Tag: ہندو

  • ہندو سماج اور ستی کی رسم – اطہر وقار

    ہندو سماج اور ستی کی رسم – اطہر وقار

    ستی وہ بہیمانہ سماجی و مذہبی رسم ہے، جس میں عورت کو اس کے مرے ہوئے خاوند کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا ۔ ستی کی رسم صدیوں سے ہندو سماج میں موجود رہی ہے. تقریباً تمام ہندو مذہبی کتب میں ستی کے واقعات کا ذکر ہے ،اور عورت چاہے اونچی ذات سے ہو یا چھوٹی کی ذات کی ہو، اسے بہرحال بیوہ بننے کی صورت میں ستی کیا جاتا تھا ۔

    ستی کی رسم میں عورت کو دلہن کی طرح سجا کر شوہر کی لاش کے ساتھ لٹا دیا جاتا اور زندہ جلا دیا جاتا ،یہ رسم اس قدر بہیمانہ تھی کہ اس میں اگر کوئی عورت رضا کارانہ طور پر تیار نہ ہوتی تو اسے رسیوں سے باندھ کر ستی کیا جاتا تھا ۔ عام طور پر مذہبی پروہت ،ستی کی رسم کو رضاکارانہ طور پر بیان کرتے تھ،ے حالانکہ حقیقت میں یہ ہمیشہ زور زبردستی ہوتی تھی ۔ ستی کی رسم کا سب سے پہلا ذکر ان یونانی تاریخ دانوں کی کتب میں آیا ہے.

    جب سکندر اعظم ہندوستان تک پورس کی لڑائی میں آیا تھا تو اس کے ساتھ یونانی تاریخ دان نے ایسے مقامی ہندو راجہ کا ذکر کیا ہے، جس کے مرنے کی صورت میں اس کی دو بیویوں میں سے چھوٹی والی کو ستی کیا گیا کیونکہ بڑی والی حمل سے تھی ۔ مہا بھارت اور رگ وید میں ستی کی رسم کو گلوریفکیشن کی گئی ہے کہ جو عورت ستی ہونا قبول کرتی ہے تو وہ ہمیشہ سوورگ یعنی جنت میں رہتی ہے ۔ستی کی رسم اجتماعی بھی ہوتی تھی، ایسے بھی واقعات ہیں جس میں ایک مرد کے مرنے پر اس کی چار بیویوں کو ستی کر دیا گیا ہو ۔

    یہاں تک کہ بارہ سال کی لڑکی کا جب بڑی عمر کا خاوند کسی بھی وجہ سے مر جاتا تو اسے بھی شوہر کے ساتھ ستی کر دیا جاتا۔ ستی کرتے ہوئے عورت شوہر کے چپلوں کو گلے میں ڈال کر زندہ جلا دیا جاتا ۔ اگر کوئی بیوہ حیض سے ہوتی تو حیض کے بعد اسے ستی کیا جاتا اور اگر کوئی حاملہ عورت بیوہ ہو جاتی تو وضع حمل کے بعد اسے ستی کیا جاتا ۔ ستی کی رسم سے اگر کوئی بیوہ بھاگنے کی کوشش کرتی تو پورا سماج اس کا بائیکاٹ کرتا. اس کے بال کاٹ دئے جاتے اور اسے نہایت غلیظ کھانے کے ساتھ دور دراز جگہوں پر رہنا پڑتا جیسا کہ ہم نے شبانہ اعظمی کی فلم واٹر میں دیکھا تھا ۔

    گویا بیوہ عورت کے پاس دو ہی راستے تھے یا تو ستی ہو جائے یا پھر سماجی سطح پر بائیکاٹ کے لیے تیار رہے ۔مسخ شدہ مذہبی متون میں ستی کی گلوریفکیشن کی وجہ سے بھگت مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس انسانیت سوز رسم کو گلوریفائی کریں،جیسا کہ ہمیں پدماوت فلم میں اجتماعی رضآ کارانہ ستی کو جوہر کا نام دے کر گلوریفائی کیا گیا ۔ مغل دور میں اکبر کو چھوڑ کر باقی تمام مغل حکمرانوں نے اس رسم کو محدود کرنے کی کوشش کیں. اگرچیکہ پروپیگنڈا یہ کیا جاتا ہے کہ ترکوں کی آمد کے بعد سے ہندوستان میں ستی کی رسم میں اضافہ ہوا حالانکہ حقیقت اس کے برعکس رہی اور مسلم سیاسی طاقت نے اس رسم کو محدود کیا ۔

    کالونیل ایرا میں بھی انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس بہیمانہ رسم پر پابندی عائد کر دی تھی. لیکن کہیں نہ کہیں ہندوستان میں یہ رسم 37 سال پہلے تک جاری رہی ،اب بھی خدشہ ہے کہ اگر سیکولر انڈیا ہندووتوا بھارت میں ڈھلتا ہے اور ہندو راشٹریہ بنتا ہے تو قوی امکان ہے کہ یہ انسانیت سوز رسم دوبارہ زندہ ہونے لگے گی ۔

  • بھارتی کرکٹ میں تکثیری سماج کی نمائندگی کیوں نہیں ہے؟ افتخار گیلانی

    بھارتی کرکٹ میں تکثیری سماج کی نمائندگی کیوں نہیں ہے؟ افتخار گیلانی

    چونکہ اس وقت کرکٹ کی چیمپین ٹرافی اب آخری مرحلہ میں داخل ہو رہی ہے، اس ٹورمامنٹ میں بھارتی ٹیم نے اپنی صلاحیت، لیاقت اور قابلیت کا لوہا منوا لیا ہے۔

    سوال مگر یہ ہے کہ کرکٹ، جو اب حالیہ عرصے میں بالی ووڈ کی طرح بزنس اور تفریح سے لبریز ایک چکا چوند کے مرکب کے طور پر سامنے آیا ہے، اورجس کے کھلاڑی راتوں رات ارب پتی بن جاتے ہیں، آخر اس کی ٹیم کے اسکواڈ میں ہندوستان کی اکثریتی آبادی کو جگہ کیوں نہیں مل پاتی ہے؟ اگر ہندوستان کی موجودہ ٹیم کا جائزہ لیا جائے،اس میں سات اونچی ذات کے ہندو، تین مڈل کاسٹ یعنی دیگر پسماندہ ذاتوں (او بی سی) سے تعلق رکھنے والے اور ایک مسلمان ہیں۔

    چند برس قبل بھی ایک جریدہ اکنامک اینڈ پولیٹکل ویکلی نے اپنی ایک تحقیقی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ ہندوستانی ٹیسٹ کرکٹ کی نوے سالہ تاریخ میں کل 300کرکٹروں میں سے بس چھ یا سات ہی دلت یعنی نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے ٹیم میں ابھی تک جگہ بنائی ہے۔ یہ سچ ہے کہ کرکٹ میں سیلکشن ذات پات کی بنیاد کے بجائے صرف میرٹ پر ہونی چاہیے۔ مگر سوال ہے کہ پچھلے 70سالوں سے ملک کی اکثریتی آبادی کو زمینی سطح سے ہی اس پر تعیش کیریئر کے لیے تیار کیوں نہیں کیا جاتا ہے، جس میں پیسہ اور نام وافر مقدار میں دستیاب ہے؟
    یا پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا نچلی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں کو جان بوجھ کر نظر انداز کرکے ان کو قومی ٹیم میں شامل نہیں کیا جاتا ہے؟

    موجود ٹیم میں سات اونچی ذاتوں کے کھلاڑیوں میں چار برہمن، دو ویشیا یعنی بنیا برادری سے اور ایک راجپوت ہیں۔ پچھلے نوے سالوں میں ہندوستانی ٹیم میں اعلیٰ ذاتوں کی شرح اپنی آبادی سے کہیں زیادہ رہی ہے۔ اب کچھ عرصے سے سوریہ کانت یادو، کلدیپ یادو، اکسر پٹیل وغیرہ کو موقع ملنے سے او بی سی کھلاڑیوں کو موقع مل رہا ہے۔ مگر عمومی طور پر آج بھی قومی ٹیم میں برہمن طبقے کی بالا دستی ہے، جو ہندوستان کی مجموعی آبادی کا بس 3.5 فیصد ہے؟ برہمن، چھتری (راجپوت)، ویشیا یا بنیا، جو ہندو آبادی کی اعلیٰ ذاتیں مانی جاتی ہیں، کل آباد ی کا صرف 15 فیصد ہیں اور کرکٹرز میں ان کا تناسب تو 90 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ موجودہ ٹیم کے پندرہ رکنی اسکاڈ میں بھی اونچی ذاتوں کا تناسب 46 فیصد سے اوپر تھا۔

    چند برس قبل جب گجرات سے تعلق رکھنے والے دلت کھلاڑی یوزویندرا چہل نے ٹیسٹ کرکٹ میں پیش قدمی کی، تو ان کے سینئر ساتھی یوراج سنگھ ان کو ‘بھنگی’ کہا تھا جس کے بعد دلت سماجی کارکنوں نے پولیس میں ان کے خلاف شکایت کی اور اس کو ایک نسل پرستانہ اور تعصب سے بھر پور جملے سے تعبیر کیا۔ بعد میں یوراج سنگھ نے اس پر معافی مانگی۔ مگر یہ شاید عمومی فکر اور ذہن کی نما ئندگی کرتی ہے، جو کرکٹ جیسے چکا چوند کھیل میں کسی بھنگی کو برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ حالانکہ بتایا جاتا ہے کہ صرف چھ دلت -پال وانکر بالو، ایکناتھ سولکر، کرسن گھاوڑی، ونود کامبلی، بھونیشور کمار اور اب یوزوندرا چہل ہی ہندوستان کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ کھیل چکے ہیں۔

    وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت میں وزیر اور دلت لیڈر رام داس آٹھوالے نے کئی برس قبل تجویز دی تھی کہ کرکٹ میں دلت کھلاڑیوں کے لیے اسی طرح کوٹہ رکھا جائے، جس طرح جنوبی افریقہ میں سیاہ فام کھلاڑیوں اور دیگر نسلوں کے لیے رکھا جاتا ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ کم از کم اکیڈیمی اور نچلی سطح کی کرکٹ میں اس طرح کا کوٹہ نافذ کردینا چاہیے۔ 2008 میں کرکٹ بورڈ کے سکریٹری نرنجن شاہ نے بھی جنوبی افریقہ کی طرز پر ہندوستان میں بھی کرکٹ میں کوٹہ سسٹم لاگو کرنے کی تجویز دی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ٹیم میں کم از کم سات کھلاڑی نچلے طبقات سے آنے چاہیے۔ مگر اس پر بورڈ میں ہی ہنگامہ برپا ہوگیا اور اس کو سرد خانہ میں ڈال دیا گیا۔

