے کہ اقبال کا سارا کا سارا علم قرآن پاک سے مستعار ہے۔ اللہ کا نور ہدایت ہے۔ اس لیے کہ اقبال نے خود یہ دعویٰ کیا ہے۔
    گردلم آئینۂ بے جوہر است
    گر بجز فم غیر قراں مضمراست
    پردۂ ناموسِ فکرم چاک کن
    ایں خیاباں زار خارم پاک کن
    (اگر میرے دل کے آئینے میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ اگر اس دل میں قرآن کے علاوہ کوئی ایک لفظ بھی موجود ہے تو اے اللہ میری عزت کا جو پردہ بنا ہے اسے چاک کردے، ان پھولوں جیسی دنیا سے مجھ جیسے کانٹے کو نکال دے)۔ اس لیے کہ خود قرآن پاک کا یہ دعویٰ کہ ’’اور ہم نے تم پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کا بیان مفصل ہے‘‘ (النحل 89)۔ قرآن کے اس علم نے اقبال کو رہنمائی عطا فرمائی اور اس نے تہذیب مغرب اور فرنگی مدنیت کا جس طرح پردہ چاک کیا ہے آدمی کو حیرت میں ڈال دیتا ہے۔
    میرے جیسا شخص جسے یورپ میں صرف چند دن میسر آئے ہیں یقینا اس کی آنکھیں اپنے اردگرد کے ماحول کی رنگینیوں اور عیش و آرام کو دیکھ کر خیرہ ہوجاتی ہیں اور آدمی یورپ کی زندگی کو انسانی تہذیب کی معراج سمجھ لیتا ہے۔ لیکن اقبال تو برسوں یہاں رہے اور پھر اس کے سب سے بڑے ناقد بنے۔ سچ بات یہ ہے کہ مغرب کے اس تفصیلی سفر میں اگر اقبال کا کلام میرا ہمسفر اور ہمراہ نہ ہوتا تو میں اس رنگینی کے پیچھے چھپی ہوئی تاریکی بلکہ اتھاہ تاریکی کو نہ سمجھ پاتا۔
    یورپ میں بہت روشنیٔ علم و ہنر ہے
    حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
    مادہ پرستی پر استوار اس تہذیب میں علم و ہنر کی روشنی تو نظر آتی ہے لیکن انسانی اخلاقیات اور اجتماعی محبتوں کے اصول سے عاری ہے۔ اس وقت یورپ میں سب سے زیادہ تعداد بوڑھے لوگوں کی ہوتی جا رہی ہے۔ آپ ان بوڑھوں کو عالم تنہائی میں موت کی جانب جاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کسی موت کی خبر اس کا پڑوسی میونسپل سروس والوں کو دیتا ہے اور کوئی اولڈ ایج ہوم میں چند نرسوں کے ہاتھوں ریاست کے زیر انتظام جنازے کی رسوم کے بعد قبر میں اتر جاتا ہے۔
    شام ڈھلے شراب خانوں پر افسردہ و پژمردہ نوجوانوں کا ہجوم ہوتا ہے جو اس غم کے بوجھ تلے دبے جا رہے ہوتے ہیں کہ کسی کو اس کا بوائے فرینڈ چھوڑ گیا تو کسی کو اس کی گرل فرینڈ۔ انھی میزوں پر نئے ساتھی کی تلاش ہوتی ہے جسے ہو سکتا ہے اگلے چند ماہ ہی ساتھ چلنا ہو۔ آیندہ آنے والی نسلوں سے یہ لوگ اس قدر مایوس ہیں کہ کوئی بچے پیدا کرنا نہیں چاہتا کہ اگر زندگی کے آخری ایام اکیلے یا اولڈ ایج ہوم میں گزارنا ہے تو پھر اولاد کا کیا فائدہ۔ لیکن میرے جیسے سیاح ان کے سرخ و سفید تمتماتے چہروں کو دیکھ کر سمجھتے ہیں کہ یہ کس قدر مطمئن لوگ ہیں۔ اقبال نے کہا تھا
    چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
    یہ غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
    جس طرز معاشرت میں آج یورپ زندہ ہے اسے اقبال نے جس طرح بیان کیا ہے، وہ کمال ہے۔
    بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
    کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات
    عریانی و مے خواری تو سب کو نظر آتی ہے لیکن بے کاری و افلاس کے بارے میں لوگ کہیں گے کہ وہ کیسے۔ یورپ میں ایک ایسے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد رکھی ہے جس میں دولت کی بنیاد پر استحصال کیا جائے۔ تمام بڑی بڑی فیکٹریاں چین، مشرق بعید، لاطینی امریکا اور افریقہ منتقل کر دی گئیں ہیں۔ وہ قومیں اپنا خون پسینہ ایک کر کے بہت ہی کم اجرت پر کام کرتی ہیں اور یورپ کا سرمایہ دار مال دار ہوتا چلا جاتا ہے۔
    اس سے وہ جو ٹیکس دیتا ہے وہ سب سے پہلے شہری سہولیات پر خرچ ہوتا ہے اور پھر ان افلاس زدہ لوگوں پر جو اس معاشرے میں سوشل سیکیورٹی کے نام پر وظیفہ کھاتے ہیں۔ دنیا کے سب سے زیادہ منشیات کے عادی انھی معاشروں میں ہیں۔ جو کبھی وظیفے پر جیتے ہیں اور کبھی علاج کے نام پر آبادکاری مراکز میں۔ تیس فیصد کے قریب بوڑھے یا پنشن لیتے ہیں اور اکیلے رہتے ہیں یا پھر اولڈ ایج ہوم میں۔ اسپین سے اٹلی، فرانس سے بلجیئم اور ناروے سے جرمنی تک کے اس سفر میں اقبال بہت یاد آ رہے ہیں۔ پورے کا پورا معاشرہ مادیت کے شکنجے میں جکڑا ہوا اور جس کی بنیاد ایک خون چوسنے والے سودی نظام پر رکھی گئی ہے۔
    رعنائی تعمیر میں رونق میں صنعا میں
    گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بینکوں کی عمارات
    ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جواء ہے
    سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
    اس پورے یورپ کا سب سے امیر شہر جنیوا ہے جو دنیا بھر کے چور اور بددیانت حکمرانوں کے پیسوں کو بینک میں رکھ کر سود سے اپنی فی کس آمدنی بڑھاتا ہے۔ یورپ خود کو اس صدی میں ایک مضطرب یورپ کہتا ہے۔ اس کے مفکرین کہتے ہیں یہ ہماری اضطراب ”Anxiety” کی صدی ہے۔ اقبال نے ایک سو سال پہلے کہا تھا ان کے ہاں ترقی کی معراج انسان نہیں سائنسی ایجادات ہیں اور ایجادات جسمانی سکون دیتی ہیں ذہنی اطمینان نہیں۔
    وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
    حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات