Tag: ہندوستان

  • نوخیز دوشیزاؤں کےلیے عجیب وغریب رسومات – ناصر خان ناصر

    نوخیز دوشیزاؤں کےلیے عجیب وغریب رسومات – ناصر خان ناصر

    قدیم ہندوستانی راجواڑوں میں نوخیز دوشیزاؤں کو کتخدائی اور سوئمبر سے قبل عجیب وغریب رسومات سے گزرنا پڑتا تھا۔ پشتینی خادمائیں خاندانی خفیہ نسخوں کی مدد سے اناجوں، سوکھے پھولوں، پھلوں، بیجوں، نباتات کی چھٹک پھٹک اورحیوانات کے دودھ، چربیوں کی آمیزش سے وہ نادر حسن بخش، تازگی اور نازکی عطا کرنے والے ابٹن بناتیں جو حسنِ نوخیزاں کو مزید چار چاند لگا دیتے۔

    دائیاں، مشاطائیں، مامائیں، اصیلیں، خواصیں اور مغلانیاں اپنی انگلیوں سے بین کر، پوروں سے مسل کر، چھاج پر چھٹک پھٹک، جھاڑ پونچھ، لکڑی کے کوٹی ڈنڈے یا پتھر کے سِل بٹّے پر نہایت احتیاط سے یہ خاندانی نسخے تیار کرتیں۔ بے حد راز داری برتی جاتی کہ دائمی خوشبو میں بسانے والے یہ نسخہ جات قدیمی، روایتی اورخاندانی پہچان سمجھے جاتے تھے۔ ان اُبٹنوں میں سے بعض کو تو بچیوں کی پیدائش سے ہی ناریل کے تیل، اصلی شہد، صحت بخش اجزاء، روح افزا معطر پھولوں کے عرق اور عطر سے گوندھ کر ان بچیوں کی نازک جلد پر لیپا پوتا اور مَلا مسلا جاتا تھا۔

    چاولوں کی پچ، بیسن، ہلدی، صندل، یاسمین اور جوہی کی کلیاں، عرق گلاب، دہی اور شہد ملے یہ ملغوبے نہایت احتیاط سے رگڑ رگڑ کر چہرے، ہاتھوں، پاؤں اور پورے جسم کی صفائی ستھرائی اورخوبصورتی اجاگر کرنے کے کام آتے تھے۔ پھر بکری یا گائے کے دودھ سے نہلا کر عرق گلاب، موتیے، رات کی رانی، خس، چندن یا دوسرے دیسی عطروں میں بسا دیا جاتا۔ پھٹکڑی، اگر ،عود کی دھونیاں الگ سے رمائی جاتیں۔ سانسیں تک معطر کرنے کو ملٹھِی، الائچیاں، پان کی گلوریاں، خوشبو دار روح کیوڑے میں بسی ہوئی کھلائی جاتیں۔

    سر کے بالوں کو ریٹھے، آملے، بہیڑے، سیکا کائی، دہی، شہد اور تازہ انڈوں سے دھو کر دھنیے کی کچی دھانی میں چنبیلی کا تیل ملا کر لگایا جاتا تو زلفوں کی ناگنیں خوامخواہ ہی پھنکارنے لگتیں۔ چاند سے اجلے چہرے پر سولہ سنگھار، بارہ ابھرن لیے ایک سو اکاسی زیورات سے لدی پھندی، سونے سے پیلی ہوتی اورجگمگاتے جواہرات سے دمکتی ہوئی یہ دلہنیں یوں شعائیں اور شعلے بکھیرنے لگتیں کہ خود ان سے ان کا اپنا جوبن اور زیورات سنبھالے نہ سنبھل سکتے۔ سولہ سنگھار جو اس زمانے میں مروّج تھے، ان سے مراد ممیرا سرمہ، کالا کاجل، مسی، مسواک، مانگ سیندھ، سندھیر سندھور، مہندی متی، عطر پھریر، ابٹن بیسن، تیل پھلیل، دنداسہ پان، ابرق، بسمہ وسمہ، تِلک، نظر بٹو اور بالوں میں ملنے کے لیے موم لی جاتی تھی۔

    یہ آجکل کے پاؤڈر واؤڈر، روج، کریمیں، غازے، لپ اسٹکیں اور آئی شیڈوز وغیرہ تو بہت دیر میں آئے۔ ’’بارہ ابھرن، سولہ سنگھار‘‘ میں ’’بارہ ابھرن‘‘ سر، پیشانی، کان، ناک، گلا سینہ، بازو، ہاتھ، کمر پاؤں اور ایڑی کے زیورات کو کہا جاتا تھا۔ غسل کرنے، تیل لگانے، بال گوندھنے، چندن پھیرنے، سر کا کوئی زیور پہننے، کوئی ہار پہننے، مہندی لگانے، کمر میں کمر بند سجانے، پان کھانے، پاؤں کے زیور پہننے، کاجل لگانے، بُندے اور نتھ پہننے وغیرہ کے مجموعی تاثر کو ہی” بارہ ابھرن، سولہ سنگھار“ سے تشبیہ دی جاتی تھی۔

    زیورات کے عجیب وغریب نام ہوا کرتے تھے۔ چند زیورات تو عالمگیری شہرت کی بناء پر برصغیر کے ہر شہر قصبے میں مشہور ہوئے، جبکہ چند ایک کی شہرت محض علاقائی ہی رہی۔ مثلاً ’’ہول دلی‘‘ جو کہ کہربا کے تعویذ پر آیتِ کریمہ لکھی ہوئی ہوتی تھی، صرف دلّی کی بیگمات کا خاص زیور تھا۔ منگل سوتر یعنی کالے موتیوں سے بنی مالا ہندو سہاگن عورتوں کی خاص نشانی تھی، جسے صرف مرنے کے بعد ہی گلے سے اتارا جاسکتا تھا۔ مینڈھیوں میں گندھے بینے، ہشت پہلو، شاہ بانو، جھپکا، سنگھار پٹی، چمپاکلی، مکٹھ، کلغی، تاج، جھومر، کم کم، طلائی سیس پھول، ٹیکا، سر اور ماتھے کے زیورات تھے۔

    بالوں میں موتی، کلپ، چٹیا میں گندھے عجیب و غریب زیورات، چٹکلے، لڑیاں، جوڑے بند، ناک میں نتھلی، پڑوپی نتھ، ایک موتی والی نتھ، ٹوپا، پوپا، بُولا، کِیل، بُوندی، موتی، لونگ، ہیرا، تولے، تُوپے، کلی، بلّاق وغیرہ پہنا جاتا، ناکتخدا کنواری لڑکیاں بالیاں اپنی ناک میں محض لونگ یا چھلا/ دھاگا ہی پہنے رہتیں۔ کانوں میں ہیرے، کلیاں، پھول، بالیاں، بالے، بجلیاں، سادیاں، انتیاں، دوانتیاں۔۔۔ لاکھ لاکھ بھاؤ بتاتی ہوئی، جگنو، جُھمکے، چھپکے، مگر کانٹے، کان پڑے، بگڑا، آویزے، کرن پھول، ٹاپس، بُندے، بُندکیاں، جھالے، مُرکیاں، جھاپے، انکڑیاں، دبگڑا، پتے، جوڑی، کانٹے، موتی پہنے جاتے۔

    باہوں میں بازو بند، کڑے، چوڑے، بجوٹھا، چوڑیاں، پری چھم، کنگن، ہاتھی دانت کے بنے پوری کلائیوں کو بھر دینے والے سپید چوڑیوں کے سیٹ (جو موہنجوداڑو سے برآمد کردہ رقاصہ کے مجسمے نے بھی پہن رکھے تھے اور چار ہزار قبلِ مسیح سے لیکر آج تک سندھ، چولستان وغیرہ میں پہنے جا رہے ہیں)۔ ہتھیلی پر چمنبہ، پنجہ، جہانگیری (جسے ملکہ نورجہاں نے اپنی ہتھیلی کی پشت پر پڑے جلنے کے داغ کو چھپانے کے لیے ایجاد کیا تھا)، انگلیوں میں چھلے ( جن کے لیے پنجاب کی لوک موسیقی میں بے شمار گیت تخلیق ہوئے)، انگوٹھیاں، انگشتریاں، زنجیریاں، دو یا تین انگلیوں میں اکٹھی پہنے جانے والی انگوٹھیاں….

    انگوٹھا (انگوٹھے میں پہنے جانے والی بڑی سی انگوٹھی کا نام)، ناخن( پوروں پر پہنے جانے والے زیور کا نام)، اس کے علاوہ ’’چھاپ‘‘ جس کے لیے کہا گیا،” چھاپ تِلک سب چھین لی، موسے نیناں ملائی کے۔“ گلے میں پہننے کے زیورات میں ہار، ھسی، ہنسلی، تعویذ، دھگدھگی، لاکٹ، چندن ہار، نولکھا ہار، کٹ مالا، مالا، گلو بند، رانی ہار، ڈھولنے، ہیکل، ٹکڑیاں، زنجیر، زنجیریاں، ست لڑا، پنج لڑا، نولڑا، گیارہ لڑا، پھُل وینا، آڑھی ہیکل، کمر میں پہننے کے لیے مرصع بیلٹ، کمر جُھول، پٹی، کمرپٹی، زنجیریاں، جھالر پٹی، زچہ گیری، پٹکے، پاؤں میں پہننے کے لیے پازیب، جھانجھن، پائل، خلخال، لچھے، چھم چھم، گھنگھرو، گھنگھرو لگی زنجیریاں، پینجڑیاں، پُونچھیاں، پیر پُونچھیاں، ٹخنوں پر پیرآگڑے…..

    پاؤں کے انگوٹھے میں ’’آرسی‘‘( جس کے لیے بے شمار کہاوتیں مشہور ہوئیں مثلاً ’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا‘‘ اور ’’تولہ بھر کی آرسی، نانی بولے فارسی‘‘ وغیرہ وغیرہ، شیشہ جڑی یہ ’’آرسی‘‘ بیچاری خود چِیں بول کر غائب مگر کہاوتیں، ابھی تلک متروک نہیں ہوئیں)، پاؤں کی انگلیوں میں بِچھوا، چھلے، پیر پنجے، انگوٹھیاں وغیرہ وغیرہ۔ دیگر زیورات میں کانگڑے، بیِ ہاگڑے، رام جُھول، گوکھرو، تُلسی، رتن انجلی، جھِلمل، زیتون، ستلُج، بسنتی، بٹن، کف لنک، پھول کرن، کڑیاں،جھڑیاں، تختیاں، جوشن، موتی، چھٹکیاں، شام، شیام اور مزید کتنے ہی عجب ان گِنت نام ہیں جو وقت کی دھول سے معدوم ہو کر گمنامی کے تاریک اندھیروں میں جا پڑے ہیں۔

    ٹاپس، بروچ، پنیں وغیرہ جنھیں ماڈرن زیورات سمجھا جاتا ہے، انھیں ٹیکسلا میوزیم تک میں دیکھ لیجیے۔ مانگ پٹی، بند، پٹکے، بُوندیاں، شبنم، جالیاں، بانک، امام ضامن، لُچیاں، لچھیاں، لالڑیاں، اُٹھائیاں، سہاگ، ڈولے،، ڈولیاں، پونچھیاں، بچھوے، تہذیب، بچھویہ، سبھی زیورات کے نام تھے جو اب ماند پڑچکے ہیں یا پڑتے جا رہے ہیں۔ جڑاؤ زیورات کے نام علیحدہ رکھے جاتے تھے۔ نگینوں کی پہچان اور درجہ بندی سے مختلف نام بھی مروج رہے مثلاً صدف، یاقوت، زمرد، نیلم اور ہیرے ملی وجنتی مالا، سفید موتیوں کی سدھ ایکاولی۔

    ان کے علاوہ پورب، پچھم، اُتر، دکھن چاروں کھونٹ کی راج دھانیوں میں ایک سے ایک، الگ الگ منفرد، اپنے اپنے علیحدہ زیورات ہی مروج تھے۔ راجستھانی، سندھی، کشمیری، صحرائی زیورات کی اپنی ایک الگ ہی دنیا تھی۔ یہ زیورات زیادہ تر اجلی چاندی، چندن اور لاکھ کی بھرت، روشنائی اور رنگ و روغن کی آمیزش اورجڑاؤ نگوں، نگینوں، موتیوں کی بنا پر اندھیرا پڑے جھلملاتے، کھل کر ہنستے تھے۔ روشنی کی کرن پڑتے ہی جگمگا اٹھتے تھے۔ بلوچی، سندھی، مکرانی، پشتون زیورات کی طرح پنجابی زیورات کی بھی اک الگ ہی دنیا آباد تھی اور ابھی تک ہے۔

    آج اگر لوگوں کو طلائی کنج، چمپا کلی، کنٹھ مالا، حلقہ ہائے بینیِ، بازو بند، شاہ بانو، مکھٹاولی، پہنچی، چوہے دتی، آرسی، نو نگے مگر، ہیکل، بُولے، مالا ہائے اشرفی، وجنتی مالا، شیکھر ہار، سکہ کلمہ اور سنگھار پٹی یاد نہیں رہی تو بھی نِت نئے فیشن، ڈیزائن کے زیورات ہاتھوں اورمشینوں کی مدد سے گھڑے جارہے ہیں اور بقول کبیر…

    کبرا مالا کاٹھ کی بہت جتن کا پھیر
    مالا سانس اسانس کی، جا میں گانٹھ نہ میر

    جب تک سانس کی مالائیں چلتی ہیں، نت نئی دیدہ زیب مالائیں گھڑی جاتی رہیں گی۔

  • بھارت کی منفی سوچ اور خطے کا مستقبل-سلمان احمد قریشی

    بھارت کی منفی سوچ اور خطے کا مستقبل-سلمان احمد قریشی

    پہلگام حملے کے تناظر میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی سربراہی میں ہونے والے سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد بھارت نے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو معطل، واہگہ بارڈر بند اور سفارتی عملہ محدود کرنے سمیت متعدد اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے مشہور سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر حملے میں 26 سے زیادہ افراد ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہو گئے ہیں۔ پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے پہلگام میں سیاحوں کی ہلاکت اور دہشت گردوں کے حملے سے متعلق جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ”ہم مرنے والوں کے لواحقین سے تعزیت کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔”

    مقبو ضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ سری نگر پہنچ گئے جبکہ وزیراعظم نریندر مودی بھی سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے وطن واپس پہنچ گئے ہیں۔ بھارت نے پاکستانیوں کو سارک کے تحت ویزے بند کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان کی پریس کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ تمام پاکستانیوں کے بھارتی ویزے منسوخ کیے جا رہے ہیں۔ بھارت میں موجود پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ بھارت نے پاکستانی ہائی کمیشن میں تمام دفاعی، فوجی، بحری اور فضائی مشیروں کو ناپسندیدہ قرار دے دیا جبکہ بھارتی دفاعی اتاشی کو پاکستان سے واپس بلانے کا اعلان بھی کیا گیا۔ بھارتی وزارت خارجہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں بھارتی ہائی کمیشن کا عملہ محدود کر دیا جائے گا جِسے یکم مئی تک 55 سے کم کر کے 30 افراد تک محدود کیا جائے گا۔بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق پاکستانی سارک ویزہ استثنیٰ پروگرام کے تحت بھارت کا سفر نہیں کر سکیں گے سارک اسکیم کے تحت جو بھی ویزے جاری کیے گئے تھے وہ منسوخ سمجھے جائیں گے اور بھارت میں موجود پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں واپس جانا ہو گا۔

    بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کے بعد پاکستان میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا گیا ہے۔ ترجمان وزارتِ دفاع پاکستان کا کہنا ہے کہ پاکستان بھارت کے کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دینے کی پوزیشن میں ہے۔ پاکستان میں موجود بھارتی شہری یکم مئی تک اٹاری چیک پوسٹ کے راستے واپس آ سکتے ہیں۔پاکستانی وزارتِ آبی وسائل کے ذرائع کا بتانا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ عالمی معاہدہ ہے جسے بھارت یکطرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 1960ء کا سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا تھا معاہدے میں کوئی تبدیلی دونوں ممالک کی رضامندی سے ہی ہو سکتی ہے۔ اس معاہدے کے تحت دریائے سندھ، جہلم اور چناب پاکستان کے حصے میں آئے تھے جبکہ راوی، ستلج اور بیاس بھارت کو دیے گئے تھے۔پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنما سینیٹر شیری رحمان کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ جنگوں کے باوجود فعال رہا ہے۔ معاہدے اس طرح یکطرفہ طور پر معطل یا ختم نہیں کیے جا سکتے۔

    بھارت کی طرف سے ماضی میں متعدد بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی ہے اور پاکستانی دریاؤں پر پن بجلی منصوبے تعمیر کر کے پاکستان آنے والے پانی کو متاثر کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ تین سال سے بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس بھی نہیں ہو سکا۔ دونوں ملکوں کے درمیان انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس 30 اور 31 مئی 2022ء کو نئی دہلی میں ہوا تھا۔ معاہدے کے تحت سال میں دونوں ملکوں کے کمشنرز کا اجلاس ایک بار ہونا ضروری ہے لیکن پاکستان کی متعدد کوششوں کے باوجود بھارت نے کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔

    قارئین کرام! پاکستان میں دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام انگریزوں کا اس خطے پر بہت بڑا احسان تھا جو چار کروڑ پچاس لاکھ ایکڑ زرعی زمین کو سیراب کرتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سب سے بڑا منصوبہ سندھ طاس معاہدہ تھا۔صدر جنرل ایوب خان، بھارتی وزیراعظم جواہر لعل نہرو اور عالمی بینک کے صدر کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر 19 ستمبر 1960ء کو دستخط ہوئے تھے، جس سے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا تعمیری منصوبہ شروع ہوا تھا۔ اس معاہدے کے مطابق منگلا اور تربیلا ڈیموں کی تعمیر کے علاوہ پانچ بیراج، ایک سائفن اور آٹھ الحاقی نہریں بنائی گئی تھیں۔ بھارت نے پاکستان کو 62 لاکھ پاؤنڈ کی ادائیگی کی تھی اور پاکستان کو دس سال کا وقت دیا گیا تھا تاکہ وہ اپنی الحاقی نہروں کے ذریعے پانی کی ضروریات پوری کر سکے۔ اس منصوبے کے لیے عالمی بینک کے ساتھ ساتھ برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور مغربی جرمنی نے بھی فنڈنگ فراہم کی تھی۔

    راقم الحروف نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، برصغیر میں امن و امان کے خواب کو ہمیشہ بھارتی رویے کی تلخیوں میں بکھرتے دیکھا ہے۔ پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے دردناک حملے کے بعد بھارتی حکومت نے جو فوری اور سخت ردِعمل دیا ہے وہ شاید دہشت گردی کے خلاف نہیں بلکہ ایک بار پھر پاکستان دشمنی کے بیانیے کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔ نریندر مودی کی زیرِ صدارت ہونے والے اجلاس میں جس تیزی سے پاکستان مخالف اقدامات کی فہرست سامنے آئی، وہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا بھارت واقعی امن کا خواہاں ہے یا وہ ہر سانحہ کو پاکستان پر تھوپ کر اپنی سیاست چمکانا چاہتا ہے؟سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ یہ وہ معاہدہ ہے جس پر جنگوں کے سائے میں بھی آنچ نہ آئی، جسے عالمی بینک کی گارنٹی حاصل ہے، اور جو دونوں ملکوں کی زرعی، اقتصادی اور معاشی بقاء سے جڑا ہوا ہے۔ اس معاہدے کو توڑنا صرف پاکستان کے خلاف جارحیت نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے امن، ماحولیات، اور خطے کی بقا کے خلاف کھلی جنگ ہے۔

    پاکستان نے ہمیشہ اس معاہدے کو عزت دی۔ حتیٰ کہ بھارتی خلاف ورزیوں کے باوجود مذاکرات کے دروازے کھلے رکھے۔ لیکن بھارت، جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے اس معاہدے کو بار بار اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا رہا ہے۔ دریاؤں پر پن بجلی منصوبے، کمشنرز اجلاس سے انکار اور اب معاہدے کی یکطرفہ معطلی، یہ سب اس کی بدنیتی کی علامتیں ہیں۔بھارتی حکومت کی جانب سے سارک ویزوں کی منسوخی، سفارتی عملے کی کمی، اور واہگہ بارڈر کی بندش جیسے اقدامات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ بھارت خطے میں سفارت کاری، تعلقات، اور اعتماد کی فضا کو دفن کرنا چاہتا ہے۔ یہ وہی بھارت ہے جو عالمی فورمز پر دہشت گردی کے خلاف جنگ کا علم اٹھاتا ہے، مگر خود اپنے اندرونی مسائل اور ناکامیوں کا ملبہ ہمیشہ پاکستان پر ڈال کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتا ہے۔

    سوال یہ ہے کہ کیا خطے کا امن اس رویے سے قائم رہ سکتا ہے؟ کیا کشمیر میں بے گناہوں کی جانوں کا انتقام پاکستان سے لینا انصاف کہلائے گا؟ کیا بھارت کو عالمی قوانین، معاہدات اور اخلاقی ذمہ داریوں کا کوئی پاس ہے؟وقت آ چکا ہے کہ عالمی برادری بھارت کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کا نوٹس لے۔ سندھ طاس معاہدہ صرف پاکستان کا نہیں، بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے ماحولیاتی توازن کا ضامن ہے۔ اگر بھارت نے اپنی روش نہ بدلی تو خطے میں صرف پانی ہی نہیں بلکہ امن کی ندیاں بھی خشک ہو جائیں گی۔

    پاکستان کو چاہیے کہ وہ سفارتی محاذ پر بھرپور کردار ادا کرے اور عالمی اداروں کو اس بھارتی ہٹ دھرمی سے آگاہ کرے۔ بھارت کی منفی سوچ کو بے نقاب کرنا اب صرف پاکستان نہیں، بلکہ انسانیت کی بقاء کا بھی تقاضا ہے۔بھارت شاید بھول گیا ہے کہ دریاؤں کا راستہ بند کرنا دلوں کا راستہ بند کرنے کے مترادف ہے۔ پانی صرف زمین کو نہیں، قوموں کو بھی زندہ رکھتا ہے۔ سندھ طاس معاہدہ صرف سیاہی اور کاغذ کی تحریر نہیں، یہ کروڑوں انسانوں کی زندگی، امید اور روزگار کا محافظ ہے۔ آج جب بھارت اس معاہدے کو اپنے سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھانا چاہتا ہے، تو یہ صرف ایک معاہدے کی نہیں، انسانیت کی شکست ہوگی۔

    یہ لمحہ خاموش رہنے کا نہیں، دنیا کو جھنجھوڑنے کا ہے۔ پاکستان نہ تو پانی کے ایک ایک قطرے سے دستبردار ہو گا اور نہ ہی امن کے چراغ کو بجھنے دے گا۔ بھارت کو سمجھنا ہو گا کہ نفرت کی سیاست وقتی فائدہ تو دے سکتی ہے مگر تاریخ میں اس کا نام صرف تباہی کے سبب یاد رکھا جائے گا۔ ہم نے جنگیں بھی جھیلی ہیں، زخم بھی سہے ہیں، لیکن جب بات اپنی مٹی، اپنے دریاؤں اور اپنے مستقبل کی ہو، تو ہم کسی قربانی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ کیونکہ یہ صرف پانی نہیں، ہماری زندگی ہے۔ ہمارا حق ہے، ہمارا وجود ہے۔اب فیصلہ دنیا کو کرنا ہے امن کے ساتھ کھڑا ہونا ہے یا انتہا پسندی کے ساتھ؟ کیونکہ خاموشی، اب خود ایک جرم بن چکی ہے۔

  • انڈین اقدامات اور پاکستان کا جواب  – نواز کمال

    انڈین اقدامات اور پاکستان کا جواب – نواز کمال

    پاکستان نے انڈین اقدامات کے جواب میں اچھے فیصلے کیے ہیں. کچھ فیصلے تو انڈین فیصلوں جیسے ہی ہیں. مثلاً فضائیہ، نیوی اور آرمی کے اتاشیوں کو ناپسندیدہ شخصیات کو قرار دے کر ملک چھوڑنے کا کہہ دیا گیا ہے. تجارت معطل کر دی گئی ہے. بھارتی ہائی کمیشن کے عملے کو 30 تک محدود کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے.

    پاکستان نے اس کے علاوہ بھی کچھ چالیں عمدگی سے چلی ہیں. ایک کام تو یہ کیا ہے کہ بھارتیوں کے ویزے منسوخ کیے ، مگر اس سے سکھ یاتریوں کو مستثنیٰ رکھا ہے. یہ درحقیقت سکھوں اور ان کی ریاست کے درمیان اعتماد کی اس لکیر کو چھیڑنے کی کوشش ہے، جسے پاکستان کبھی سکھ یاتریوں کو خصوصی پروٹوکول دے کر اور کبھی کرتارپور بارڈر کھول کر چھیڑتا رہتا ہے. انڈیا پاکستان پہ خالصتان تحریک کی مدد کا الزام بھی عائد کرتا چلا آیا ہے.

    پاکستان نے دوسرا اہم اقدام انڈین ایئر لائن کمپنیوں کے لئے اپنی فضائی حدود بند کر کے اٹھایا ہے. اگر پاکستان اور بھارت کا اس زوایے سے موازنہ کیا جائے کہ ان میں سے کس ملک کو اپنے حریف کی فضائی حدود استعمال کرنے کی نسبتاً زیادہ ضرورت ہے تو جواب ” انڈیا ” آئے گا. پاکستان کو انڈیا کی فضائی حدود کی اتنی ضرورت نہیں جتنی کہ انڈیا کو پاکستانی فضائی حدود کے استعمال کی ضرورت ہے.

    پاکستانی طیارے تھائی لینڈ، ملائشیا، انڈونیشیا اور آسٹریلیا جانے کے لیے انڈین فضاؤں کا استعمال کرتے ہیں، جوکہ نسبتاً محدود استعمال کے زمرے میں آتا ہے. جبکہ انڈین طیاروں کے لئے پاکستانی فضائی حدود کی ضرورت بہت زیادہ ہے. انہیں مشرقِ وسطیٰ جانا ہو، وسط ایشیائی ریاستوں تک رسائی پانی ہو ، یورپ کا سفر درپیش ہو یا امریکا کے لیے اڑان بھرنی ہو ، ان تمام صورتوں میں پاکستانی فضائی حدود کا استعمال ناگزیر ہے. پاکستان کی پابندی کے بعد اب انڈین جہازوں کو بحیرہ عرب سے ہو کر گزرنا پڑے گا، جس کی وجہ سے سفری دورانیے کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کرایوں میں بھی اچھا خاصا اضافہ ہوگا، جس سے انڈیا کی معیشت کو اچھا خاصا جھٹکا لگے گا.

    پاکستان نے انڈیا کو سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کی صورت میں شملہ معاہدے کی منسوخی کی دھمکی دی ہے. اگر انڈیا اپنی ضد پہ اڑا رہتا ہے اور نتیجے میں پاکستان شملہ معاہدے کو ختم کرتا ہے تو یہ برابر کا تھپڑ ہوگا. پاکستان نے شملہ معاہدے کا پتہ بڑی سمجھداری سے کھیلا ہے. کیوں کہ اس معاہدے کی اصل جان خطہء کشمیر سے متعلق نکات ہیں. 1972 میں ہونے والے اس معاہدے میں کشمیر میں جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول قرار دے کر اس کے احترام پہ اتفاق کیا گیا تھا . یہ بھی قرار دیا گیا تھا کہ فریقین میں سے کوئی بھی اس سرحدی خط کو یک طرفہ طور پر تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کرے گا. 2019 میں انڈیا کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت تبدیل کیے جانے کے بعد پاکستان میں یہ آوازیں بھی اٹھی تھیں کہ چونکہ انڈیا نے اس اقدام کے ذریعے معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، اس لئے وطنِ عزیز بھی معاہدے کو ختم کرنے کا اعلان کر دے. بالآخر پاکستان نے شملہ معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دے ہی دی ہے، جو اس بات کا اعلان ہے کہ معاہدے کے خاتمے کے بعد لائن آف کنٹرول کی موجودہ حیثیت باقی نہیں رہے گی اور پاکستان کو مقبوضہ کشمیر میں مداخلت کرنے کا اخلاقی جواز حاصل ہو جائے گا. اب یہ مداخلت براہ راست بھی ہوسکتی ہے، پاکستانی نجی تنظیموں کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے اور کشمیری تنظیموں کو متحرک کرنے کی صورت میں بھی ہوسکتی ہے.

    پاکستان جو کارگل جنگ کے بعد نسبتاً دفاعی پوزیشن پہ کھڑا نظر آتا رہا ہے ( جس کی اہم ترین وجہ افغان جنگ تھی) اور بسااوقات کچھ کڑوے گھونٹ بھی پیتا رہا ہے ( جیسا کہ دو ہزار انیس میں انڈین اقدامات کے جواب میں پانچ منٹ کی خاموشی جیسا مضحکہ خیز ردعمل ) ، مگر اس بار تگڑا اور ترکی بہ ترکی جواب دیا جارہا ہے.

    انڈیا اور اسرائیل دونوں ممالک آپس میں گہرے دوست ہیں اور دونوں کی یہ خصلت رہی ہے کہ تگڑا جواب ملے تو فوراً پسپا ہو جاتے ہیں. اسرائیل کے ماضی میں اردن اور مصر سے کیے گئے کچھ معاہدے اس کے گواہ ہیں ،جبکہ انڈیا پینسٹھ کی جنگ ہو یا 2020 میں چینی افواج سے ہونے والی دو بدو جھڑپ، ہر ایسے موقع پر شریف و سمجھدار پڑوسی کا روپ دھارتا نظر آیا ہے.

    بہرکیف انڈیا اور پاکستان پہلی بار نہایت منظم انداز میں سیاسی اور سفارتی حکمت عملیوں کے ساتھ ساتھ ماضی میں کیے گئے اہم ترین معاہدوں کے توڑنے جیسے داؤ پیچ استعمال کر رہے ہیں. پاکستان کی جانب سے اس مرحلے پر جارحانہ اقدامات ضروری ہیں، تاکہ بات باقاعدہ جنگ کی جانب نہ بڑھے.

  • تہور رانا کی حوالگی: سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب – افتخار گیلانی

    تہور رانا کی حوالگی: سفارتی کامیابی یا ایک اور فریب – افتخار گیلانی

    حال ہی میں نومبر 2008کے ممبئی حملوں میں ملوث پاکستانی نژاد کینیڈا کے شہری تہور حسین رانا کی امریکہ سے ہندوستان حوالگی ایک بڑی سفارتی کامیابی گر دانی جار ہی ہے۔ مگر بڑا سوال ہے کہ کیا اس حوالگی سے ممبئی حملوں کی پلاننگ وغیر کے حوالے سے ٹوٹے ہوئے تار جوڑنے میں مدد ملے گی؟

    عوامی یادداشت انتہائی کمزور ہوتی ہے۔ اگر یہ کمزور نہ ہوتی، تو یقیناًسوال پوچھا جاتا کہ 25جون 2012ء کی اسی طرح ہندوستانی ایجنسیوں نے ذبیح الدین انصاری عرف ابو جندل کو سعودی عرب سے لانے میں جب کامیابی حاصل کی تھی، تو ان تیرہ برسوں میں کیس میں کس قدر پیش رفت ہوئی ہے؟

    اس وقت بھی بالکل اسی طرح کا ڈھونڈورا پیٹا گیا تھا کہ اب ممبئی حملوں کی پوری سازش بے نقاب ہو جائےگی۔ 2008ء سے ہی بتایا جاتا تھا کہ مہاراشٹر کے بیہڑ ضلع کے رہائشی انصاری ہی حملوں کے وقت کراچی میں قائم کنٹرول روم سے حملہ آوروں کو گائیڈ کر رہا تھا۔مگر 2016ء میں عدالت نے اس کو 2006ء میں اورنگ آباد کے اسلحہ برآمدگی کیس میں سزا سنائی۔ ممبئی حملوں کے سلسلے میں اس کی ٹرائل کی اب خبر بھی نہیں آرہی ہے۔

    ہندوستان کے اقتصادی مرکز ممبئی پر ہونے والا دہشت گرد حملہ اس لحاظ سے منفردتھاکہ اس سے دو ماہ قبل ہی پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں میرٹ ہوٹل پر خود کش ٹرک حملہ میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوچکے تھے، جن میں تین امریکی شہری بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ امریکی سی آئی اے اور ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں جیسے انٹلی جنس بیورو، ریسرچ اینڈ انیلیسز ونگ(را)سمیت تقریباً سبھی خفیہ اداروں حتیٰ کہ ممبئی پولیس اور پانچ ستارہ ہوٹل تاج کی انتظامیہ کو بھی ا ن حملوں کی پیشگی اطلاع تھی۔ دو برطانوی صحافیوں اڈرین لیوی اور کیتھی اسکارٹ کلارک کی تحقیق پر مبنی کتاب ”دی سیج” کے مطابق، اس حملے سے پہلے ایک سال کے دوران مختلف اوقات میں چھبیس اطلاعات ان اداروں کوموصول ہوئیں جن میں ان حملوں کی پیشن گوئی کے علاوہ حملہ آوروں کے راستوں کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ خفیہ معلومات اس حد تک واضح تھیں کہ اگست2008 ء میں جب ممبئی پولیس کے ایک افسر وشواس ناگرے پا ٹل نے شہر کے فیشن ایبل علاقے کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس کا چارج سنبھالا تو ان کی نظر اس خفیہ فائل پر پڑی جس میں نہ صرف حملوں کا ذکر تھا بلکہ اس کے طریق کار پر بھی معلومات درج تھیں۔ ان اطلاعات کا ماخذ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے تھی۔آئی بی کے ایک مخبر کی طرف سے بھیجی گئی پل پل کی اطلاعات بھی موجود تھیں جن میں حملے کے لیے تاج ہوٹل کی بھی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس افسر نے فوراً تاج ہوٹل کی انتظامیہ کو متنبہ کیا کہ وہ معقول حفاظتی انتظامات کا بندوبست کریں۔ اسلام آبادکے میریٹ ہوٹل میں دھماکہ اور اکتوبر میں دوبارہ اسی طرح کی خفیہ معلومات ملنے کے بعد پاٹل نے تاج ہوٹل کی سکیورٹی کے ساتھ گھنٹوں کی ریہرسل کی،کئی دروازے بند کروائے اور اس کے ٹاور کے پاس سکیورٹی پکٹ قائم کی۔ ان انتظامات کے بعد پاٹل چھٹی پر چلے گئے۔اس دوران تاج ہوٹل کی انتظامیہ نے نہ صرف حفاظتی بندشیں اورسکیورٹی پکٹ ہٹوا دیں۔ بتایا گیا کہ حفاظت پر مامور حفاظتی اہلکار دوران ڈیوٹی ہوٹل کے کچن سے کھانا مانگ رہے ہیں۔ اتنی واضح خفیہ اطلاعات اور ریہرسل تک کے باوجود ہندوستانی سکیورٹی ایجنسیوں نے ان حملوں کو روکنے کی پیش بندی کیوں نہیں کی؟ یہ ایک بڑا سوال ہے جس سے پردہ اٹھنا باقی ہے۔

    یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ دو سال کے تعطل کے بعد جولائی2006ء میں ممبئی ٹرین دھماکوں اوربعد میں سمجھوتہ ایکسپریس پرکیے گئے حملوں کے بعدپاکستان اورہندوستان باہمی تعلقات معمول پر لانے کی سعی کر رہے تھے۔ جس وقت ممبئی میں حملہ ہوا، عین اسی وقت پاکستانی وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اپنے ہندوستانی ہم منصب پرنب مکھرجی کے ساتھ نئی دہلی کے حیدر آباد ہاؤس میں محوگفتگو تھے اور ہندوستانی سکریٹری داخلہ مدھوکر گپتا پاکستان میں تھے۔

    اس کتاب میں حملے کے محرک پاکستانی نژاد امریکی شہری ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کے کردار اور پس منظر پر خاصی روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس کے مطابق ہیڈلی دراصل امریکی انسداد منشیات ایجنسی اور سی آئی اے کے مخبر کے طور پر کام کرتاتھا۔ ڈرگ انفورسمنٹ کے لیے اطلاعات فراہم کرنے اور ہیروئن حاصل کرنے کے لیے ہیڈلی نے جب 2006 ء میں افغانستان سے متصل سرحدی قبائلی علاقوں کا دورہ کیا تھا۔ امریکہ کو اندیشہ تھا کہ القاعدہ کے جنگجو لشکر کی صفوں میں داخل ہوگئے ہیں جن کے ذریعے اسامہ بن لادن تک پہنچا جاسکتا ہے۔

    ممبئی میں یہودیوں کے مرکز ’شباڈ ہاؤس‘ پرحملے کے لیے لشکر کی اعلیٰ قیادت تیار نہیں تھی، کیونکہ ان کو علم تھا کہ اس سے وہ عالمی جہاد کا حصہ بن کر القاعدہ اور طالبان کی طرح برا ہ راست امریکی اوردیگر مغربی طاقتوں کا نشانہ بن جائیں گے،لیکن ان تفتیشی صحافیوں کے مطابق کیمپ میں مقیم زیرتربیت اٹھارہ ہندوستانی جنگجوؤ ں کے اصرار پر شباڈ ہاؤس کو ٹارگٹ لسٹ میں شامل کرلیا گیا۔ان میں ذبیح الدین انصاری عرف ابوجندل بھی شامل تھا۔ صوبہ مہاراشٹر میں انصاری کوجاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ ضلع بیہڑ کے پولیس ہیڈکوارٹر میں بطورالیکٹریشن اورمقامی مخبرکام کرتا تھا۔انسداد دہشت گردی سیل کے سربراہ کے پی رگھونشی جب ایک بار ضلع کے دورہ پر تھے، تو اس کو اپنے ساتھ لے گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ 2006ء میں اسی صوبے کے شہر اورنگ آباد میں اسلحے کے ایک بڑے ذخیرے کو پکڑوانے میں انصاری نے کلیدی کردار ادا کیا،جس کے بعد وہ روپوش ہوکرلشکر میں شامل ہوگیا۔اسی کیس میں اس کو سزا بھی ہوگئی ہے۔

    ادھر امریکہ اورپاکستان میں ہیڈلی کی گرل فرینڈز، بیوی اوردوسرے اہل خانہ اس کی مشکوک سرگرمیوں کے بارے میں خدشات ظاہرکررہے تھے۔ پاکستان میں مقیم اس کی بیوی فائزہ نے اسلام آباد میں امریکی سفارت خانہ جاکربھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا اوراصرار کیا کہ اس کے شوہر کی وقتاً فوقتاً ممبئی جانے اوروہاں اس کی مصروفیات کی تفتیش کی جائے، مگر سفارت خانہ کے افسروں نے اس کی شکایت کو خانگی جھگڑاقرار دے کر فائل داخل دفترکردی۔

    دوسری جانب خفیہ اطلاعات کے باوجود ہندوستان کی سکیورٹی انتظامیہ کی لاپرواہی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب نیشنل سکیورٹی گارڈز (این ایس جی) نے دہلی سے متصل ہریانہ میں اپنے ہیڈکوارٹرسے حملوں کے بیس منٹ بعد ہی نقل و حرکت شروع کی تو کابینہ سکریٹری اور بعد میں وزارت داخلہ کے ایک جوائنٹ سکریٹری نے فون کرکے انھیں متنبہ کیا کہ وہ احکامات کے بغیرنقل و حرکت کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں۔ اس تنبیہ کے ستر منٹ بعد وزارت داخلہ نے انھیں بتایا کہ صوبائی وزیراعلیٰ نے این ایس جی کی مدد مانگی ہے، اس لیے وہ فوراً ممبئی روانہ ہوجائیں مگر ائیر پورٹ جاکر معلوم ہوا کہ ہندوستانی فضائیہ کا ٹرانسپورٹ طیارہ ابھی کئی سو کلومیٹر دور چندی گڑھ میں ہے۔ کمانڈو یونٹ کے سربراہ جیوتی دتہ نے را ء سے ان کا خصوصی طیارہ مانگا تو پتہ چلا کہ اس کا عملہ غائب ہے اور جہاز میں ایندھن بھی نہیں ہے۔آدھی رات کے بعد جب دستہ طیارے میں سوار ہوا توان کو بتایا گیا کہ وزارت داخلہ کے چند افسر بھی ان کے ہمراہ جارہے ہیں، اس لیے ان کا انتظار کیا جائے۔ بالآخر جب طیارہ اگلے دن صبح ممبئی پہنچا تو افسرکو لینے کے لیے چمچاتی اور لال بتی والی گاڑیاں موجود تھیں، مگر کمانڈو دستوں کو لے جانے کے لیے کوئی ٹرانسپورٹ نہیں تھی۔ اس عرصے کے دوران تاج اور اوبرائے ہوٹلوں کے علاوہ یہودی مرکز پر جنگجوؤں نے مکمل کنٹرول حاصل کرلیا تھا اور سینکڑوں افراد لقمہ اجل بن چکے تھے۔

    ان حملوں سے دو سال قبل18فروری 2007ء کی شب دہلی اور لاہور کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کے دو ڈبے تاریخی شہر پانی پت کے نزدیک دھماکوں سے اڑ گئے۔ 68 اموات میں اکثر پاکستانی شہری تھے۔ ابتدائی تفتیش میں ہندوستانی ایجنسیوں نے ان دھماکوں کے تار بھی مسلم نوجوانوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی، چند ایک کو حراست میں بھی لیا۔ میڈیا میں انڈین مجاہدین اور پاکستان میں سرگرم کئی تنظیموں کا بھی نام لیا گیا۔ مگر چند دیانت دار افسران کی بدولت اس دھماکہ میں ایک ہندو انتہا پسند تنظیم’ ابھینوبھارت‘ کے رول کو بے نقاب کیا گیا۔سب سے زیادہ خطرے کی گھنٹی اس وقت بجی جب نومبر 2008ء میں ملٹری انٹیلی جنس کے ایک حاضر سروس کرنل پرساد سری کانت پروہت کے رول کی نشاندہی کرکے اس کو گرفتار کیا گیا۔ اگلے دو سالوں میں نیشنل انویسٹی گیٹنگ ایجنسی (این آئی اے) نے سوامی اسیما نند اور ایک انجینئر سندیپ ڈانگے کو بھی حراست میں لے لیا۔ اسی دوران راجستھان کے انٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے 806 صفحات پر مشتمل فرد جرم میں انکشاف کیاگیاکہ فروری 2006ء میں ہندو انتہا پسندوں نے وسطی ہندوستان کے ایک شہر اندور میں سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے کی سازش تیار کی تھی۔ اس میٹنگ میں ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیوک سیوم سنگھ(آر ایس ایس) کے مقتدر لیڈر اندریش کمار بھی موجود تھے۔ اس سے قبل ان کا نام اجمیر شریف کی درگاہ میں ہوئے دھماکہ کی سازش میں بھی آیا تھا۔مگر ان کی کبھی دوران حراست تفتیش نہیں ہوئی۔ 12 فروری 2012ء میں این آئی نے آر ایس ایس کے کارکنوں راجندر پہلوان، کمل چوہان اور اجیت چوہان کر گرفتار کیا۔ ایجنسی کے بقول ان تین افراد نے ہی ٹرین میں بم نصب کیے تھے۔

    گو کہ ہندوستان میں سرکاری ایجنسیاں دہشت گردی سے متعلق واقعات کے تار آنکھ بند کیے مسلمانوں سے جوڑتی آرہی ہیں، مگر 29 ستمبر 2008ء کو مہاراشٹر کے مالیگاؤں شہر کے ایک مسلم اکثریتی علاقہ میں ہوئے دھماکوں اور اس میں ملی لیڈز نے مہاراشٹر کے اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ کے سربراہ ہیمنت کرکرے کو چونکا دیا۔ ایک غیر جانبدارانہ تفتیش کے بعد اس نے ہندو دہشت گردی کا بھانڈا فاش کیا۔ کرکرے ممبئی حملوں میں دہشت گردوں کا نشانہ بن گئے، جس کے بعد یہ تفتیش مرکزی ایجنسی این آئی اے کے سپر د کی گئی۔ اس کے بعد تو حیدرآباد کی مکہ مسجد، اجمیر درگاہ، سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کے تار ہندو دہشت گردی سے جڑتے گئے۔ جب کرکرے نے یہ نیٹ ورک بے نقاب کیا تھا تو بی جے پی اور شیو سینا کے متعدد رہنماؤں نے ان کے خلاف زبردست شور برپا کیا اور انہیں ’ملک کا غدار‘ قرار دیا تھا۔ بہرحال کرکرے کی تحقیق کا یہ نتیجہ نکلا کہ دہشت گردانہ واقعات کے بارے میں جو عمومی تاثر پید اکردیا گیا تھا، وہ کچھ حد تک تبدیل ہوا کہ اس کے پشت پر وہ عناصر بھی ہیں جو اس ملک کوہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں۔ ابتداء میں ان واقعات میں معصوم مسلم نوجوانوں کو ماخوذ کرکے انہیں ایذائیں دی گئیں اور کئی ایک کو برسوں تک جیلوں میں بند رکھا گیا۔

    ایک معروف صحافی لینا گیتا رگھوناتھ نے کانگریسی حکومت کی ہند و دہشت گردی کے تئیں’ نرم رویہ‘ کو افشاں کیا تھا۔ لینا کے بقول تفتیشی ایجنسیوں کے ایک افسر نے انھیں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر وزارت داخلہ کو سونپی گئی ان خفیہ رپورٹوں کے مطالعے کی اجازت دی تھی۔ ان رپورٹوں میں مرکزی وزارت داخلہ سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ وہ آر ایس ایس کو ایک شو کاز (وجہ بتاؤ) نوٹس جاری کرے کہ اس کے خلاف جو شواہد اور ثبوت ہیں کیوں نہ ان کی بنیاد پر اسے غیر قانونی اور ممنوع قرار دیا جائے؟ مہاراشٹر کی اس وقت کی کانگریس کی قیادت میں مخلوط حکومت نے بھی ابھینو بھارت اور دیگر ہندو انتہا پسند تنظیموں کو غیر قانونی قرار دینے کی سفارش کی تھی لیکن اس پر مرکزی حکومت نے عمل نہیں کیا۔

    خیر اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا تہور حسین رانا کی حوالگی سے ممبئی حملوں کے باقی تار جڑ جائیں گے یا اس کو بس گودی میڈیا کے ذریعے ڈھنڈورا پٹوانے کا کام کیا جائےگا۔ کئی تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ رانا کو موت کی سزا دے کر ہی اب اگلا عام انتخاب لڑا جائےگا۔ ویسے عوامی یاداشت اتنی کمزور تو ہے ہی کہ انصاری کی حوالگی جس طرح اب یادداشت سے محو ہو چکی ہے، چند سال بعد رانا کی حوالگی کو بھی عوام بھول جائیں گے۔ میڈیا جو ایک زمانے میں سوال پوچھتا تھا، وہ اب حکومت کا احتساب کرنے سے کتراتا ہے، خاص طور پر جب قومی سلامتی کا معاملہ ہو۔

  • ہندوستان کا نیا وقف قانون: مسلمانوں کے حقوق پر شب خون – افتخار گیلانی

    ہندوستان کا نیا وقف قانون: مسلمانوں کے حقوق پر شب خون – افتخار گیلانی

    غالباً 2018ء میں جب جموں و کشمیر کے گورنر نریندر ناتھ ووہرا کی مدت ختم ہو رہی تھی. دہلی میں ان کے ممکنہ جانشین کے بطور ریٹائرڈ لیفیٹننٹ جنرل سید عطا حسنین کا نام گردش کر رہا تھا۔ جنرل حسنین جو سرینگر میں موجود فوج کی چنار یا 15 ویں کور کے کمانڈر رہ چکے تھے، کی کشمیر میں بطور گورنر کی ممکنہ تعیناتی پر میں چونک سا گیا تھا. انھی دنوں انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں سر راہ ملاقات کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ اس خبر کا ماخذ کیا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ نہایت ہی اعلیٰ ذرائع سے ان کو بتایا گیا ہے کہ وہ اس عہدے کے لیے تیار رہیں۔ میں نے ان سے کہا، چاہے وہ کتنے ہی سیکولر کیوں نہ ہوں، ان کا نام مسلمانوں جیسا ہے، اس لیے وہ اس عہدہ کے تقاضوں پر پورے نہیں اترتے ہیں۔ اب ان کے چونکنے کی باری تھی۔میں نے بتایا کہ جموں و کشمیر کا گورنر ویشنو دیو ی شرائن بورڈ اور امرناتھ شرائن بورڈ کا چیئرمین بھی ہوتا ہے۔ ان دونوں تیرتھ استھانوں کے ایکٹ میں واضح طور پر درج ہے کہ اس کا چیئرمین ایک ہندو ہی ہوسکتا ہے۔ یہی ہوا کہ چند رو ز بعد ایک ہندو ستیہ پال ملک کو گورنری کی دستار تفویض کی گئی۔ یعنی ایک مسلم اکثریتی خطہ ہونے کے باوجود جموں و کشمیر کا گورنر یا لیفٹیننٹ گورنر مسلمان نہیں ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ ہندو استھانوں کے انتظام و انصرام کا ذمہ دار بھی ہوتا ہے۔

    ستم ظریفی دیکھیے ابھی حال ہی میں ہندوستانی پارلیمنٹ نے سو سال قدیم مسلم وقف قانون کو رد کرکے ایک نیا قانون پاس کرکے اس میں یہ لازم قرار دیا کہ مرکزی وقف کونسل اور ریاستی وقف بورڈذ کے بیشتر اراکین غیر مسلم ہونے چاہییں۔ سابقہ قانون کے تحت دونوں اداروں کے تمام اراکین کا مسلمان ہونا ضروری تھا۔اب اس میں غیر مسلم اراکین کی لازمی شمولیت متعین کر دی گئی ہے۔ یہاں تک کہ مرکزی وقف کونسل میں 22 میں سے 12 اراکین غیر مسلم ہو ں گے اور ریاستی وقف بورڈز میں 11 میں سے 7 اراکین غیر مسلم ہو سکتے ہیں۔چار مسلم اراکین میں دو خواتین کا ہونا لازمی ہے۔ ان اراکین اور چیئرمین کو اب حکومت نامزد کرےگی۔ نیز ریاستی وقف بورڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کا بھی مسلمان ہونا ضروری نہیں ہے۔وقف جائیدادوں کے تنازعوں کا نپٹارا کرنے کے لیے قائم وقف ٹربیونل میں مسلم ماہر قانون کی موجودگی لازمی ہوتی تھی۔ اب ٹربیونل صرف ایک موجودہ یا سابقہ ڈسٹرکٹ جج اور ایک ریاستی افسر پر مشتمل ہوگا۔ مہاراشٹرا میں شری سائی بابا ٹرسٹ کا قانون کہتا ہے کہ جو افسر وہاں کام کرے گا اسے سائی بابا کا عقیدت مند ہونا چاہیے اور اسے ڈیکلریشن دینا پڑتا ہے۔ اسی طرح دیگر ہندو یا دیگر مذاہب کے مٹھوں یا عبادت گاہوں کے انتظام ا انصرام کےلیے اسی مذہب کا ہونا لازمی ہے، تاکہ وہ دل و جان اور عقیدہ کے ساتھ اس ادرارے کی خدمت کرسکے۔

    یہ نیا قانون کس قدر متعصبانہ حد تک ظالمانہ ہے کہ اس کی ایک اور شق کے مطابق اب صرف ایسا شخص ہی وقف یا اسلامی مذہبی و فلاحی مقاصد کے لیے زمین یا جائیداد عطیہ کر سکتا ہے، جو کم از کم پانچ سال سے با عمل مسلمان ہونے کا ثبوت پیش کرے گا۔ وہ دینداری کا ثبوت کیسے فراہم کرے گا اس کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے۔ کیا کسی سند کی ضرورت ہوگی یا علماء کی تصدیق درکار ہوگی؟ اور یہ فیصلہ کون کرے گا کہ وہ پچھلے پانچ سال سے باعمل مسلمان ہے یا اسلام پر عمل پیرا ہونے کا معیار کیا ہے؟ یعنی یہ قانون غیر مسلموں کو وقف بورڈز میں شامل ہونے اور اس کا انتظام و انصرام چلانے کی اجازت دیتا ہے، مگر اگر وہ وقف کے کاموں کے لیے عطیہ دینا چاہیں گے، تو اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔

    تنگ نظری اور تعصب کی عینک پہن کر بنایا گیا یہ قانون تضاد ات کا عجیب مجموعہ ہے۔ اسی طرح اگر کوئی متولی وقف جائیداد بیچتا ہے تو پہلے دو سال کی سزا تھی،اس کو اب چھ ماہ کر دیا گیا ہے۔ پہلے یہ جرم ناقابل ضمانت (نان بیل ایبل) تھا، اس کو قابل ضمانت (بیل ایبل) بنا دیا گیا ہے۔اگر کسی جائیداد پر حکومت اور وقف بورڈ کا تنازعہ ہے، تو اب وہ وقف نہیں مانی جائے گی۔ کلکٹر ایسے معاملات میں اپنی رپورٹ ریاستی حکومت کو دے گا اور مالکانہ ریکارڈ میں تبدیلی کرے گا۔ دارالحکومت دہلی کے سینٹرل گورنمٹ آفس کمپلکس کا بیشتر حصہ جس میں خفیہ ایجنسی راء سمیت سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن سمیت کئی سرکاری اداروں کے صدر دفاتر وقف کی زمینوں پر تعمیر کیے گئے ہیں، اب ہمیشہ کے لیےوقف کی دسترس سے باہر ہو گئے ہیں۔

    ایک بار انٹرویو کے دوران مسلم لیڈر اور بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے رکن مرحوم جاوید حبیب نے مجھے کہا تھا کہ بابری مسجدکی شہادت کا سانحہ اس خطے کی جدید تاریخ کے پانچ بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ پہلا 1857ء کی جنگ آزادی، دوسرا 1920ء میں مہاتما گاندھی کی قیادت میں کانگریس کا نیا آئین اور سوراج کا مطالبہ، تیسرا 1947ء میں تقسیم ہند اور آزادی، چوتھا 1971ء میں بنگلہ دیش کا وجود میں آنا، اور پانچواں 1984ء میں سکھوں کی مقدس عبادت گاہ گولڈن ٹمپل پرحملہ اور 1992ء میں بابری مسجد کا انہدام، جو دراصل اعتماد کا انہدام تھا۔ اگر وہ زندہ ہوتے تو ریاست جموں و کشمیر کی 2019ءمیں خصوصی حیثیت کے خاتمہ اور اب 2025ء میں صدیوں سے مسلمانوں کی طرف سے وقف کی گئی زمینوں، جائیدادوں، جن سے مساجد، مدرسے اورمتعدد تعلیمی اور رفاہی ادارے چلتے ہیں، کے مالکانہ حق پر شب خون مارنے کو بھی اس فہرست میں شامل کردیتے۔ بقول سابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب بابری مسجد تو بس ایک عبادت گاہ تھی، اب تو اس نئے وقف قانون سے ہندوستان کی سبھی مساجد و درگاہوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے ۔

    پچھلی دو دہائیوں سے سکھ اکثریتی صوبہ پنجاب سے اکثر خبریں آتی تھیں کہ مقامی سکھ خاندان یا کسان اپنے علاقوں میں1947ءسے غیر آباد مساجد کو دوبارہ آباد کرانے یا نئی مساجد بنانے کے لیے اپنی زمینیں بطور عطیہ دے رہے ہیں۔ اس طرح کے کم و بیش دو سو سے زیادہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ چونکہ اس صوبہ میں مسلم آبادی ہی ایک فیصد سے کم ہے، اس لیے مسلمان ا ن مساجد کو آباد کر ہی نہیں سکتے ہیں، کیونکہ اکثر دیہی علاقوں میں دور دور تک ان کی آبادی ہی نہیں ہے ۔ رواں برس کے اوائل میں ہی ضلع مالیرکوٹلہ کے ایک گاؤں عمرپورہ میں سکھجندر سنگھ نونی اور ان کے بھائی اوینندر سنگھ نے مسجد کی تعمیر کے لیے کئی ایکڑ زرعی زمین وقف کر دی۔ ا ن کا کہنا تھا کہ چونکہ ان کے گاؤں میں آباد مسلمان گھرانوں کے پاس عبادت کے لیے کوئی مسجد نہیں تھی، اس لیے انھوں نے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے یہ زمین عطیہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ دیگر سکھوں تجونت سنگھ اور رویندر سنگھ گریوال نے مسجد کی تعمیر میں مالی معاونت فراہم کی۔ وہ ریاست جہاں مسلمانوں کی آبادی محض 1.9 فیصد ہے اور جہاں 1947 میں خونریز فسادات ہوئے تھے، اب ایک خاموش انقلاب، یعنی فرقہ وارانہ رواداری کی نقیب بنی ہوئی ہے ۔ اسی طرح جٹوال کلاں نامی سکھ اکثریتی گاؤں میں، جہاں مشکل سے درجن بھر مسلم گھرانے آباد ہیں، ایک نئی مسجد تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ یہ سب سکھوں کی زمین اور مالی عطیات کی بدولت ممکن ہوا۔ اب نئے وقف قانون کی رو سے پنجاب میں سکھ خاندانوں کی جانب سے مسلمانوں کے لیے عطیہ کی گئی سینکڑوں زمینیں کالعدم یا غیر قانونی قرار پائیں گی۔ایک سکھ سرپنچ کے مطابق اگر یہ قانون پہلے سے نافذ ہوتا تو وہ مسجد بنانے میں مدد نہیں کرسکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ صرف عطیہ کا نہیں، بلکہ مشترکہ زندگیوں کا ہے اور حکومت ایسی یکجہتی کی راہ میں کیسے رکاوٹ ڈال سکتی ہے۔

    اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں وقف کی 8لاکھ72ہزار جائیدادیں ہیں، جن میں زرعی اور غیر زرعی زمینیں، ایک لاکھ سے زائد مساجد، مکانات اور تیس ہزار کے قریب درگاہیں شامل ہیں۔ جن میں سے 7 فیصد پر قبضہ ہے، 2 فیصد مقدمات میں ہیں اور 50 فیصد کی حالت نامعلوم ہے۔ 2013ء میں منموہن سنگھ کی قیادت میں کانگریسی حکومت نے وقف پراپرٹی پر قبضوں کے خلاف جو سخت قانون بنایا تھا، اس کی وجہ سے21 لاکھ ایکڑ کی زمین واگزار کرائی گئی تھی۔ اس طرح وقف کی ملکیتی زمینیں 18لاکھ ایکڑ سے 39لاکھ ایکڑ تک بڑھ گئی تھیں۔ ہندو فرقہ کو لام بند کرنے کے لیے ایک پروپیگنڈہ کیا گیا کہ مسلمانوں نے زمینوں پر قبضہ کیا ہوا ہے اور ساتھ ہی یہ ابہام بھی پھیلایا گیا کہ ہندوستان میں ریلوے اور محکمہ دفاع کے بعد سب سے زیادہ جائیداد وقف کی ہے۔ حالانکہ سچ یہ ہے کہ صرف چار ریاستوں تامل ناڈو، آندھرا پردیش، تلنگانہ اور اڑیسہ میں ہندو مٹھوں و مندروں کے پاس 10لاکھ ایکڑ اراضی ہے۔ اگر اس میں دیگر ریاستیں، خاص طور پر شمالی ہندوستان کی اترپردیش اور بہار کو شامل کیا جائے تو یہ وقف کے پاس موجود اراضی سے کئی گنا زیادہ ہوں گی۔ اسی طرح مسیحی برادری بھی ہر شہر میں پرائم پراپرٹی کی مالک ہے۔

    سیاسی تجزیہ کار سنجے کے جھا نے دی وائر میں لکھا کہ یہ قانون دراصل فرقہ وارانہ شکوک پیدا کرنے کی بڑی سازش کا حصہ ہے، جسے حکومت عوام کی بھلائی کے نام پر پیش کر رہی ہے۔وزیر اعظم نریندر مودی حکومت کا یہ دعویٰ کہ اس نے وقف بل مسلمانوں کی فلاح کے لیے لایا ہے، آزاد ہندوستان کی تاریخ کا بدترین سیاسی فریب ہے۔ اس جھوٹ کو بیچنے کا جو حوصلہ حکومت نے دکھایا ہے وہ ناقابل یقین ہے۔ان کا مقصد مسلمانوں کو تنہا اور الگ تھلگ کرنا ہے۔ اس قانون کے اثرات پنجاب سے کہیں آگے تک ہیں۔ پورے ہندوستان میں اب بین المذاہب خیرات شک کی نگاہ سے دیکھی جاے گی۔ کوئی ہندو یا سکھ اگر کسی مسلم وقف ادارے کو عطیہ دینا چاہے تو پہلے اُسے مذہب تبدیل کرنا ہوگا اور پانچ سال انتظار کرنا پڑے گا۔ یوں خیرات کا جذبہ سرکاری دھندلکوں میں الجھ کر رہ جائےگا۔ ایسی حکومت، جس کے پاس ایک بھی مسلم رکن پارلیمنٹ نہیں، مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے راگ الاپتی ہے، جبکہ اس کا سیاسی ڈھانچہ نفرت انگیز تقاریر، حاشیے پر ڈالنے والی پالیسیوں اورمسلمانوں کو قانونی جال میں جکڑنے کی مہم چلا رہا ہے۔ عمر پورہ اور جٹوال کلاں جیسے دیہاتوں میں سکھ اور مسلمان آج بھی مل کر بستیاں بساتے ہیں۔ مگر قانون کی نظر میں اب ان کی محبت اور بھائی چارہ قابلِ گرفت بھی ہو سکتی ہے۔ اسی طرح اب کسی بھی زمین کو وقف تسلیم کرنے کے لیے اس کی باضابطہ رجسٹریشن اور متعلقہ دستاویزات درکار ہوں گی۔ اب اگرسلاطین، تغلق یا مغل دور میں کوئی زمین وقف ہوئی ہو، اس کے دستاویزات کہاں سے لائیں جائیں گے۔

    جموں و کشمیر وقف بورڈ کے اعداد و شمار کے مطابق، اس کے زیرِ انتظام 3300 جائیدادیں تقریباً 32000 کنال (تقریباً 4000 ایکڑ) زمین ہے۔ تاہم ایک بڑا حصہ—خصوصاً خانقاہیں، امام بارگاہیں، لنگر گاہیں اور قبرستان—ابھی تک غیر دستاویزی یا جزوی طور پر رجسٹرڈ ہیں۔ دیہی کشمیر میں ان مقامات کی بنیاد کئی نسلیں پہلے رکھی گئی تھی، اور انہیں رسمی قانونی طریقہ کار کے بجائے کمیونٹی کے مسلسل استعمال کے ذریعے سند حاصل ہوئی تھی۔ ”استعمال کے ذریعے وقف“ یعنی ”وقف بائی یوز“کی شق کے خاتمے کے بعد، یہ مقامات اب دوبارہ درجہ بندی، تنازعے یا حتیٰ کہ دوبارہ استعمال کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ قانونی تحفظ، جو کبھی تسلسل اور اجتماعی یادداشت سے حاصل ہوتا تھا، اب مکمل طور پر تحریری دستاویزات پر منحصر ہو گیا ہے۔

    تاریخی طور پر کشمیر میں —جیسے کہ برصغیر کے بیشتر حصوں میں —مذہبی اور فلاحی زمینیں اکثر باہمی اعتماد اور زبانی معاہدوں کی بنیاد پر قائم ہوتی تھیں۔ جہاں بزرگ کسی درخت تلے نماز پڑھنے بیٹھتے، وہاں مسجد وجود میں آجاتی؛ جہاں کسی گاؤں کے پہلے شہید کو دفنایا جاتا، وہاں قبرستان بن جاتا؛ اور جہاں کوئی صوفی اپنی جائے نماز بچھاتا، وہاں خانقاہ کی بنیاد پڑتی۔ ’استعمال کے ذریعے وقف‘ کا اصول ایسے مقامات کو قانونی حیثیت دیتا تھا، چاہے کوئی تحریری ثبوت موجود نہ ہو۔نیا قانون محض کوئی سرکاری ضابطے کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک گہری تہذیبی تبدیلی ہے۔ کشمیر کے بیشتر علاقوں میں بے شمار قبرستان، خانقاہیں اور دینی مدارس مقامی افراد، محلوں یا گاؤں کی کمیٹیوں کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں، جن کے پاس کوئی تحریری دستاویزات نہیں، مگر خدمت کے طویل اور بے داغ ریکارڈ ضرور ہیں. نیا قانون ان جائیدادوں پر ریاستی اداروں یا نجی ترقیاتی منصوبوں کے قبضے کا راستہ ہموار کر سکتا ہے، خصوصاً جدید کاری یا شہری منصوبہ بندی کے نام پر۔ دفعہ 370 کی منسوخی اورمرکزی انتظام کے بعد، اس اقدام کو کشمیر کے مزید مذہبی، ثقافتی اور سیاسی زوال کا حصہ سمجھا جا رہا ہے۔کبھی ان جائیدادوں کا محافظ سمجھے جانے والا جموں و کشمیر وقف بورڈ اب بے دست و پا نظر آتا ہے۔

    وقف ترمیمی قانون کی منظوری نے اتر پردیش میں تقریباً 98 فیصد وقف جائیدادوں کو غیر یقینی صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔وقف کی پوری جائیدادوں کا 27فیصد حصہ اسی صوبہ میں ہے۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد اب تک ریونیو ریکارڈز میں درج نہیں ہے۔ نئے قانون کے تحت وقف جائیدادوں کے فیصلے کا اختیار وقف بورڈ سے منتقل ہو کر ضلع مجسٹریٹ کے پاس اب ہوگا، جو زرعی سال 1359ھ (1952ء) کے ریونیو ریکارڈز کی بنیاد پر فیصلہ دیں گے۔ ترمیم کا اطلاق ان 57792 سرکاری جائیدادوں پر ہو گا، جو مختلف اضلاع میں پھیلی ہوئی ہیں اور مجموعی طور پر 11712 ایکڑ پر محیط ہیں۔ تیس سے زائد مسلم دانشورو ں، جن میں سابق بیوروکریٹ، یونیورسٹی اساتذہ، قانون دان، سیاستدان وغیرہ شامل ہیں نے ایک مشترکہ بیان میں شکایت کی ہے کہ پارلیمنٹ کی طرف سے وقف ایکٹ کی منظوری نے مسلم کمیونٹی کو مایوس اور الگ تھلگ کر دیا ہے۔ ان کے مطابق آئین ہند میں دیے گئے ان کے آئینی حقوق نظر انداز کر دیے گئے ہیں۔ اس عمل نے مسلم نوجوانوں میں بیگانگی کا احساس پیدا کیاہے، جو اب اپنے ملک کے سیاسی منظرنامے میں اپنی جگہ کے بارے میں سوالات اٹھا رہے ہیں۔ اس گروپ میں جس میں کئی سابق اعلیٰ فوجی افسران، جیسے لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ، سابق پولیس سربراہ محمد وزیر انصاری شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات دل دہلا دینے والے ہیں اوران کے آباء و اجداد کے وژن کے بالکل برعکس ہیں، جنھوں نے جامع مشترکہ قومیت کا تصور کیا تھا جہاں تمام اقوام ہم آہنگی کے ساتھ رہ سکیں گی۔

    حیدر آباد کے ممبر پارلیمنٹ اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسد الدین اویسی کے مطابق یہ وقف ترمیمی ایکٹ ہندوستان کے مسلمانوں کے ایمان اور عبادت پر ایک حملہ ہے۔ پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ نریندر مودی کی حکومت نے اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے خلاف اعلان جنگ کر دیا ہے اور یہ جنگ آزادی، سماجی و معاشی سرگرمیوں اور شہریت پر ہے تو تھی ہی، اب مدارس، مساجد، خانقاہوں اور درگاہوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ہندو، سکھ، جین اور بدھ مت کے ماننے والوں کی وقف کی گئی جائیدادوں کا تحفظ برقرار رہےگا، کیونکہ ان کے قوانین کو تحفظ حاصل ہے اور ان کا انتظام خود ان کے ہاتھوں میں ہے۔ کوئی بھی غیر مذہب ا ن کے لیے عطیہ دے سکتا ہے اور ان کے انڈومنٹس کا تحفظ ہوگا۔ان پر لاء آف لیمیٹیشن کا اطلاق نہیں ہوگا۔ اویسی کا کہنا تھا کہ مسلمانوں سے وقف بائی یوزر چھینا گیا ہے، مگر دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے لیےچھوٹ ہے۔ ہندو، بدھ، سکھ مذاہب کو منقولہ و غیرمنقولہ جائیداد کو حاصل کرنے اور اس کے انتظام کا حق حاصل ہے، مگر صرف مسلمانوں سے یہ حق چھینا گیا ہے۔

    دہلی میں 271 وقف جائیدادیں محکمہ آثار قدیمہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ جائیدادیں اب عملی طور پر مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گئی ہیں، کیونکہ ان کی پاس ان کے مالکانہ حقوق کے دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہیں۔ اس میں شمالی ہندوستان کی سب سے پہلی قطب الدین ایبک کی تعمیر کردہ تاریخی مسجد قوت الاسلام بھی ہے، جو قطب مینار کے بغل میں واقع ہے۔چونکہ تنازعہ کی صورت میں حکومت کے ہی افسر کو فیصلہ کرنا ہے، اسی لیے ایسی صورتوں میں جہاں تنازعہ حکومت کے کسی محکمہ کے ساتھ ہے، تو اس پراپرٹی کا خدا ہی حافظ ہے۔ وقف بائی یوزر میں جب کوئی افسر کہہ دے گا کہ یہ وقف کی جائیداد نہیں ہے، تو وقف بورڈ خاموش بیٹھ جائے گا اور کوئی کارروائی نہیں کرے گا،کیونکہ ان کے چیئرمین حکومت کے نامزد کردہ ہوں گے۔

    اس قانون کے ذریعے شاید مسلمانوں کو بتایا گیا ہے کہ ان کی حالت ایسی ہوچکی ہے جیسے جنگل میں چرواہا بکریوں کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہے اور ان کی دیکھ بھال بھیڑیوں کے سپرد کر دی گئی ہے، جو اس کو شیر سے بچانے کے نام پر خود نوچ رہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ وسط ایشیاء پر روس کے قبضے کے بعد سب سے پہلے اوقاف ضبط کیے گئے تھے تاکہ مساجد اور مدرسوں کے وسائل ختم کرائے جائیں۔ جب عوام نے چندہ جمع کرکے مسجدیں چلانا شروع کیں، تو چند ہ ٹیکس لگایا گیا۔ لوگوں نے اب گھروں میں نمازیں ادا کرنا شروع کیں، مساجد ویران ہوگئیں۔ مقامی کمیونسٹ پارٹی کے یونٹ قرار دار پاس کرتے کہ مسجد ویران ہے، اس لیے اس کو رفاہی کاموں کے لیے مختص کیا جائے۔ اس طرح مسجدکو شہید کروایا جاتا اور کسی اور تصرف میں لایا جاتا۔

    ایک چیز خوش آئند ہے کہ ہندوستانی مسلم زعما کو یہ بات سمجھ میں آگئی ہے کہ ان کو کنارے لگایا گیا ہے۔ ورنہ جب ان سے درخواست کی جاتی کہ کشمیر میں ہورہے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کچھ ہونٹ تو ہلائیں، تو ان کے منہ کا ذائقہ خرا ب ہوجاتا تھا۔ سال 2019 میں جب خصوصی حیثیت ختم کر دی گئی، تو جمعیت علماء ہند کے ایک ذمہ دار تو جنیوا مودی حکومت کا دفاع کرنے پہنچ گئے۔ ایک آدھ ملی رہنماؤں کو چھوڑ کر ان میں اکثر مارٹن نیمولر کی اس نظم کی عملی تفسیر تھے:
    پہلے وہ سوشلسٹوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا۔
    پھر وہ ٹریڈ یونین کے کارکنوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں ٹریڈ یونین کا کارکن نہیں تھا۔
    پھر وہ یہودیوں کے پیچھے آئے، اور میں خاموش رہا — کیونکہ میں یہودی نہیں تھا۔
    پھر وہ میرے پیچھے آئے — اور بولنے والا کوئی نہ بچا تھا۔

    شاید ہندوستان میں مسلمان ابھی تک خوش قسمت ہیں کہ ایک ذی ہوش طبقہ ابھی بھی ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ان کو ساتھ لےکر ہی ان کی داد رسی ہوسکے گی، اور ان کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم ہوسکے گا۔

  • بھارت میں سیکولرازم محض ایک کھوکھلا نعرہ  -سلمان احمد قریشی

    بھارت میں سیکولرازم محض ایک کھوکھلا نعرہ -سلمان احمد قریشی

    بھارتی ریاست مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں مغل شہنشاہ اورنگزیب کے مقبرے کو گرانے کے لیے کیے گئے مظاہروں کے نتیجے میں ہندو مسلم کشیدگی میں شدت آگئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، شہر میں پرتشدد جھڑپیں ہوئیں، کئی گاڑیاں جلا دی گئیں، اور گھروں پر پتھراؤ کیا گیا، جس سے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ پولیس نے صورتحال پر قابو پانے کے لیے 20 افراد کو حراست میں لے کر علاقے میں دفعہ 144 نافذ کر دی۔ کانگریس کے رہنما ہرش وردھن نے ان فسادات کا ذمہ دار ریاستی حکومت کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ کئی دنوں سے ریاستی وزرا اشتعال انگیز تقاریر کر رہے تھے، جس کے نتیجے میں یہ ہنگامے پھوٹ پڑے۔

    محی الدین محمد، جو اورنگزیب عالمگیر کے نام سے مشہور ہیں، مغلیہ سلطنت کے چھٹے شہنشاہ تھے۔ وہ 1658ء سے 1707ء تک تخت نشین رہے اور ان کے عہد میں مغل سلطنت اپنی جغرافیائی وسعت کی انتہا کو پہنچی۔ ان کے دورِ حکمرانی میں اسلامی قوانین کو نافذ کرنے کے لیے “فتاویٰ عالمگیری” مرتب کی گئی، جو آج بھی اسلامی فقہ کا ایک اہم ماخذ سمجھی جاتی ہے۔ اورنگزیب کو بعض مورخین ایک سخت گیر حکمران تصور کرتے ہیں، جبکہ دیگر انہیں ایک منصف مزاج اور عادل بادشاہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے دور میں مندروں کو نقصان پہنچانے کے الزامات بھی لگائے گئے، لیکن تاریخی شواہد کے مطابق، انہوں نے کئی مندروں کی تعمیر و مرمت بھی کروائی۔ بھارت میں ہندو قوم پرست تنظیمیں اورنگزیب کے نام اور ان کے تاریخی مقامات کو مٹانے پر بضد ہیں۔ چند برس قبل، بی جے پی حکومت نے دہلی کی مشہور “اورنگزیب روڈ” کا نام تبدیل کر دیا تھا، اور اب “اورنگزیب لین” سمیت دیگر مغل شہنشاہوں سے منسوب سڑکوں کے نام بدلنے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔

    حالیہ واقعات کا آغاز اس وقت ہوا جب آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) کے رہنما اکبر الدین اویسی نے اورنگ آباد میں اورنگزیب کے مقبرے پر حاضری دی، جس پر ہندو قوم پرست رہنماؤں نے شدید ردعمل دیا۔ ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی کے رہنما دیویندر فڈنویس نے اورنگزیب کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کیے، جبکہ مہاراشٹر نونرمان سینا (MNS) کے ترجمان گجانن کالے نے مقبرے کو منہدم کرنے کی دھمکی دی۔ دیویندر فڈنویس نے کہا: “اویسی، میری بات سنو، اورنگزیب کی شناخت پر کتا بھی پیشاب نہیں کرے گا۔” یہ بیان بھارت میں بڑھتی ہوئی نفرت انگیزی اور تاریخی مسلم حکمرانوں سے شدید تعصب کی عکاسی کرتا ہے۔ ان واقعات کے دوران مراٹھی فلم چھاوا کی ریلیز نے بھی اورنگزیب کے خلاف ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ فلم میں مغل شہنشاہ کو منفی انداز میں پیش کیا گیا، جس پر بھارتی سماج میں رائے تقسیم ہوگئی۔

    سماج وادی پارٹی (SP) کے رہنما ابو اعظمی نے اورنگزیب کا دفاع کرتے ہوئے کہا”وہ ایک انصاف پسند بادشاہ تھا، ظالم حکمران نہیں۔ اورنگزیب کے دور میں حکمرانی کی لڑائی تھی، مذہب کی نہیں۔ انہوں نے کئی ہندو مندروں کی بھی تعمیر کروائی تھی۔” یہ بیان بی جے پی اور دیگر ہندو انتہا پسند جماعتوں کو پسند نہیں آیا اور ابو اعظمی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

    ہندو قوم پرست جماعتیں بھارت میں مسلم ورثے کو مٹانے کے لیے مسلسل متحرک ہیں۔ تاریخی مقامات اور اسلامی شخصیات کو نشانہ بنانے کے پیچھے دراصل وہی سوچ کارفرما ہے جس نے بابری مسجد کو شہید کیا اور دیگر مسلم آثار کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ یہ رویہ صرف بھارت کے اندرونی معاملات تک محدود نہیں، بلکہ اس کے نتیجے میں خطے میں عدم استحکام اور پاکستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں بھارت کے خلاف جذبات مزید شدت اختیار کر رہے ہیں۔ بھارت بطور ریاست اب بھی پاکستان کے وجود کو مکمل طور پر تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور عالمی سطح پر پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور ایک “سیکولر” ملک کہتا ہے، مگر زمینی حقائق اس دعوے کی نفی کرتے ہیں۔ تاریخی مقامات کے نام بدلنے، مساجد کو نشانہ بنانے، اور مسلم حکمرانوں کی توہین جیسے اقدامات اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ بھارت میں سیکولر ازم محض ایک کھوکھلا نعرہ بن چکا ہے۔

    آج بھی ہندو قوم پرست جماعتیں مذہبی اقلیتوں کے خلاف ایجنڈا چلا رہی ہیں اور حکومتی سرپرستی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہی رویہ دو قومی نظریے کی حقانیت کو ثابت کرتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا قیام ناگزیر تھا۔ بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی کے خلاف عالمی برادری کی خاموشی تشویشناک ہے۔ خاص طور پر عرب ممالک، جو بھارت کے ساتھ گہرے تجارتی تعلقات رکھتے ہیں، انہیں اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ مسلم حکمرانوں نے برصغیر پر عدل و انصاف کی بنیاد پر حکمرانی کی، مگر موجودہ بھارتی قیادت تاریخ کو مسخ کرنے اور مسلم ثقافتی ورثے کو مٹانے پر تُلی ہوئی ہے۔

    سوال یہ ہے کہ کیا اورنگزیب کے مزار کے ساتھ بھی بابری مسجد جیسا سلوک ہوگا؟ یا یہ معاملہ محض بیانات اور احتجاج تک محدود رہے گا؟ بھارت میں ہندو انتہا پسندوں کو قابو میں رکھنے والا کوئی ہے یا نہیں؟

  • ہچکولے کھاتے بھارتی مسلمان – میر افسر امان

    ہچکولے کھاتے بھارتی مسلمان – میر افسر امان

    بھارتی مسلمان راشٹریہ سویم سیوک سنگھ(آر ایس ایس) دہشت گرد تنظیم کے بنیادی ممبر وزیر اعظم بھارت نریندرا مودی کی ہندتوا،حکومت میں ایسی کشتی میں سوار ہچکولے کھارہے ہیں جو بغیر چپو کے تیر رہی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کی ایک بھی مرکزی سیاسی پارٹی نہیں۔ سیاسی طور پر مسلمان پہلے پنڈت جواہر لال نہرو کی سیکولر گانگریس کے ساتھ تھے۔ اس کے دور میں بھی ہندو مسلم جھگڑے کروا کے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا گیا تھا۔ کانگریس نے بھی مسلمانوں کے ساتھ تعصب کا رویہ رکھاتھا۔

    سیکولر آئین رکھنے والے بھارت میں نریندرا مودی کی پارٹی بی جے پی نے ہندو مذہب کی بنیاد پر ہمیشہ الیکشن لڑا۔ بھارت میں ہندوؤں کی اکثریت ہے۔ مسلمان اقلیت میں ہیں۔ لہٰذا مودی نے ہمیشہ بھارت کے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرکے ہندو اکثریت کے زور پر الیکشن جیتا۔ یہ حربہ استعمال کرکے مودی پہلے گجرات کا وزیر اعلیٰ بنا تھا۔ گجرات میں مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کو اکسایا۔ مسلمانوں پر پولیس سے حملے کرائے۔ ایک وقت میں ڈھائی ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو شہید کیا۔ اسی بنیاد پر بھارت کا تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہوا۔مودی بھارت کو صرف انتہا پسند ہندوؤں کا ملک بنانے کے پروگرام پر چل رہا ہے۔ اس کی سیاسی پارٹی نے الیکشن میں پورے بھارت میں کسی ایک مسلمان کو الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ نہیں دیاتھا۔ اس لیے بھارتی پارلیمنٹ میں مودی کی سیاسی پارٹی کا ایک بھی مسلمان منتخب ممبر نہیں۔

    کانگریس کے ٹکٹ پر ایک مشہورشاعرعمران پرتاب گڑھی منتخب ہوا۔ ایک خاتون اِقرا حسن چوہدری کیرانہ سے سماج وادی پارٹی کے تخت پر بی جے پی کو شکست دے کرمنتخب ہو کر آئی۔ اس کے خاندان کے لوگ برسوں سے ممبر منتخب ہوتے رہے ہیں. اسدالدین اویسی ایڈوکیٹ حیدر آباد آندھرا پر دیش سے کل ہند مجلس المسلمین پارٹی کے صدر ہیں۔ کئی بار لوک سبھا کے ممبر منتخب ہوئے ہیں۔ یہ حضرات پارلیمنٹ میں پہنچ کر اپنے اپنے طور پر مسلمانوں مظالم کے لیے آواز اُٹھاتے رہتے ہیں۔کاش کہ بھارتی مسلمان کل ہند مجلس المسلمین پر ہی متفق ہو جائیں۔ جن علما کو بھارت میں ہندوؤں کے سامنے اسلام کا پر امن اورشانتی والامذہب اسلام، جو برابری پر یقین رکھتا ہے پیش کرنا تھا ، وہ صرف اسلامی کی عبادات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ بلکہ جب بانی پاکستان قائدط اعظم محمد علی جناحؒ دوقومی نظریہ پر پاکستان کی تحریک چلا رہےتھے، تو گانگریسی علما نے ہندو قومیت کی بنیاد پر پاکستان کی مخالفت کی تھی۔جب کشمیری مسلمان بھارت کے مظالم کے خلاف اُٹھ کر پاکستان میں شامل ہونے کی تحریک چلاتے ہیں تو ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ بھارت پولیس پر پتھر بازی نہ کرو، ان سے دب کر رہو۔

    تعصب کی بنیاد پرپورے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف متعصب ہندوؤں نے مہم چلائی ہوئی ہے۔ مودی حکومت مسلمانوں پر ہر تشدد کی حمایت کرتی ہے۔ آرایس ایس مسلمانوں کو دھمکیاں دیتی رہتی ہے کہ پاکستان چلے جاؤ یا واپس ہندو بن جاؤ۔ دوسرا کوئی بھی راستہ نہیں ہے۔ متعصب ہندو کسی بھی بے بس مسلمان کوپکڑ کر تشدد کرتے ہیں۔ جے ماتا کے زبردستی نعرے لگانے پر مجبور کرتے ہیں۔اس پر ڈنڈے برساتے ہیں اور شہید کر دیتے ہیں۔ کبھی کسی پر گائے ذبح کرنے یا گائے کاگوشت فریج میں رکھنے کے الزام میں اس پر تشددکر کے شہید کر دیتے ہیں۔ کبھی مسجد کو مسمار کر کے اس پر مندر تعمیر کرتے ہیں۔ پانچ سوسالہ پرانی بابری مسجد کو متعصب ہندوؤں نے شہید کر کے اس کی جگہ مندر بنادیا اور یہ کام مودی حکومت نے کیا۔

    یہ مظالم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کا تاریخی پس منظر ہے۔ ہندوستان کے اصل پرانے باشندے دراوڑ تھے۔ وہ ہندوستان پر حکومت کرتے تھے۔داروڑی تمدن کوہستان شولک،دریائے ناپتی اور نریدا اور کوئٹہ سے بیکا نیر اور کاٹھیاواڑ تک پھیلا ہوا تھا۔اسے ہڑپاسی تمدن بھی کہتے ہیں۔ بعض آثار قدیمہ نے داروڑی تمدن کے زمانے کا تعین۰۵۲۳ قبل مسیح کیا ہے۔ اس طرح یہ تمد ن مصر اور سمیریا کا ہم عصر تھا۔ ۰۰۵۲قبل مسیح میں آریہ نسل نے وسط ایشیا سے ہندوستان پر حملہ کیا۔ ہندوستان کے اصل باشندوں کو آہستہ آہستہ تشدد کا نشانہ بناکر ان کی زمینیں، کاروبار اور حکومت چھین کر ان کو شودر بنا دیا۔ ہندوستان کے حکمران اور اصل باشندوں کو طاقت کے زور پر کمزور کر کے پورے ہندوستان کے مالک بن بیٹھے۔ بھارت کے متعصب ہندو اسی تاریخی واقعہ کو بڑی باریکی سے اب مسلمانوں پر آزما رہے ہیں۔مسلمانوں نے محمد بن قاسمؒ سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک برصغیر پر ہزار سال سے زائد کامیابی سے حکومت کی ہے۔ مگر جب مسلمان طاؤس و رباب میں پڑ گئے تو انگریزوں نے برصغیر پرتجارت کے بہانے قبضہ کرلیا۔ اب ہندو اکثریت کی بنیاد پر مسلمانوں سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لینا چاہتے ہیں.