    محقق سری وایام آنند کے مطابق کرکٹ کا کھیل برہمن کے رسم و رواج کے ساتھ عین مطابقت رکھتا ہے، کیونکہ اس کھیل میں دیگر کھیلوں کے برعکس دیگر کھلاڑیوں کو چھونا نہیں پڑتا ہے۔ بس گیند اور بلا ہی ایک دوسرے کو چھوتے رہتے ہیں۔ مشہور تاریخ دان اور مصنف رام چندر گہا نے ہندوستانی کرکٹ پر لکھی اپنی دو تصنیفات میں درج کیا ہے کہ جب برصغیر میں کرکٹ کی بنیاد ڈالی گئی تو کئی دلت کھلاڑی اس کا حصہ تھے۔ متحدہ ہندوستان کے پہلے بڑے کرکٹر اور مشہور بالر پال وانکر بالو، دلت تھے۔ وہ ایک چمار فیملی سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ 1875 میں کرناٹک کے دھارواڑ شہر میں پیدا ہوئے، مگر ان کی فیملی نے روزگار کی خاطر مہاراشٹرہ کے شہر پونہ ہجرت کی۔ وہ شہر کے جمخانہ کلب میں نوکری کرتے تھے کہ وہ ایک برطانوی افسر کی نظر میں آگئے اور نیٹ پریکٹس کے دوران اس نے ان کو گیند بازی کروانے پر متعین کیا۔ بس کیا تھا دیگر برطانوی افسران جو کرکٹ کھیلتے تھے، اپنی بلے بازی درست کروانے کے لیے ان سے بالنگ کرواتے تھے۔ ان دنوں شہر کی مقامی ٹیم، جو برہمن ٹیم کے نام سے موسوم تھی، برطانوی ٹیم کو ہروانے کی تگ ودو تھی۔ انہوں نے بالو کو ٹیم میں شامل کردیا۔ گو کہ فیلڈ میں وہ دیگر کھلاڑیوں کے ساتھ گھل مل جاتے تھے، مگر ڈریسنگ روم میں آنے یا دیگر ٹیم ممبران کے ساتھ کھانا کھانے کی ان کوممانعت تھی۔ ان کو چائے یا تو مٹی کے برتن میں دی جاتی تھی یا گھر سے ان کو اپنا کپ لانا پڑتا تھا۔ بالو کی دیکھا دیکھی اس کے دیگر بھائی شیوارام، گنپت اور ومل نے بھی کرکٹ کھیلنے کی شروعات کی۔ بالو اور شیوارام 1906 کی اس ہندوستانی ٹیم کا حصہ تھے، جس نے یورپی ٹیم کے ساتھ میچ کھیلا۔ بالو نے اس میچ میں آٹھ وکٹ لیے۔ مگر اس کار کردگی کے باوجود ان کو بعد میں ڈراپ کیا گیا۔ خدشہ تھا کہ وہ کہیں ٹیم کی کپتانی کی مانگ نہ کریں۔ احتجاج میں اس کے بھائیوں نے بھی کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا۔ ایک بیان جاری کرتے ہوئے، انہوں نے کہا، ’’ان کی ذات کی وجہ سے ان کو تحقیر کا نشانہ بنایا جا رہا تھا اور اگر کرکٹ میں قابلیت سے زیادہ ذات کی اہمیت ہے، تو وہ اس سے کنارہ کشی کر رہے ہیں۔‘‘ یورپ میں اپنی بالنگ کا لوہا منوا کر واپسی پر ڈپریسڈ کلاس ایسوسی ایشن نے بمبئی میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ منعقد کیا، جس میں دلت رہنما اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے تقریر کی۔

    مؤرخ رام چندر گہا نے اپنی کتاب ’’اے کارنر آف فارن فیلڈ‘‘ میں ان کا موازنہ امریکی سپر اسپورٹ اسٹارز جیکی رابنسن اور محمد علی جیسے شہری آزادیوں کی تحریک کے ہیرو سے کیا ہے۔ ہندوستان کے اس عظیم کرکٹر پلوانکر بالو کو ان کی دلت شناخت کی وجہ سے فراموش کر دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ ان کے نام پر کوئی یادگار، مجسمہ یا ٹورنامنٹ ابھی تک نہیں رکھا گیا ہے۔

    جیمز ایسٹل نے اپنی کتاب ‘دی گریٹ تماشا: کرکٹ، کرپشن، اینڈ دی سپیکٹاکولر ماڈرن انڈیا’ نے ایک اور دلت کھلاڑی وڈا گنیش کا ذکر کیا ہے۔ گنیش نے بھی 1990 کی دہائی میں ہندوستان کے لیے چار ٹیسٹ کھیلے۔ نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ایک اور عظیم کرکٹر، جن کا تعلق ماہی گیر برادری سے تھا، ونود کامبلی تھے، جو کرکٹ لیجنڈ سچن تندولکر کے بچپن کے ساتھی تھے۔ ان دونوں کو رماکانت اچریکر نے تربیت دی تھی۔ کامبلی کے بارے میں، اچریکر کا کہنا تھا کہ وہ تندولکر سے زیادہ باصلاحیت ہیں۔ ان دونوں نے ہیرس شیلڈ اسکول ٹورنامنٹ میں سب سے زیادہ شراکت کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ کامبلی نے 349 بنائے اور 6 وکٹیں حاصل کیں، اور تندولکر نے 326 رنز بنائے۔ تندولکر نے ایک سال بعد بمبئی رنجی ٹیم کے لیے ڈیبیو کیا، اور کامبلی نے اس کے ایک سال بعد ڈیبیو کیا۔ تندولکر نے 1991 میں اور کامبلی نے 1993 میں ہندوستان کے لیے کھیل کی شروعات کی۔ کامبلی نے اپنے پہلے سات ٹیسٹ میچوں میں دو ڈبل سنچریوں سمیت چار سنچریاں بنائیں۔ اپنے 17 ٹیسٹوں کے بعد، کامبلی کی ویسٹ انڈیز کے خلاف بری سیریز تھی اور اسے ڈراپ کر دیا گیا۔ 2008 میں ایک انٹرویو میں کامبلی نے کہا کہ انہیں ان کی ذات اور رنگت کی وجہ سے ڈراپ کیا گیا تھا۔ سچن تندولکر کے اس ساتھی بلے باز ونود کامبلی نے محض تین سال ٹیسٹ کرکٹ کھیلی۔ مسلسل نظر انداز کرنے پر2000 میں انہوں نے کر کرکٹ کو الوداع کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ ڈریسنگ روم میں ان کو تحقیر کا سامنا کرنا پڑتا تھا، جس سے انکی کارکردگی متاثر ہوگئی۔ اعلیٰ ذات کے تندولکر کی کامیابی اور نچلی ذات کے کامبلی کی تنزلی، ہندوستانی کرکٹ اور بھارت کے سماجی نظام کے بارے میں بہت کچھ بتاتا ہے۔

    بیسویں صدی کے اوائل تک کئی دلت مقامی و قومی کرکٹ کا حصہ رہے ہیں۔ مگر جیسے ہی راجے مہاراجوں نے کرکٹ کی سرپرستی کرنی شروع کردی، دلت کرکٹر کم ہوتے گئے۔ آزادی کے بعد کارپوریٹ سیکٹر نے راجے مہاراجوں کی جگہ سنبھالی اور سلیکشن میں کئی اور عوامل شامل ہوگئے۔
    ایک کھلاڑی کے لیے کارپوریٹ نوکری کی طرح فرفر انگریزی بولنا، تعلیم اور نفاست ضروری جز وبن گئے، اس کو جنٹلمین گیم کا نام دیا گیا۔ جس کی وجہ سے کسی دیہاتی ٹائپ سنگلاخ شخص کے لیے کرکٹ میں کیرئیر بنانا مشکل ہوگیا۔

    دلتوں کے برعکس ہندوستانی کرکٹ ٹیم میں مسلمانوں کی نمائندگی نسبتاً بہتر رہی ہے۔ ممبئی، دہلی، بنگلور، حیدر آباد اور کولکاتہ سے نکل کر کرکٹ جوں جوں چھوٹے شہروں کو منتقل ہوتی گئی، ٹاپ کرکٹروں میں مسلمانوں کا تناسب جو 1950 میں چار فیصد تھا، اس صدی کی شروعات تک 12.5فیصد پہنچ گیا تھا۔ سوربھ گانگولی نے اپنے دور کپتانی میں پانچ مسلم کرکٹروں کو ٹیم میں شامل کروایا۔اسی طرح کم و بیش تیس مسلمان کھلاڑیوں کو انڈین پریمیر لیگ میں کھیلنے کا موقع ملا ہے، جن میں اکثریت باؤلروں کی ہے۔ ا س کی شاید وجہ یہ ہے کہ بلے بازی کے لیے ساز و سامان و ٹریننگ خاصی مہنگی ہے، جو ہر ایک کے بس میں نہیں ہوتی ہے۔

    نوے کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں نسل پرست نظام کے خاتمہ کے بعد جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی میں غیر سفید فام طبقات کو ان کا حق دلانے کے لیے اصلاحات کی گئیں، وہیں کرکٹ بورڈ اور دیگر کھیلوں کے ذمہ داران کو بھی بتایا گیا کہ ٹیموں کے لیے بھی غیر سفید فام کھلاڑی تیار کریں۔ کیونکہ سفارت کاروں کی طرح کھلاڑی بھی ملک کی ثقافت، تہذیب، رہن سہن، اور یگانگت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اس سعی کا اثر یہ ہوا کہ چند برسوں میں ہی جنوبی افریقہ کی کرکٹ اکیڈیمیاں عمر ہنری، ہرشل گبس، پال آدمز، رباڑا، ہاشم آملہ اور دیگر لاتعداد غیر سفید فام کھلاڑیوں کو سامنے لے آئیں، جنہوں نے کرکٹ کے علاوہ ملک کا نام روشن کیا۔ 2007کے بعد تو کرکٹ بورڈ کے لیے لازم قرار دیا گیا کہ قومی ٹیم میں کم از کم چھ کھلاڑی غیر سفید فام اور ان میں دو تو لازماً سیاہ فام افریقی ہونے چا ہییں۔ سفید فام کھلاڑیوں نے اس پر احتجاج بھی درج کروایا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسپورٹس ایک مسابقتی شعبہ ہے اور اس میں میرٹ ہی مدنظر ہونا چاہیے۔ مایہ ناز بلے باز کیون پیٹرسن نے تو جنوبی افریقہ کو ہی خیر باد کہہ کر انگلینڈ کی طرف سے بین الاقوامی کرکٹ کھیلنی شروع کی۔ مگر حکومت کا کہنا تھا کہ اگر ٹیم ملک کی آبادی اور اس کی کثرت کی نمائندگی نہیں کرتی ہے، تو اس کا نہ ہونا ہی بہترہے۔ مگر یہ بھی دیکھا گیا کہ سبھی طبقات کو قومی ٹیم میں نمائندگی دینے سے جنوبی افریقہ کی ٹیم کی کارکردگی میں کوئی فرق نہیں پڑا، وہ فتوحات کے جھنڈے متواتر گاڑتی گئی اور دیگر ٹیموں کی ہی طرز پر ہی اس پر بھی اتار چڑھاؤ آتے گئے۔اس بار بھی فائنل میں ہندوستان کا کانٹے کا مقابلہ اسی ٹیم سے تھا، جو ایک کثیر جہتی کلچر اور سماج کی نمائندگی کر رہی تھی، نہ کہ محض ایک قلیل اشرافیہ طبقہ کی۔

  • اردو روز بروز اسلامی ہوتی جا رہی ہے  – رشید ودود

    اردو روز بروز اسلامی ہوتی جا رہی ہے – رشید ودود

    اشعر نجمی کے رسالہ اثبات نے اس بار اطہر فاروقی پر ایک گوشہ نکالا ہے، جس میں ان کا ایک انٹرویو بھی شامل ہے، رسالہ ابھی دیکھا نہیں ہے لیکن انٹرویو کی سرخی بڑی دلچسپ ہے، ملاحظہ فرمائیں:
    “اردو روز بروز اسلامی ہوتی جا رہی ہے”

    اطہر فاروقی نے یہ بات کس پس منظر میں کہی، یہ تو انٹرویو پڑھ کر ہی معلوم ہوگا، لیکن یہاں اشعر نجمی کو داد نہ دینا بہرحال ظلم ہوگا، رسالہ بیچنے کے لیے کیا کیا نہیں کرنا پڑتا. اہل مذہب مذہب کا استعمال کرتے ہیں تو یہی لوگ کہتے ہیں کہ مذہب کا چورن نہ بیچو، لیکن یہ کون سا چورن ہے؟ اشعر نجمی اس سوال کا جواب کبھی نہیں دیں گے.