    اللہ نے قائد اعظمؒ کی قیادت میں کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر مثل مدینہ ریاست”مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان“ عطیہ کے طور پر دے دی۔ اس نے اسلام کا وہ نظام رائج کرنا تھا جس نے دنیا کے چار براعظموں پر کامیابی سے12 سوسال کامیابی سے شاندار حکومت کی تھی۔ اسے بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا پشتیبان بننا تھا کہ ہندو ان پر ظلم کرنے سے پہلے سو بار سوچتے۔ قائداعظمؒ نے پاکستان بننے کے بعد اس کی ابتداء کر دی تھی مگر قائداعظمؒ کی وفات کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے اسلامی نظام حکومت قائم نہیں کیا۔ آج کمزور پاکستان بھارت کے مسلمانوں کی پشتی بانی کرنے کے قابل نہیں رہا۔ مودی بھارتی مسلمانوں کو شودر بنانے کے عمل پر باریکی سے عمل کر رہا ہے۔ اللہ بھارتی مسلمانوں کا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔

  • بھارت کا جنوبی صوبہ کیرالا، جنوبی ایشیا  کا منفرد خطہ – افتخار گیلانی

    بھارت کا جنوبی صوبہ کیرالا، جنوبی ایشیا کا منفرد خطہ – افتخار گیلانی

    ایک بار مجھے کچھ چنیدہ صحافیوں کے ساتھ کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملا۔ ملکی حالات پر غیر رسمی بات چیت اور اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت کی روح صرف بھارت کی انتہائی جنوبی ساحلی ریاست کیرالا میں ہی رواں دواں ہے، دیگر علاقوں میں اس کو استحصالی طبقات نے آلودہ کرکے رکھ دیا ہے، کہیں خاندانی راج ہے اورکہیں دولت مندوں اور صنعتکاروں کے زیر اثر اسمبلیاں بنتی بگڑتی ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ کیرالا واحد صوبہ ہے جہاں کے کانگریسی لیڈرکبھی ان کے پاس دہلی دوڑتے چلے نہیں آتے، بلکہ اپنے مسائل خود ہی سلجھا لیتے ہیں۔ وہاں کانگریس کی مرکزی کمان اپنا کوئی امیدوار نہیں تھوپ دیتی، کیونکہ اس صوبے کے لیڈر یورپی ممالک کی طرز پر انتخابات کے ذریعے پارٹی عہدوں تک پہنچتے ہیں، اور وہ پارٹی ہائی کمان سے زیادہ عوام اور ورکروں کے سامنے جوابدہ رہتے ہیں۔

    کیرالا صوبہ اپنے قدرتی حسن، نیلگوں اور چمکدار آسمان، قدرتی جھیلوں، آبی گزرگاہوں اور آیور ویدک مساج کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ غالباً جنوبی ایشیا کا واحد خطہ ہے جہاں مساجد میں جوتے چوری نہیں ہوتے، آپ بے فکر ہوکرخشوع و خضوع کے ساتھ اللہ سے لو لگا سکتے ہیں۔ شاید انھی خوبیوں کی وجہ سے کسی نے اس خطے کو God’s Own Country قرار دیا ہے۔

    اگرچہ مؤرخین نے سندھ کو باب الاسلام کے درجہ سے نوازا، مگر جنوبی ایشیا میں اسلام سب سے پہلے کیرالا ہی پہنچا تھا۔ بر صغیر کی اسی ریاست میں پہلی مسجد تعمیر ہوئی۔ ایک تاریخی روایت کے مطابق مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعدکرۂ ارض کے کسی حصے پر پہلی مسجد 632ء میں مالابارکے راجہ چیرامن پیرومل نے کوڈنگالور میں تعمیرکرائی تھی۔ اسی مسجدکا ماڈل حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے سعودی فرمانروا کو اپنے دورہ کے دوران تحفہ میں دیا۔ بھارت کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں یہاں شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان کوئی تفاوت نظر نہیں آتا۔ ریاست کا رقبہ تقریباً 39 ہزار مربع کلو میٹر ہے۔ آبادی تین کروڑ سے زیادہ ہے، یعنی یہ ملک کی سب سے گنجان ریاست ہے، جہاں فی مربع کلو میٹر میں تقریبا 750 افراد رہتے ہیں۔ پوری آبادی کو نیم شہری کہا جاسکتا ہے۔ یہ علاقہ تین بڑے مذاہب کا گہوارہ ہونے کے باوجود مثالی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے مشہورہے۔یہاں ہندو، مسلمان، عیسائی اور دیگر فرقے صدیوں سے باہم شیر و شکر ہوکر رہ رہے ہیں۔دیگر علاقوں کی طرح یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کی الگ الگ بستیاں نظر نہیں آتیں۔

    تاریخی اعتبار سے کیرالا کے عرب دنیا سے رشتے نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفی ﷺ سے پہلے کے قائم ہیں۔ مؤرخین اور خود مالا بارکے راجہ چیرامن پیرمل کے مورث 87 سالہ راجہ ویلیا تپورم کے بقول چیرامن پیرمل نے حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ﷺ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا، اور ان کا نام تاج الدین رکھا گیا تھا۔ ریاست میں یہ روایت شہرت عامہ کی حامل ہے کہ راجہ پیرمل کھانا کھانے کے بعد اپنے محل کی چھت پر ٹہل رہے تھے کہ انھوں نے شق القمرکا معجزہ دیکھا۔ چند ماہ بعد صحابی رسول ﷺ مالک بن دینارؓ کے ہمراہ عرب تاجروں کا ایک جہاز بھٹک کر یہاں کے ساحل پر پہنچا تو راجہ نے عرب مہمانوں کی خوب خاطر تواضع کی، انھیں معجزے کا واقعہ سنایا، اور آقائے نامدار حضرت محمدﷺ سے ملنے کی خواہش ظاہرکی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ عرب تجارکے ہمراہ مکہ گئے لیکن واپسی میں بیمار پڑگئے، اور عمان میں ان کا انتقال ہوگیا، جہاں سلالہ کے مقام پر انھیں دفن کر دیا گیا۔ان کی قبر وہاں موجود ہے۔ راجہ نے حضرت مالک بن دینارؓ کی ڈنگالور میں مسجد تعمیرکرانے میں پوری مدد کی تھی۔ یہ مسجد چیرامن مالک مسجدکے نام سے مشہور ہے۔ ساتویں صدی کے اوائل میں تعمیر ہونے والی یہ مسجد آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ حضرت مالک بن دینارؓ نے اپنے بیٹے حبیب دینارکو یہاں کی ذمہ داری سونپ کر منگلورکا رخ کیا، اور راستے میں مزید بارہ مساجد اسی ڈیزائن کی تعمیرکیں۔ ان کا انتقال یہیں ہوا اور وہ قصرگوڑ میں مدفون ہیں۔

    مورخین کہتے ہیں کہ عربوں کے کیرالا پرگہرے اثرات ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں اثر لباس ہے۔ عرب تاجروں کی آمد سے قبل یہاں مرد اور عورتیں کپڑے استعمال نہیں کیا کرتی تھیں. عربوں کے زیراثر یہاں لباس کا رواج شروع ہوا۔ ان کی مادری زبان ملیالی میں عربی زبان کے بےشمار الفاظ شامل ہیں۔ عربی تہذیب کا اثر آج بھی نمایاں ہے. لاکھوں ملیالی باشندے بلا تفریق مذہب و ملت عربی سیکھتے ہیں۔ ان کی بہت بڑی تعداد خلیج کے ملکوں میں بر سر روزگار ہے۔ 2011ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی آبادی میں ہندوؤں کا تناسب 56 فیصد، مسلمانوں کا 25 فیصد اور عیسائیوں کا 19فیصد ہے۔ بھارت میں مسلم آبادی کے تناسب کے لحاظ سے یہ ریاست جموں وکشمیر اور آسام کے بعد تیسرے نمبر پر ہے۔ ریاست کے متعدد مقامات پر آپ کو مندر سے متصل مسجد اور چرچ نظر آئیں گے۔ ریاست میں ابھی تک فرقہ وارانہ خطوط پر الگ الگ بستیاں بسانے کا کوئی رجحان نہیں ہے، یہاں تک کہ بالعموم نام کی بنیاد پر کسی کے مذہب کی شناخت بھی نہیں کی جاسکتی۔ سنیل نام کا نوجوان باعمل مسلمان اور سلیم کسی ہندوکا نام ہوسکتا ہے۔

    حال ہی میں ہندو فرقہ پرستوں نے اس ریاست میں اپنے قدم جمانے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیزکردی ہیں؛ تاہم ریاست کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ آزادی کے بعد سے اب تک فرقہ پرست جماعت کا کوئی امیدوار صوبائی اسمبلی یا پارلیمنٹ کا رکن منتخب نہیں ہوا۔ مگر بد قسمتی سے اب صورت حال تبدیل ہو رہی ہے۔ ہندو فرقہ پرست عناصر اس بہانے سے مسلمانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں کہ ریاست کا ساحل قومی سلامتی کے لحاظ سے محفوظ نہیں رہا۔ چونکہ یہاں مسلمان زیادہ آباد ہیں، لہٰذا ملیالی زبان کے مقامی اخبارات میں آئے دن یہ خبریں چھپتی رہتی ہیں کہ پاکستان کے جاسوس جہاز اورکشتیاں ساحل پر لنگر انداز ہورہی ہیں۔ یہ خبریں بھی تراشی جاتی ہیں کہ مسلم اکثریتی ضلع ملاپورم میں پاکستانی خفیہ ایجنسی اپنے پاؤں جما رہی ہے اور وہاں کے مسلمان، ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو رہے ہیں۔اس پروپیگنڈا کے منفی اثرات نمایاں ہونے لگے ہیں۔
    یاد رہے کہ کیرالا کے مسلمان شمالی بھارت کے مسلمانوں کے برخلاف آزادی کے بعد سے ہی اپنی سیاسی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی اس طاقت کا سرچشمہ انڈین یونین مسلم لیگ رہی ہے۔ تقسیم ہند کے بعد مسلم لیگ کا احیاء یہیں سے ہوا، جس کے روح رواں مولوی محمد اسماعیل اور ابراہیم سلیمان سیٹھ تھے۔ مسلم لیگ کی کیرالا شاخ کو مسلمانوں کی واحد سیاسی جماعت ہونے کا اعزاز حاصل ہے، جسے علاقائی سطح پر الیکشن کمیشن نے ایک مسلمہ سیاسی جماعت کا درجہ دیا ہے۔ بھارت کی سابق من موہن سنگھ حکومت میں شامل وزیر مملکت برائے خارجہ ای احمد آزادی کے بعد پہلے مسلم لیگی لیڈر تھے جنھیں مرکزی حکومت میں شامل کیاگیا۔ اس کے ایک رہنما سی ایچ محمدکویا ریاست کے مختصر عرصے کے لیے وزیر اعلی بھی رہ چکے ہیں۔ 141 رکنی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ کے عموما 16سے22 ارکان منتخب ہوتے رہے ہیں۔ جنوبی بھارت کے برعکس یہاں ابھی تک موروثی سیاست کا عمل دخل نہیں ہے۔ سیاست میں یہاں کانگریس کی قیادت والا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ اور بائیں بازوکی پارٹیوں پر مشتمل لیفٹ ڈیموکریٹک فرنٹ (ایل ڈی ایف) ہے۔ یہی دو اتحاد بار ی باری حکومت سنبھالتے ہیں۔ مسلم لیگ یو ڈی ایف کا ایک اہم حصہ ہے۔کانگریس کے بعد سب سے زیادہ نشستیں اسی کے حصے میں آتی ہیں۔ ریاست کے مسلمانوں میں اب کئی دوسری تنظیموں نے بھی اب اپنی جگہ بنالی ہے، ان میں جماعت اسلامی ہندکی حمایت یافتہ سالیڈیریٹی یوتھ فرنٹ، بابری مسجد کے انہدام کے مسئلہ پر مسلم لیگ سے الگ ہونے والی مرحوم ابراہیم سلیمان سیٹھ کی انڈین نیشنل لیگ اور مرحوم لیڈر عبدالنذیر مدنی کی پیپلزڈیمو کریٹک پارٹی قابل ذکر ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی ہندکی کیرالا شاخ نے بائیں بازو کے محاذ کی حمایت کی تھی۔ غالباً یہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد پہلا موقع تھا کہ جماعت نے کمیونسٹوں کی حمایت کی۔

    غالباً کیرالا واحد ریاست ہے جہاں مسلمانوں کا اپنا طاقتور میڈیا بھی موجود ہے۔ریاست کے مسلمانوں کی مادری زبان ملیالی ہے ۔اس میں شائع ہونے والا روزنامہ ”مادھیہ مم‘‘ کئی مقامات سے بیک وقت شائع ہوتا ہے اور یہ ریاست کے بڑے اخباروں میں شمار ہوتا ہے، خلیج کے کئی ممالک سے بھی اس کے ایڈیشن نکل رہے ہیں۔ ریاست کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ اس نے سماجی شعبوں میں اعلیٰ معیار قائم کیاہے۔ ریاست قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، یہ بھارت کا 90 فیصد ربڑ‘70 فیصد ناریل اور 60 فیصد لیمن فراہم کرتی ہے، اس کے باوجود صنعتی اور اقتصادی لحاظ سے پسماندہ ہے۔ سماجی ترقی کے لحاظ سے رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ کیرالا ماڈل یا کیرالا رجحان کی اصطلاح عام استعمال کی جاتی ہے۔ سماجی شعبے میں اس ریاست نے کئی ترقی یافتہ ملکوں کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے۔کیرالا میں فی ہزارخواتین میں شرح پیدائش14ہے، جو اب تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ بھارت کی فی ہزار خواتین یہ شرح 25 اورامریکہ کی 16 فیصد ہے۔ ریاست کی شرح خواندگی91 فیصد ہے جبکہ بھارت کی 65 فیصد ۔ اس کا صنفی تناسب بھی سب سے بہتر ہے، ایک ہزار مردوں پر 1058 عورتیں ہیں جبکہ بھارت میں یہ تناسب ایک ہزار پر 933 ہے۔عالمی صحت تنظیم نے کیرالا کو بچیوں سے محبت کرنے والا دنیا کا واحد خطہ قرار دیا ہے۔ ریاست کے مشہورکولم ساحل پر دستکاری مصنوعات فروخت کرنے والے ایک کشمیری تاجر نے بتایا کہ ریاست میں بڑے سخت لیبر قوانین ہیں۔ یہ غالباً دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں سب سے زیادہ اخبارات کے قارئین ہیں۔

  • شہاب الدین غوری کی داستان حیات – ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

    شہاب الدین غوری کی داستان حیات – ڈاکٹر تصور اسلم بھٹہ

    ضلع جہلم کی تحصیل سہاوا سے کوئی سترہ کلومیٹر دور ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جسے ڈھوک دھمیک کہتے ہیں. اس گاؤں سے باہر اس شخص کا مزار ہے جس نے برصغیر پاک و ہند میں پہلی مرتبہ دہلی کی مسلم ریاست کی بنیاد ڈالی، جو تقریباً آٹھ سو سال تک قائم رہی. یہ شہاب الدین غوری کا مزار ہے جسے ۱۹۹۴ء میں ڈاکٹر عبدالقدیر نے بنوایا تھا۔

    گو کہ شہاب الدین غوری سے تقریباً ڈیڑھ سو سال پہلے محمود غزنوی نے ۱۰۰۱ ء اور ۱۰۲۷ ء کے درمیان ہندوستان پر سترہ بار حملے کیے تھے، لیکن اس نے فقط لاہور اور پنجاب کو ہی باقاعدہ اپنی حکومت میں شامل کرنے پر اکتفا کیا تھا. اس کے ان حملوں نے ہندوستان کی سماجی ، ثقافتی اور سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرنا تو کجا اس پر کوئی دیرپا اثر بھی نہیں چھوڑا تھا۔ البتہ محمود غزنوی کی ان فتوحات کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ اس نے سنٹرل ایشیاء کے طالع آزماء حکمرانوں کے لیے ہندوستان کے دروازے کھول دیے۔

    موجودہ وسطی افغانستان کے ایک صوبے کا نام غور ہے جس کا دارلحکومت فیروز کوہ ہے. آج سے ہزار سال پہلے یہ شہر دنیا کا امیر ترین شہر تھا اور ایک بہت بڑی سلطنت کا دارلحکومت تھا جسے غوری سلطنت کہتے ہیں۔ شہاب الدین غوری کے دور میں غوری سلطنت نیشا پور ایران سے لے کر بنارس و اجمیر اور بنگال تک اور بحیرہ کیپسین سے لے کر دریائے سندھ اور دریائے بیاس تک پھیلی ہوئی تھی. اس میں موجودہ ترکمانستان، تاجکستان، افغانستان، ایران، پاکستان، بنگلہ دیش ، انڈین گجرات اور سارا جنوبی ہندوستان شامل تھا .

    ابوالفضل محمد بن حسین بیہقی گیارھویں صدی عیسوی کا ایک بہت مشہور تاریخ دان ہے ۔ اس کی کتاب ” تاریخ بیہقی “ نہ صرف غزنوی اور غوری دور کی سب سے مستند تاریخی دستاویز مانی جاتی ہے، بلکہ اسے فارسی ادب کا ”ماسٹر پیس “ بھی کہا جاتا ہے. اس نے یہ کتاب ۱۰۵۰ء میں لکھنی شروع کی، اور ۱۰۶۵ء میں اسے مکمل کیا. اس کتاب کے مطابق موجودہ وسطی افغانستان میں موجود کوہ ہندوکش کے پہاڑی سلسلے کو غور کہتے ہیں. ان پہاڑوں میں کئی قبیلے آباد تھے، یہ قبیلے ایرانی النسل تاجک تھے اور اس علاقے کی نسبت سے غوری کہلاتے تھے. انھیں فارسی میں شنسبانی بھی کہتے ہیں. ان قبائل کا مذہب بدھ مت تھا. امیر سوری نے ۹۵۵ء میں پہلی مرتبہ ان غوری قبائل کو متحد کر کے غوری سلطنت کی بنیاد رکھی. امیر سوری کی اس سلطنت کو عباسی خلیفہ کی سند قبولیت حاصل تھی. امیر سوری کے باپ کا نام امیر بنجی تھا. امیر سوری کے مرنے کے بعد اس کا بیٹا محمد ابن سوری تخت پر بیٹھا۔ ۱۰۱۱ء میں محمود غزنوی نے غوری سلطنت کے دارالحکومت فیروز کوہ پر قبضہ کر لیا، اور محمد ابن سوری اور اس کے بیٹے ابو علی بن محمد کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ غزنی لے گیا ، جہاں محمد سوری نے زہر کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا۔

    ابوالفضل بیہہقی لکھتا ہے : ” گو کہ امیر سوری، محمد بن سوری اور ابو علی محمد کے نام مسلمانوں جیسے تھے لیکن ان کا مذہب بدھ مت ہی تھا. ابو علی محمد نے دوران قید اسلام قبول کیا اور محمود غزنوی اس کی ذہانت، شجاعت اور معاملہ فہمی کی صلاحیت سے بہت متاثر تھا، لہذا اس نے ابو محمد کو غور کا گورنر بنا کر غور واپس بھیج دیا. ابو علی محمد کے مسلمان ہونے کے بعد بڑی تیزی سے غور قبائل میں اسلام پھیلا اور جلد ہی سارے غور قبیلے مسلمان ہوگئے.“

    مشہور ایرانی تاریخ دان منہاج السراج گورگانی نے ۱۲۲۷ء میں ایک کتاب ”طبقات ناصری“ تحریر کی، جس میں اس نے بڑی تفصیل سے غوری خاندان کے آغاز اور عروج و زوال کے بارے میں لکھاہے، اور اس نے اپنی کتاب میں بیہقی سے اتفاق کیا ہے۔ اس کتاب کے مطابق ”۱۱۴۰ء میں سلجوقی سلطان اور ملک شاہ کے بیٹے احمد سنجر نے غور پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت غور پر معزالدین حسین کی حکومت تھی. معزالدین حسین نے سلجوقوں کی اطاعت قبول کرلی. اس کے بعد اس کا بیٹا بہاؤالدین سام ۱۱۴۹ء میں غور کے تخت پر بیٹھا، لیکن چند مہینوں کے بعد ہی اس کا انتقال ہوگیا اور اس کا چھوٹا بھائی علاؤالدین حسین غور کا حکمران بن گیا. علاؤالدین ہی دراصل وہ غوری حکمران ہے جس نے سلجوقوں کو خراج دینے سے انکار کردیا، اور پہلی بار غور سے باہر نکل کر سارا افغانستان فتح کیا، اور اپنے لیے سلطان المعظم کا لقب اختیار کیا. ۱۱۶۳ ء میں علاؤالدین حسین کے انتقال کے بعد قبائلی جرگے نے بہاؤالدین سام کے بڑے بیٹے غیاث الدین محمد کو غور کا حکمران منتخب کر لیا. غیاث الدین محمد غوری کی اصل طاقت اس کا چھوٹا بھائی معزالدین محمد تھا، جسے تاریخ شہاب الدین غوری کے نام سے جانتی ہے.“

    غیاث الدین کا زیادہ وقت امور سلطنت اور داخلی امور کی انجام دہی میں گزرتا، جبکہ شہاب الدین نے غوری سلطنت کی سرحدوں کو پھیلانے کی ذمہ داری لے رکھی تھی. اس نے ۱۱۷۳ء میں غزنی کو فتح کر کے غزنوی سلطنت کا خاتمہ کیا اور پھر برصغیر کا رخ کیا. ۱۱۷۵ء میں ملتان کی اسماعیلی حکومت کو شکست دے کر قبضہ کر لیا، اسی سال اس نے اچ شریف کو بھی غوری سلطنت میں شامل کیا. ۱۱۷۸ء میں اس کا مقابلہ پہلی بار گجرات کی راجپوت ریاست چلوکیا سے ہوا. سروہی کے قریب لڑی جانیوالی اس جنگ میں غوری لشکر کو شکست ہوئی. ۱۱۸۶ء میں اس نے لاہور بھی فتح کرلیا. لاہور پر قبضہ کرنے کے بعد اس نے لاہور کو مرکز بنا کر ہندوستان کے راجپوتوں کے خلاف فیصلہ کن جنگ کی تیاری شروع کر دی.