    اردو کو اسلامیانے کا کام جان گل کرائسٹ نے شروع کیا تھا ، اور کیوں کیا تھا، اس کی تفصیل ہوش ربا ہے، اس پر گفتگو پھر کبھی، لیکن اطہر فاروقی گل کرائسٹ کا نام کبھی نہیں لیں گے، اس لیے کہ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ “فورٹ ولیم کالج کی خدمات” کے سحر میں مبتلا ہوں گے. ایسے “مبتلائے سحر” جب منہ کھولتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہوش و خرد سے بے خبر ہیں. اگر کوئی سرپھرا اٹھے اور یہ کہے کہ اردو کو اول روز سے شیعوں نے ہائی جیک کر رکھا ہے تو یہی اطہر فاروقی کہیں گے ادب میں اس طرح کے موضوعات پر گفتگو نہیں کرنی چاہیے، لیکن خود چاہے جتنی ہفوات بکیں، ہمیں تلقین کریں گے کہ برداشت کرنا سیکھو، نہیں کریں گے تو عدم برداشت کا الزام عائد کر دیں گے. بھکتی صرف سیاست میں نہیں ہے، ادب میں بھی ہے، آج کا اردو محقق بھی یہی چاہتا ہے کہ لوگ بس ہماری سنیں، بولیں نہیں، اس لیے کہ بھکتوں کا کام بولنا نہیں ہے دُم ہلانا ہے.

    اطہر فاروقی محقق بنے پھرتے ہیں. کیا ان کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ اردو ایک روز کے لیے بھی اسلامی نہیں رہی، البتہ گفتگو اگر اطہر فاروقی ہی کے لب و لہجے میں کی جائے یعنی جہالت کا سلسلہ دراز کیا جائے اور کہہ دیا جائے کہ “اردو اپنے پیدائش کے روز ہی سے مجوسی رہی ہے” تو اطہر فاروقی کا فشار خون بلند ہو جائے گا، اور وہ مٹھیاں بھینچ کر مخاطب کے بال نوچ لیں گے. اردو شعرا جب تک تبرا نہ کر لیں تب تک ان کا کھانا نہیں ہضم ہوتا ،تو اب کیا اطہر فاروقی یہ کہیں گے کہ “اردو روز بروز شیعہ ہوتی جا رہی ہے” . ذرا کہہ کر تو دیکھیں ان کا حقہ پانی بند ہونے میں زیادہ عرصہ نہیں لگے گا.

    لگتا ہے کہ اطہر فاروقی کو حق گوئی کا کچھ زیادہ ہی شوق ہے، لیکن یہ حق گوئی نہیں اسے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا کہتے ہیں. ان دنوں وطن عزیز میں ہر بوالہوس اسلام اور مسلمانوں پر ہاتھ صاف کر کے اپنی نوکری بچانے میں لگا ہوا ہے. اگر اطہر فاروقی میں ہمت ہو تو کہیں کہ
    “ہندی روز بروز ہندو ہوتی جا رہی ہے”
    “ملک روز بروز ہندو ہوتا جا رہا ہے”
    “بالی ووڈ روز بروز ہندو ہوتا جا رہا ہے”
    تو ابھی انجمن ترقی اردو ہند سے انھیں نکالا مل جائے گا،. انجمن سے یاد آیا کہ عبدالحق کے دل و دماغ میں بھی مذہب کے لیے بڑا تعصب پایا جاتا تھا. ارے ہاں وہی عبدالحق جنہیں یہ لوگ “بابائے اردو مولوی عبدالحق” کہتے ہیں.

    محمد حسین آزاد جب آب حیات لکھنے بیٹھے تو ہندو شعرا و ادبا کو ہضم کر گئے اور ڈکار تک نہیں لیا، لیکن کسی اطہر فاروقی یا کسی اشعر نجمی کو آج تک یہ توفیق نہیں ہو سکی کہ وہ اس دھاندلی کے خلاف آواز اٹھائے. شمس الرحمن فاروقی نے ضرور خبر لی ہے، لیکن اشعر نجمی اس سے بھی بے خبر معلوم ہوتے ہیں. اطہر فاروقی کا یہ بیان نہ صرف جہالت سے پر ہے بلکہ اشتعال انگیز بھی ہے. پھر اشعر نجمی شاید اب لکھنا بھول گئے ہیں، اگر یاد ہوتا تو اس طرح کی بیکار سرخیاں نہیں لگاتے پھرتے.

    اردو جاننے والے ہندو اب گنتی کے رہ گئے ہیں. پھر اردو رسم الخط میں شائع ہونے والے اثبات کے قاری اور خریدار دونوں مسلمان ہیں. ایسے میں اشعر نجمی کو ذرا ہلکا ہاتھ رکھنا چاہیے، لیکن اگر یہی سب کرنا ہو تو پھر “سید امجد حسین” کس دن رات کام آئیں گے. سید صاحب کو پھر سے زندہ کریں اور پھر وہی گل افشانی گفتار کریں جو “پاکستانی فری تھنکرز گروپ” میں کیا کرتے تھے. مجھے یاد ہے سب ذرا ذرا تمھیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو. فنکار ایم ایف حسین کی طرح ہوتا ہے نہ کہ اطہر فاروقی اور اشعر نجمی کی طرح ، جو کمزور کی جیب کاٹنے پر تلے ہوئے ہیں لیکن خود کو رفو گر سمجھ رہے ہیں، حالانکہ ضرورت رفو کی ہے. کہنے والے اطہر ہیں اور چھاپنے والے رضوان، دونوں “فاروقی” ہیں لیکن کہتے ہوئے نہ اطہر کی “فاروقی حمیت” بیدار ہوئی نہ شائع کرتے ہوئے رضوان کی “رگ فاروقی” پھڑکی، ایسے میں کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ.

  • ہندو توا بمقابلہ غزوۃ الہند: نظریاتی کشمکش……(2) اوریا مقبول جان

    ہندو توا بمقابلہ غزوۃ الہند: نظریاتی کشمکش……(2) اوریا مقبول جان

    پورے ہندوستان کو کسی ایک مذہب کا وطن اور جاگیر تصور کرنے کا نظریہ گزشتہ پانچ ہزار سال کی ہندوستانی تاریخ میں صرف تین سو سال پہلے کی پیداوار ہے۔ برصغیر کے اس خطے کو اہلِ ایران اس لیے ہندوستان کہتے تھے، کہ یہاں سیاہ رنگ کے لوگ آباد تھے۔

    ’’ہند‘‘ کا لفظ سیاہ رنگ کے لیے فارسی میں استعمال ہوتا ہے۔ حافظ کا مشہور اور متنازعہ شعر یوں ہے اگر آں ترکِ شیرازی بدست آرد دلِ ما را بخال ’’ہندوش‘‘ بخشم سمرقند و بخارا را ترجمہ: اگر شیراز کا وہ ترک لڑکا میری طرف ملتفت ہو جائے تو میں اس کی گال پر موجود کالے تل کے بدلے سمرقند و بخارا کے شہر قربان کر دوں۔ اس مذہب کا قدیم ترین نام ’’سناتن دھرم‘‘ ہے، جو ان کی چار مذہبی کتابوں (1) رگ وید (2) سام وید(3) یجر وید اور (4) اتھروا وید میں ملتا ہے۔ اسی لئے آج کے کٹر ہندو اپنے آپ کو ہندو نہیں بلکہ ویدانتی کہتے ہیں۔

    کئی ہزار سال قبل سے تہذیبی طور پر آباد یہ خطہ، مختلف راجوں کے راجواڑوں میں ہمیشہ منقسم رہا ہے۔ ہر خطے اور علاقے کے اپنے اپنے دیوی دیوتا ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ لیکن ان سب کو ویدوں میں بنائے گئے تین بنیادی اوتاروں کی چھتری تلے سمجھا جاتا ہے یہ تینوں ہیں، برہما (تخلیق کا ذمہ دار)، وشنو (پالن ہار) اور شیو (تباہی نازل کرنے والا)۔ پورے بھارت میں آپ کو شیو کے مندر اکثریت میں نظر آئیں گے کیونکہ اسے جلد راضی ہو جانے والا اوتار سمجھا جاتا ہے جس کے بے شمار نام ہیں جیسے بھولے ناتھ، شنکر مہاراج وغیرہ۔ تین دیوتائوں کی اس بنیادی چھتری تلے جدید ترین دور کے کسی بھی شخص کو کسی بھی علاقے میں، دیوی یا دیوتا کا درجہ دے کر اس کی مورتی مندر میں سجا کر پوجا کی جا سکتی ہے۔

    جدید بھارت میں جو سب سے بڑا مندر تعمیر کیا گیا ہے وہ اکھشردھام مندر ہے، جو دلّی میں جمنا کے کنارے واقع ہے۔ ہندو اسے جدید تاج محل کہتے ہیں۔ میں جب 2007ء میں وہاں داخل ہوا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ مندر کے مرکز میں جس شخصیت کی مورتی سب سے بلند اور سونے میں جڑی ہوئی تھی وہ سوامی نرائن کی تھی جو اپریل 1781ء میں پیدا ہوا اور یکم جون 1831ء میں اُترپردیش میں فوت ہو گیا۔ لیکن اس کے بارے میں یہ تصور عام ہو گیا تھا کہ اس سوامی کو بھگوان نے ایسی ’’شکتی‘‘ عطا کی تھی کہ اس کے توسط اور وسیلے سے ایشور تک پہنچا جا سکتا ہے، مرادیں پوری کروائی جا سکتی تھیں۔ اس بات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہندو مذہب نے شروع دن سے ہی اپنے لیے ایک وسیع گنجائش رکھی ہے کہ بڑے بنیادی اوتاروں کے زیرسایہ آپ جس کسی کو بھی اپنے لیے ’’نجات دہندہ‘‘ اور ’’مرادیں پوری کرنے والے‘‘ سمجھتے ہیں، اس کا بُت مندر میں نصب کریں اور اس کی مورتی پوجا کر کے مرادیں مانگیں۔

    اسی تصور کے تحت ہندوستان میں جو کوئی بھی یہاں کے ذات پات میں اُلجھے ہوئے معاشرے کی اصلاح کرنے کے لیے ایک مصلح کی صورت اُٹھا، انہوں نے اُسے اوتار کا درجہ دیا اور اس کا بُت کسی مندر میں سجا کر اس کی پوجا شروع کر دی۔ تین بڑے علاقائی مذہب ہندوستان سے اُبھرے۔ جین مت جو قتل و غارت اور اہنسا کے خلاف اُبھرنے والا بہت مقبول مذہب تھا۔ اس کی تعلیمات میں گوشت انڈے تک کھانا بھی حرام تھا۔ ہندوئوں نے اس مذہب کے بانی مہاویر کو وشنو کے اوتار کا درجہ دیا اور اس کی تعلیمات پر خود بھی عمل کر کے گوشت، مچھلی، انڈے وغیرہ ترک کرنے کو اعلیٰ روحانی مقام کے حصول کا ذریعہ قرار دے دیا۔

    اس کی توجیہہ یہ نکالی کہ ’’مہاویر‘‘ دراصل وشنو سے متاثر تھا کیونکہ وشنو ’’ماس مچھی‘‘ نہیں کھاتا تھا۔ یہی سلوک ’’گوتم بدھ‘‘ کے ساتھ کیا گیا اور ’’گورونانک‘‘ تو ابھی کل کی بات ہے کہ اس کی تصویریں اُٹھا کر مندروں میں رکھی گیں، گروگرنتھ کا پاٹ شروع کیا گیا اور وہ ہندو جو گورونانک کو مانتے تھے وہ ’’بالمیکی‘‘ کہلانے لگے۔ اس کے برعکس ایسے تمام مذاہب جن کی ابتداء ہندوستان سے باہر ہوئی تھی وہ اس ویدانتی مذہب کی چھتری تلے نہ لائے جا سکے، جیسے عیسائیت، مسلمان اور پارسی۔ کیونکہ ان سب کی روایات، اقدار اور تہذیبی تاریخ بالکل اس خطے سے جدا تھی۔ اسلام تو اس لیے بھی ان سے بالکل الگ تھلگ رہا کیونکہ اس میں ہندومت والی وہ رنگینی، دیوی دیوتائوں کی دیو مالا اور رنگ و موسیقی کی چاشنی موجود نہ تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ صوفیاء نے اس خطے میں دین پھیلانے کے لیے مصلحت کے طور پر کچھ جگہ آسانیاں پیدا کیں جیسے قوالی، عرس اور دیگر تقریبات وغیرہ۔