    پرتھوی راج چوہان اس وقت وسطی اور جنوبی ہند کا سب سے بڑا حکمران تھا. آر بی سنگھ کے مطابق اس کی سلطنت مشرق میں دریائے ستلج سے لے کر مغرب میں دریائے بٹوا تک، اور ہمالیہ کے پہاڑوں سے لے کر شمال میں ماؤنٹ ابو تک پھیلی ہوئی تھی، جس میں موجودہ ہندوستان کے راجھستان، گجرات ، دہلی، ہریانہ، پنجاب، مدھیہ پردیش، ہماچل پردیش، اترکھنڈ اور اتر پردیش شامل تھے. ۱۱۹۱ء میں ہریانہ کے ضلع کرنال کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں ترائن میں اس کا مقابلہ پرتھوی راج چوہان سے ہوا. ترائن کا موجودہ نام تراڑی ہے، اور یہ جنگ تاریخ میں ترائن کی پہلی جنگ کے نام سے مشہور ہے. اس جنگ میں ہندوستان کے تقربیاً سو راجہ مہاراجہ پرتھوی راج چوہان کی قیادت میں متحد تھے. پرتھوی راج کا پلڑا بھاری رہا. شہاب الدین غوری اس جنگ میں زخمی ہوا اور شکست کے بعد بڑی مشکل سے جان بچا کر غور پہنچا. اس شکست نے اس کے دل و دماغ پر اتنا گہرا اثر ڈالا کہ اب اس کے دن رات اس ہزیمت کا بدلہ لینے کی منصوبہ بندی میں گزرنے لگے. گورگانی نے لکھا ہے کہ اس نے جنگ کے موقع پر جو لباس پہن رکھا تھا، وہ اس کے زخمی ہونے کی وجہ سے خون آلود ہو گیا تھا، اس نے وہ خون آلود لباس اس وقت تک زیب تن کیے رکھا، جب تک اس نے ترائن کی شکست کا بدلہ نہ لے لیا. تاریخ فرشتہ میں بھی کچھ اسی قسم کی تفصیل درج ہے کہ ترائن کی پہلی جنگ میں شکست کے بعد شہاب الدین غوری نے نہ تو اپنا خون آلود لباس بدلا نہ پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور اور نہ ہی شاہی حرم میں داخل ہوا۔

    اگلے ہی سال ۱۱۹۲ء میں وہ دوبارہ پوری تیاری کے ساتھ واپس آیا. اس کے ساتھ بہترین ترک تیرانداز گھڑ سوار تھے، جن کا راجپوتوں کے پاس کوئی جواب نہیں تھا. ترائن کے اسی میدان میں ایک بار پھر سارے ہندوستان کی متحدہ فوجیں اپنی پوری طاقت کے ساتھ پرتھوی راج چوہان کی قیادت میں اس کے سامنے تھیں، لیکن اس دفعہ میدان شہاب الدین غوری کے ہاتھ رہا. پرتھوی راج عبرت ناک شکست کے بعد میدان جنگ سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے سرسا کے قریب گرفتار ہوااور مارا گیا. اکثر تاریخ دان اس سے اتفاق کرتے ہیں، جن میں منہاج السراج گورگانی، ابوالقاسم فرشتہ(تاریخ فرشتہ)، ابوالفضل ( آئین اکبری)، ستیش چندرا، بپن چندرا، ارجن دیو، رومیلا تھا پر اور آر ایس شرما شامل ہیں، سب ہی اس نظریے کے قائل ہیں کہ پرتھوی راج جنگ میں مارا گیا تھا. جبکہ حسن نظامی، آر بی سنگھ ، پروفیسر براس ورتھ اور چند دوسرے تاریخ دانوں کے نزدیک پرتھوی راج گرفتار ہوا، اور شہاب الدین غوری نے معاف کر کے اسے اپنا نائب بنا کر اجمیر کے تخت پر بٹھا دیا، لیکن چند ہی دنوں کے بعد وہ شہاب الدین غوری کے خلاف سازش کرتا ہوا پکڑا گیا اور اسے موت کی سزا دے دی گئی. اس کی موت کے بعد غوری نے اس کے بیٹے گوبندراجہ کو اس کی جگہ تخت پر بٹھایا.

    براج بھاشا کے مشہور شاعر چندبدرآئی نے پرتھوی راج پر ایک نظم ”پرتھوی روسو “لکھی ہے، جس میں پرتھوی راج کو افسانوی کردار بنا کر پیش کیا گیا ہے، اور اسے مافوق الفطرت طاقت کا مالک بیان کیا گیا ہے. اس نظم کے مطابق پرتھوی راج اور غوری کے درمیان بائیس جنگیں ہوئیں، اکیس جنگوں میں پرتھوی راج کو فتح ہوئی اور اکیس مرتبہ پرتھوی نے غوری کو گرفتار کیا، لیکن ہر مرتبہ صلہ رحمی کا سلوک کرتے ہوئے اسے رہا کر دیا. بائیسویں مرتبہ شہاب الدین جیت گیا اور پرتھوی راج کو گرفتار کر کے اپنے ساتھ غور لے گیااور اسے اندھا کروا دیا، جہاں اس نے موقع پا کر شہاب الدین کو قتل کر دیا لیکن کوئی ایک بھی تاریخ دان چند بدرآئی کے اس نقطہ نظر کی تائید کرتا نظر نہیں آتا. بالی وڈ کی فلم ”سمراٹ پرتھوی راج چوہان“ چند بدرآئی کی اسی کویتا پر مبنی ہے .

    ترائن کی دوسری جنگ میں شہاب الدین غوری کی فتح ایک تاریخ ساز لمحہ تھا جس نے ہندوستان کی تاریخ بدل کر رکھ دی. اس فتح نے نہ صرف سلطنت دہلی کے قیام کی راہ ہموار کی جو آٹھ سو سال تک قائم رہی، بلکہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان اس سرزمین پر آکر آباد ہوگئے جس نے اس خطے کی تاریخ ہی بدل دی. تاریخ نگار اس جنگ میں فتح کو ملازکرد کی جنگ سے تعبیر کرتے ہیں، جس میں فتح نے اناطولیہ کو ترکی میں تبدیل کر دیا تھا. اسی طرح ترائن کی دوسری جنگ کی فتح نے ہندوستان کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دیے اور ہندوستان برصغیر پاک و ہند بن گیا۔

    پرتھوی راج کے بیٹے کو اجمیر کے تخت پر بٹھانے کے بعد شہاب الدین غوری نے اپنے آزاد کردہ ترک غلام قطب الدین ایبک کو ہندوستان میں اپنا قائم مقام بنایا اور غور واپس لوٹ گیا۔ قطب الدین ایبک نے ۱۱۹۲ء میں دہلی فتح کیا، اور غوری کی خواہش پر اس فتح کی یاد میں دہلی میں ۱۱۹۳ء کو ایک شاندار مسجد ”قوت السلام “تعمیر کروائی، جو اس خطے کی پہلی مسجد سمجھی جاتی ہے. اس مسجد کے صحن میں پوری شان وشوکت سے کھڑا 238 فٹ ( 72 میٹر ) اونچا قطب مینار ایک ہزار سال کے بعد آج بھی اس فتح کی یاد دلاتا ہے۔ قطب الدین ایبک نے دہلی کو مرکز بنانے کے بعد ۱۱۹۹ء تک بنگال، اڑیسہ، بہار، مدھیہ پردیش، اتر پردیش، ہریانہ، پنجاب، راجھستان اور گردونواح کے تمام علاقے فتح کر کے وسطی ہندوستان میں ایک بہت مضبوط سلطنت قائم کرلی، جسے ختم کرنا اب ہندوستان کے راجے مہاراجوں کے لیے ممکن نہ تھا۔ ۱۲۰۰ء میں شہاب الدین نے اپنے بھائی غیاث الدین کی مدد سے علاؤالدین محمد خوارزم کو شکست دے کر ایران اور تاجکستان پر قبضہ کیا۔ ۱۲۰۲ ء میں غیاث الدین کے انتقال کے بعد شہاب الدین غور کے تخت پر بیٹھا۔

    ۱۲۰۶ء میں گوجرانوالہ پنجاب کے کھوکھروں نے بغاوت کر دی. وہ قطب الدین ایبک کی مدد کے لیے ایک بار پھر ہندوستان آیا ، اور بغاوت کو سختی سے کچلنے کے بعد باقی کے معاملات کو قطب الدین ایبک کے ہاتھوں میں چھوڑ کر وہ واپس غور روانہ ہوا، لیکن پندرہ مارچ ۱۲۰۶ء کی رات کو جب وہ ضلع جہلم کی تحصیل سوہاوا کے ایک گاؤں دھمیک کے قریب رات قیام کے لیے رکا تو کھوکھروں نے رات کے اندھیرے میں اس کے قافلے پر حملہ کر دیا. شہاب الدین غوری اس وقت اپنے خیمے کے باہر عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا ۔ایک اڑتا ہوا تیر اس کی گردن میں آکر لگا جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوا اور چند ہی گھنٹوں کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے مالک حقیقی سے جا ملا۔ بعض روایات کے مطابق یہ حملہ اسماعیلی فدائیوں نے کیا تھا. اسے وہیں دفن کردیا گیا۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی۔

    حسن نظامی نے ”تاج المعسیر “ میں لکھا ہے کہ ایک بار ایک درباری نے اس سے پوچھا کہ آپ کی تو کوئی اولاد نہیں، آپ کے بعد اتنی بڑی سلطنت کا وارث کون ہوگا؟ تو اس نے جواب دیا کہ ”بادشاہوں کے تو ایک یا دو وارث ہوتے ہیں، میرے وارث میرے یہ کئی سو ترک بیٹے ہیں، جو میرے بعد میرا نام زندہ رکھیں گے.“ اور یہی ہوا. اس کے مرنے کے بعد اس کی سلطنت اس کے آزاد کردہ غلاموں میں تقسیم ہو گئی، جنھیں اس نے بیٹوں سے بڑھ کر پالا تھا، اور شہزادوں کی طرح ان کی بہترین تعلیم و تربیت کی تھی۔
    ۱ – قطب الدین ایبک نے ۱۲۰۶ء میں دہلی کی سلطنت کی بنیاد رکھی اور خاندان غلاماں کی حکومت کا آغاز کیا.
    ۲ – نصیرالدین قباچہ ۱۲۱۰ء میں ملتان کا حکمران بنا۔
    ۳ – غزنی تاج الدین یلدوز کے حصے میں آیا۔
    ۴ – اختیار الدین محمد بن بختیار خلجی نے بنگال کی حکومت سنبھالی ۔
    اس کی قبر پر قطب الدین ایبک نے ایک شاندار مقبرہ تعمیر کروایا تھا۔مغل دور تک تو اس مقبرہ کی باقاعدہ دیکھ بھال ہوتی رہی، لیکن برٹش راج میں یہ بے توجہی کا شکار ہوا، اور گردش دوراں کی ٹھوکروں نے اس کا رنگ و روپ اس سے چھین لیا۔ وقت کی دھول اس پر جمتی رہی اور یہ کھنڈر بن کر رہ گیا۔

    پاکستان بنا، لیکن اہل پاکستان کو یاد بھی نہ رہا کہ امتداد زمانہ کے شکار اس مقبرے میں وہ شخص دفن ہے جس نے برصغیر میں پاکستان کے قیام کی پہلی اینٹ رکھی تھی۔ پچاس سال تک یہ کھنڈر نما مقبرہ پاکستانیوں کی توجہ کا منتظر رہا۔ ۱۹۹۰ء میں پاکستان نے اپنے میڈیم رینج میزائل پروگرام کی شروعات کیں تو ڈاکٹر عبدالقدیر نے جنھیں اسلامی تاریخ پر بھی بہت عبور حاصل تھا، انھوں نے اس میزائل کا نام انڈیا کے پرتھوی میزائل کے مقابلے میں غوری میزائل رکھا۔ انڈیا نے اپنے پرتھوی میزائل پروگرام کا آغاز ۱۹۸۳ء میں کیا تھا۔ اسی دوران ڈاکٹر عبدالقدیر کو شہاب الدین غوری کے مقبرے کی زبوں حالی کی خبر ملی، تو انھوں نے ۱۹۹۴ ء میں اسلام اور پاکستان کے اس نامور سپوت کا مقبرہ از سر نو تعمیر کروایا۔ تقریباً دس سال پہلے مجھے اس مقبرے کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ بہت دلکش جگہ ہے جہاں جا کر ایمان تازہ ہوجاتا ہے۔ ایک خوبصورت پارک کے بیچوں بیچ اونچے تخت پر بنا یہ مقبرہ خوبصورتی اور فن تعمیر میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے سامنے غوری میزائل کا ایک ماڈل بھی ایستادہ ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ایڈمینڈ براس ورتھ Edmond Brosworth نے اپنی کتاب “ غورید انسائیکولوپیڈیا ایرانیکا “ Ghurids Encyclopaedia Iranica میں لکھا ہے : اس جنگ کے نتائج بہت تاریخ ساز تھے، جنھوں نے برصغیر کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ اس جنگ میں غور یوں کی فتح اس قدر مکمل تھی کہ آنے والی صدیوں میں اس خطے کی سیاسی، جغرافیائی، مذہبی، سماجی، لسانی اور ثقافتی حیثیت ہی بدل کر رہ گئی“ ۔

    شہاب الدین غوری اور اس کا یہ مقبرہ، دونوں ہماری تاریخ کے وہ گمشدہ باب ہیں جو کب کے ہمارے دلوں کے نہاں خانوں سے اور دماغ کی یاد داشت سے محو ہو چکے۔ ہماری نوجوان نسل کو تو شاید معلوم ہی نہیں کہ کبھی یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ تھے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ تاریخ کے یہ بھولے سبق یاد کیے جائیں۔ کیونکہ حال ہی میں انڈیا کی مودی حکومت نے پرتھوی راج چوہان پر فلم بنا کر تاریخ کا چہرہ مسخ کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ انھوں نے نادانستگی میں ہمیں ہماری بھولی ہوئی تاریخ یاد دلانے کی کوشش بھی کی ہے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ ہم خواب غفلت سے بیدار ہوں، تاکہ انتہا پسند ہندؤں کے مذموم پروپیگنڈے کا علاج ہوسکے. اپنی تاریخ کےان گمشدہ اوراق سے واقفیت ہماری سیاسی اور تاریخی بقاء اور سلامتی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ہم سب کو چاہیے کہ اپنی نوجوان نسل کو اس مقبرے کی سیر کے لیے لے جائیں۔ انھیں شہاب الدین غوری کے بارے میں بتائیں، انھیں ترائن کی اس دوسری جنگ کی اہمیت سے آگاہ کریں جس نے ہندوستان میں پہلی اسلامی ریاست اور بعد ازاں ہمارے پیارے ملک پاکستان کے قیام کی بنیاد رکھی۔ اگر ترک ملازکرد کی جنگ میں فتح کے جشن کو یوم قیام ترکی کے طور پر منا سکتے ہیں، تو ہم کیوں ترائن کی جنگ میں فتح کے دن کو یوم قیام پاکستان کے طور پر نہیں منا سکتے. یہ کام ہمارے تعلیمی ادارے اور نظام تعلیم شاید نہ کرسکے، اس اہم کام کی ذمہ داری ہمیں خود ہی ادا کرنی ہے ۔