    یہی وجہ ہے کہ آج بھی پورے بھارت میں مسلمان صوفیاء کے مزاروں پر مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندوئوں کا بھی بہت بڑا ہجوم ہوتا ہے۔ ہندو توا کا نظریاتی تصور اسی تقسیم پر مبنی ہے کہ جو شخص قدیم نسلوں سے تعلق رکھتا ہے، وہ یہاں رہنے کا حق دار ہے، خواہ وہ ہندو، یعنی سناتن دھرم کو ماننے والا ہو یا پھر ہندو اوتاروں کے مذاہب، جین مت والا یا بدھ مت کا پیروکار۔ تھوڑی سی رعایت وہ سکھوں کو بھی دیتے ہیں، لیکن نسلاً ہندوستان سے باہر آنے والے ہرگز یہاں کے باسی نہیں ہو سکتے ہیں۔ یہ دُنیا کا واحد مذہبی تعصب ہے کہ اگر آپ ان کا مذہب قبول بھی کر لیں پھر بھی آپ قابلِ قبول نہیں ہیں کیونکہ آپ یہاں کے نسلی باشندے نہیں۔ یہ تصور دراصل ویدانتی مذہب کے ذات پات کے ڈھانچے کی وجہ سے ہے۔

    وید کی تعلیمات انسانوں کو چار گروہوں میں تقسیم کرتی ہیں۔ سب سے پہلے مذہبی رہنما یعنی برہمن جو دیوتا ’’برہما‘‘ کے سر اور چہرے سے بنائے گئے۔ دوسرے حکمرانی اور جنگ کرنے والے ’’کھشتری‘‘ جو اس کے سینے سے بنائے گئے، تیسرے ’’ویش‘‘ جو کاروبار اور زراعت کرتے ہیں اور وہ پیٹ سے اور آخری ’’شودر‘‘ جو پائوں سے بنائے گئے تھے جن کا کام خدمت کرنا ہے۔ ان چاروں اہم ذاتوں سے جو لوگ وقت کے ساتھ ساتھ نکالے گئے، ایسے گروہوں کی حیثیت معاشرے میں شودروں سے بھی بدتر قرار دے دی گئی تھی، یہ ’’دِلت‘‘ کہلاتے ہیں۔ ان کو پانچواں ورنا یا ’’پنجمہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہ ناپاک ہیں ملیچھ ہیں۔ چونکہ اس پورے ذات پات کے نظام میں باہر سے آئے ہوئے مسلمان، عیسائی، یہودی اور پارسی افراد کہیں نہیں ٹھونسے جا سکتے اسی لیے انہیں بھارت دیش سے باہر پھینکنے کا نعرہ ہندو توا کا بنیادی نعرہ بن گیا، کیونکہ ایک راجپوت کھشتری جو مسلمان ہو چکا تھا وہ اگر واپس ہندو ہو جائے تو کھشتری بن جائے گا، لیکن اگر ایک مسلمان مغل ہندو مت قبول کر لے تو وہ پھر بھی ملیچھ کا ملیچھ ہی رہے گا۔

    کیونکہ وہ تو برہما کے سر، سینے، پیٹ یا پائوں کسی ایک سے بھی پیدا نہیں کیا گیا۔ لیکن ہندوتوا کے اس تصور کے ساتھ ساتھ بھارت میں ایک اور نرم خو (Soft) ہندوتوا، کا نظریہ بھی پروان چڑھایا جاتا رہا اور آج کل اس نظریے کو خصوصی وجہ سے ایک بار پھر اُٹھایا جا رہا ہے۔ یہ نظریہ بھی راشٹریہ سیوک سنگھ کے بہت بڑے پرچارک دین دیال اپھدیائے نے پیش کیا تھا۔ یہ شخص 23 ستمبر 1916ء کو پیدا ہوا اور جوانی سے ہی راشٹریہ سیوک سنگھ اور ہندوتوا کے نظریہ سے وابستہ ہو گیا، اس نے آر ایس ایس کا نظریاتی مینی فیسٹو ’’جن سنگھ‘‘ تحریر کیا اور یہ 1940ء سے مسلسل ایک رسالہ بھی نکالتا رہا، جس کا نام ’’راشترہ دھرما‘‘ تھا جو ہندونیشنلزم کا علمبردار تھا۔ (جاری ہے)