    مینارہ جام
    کہاجاتا ہے کہ یہ قطب مینار کا جڑواں بھائی ہے
    موجودہ افغانستان کے صوبہ غور کے ایک انتہائی دوردراز علاقے میں دریائے ہاری کے کنارے کھڑا مینارہ جام بھی انہی دنوں تعمیر کیا گیا جب قطب مینار تعمیر ہوا تھا

    کہتے ہیں کہ دہلی کی فتح کی خوشی میں شہاب الدین غوری نے دو مینار بنانے کا حکم دیا تھا ایک قطب مینار جو دہلی میں تعمیر ہوا اور دوسرا مینارہ جام جو شہاب الدین کے دارلحکومت غور میں تعمیر کی گیا یہ ۶۵ میٹر(۲۱۳فیٹ ) اونچاہے اور افغا نستان کا پہلا آثار قدیمہ ہے جو ورلڈ ہیرٹج لسٹ میں شامل کیا گیا ۔

    دہلی کا قطب مینار
    کی اوپری منزل
    قطب الدین ایبک نے غوری کی خواہش پر اس فتح کی یاد میں دہلی میں ۱۲۹۳ء کو ایک شاندار مسجد تعمیر کروائی جو اس خطے کی پہلی مسجد سمجھی جاتی ہے اس مسجد کے صحن میں پوری شان وشوکت سے کھڑا دوسو اڑتیس فٹ ( ۷۲ میٹر ) اونچا قطب مینار ایک ہزار سال کے بعد آج بھی تراڑی کی جنگ کی فتح کی یاد دلاتا ہے
    اسے یو نئسکو کی ورلڈ ہیرٹج لسٹ میں شامل کیا گیا ہے

  • بھارتی کرکٹ میں تکثیری سماج کی نمائندگی کیوں نہیں ہے؟ افتخار گیلانی

    بھارتی کرکٹ میں تکثیری سماج کی نمائندگی کیوں نہیں ہے؟ افتخار گیلانی

    چونکہ اس وقت کرکٹ کی چیمپین ٹرافی اب آخری مرحلہ میں داخل ہو رہی ہے، اس ٹورمامنٹ میں بھارتی ٹیم نے اپنی صلاحیت، لیاقت اور قابلیت کا لوہا منوا لیا ہے۔

    سوال مگر یہ ہے کہ کرکٹ، جو اب حالیہ عرصے میں بالی ووڈ کی طرح بزنس اور تفریح سے لبریز ایک چکا چوند کے مرکب کے طور پر سامنے آیا ہے، اورجس کے کھلاڑی راتوں رات ارب پتی بن جاتے ہیں، آخر اس کی ٹیم کے اسکواڈ میں ہندوستان کی اکثریتی آبادی کو جگہ کیوں نہیں مل پاتی ہے؟ اگر ہندوستان کی موجودہ ٹیم کا جائزہ لیا جائے،اس میں سات اونچی ذات کے ہندو، تین مڈل کاسٹ یعنی دیگر پسماندہ ذاتوں (او بی سی) سے تعلق رکھنے والے اور ایک مسلمان ہیں۔

    چند برس قبل بھی ایک جریدہ اکنامک اینڈ پولیٹکل ویکلی نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ہندوستانی ٹیسٹ کرکٹ کی نوے سالہ تاریخ میں کل 300کرکٹروں میں سے بس چھ یا سات ہی دلت یعنی نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ٹیم میں ابھی تک جگہ بنائی ہے۔ یہ سچ ہے کہ کرکٹ میں سیلکشن ذات پات کی بنیاد کے بجائے صرف میرٹ پر ہونی چاہیے۔ مگر سوال ہے کہ پچھلے 70سالوں سے ملک کی اکثریتی آبادی کو زمینی سطح سے ہی اس پر تعیش کیریئر کے لیے تیار کیوں نہیں کیا جاتا ہے، جس میں پیسہ اور نام وافر مقدار میں دستیاب ہے؟
    یا پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کرکے ان کو قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا ہے؟

    موجود ٹیم میں سات اونچی ذاتوں کے کھلاڑیوں میں چار برہمن، دو ویشیا یعنی بنیا برادری سے اور ایک راجپوت ہیں۔ پچھلے نوے سالوں میں ہندوستانی ٹیم میں اعلیٰ ذاتوں کی شرح اپنی آبادی سے کہیں زیادہ رہی ہے۔ اب کچھ عرصے سے سوریہ کانت یادو، کلدیپ یادو، اکسر پٹیل وغیرہ کو موقع ملنے سے او بی سی کھلاڑیوں کو موقع مل رہا ہے۔ مگر عمومی طور پر آج بھی قومی ٹیم میں برہمن طبقے کی بالا دستی ہے، جو ہندوستان کی مجموعی آبادی کا بس 3.5 فیصد ہے؟ برہمن، چھتری (راجپوت)، ویشیا یا بنیا، جو ہندو آبادی کی اعلیٰ ذاتیں مانی جاتی ہیں، کل آباد ی کا صرف 15 فیصد ہیں اور کرکٹرز میں ان کا تناسب تو 90 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ موجودہ ٹیم کے پندرہ رکنی اسکاڈ میں بھی اونچی ذاتوں کا تناسب 46 فیصد سے اوپر تھا۔

    چند برس قبل جب گجرات سے تعلق رکھنے والے دلت کھلاڑی یوزویندرا چہل نے ٹیسٹ کرکٹ میں پیش قدمی کی، تو ان کے سینئر ساتھی یوراج سنگھ ان کو ‘بھنگی’ کہا تھا جس کے بعد دلت سماجی کارکنوں نے پولیس میں ان کے خلاف شکایت کی اور اس کو ایک نسل پرستانہ اور تعصب سے بھر پور جملے سے تعبیر کیا۔ بعد میں یوراج سنگھ نے اس پر معافی مانگی۔ مگر یہ شاید عمومی فکر اور ذہن کی نما ئندگی کرتی ہے، جو کرکٹ جیسے چکا چوند کھیل میں کسی بھنگی کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ حالانکہ بتایا جاتا ہے کہ صرف چھ دلت -پال وانکر بالو، ایکناتھ سولکر، کرسن گھاوڑی، ونود کامبلی، بھونیشور کمار اور اب یوزوندرا چہل ہی ہندوستان کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ کھیل چکے ہیں۔

    وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں وزیر اور دلت لیڈر رام داس آٹھوالے نے کئی برس قبل تجویز دی تھی کہ کرکٹ میں دلت کھلاڑیوں کے لیے اسی طرح کوٹہ رکھا جائے، جس طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فام کھلاڑیوں اور دیگر نسلوں کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کم از کم اکیڈیمی اور نچلی سطح کی کرکٹ میں اس طرح کا کوٹہ نافذ کردینا چاہیے۔ 2008 میں کرکٹ بورڈ کے سکریٹری نرنجن شاہ نے بھی جنوبی افریقہ کی طرز پر ہندوستان میں بھی کرکٹ میں کوٹہ سسٹم لاگو کرنے کی تجویز دی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیم میں کم از کم سات کھلاڑی نچلے طبقات سے آنے چاہیے۔ مگر اس پر بورڈ میں ہی ہنگامہ برپا ہوگیا اور اس کو سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔

    محقق سری وایام آنند کے مطابق کرکٹ کا کھیل برہمن کے رسم و رواج کے ساتھ عین مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ اس کھیل میں دیگر کھیلوں کے برعکس دیگر کھلاڑیوں کو چھونا نہیں پڑتا ہے۔ بس گیند اور بلا ہی ایک دوسرے کو چھوتے رہتے ہیں۔ مشہور تاریخ دان اور مصنف رام چندر گہا نے ہندوستانی کرکٹ پر لکھی اپنی دو تصنیفات میں درج کیا ہے کہ جب برصغیر میں کرکٹ کی بنیاد ڈالی گئی تو کئی دلت کھلاڑی اس کا حصہ تھے۔ متحدہ ہندوستان کے پہلے بڑے کرکٹر اور مشہور بالر پال وانکر بالو، دلت تھے۔ وہ ایک چمار فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ 1875 میں کرناٹک کے دھارواڑ شہر میں پیدا ہوئے، مگر ان کی فیملی نے روزگار کی خاطر مہاراشٹرہ کے شہر پونہ ہجرت کی۔ وہ شہر کے جمخانہ کلب میں نوکری کرتے تھے کہ وہ ایک برطانوی افسر کی نظر میں آگئے اور نیٹ پریکٹس کے دوران اس نے ان کو گیند بازی کروانے پر متعین کیا۔ بس کیا تھا دیگر برطانوی افسران جو کرکٹ کھیلتے تھے، اپنی بلے بازی درست کروانے کے لیے ان سے بالنگ کرواتے تھے۔ ان دنوں شہر کی مقامی ٹیم، جو برہمن ٹیم کے نام سے موسوم تھی، برطانوی ٹیم کو ہروانے کی تگ ودو تھی۔ انہوں نے بالو کو ٹیم میں شامل کردیا۔ گو کہ فیلڈ میں وہ دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ گھل مل جاتے تھے، مگر ڈریسنگ روم میں آنے یا دیگر ٹیم ممبران کے ساتھ کھانا کھانے کی ان کوممانعت تھی۔ ان کو چائے یا تو مٹی کے برتن میں دی جاتی تھی یا گھر سے ان کو اپنا کپ لانا پڑتا تھا۔ بالو کی دیکھا دیکھی اس کے دیگر بھائی شیوارام، گنپت اور ومل نے بھی کرکٹ کھیلنے کی شروعات کی۔ بالو اور شیوارام 1906 کی اس ہندوستانی ٹیم کا حصہ تھے، جس نے یورپی ٹیم کے ساتھ میچ کھیلا۔ بالو نے اس میچ میں آٹھ وکٹ لیے۔ مگر اس کار کردگی کے باوجود ان کو بعد میں ڈراپ کیا گیا۔ خدشہ تھا کہ وہ کہیں ٹیم کی کپتانی کی مانگ نہ کریں۔ احتجاج میں اس کے بھائیوں نے بھی کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ ایک بیان جاری کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، ’’ان کی ذات کی وجہ سے ان کو تحقیر کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور اگر کرکٹ میں قابلیت سے زیادہ ذات کی اہمیت ہے، تو وہ اس سے کنارہ کشی کر رہے ہیں۔‘‘ یورپ میں اپنی بالنگ کا لوہا منوا کر واپسی پر ڈپریسڈ کلاس ایسوسی ایشن نے بمبئی میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ منعقد کیا، جس میں دلت رہنما اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے تقریر کی۔

    مؤرخ رام چندر گہا نے اپنی کتاب ’’اے کارنر آف فارن فیلڈ‘‘ میں ان کا موازنہ امریکی سپر اسپورٹ اسٹارز جیکی رابنسن اور محمد علی جیسے شہری آزادیوں کی تحریک کے ہیرو سے کیا ہے۔ ہندوستان کے اس عظیم کرکٹر پلوانکر بالو کو ان کی دلت شناخت کی وجہ سے فراموش کر دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ ان کے نام پر کوئی یادگار، مجسمہ یا ٹورنامنٹ ابھی تک نہیں رکھا گیا ہے۔

    جیمز ایسٹل نے اپنی کتاب ‘دی گریٹ تماشا: کرکٹ، کرپشن، اینڈ دی سپیکٹاکولر ماڈرن انڈیا’ نے ایک اور دلت کھلاڑی وڈا گنیش کا ذکر کیا ہے۔ گنیش نے بھی 1990 کی دہائی میں ہندوستان کے لیے چار ٹیسٹ کھیلے۔ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ایک اور عظیم کرکٹر، جن کا تعلق ماہی گیر برادری سے تھا، ونود کامبلی تھے، جو کرکٹ لیجنڈ سچن تندولکر کے بچپن کے ساتھی تھے۔ ان دونوں کو رماکانت اچریکر نے تربیت دی تھی۔ کامبلی کے بارے میں، اچریکر کا کہنا تھا کہ وہ تندولکر سے زیادہ باصلاحیت ہیں۔ ان دونوں نے ہیرس شیلڈ اسکول ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ شراکت کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ کامبلی نے 349 بنائے اور 6 وکٹیں حاصل کیں، اور تندولکر نے 326 رنز بنائے۔ تندولکر نے ایک سال بعد بمبئی رنجی ٹیم کے لیے ڈیبیو کیا، اور کامبلی نے اس کے ایک سال بعد ڈیبیو کیا۔ تندولکر نے 1991 میں اور کامبلی نے 1993 میں ہندوستان کے لیے کھیل کی شروعات کی۔ کامبلی نے اپنے پہلے سات ٹیسٹ میچوں میں دو ڈبل سنچریوں سمیت چار سنچریاں بنائیں۔ اپنے 17 ٹیسٹوں کے بعد، کامبلی کی ویسٹ انڈیز کے خلاف بری سیریز تھی اور اسے ڈراپ کر دیا گیا۔ 2008 میں ایک انٹرویو میں کامبلی نے کہا کہ انہیں ان کی ذات اور رنگت کی وجہ سے ڈراپ کیا گیا تھا۔ سچن تندولکر کے اس ساتھی بلے باز ونود کامبلی نے محض تین سال ٹیسٹ کرکٹ کھیلی۔ مسلسل نظر انداز کرنے پر2000 میں انہوں نے کر کرکٹ کو الوداع کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ڈریسنگ روم میں ان کو تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جس سے انکی کارکردگی متاثر ہوگئی۔ اعلیٰ ذات کے تندولکر کی کامیابی اور نچلی ذات کے کامبلی کی تنزلی، ہندوستانی کرکٹ اور بھارت کے سماجی نظام کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

    بیسویں صدی کے اوائل تک کئی دلت مقامی و قومی کرکٹ کا حصہ رہے ہیں۔ مگر جیسے ہی راجے مہاراجوں نے کرکٹ کی سرپرستی کرنی شروع کردی، دلت کرکٹر کم ہوتے گئے۔ آزادی کے بعد کارپوریٹ سیکٹر نے راجے مہاراجوں کی جگہ سنبھالی اور سلیکشن میں کئی اور عوامل شامل ہوگئے۔
    ایک کھلاڑی کے لیے کارپوریٹ نوکری کی طرح فرفر انگریزی بولنا، تعلیم اور نفاست ضروری جز وبن گئے، اس کو جنٹلمین گیم کا نام دیا گیا۔ جس کی وجہ سے کسی دیہاتی ٹائپ سنگلاخ شخص کے لیے کرکٹ میں کیرئیر بنانا مشکل ہوگیا۔

    دلتوں کے برعکس ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں مسلمانوں کی نمائندگی نسبتاً بہتر رہی ہے۔ ممبئی، دہلی، بنگلور، حیدر آباد اور کولکاتہ سے نکل کر کرکٹ جوں جوں چھوٹے شہروں کو منتقل ہوتی گئی، ٹاپ کرکٹروں میں مسلمانوں کا تناسب جو 1950 میں چار فیصد تھا، اس صدی کی شروعات تک 12.5فیصد پہنچ گیا تھا۔ سوربھ گانگولی نے اپنے دور کپتانی میں پانچ مسلم کرکٹروں کو ٹیم میں شامل کروایا۔اسی طرح کم و بیش تیس مسلمان کھلاڑیوں کو انڈین پریمیر لیگ میں کھیلنے کا موقع ملا ہے، جن میں اکثریت باؤلروں کی ہے۔ ا س کی شاید وجہ یہ ہے کہ بلے بازی کے لیے ساز و سامان و ٹریننگ خاصی مہنگی ہے، جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتی ہے۔

    نوے کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرست نظام کے خاتمہ کے بعد جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں غیر سفید فام طبقات کو ان کا حق دلانے کے لیے اصلاحات کی گئیں، وہیں کرکٹ بورڈ اور دیگر کھیلوں کے ذمہ داران کو بھی بتایا گیا کہ ٹیموں کے لیے بھی غیر سفید فام کھلاڑی تیار کریں۔ کیونکہ سفارت کاروں کی طرح کھلاڑی بھی ملک کی ثقافت، تہذیب، رہن سہن، اور یگانگت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اس سعی کا اثر یہ ہوا کہ چند برسوں میں ہی جنوبی افریقہ کی کرکٹ اکیڈیمیاں عمر ہنری، ہرشل گبس، پال آدمز، رباڑا، ہاشم آملہ اور دیگر لاتعداد غیر سفید فام کھلاڑیوں کو سامنے لے آئیں، جنہوں نے کرکٹ کے علاوہ ملک کا نام روشن کیا۔ 2007کے بعد تو کرکٹ بورڈ کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ قومی ٹیم میں کم از کم چھ کھلاڑی غیر سفید فام اور ان میں دو تو لازماً سیاہ فام افریقی ہونے چا ہییں۔ سفید فام کھلاڑیوں نے اس پر احتجاج بھی درج کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپورٹس ایک مسابقتی شعبہ ہے اور اس میں میرٹ ہی مدنظر ہونا چاہیے۔ مایہ ناز بلے باز کیون پیٹرسن نے تو جنوبی افریقہ کو ہی خیر باد کہہ کر انگلینڈ کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنی شروع کی۔ مگر حکومت کا کہنا تھا کہ اگر ٹیم ملک کی آبادی اور اس کی کثرت کی نمائندگی نہیں کرتی ہے، تو اس کا نہ ہونا ہی بہترہے۔ مگر یہ بھی دیکھا گیا کہ سبھی طبقات کو قومی ٹیم میں نمائندگی دینے سے جنوبی افریقہ کی ٹیم کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑا، وہ فتوحات کے جھنڈے متواتر گاڑتی گئی اور دیگر ٹیموں کی ہی طرز پر ہی اس پر بھی اتار چڑھاؤ آتے گئے۔اس بار بھی فائنل میں ہندوستان کا کانٹے کا مقابلہ اسی ٹیم سے تھا، جو ایک کثیر جہتی کلچر اور سماج کی نمائندگی کر رہی تھی، نہ کہ محض ایک قلیل اشرافیہ طبقہ کی۔