  • گلابی داغ – احسان کوہاٹی

    گلابی داغ – احسان کوہاٹی

    ’’یار یہ کم بخت شرٹ کہاں چلی گئی۔ کہا بھی تھا کہ پریس کر کے رکھ دینا، پریس نہ کرتیں، کم از کم نکال کر تو رکھ دیتیں۔‘‘ سیلانی الماری میں رکھے کپڑوں کو ادھر ادھر کرتے ہوئے بڑبڑائے جا رہا تھا، کپڑوں سے بھری الماری میں کوئی چیز تلاش کرنا گویا بھوسے کے ڈھیر میں سوئی تلاش کرنا تھی، اسے وہ شرٹ نہ ملنی تھی نہ ملی لیکن اس بہانے اسے اور بہت سے کپڑے مل گئے، جو اک عرصہ سے نظر التفات کے منتظرتھے، ان ہی میں کاٹن کا ایک سفید جوڑا بھی دکھائی دے گیال۔ سیلانی بڑبڑانے لگا بول بول کے ہونٹ لٹک گئے کہ جمعے کے روز سفید قمیض شلوار پریس کر دیا کریں، لیکن کم بخت جینز شرٹ سے جان ہی نہیں چھوٹتی، یہ سامنے سفید سوٹ پڑا ہوا ہے۔ سیلانی نے منہ بناتے ہوئے کپڑے استری کرنے کے لیے نکالے کہ اس پر پانی چھڑک کر پریس کرنا شروع کرے لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی، سفید قمیض پر بڑے بڑے گلابی داغ کہہ رہے تھے کہ اسے اسی طرح تہہ کرکے سلیقے سے الماری میں رکھ دیا جائے۔
    سیلانی نے مسہری پر پڑی قمیض اٹھائی اور ان داغوں کا بغور جائزہ لینے لگا، یہ داغ جانے والے نہ تھے، پکے رنگ کے پکے داغ تھے لیکن یہ لگے کب؟ سیلانی ماتھے پر بل ڈالے سوچ میں پڑ گیا لیکن کچھ یاد ہی نہیں آرہا تھا، پھر دفعتا اسے یاد آگیا کہ یہ داغ اسے سات برس پیچھے کراچی کے پوش کلفٹن میں خوشبوؤں اور رنگوں سے سجی ایک تقریب میں لے گئے، اقلیتی برادری کی اس تقریب میں وہ اس وقت ’’اقلیت‘‘ میں تھا، یہ ہندو برادری کی ہولی کی تقریب تھی۔ ظاہر ہے کہ اس تقریب میں اسے اقلیت ہی میں ہونا تھا بلکہ وہ ہی نہیں وہاں موجود اس کے دیگر صحافی دوست بھی اس وقت اقلیت میں تھے، وہ یہاں ہولی کی تقریب کی کوریج کے لیے مدعو تھے۔
    رنگوں بھری مہکتی یاد کیا آئی، اس کے لبوں پر بےساختہ مسکان آگئی اور وہ مسکراتے ہوئے یادوں کی اسکرین پر کراچی کے متمول علاقے کلفٹن کے ایک لان میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے تمتماتے ہوئے چہرے دیکھنے لگا، شرارتی بچے لان میں دوڑتے بھاگتے پھر رہے تھے، ٹین ایجر، منچلے، خوب سج سنور کر فلمی ہیرو بنے دکھائی دے رہے تھے، خواتین مہنگی ساڑھیوں اور بیش قیمت لباس پہنے ایک دوسرے سے سبقت لیے جا رہی تھیں، زلفیں کھولے لڑکیاں بالیاں بھی محفل کی رونق اور منچلوں کے دلوں کی دھڑکن بڑھا رہی تھیں، یہ رنگوں امنگوں اور خوشیوں کی تقریب تھی اور پھر شریک بھی شہر کے متمول لوگ تھے، رنگ تو جمنا ہی تھا اور رنگ ہی جم رہا تھا، اسٹیج پر سے رسمی تقاریر ہو رہی تھیں، جن پر کم ہی لوگ کان دھر رہے تھے، زیادہ تر لوگ اسٹیج کے نیچے لان میں ایک دوسرے سے گلے مل مل کر ہولی کی مبارک بادیں دے رہے تھے۔
    سیلانی کے لیے یہ کسی بھی ہولی کی تقریب میں شرکت کا پہلا موقع تھا۔ وہ بچے کی طرح دلچسپی سے یہ سب دیکھ رہا تھا اور اس وقت کا منتظر تھا جب تقریب میں رنگ اڑائے جانے تھے۔ سیلانی گلابی داغوں والی قمیض ہاتھ میں لیے پرانی یادوں سے محظوظ ہو رہا تھا، اسے یاد آیا کہ تقاریر کے طویل سلسلے کے بعد جب مہمانوں کو کھانا کھانے کی دعوت دی گئی تو وہ چمچ اٹھائے بریانی میں گوشت ڈھونڈتا ہی رہ گیا، وہاں میز پر سبزیاں دال بھاجی، کچوریاں اور طرح طرح کے اچار چٹنیاں تو تھیں، مگر گوشت نام کی کوئی چیز دکھائی نہ پڑ رہی تھی کہ ہندو گوشت سے دور ہی رہتے ہیں اور سیلانی کو سبزیاں دالیں ہمیشہ اتنی مرغوب رہی ہیں جتنی کہ رہنی چاہییں۔ مجبوری میں وہ جتنا کھا سکتا تھا، اس نے کھایا البتہ میٹھا خوب تھا، کھانا کھایا ہی جا رہا تھا کہ فضا میں رنگ بکھرنے لگے، نوجوان لڑکے لڑکیاں ہولی ہے کہہ کہہ کر بلاتفریق سب کو رنگوں میں رنگ رہے تھے، سیلانی نے نیا جوڑا پہناہوا تھا اور پہلی بار پہنا تھا، وہ ابھی اس ہولی سے بچنے کی تدبیر کر رہا تھا کہ پیچھے سے دو ہاتھ آئے اور اس کا چہرہ رنگ گئے، سیلانی نے پلٹ کر دیکھا تو ہندو نوجوانوں کی ایک ٹولی صحافیوں کو رنگنے میں مصروف دکھائی دی، سیلانی کی ان سے نظریں ملیں تو زوردار نعرہ لگا ہولی ہے اور سیلانی کندھے اچکا کر رہ گیا۔
    سیلانی کو آج بھی اچھی طرح یاد ہے کہ نجانے وہ کس نسل کا رنگ تھا، دفتر کیا گھر پہنچ کر بھی وہ صابن رگڑ رگڑ کر جلد کے مسام بھر بیٹھا لیکن رنگ نے اترنے کا نام ہی نہیں لیا، کپڑوں کا تو پوچھیے ہی مت، ہولی کی رنگ بھری یادیں اس کے ساتھ زیادہ دیر چھپن چھپائی نہیں کھیل سکیں، سیل فون کی گھنٹی کسی پیغام کی آمد کی اطلاع دینے لگی، سیلانی نے ہاتھ بڑھا کر سیل فون قریب کیا، ایک دوست نے ’’واٹس اپ‘‘ پر دو وڈیو کلپ ارسال کیے تھے، سیلانی نے ڈاؤن لوڈ کیے اور پھر ہولی کے رنگوں کی جگہ خون کے رنگ نے لے لی۔یہ دو بھارتی مسلمان بہنوں کے پیغام تھے، واٹس اپ پر سلیقے سے دوپٹہ اوڑھے ہوئے پہلی بہن بڑھی جذباتی انداز میں کہہ رہی تھی
    ’’بی جی پی والو تم سے اچھی تو کانگریس تھی، کم سے کم ہمیں اس طرح انکاؤنٹر کر کر کے مارتی تو نہ تھی۔۔ مسلمانوں سب ایک ہوجاؤ اور دکھاؤ کہ پچیس کروڑ ہو۔۔ مسلمانو! نکلو، سڑکوں پر اپنے حق کے لیے ایک ہو جاؤ۔ کہتے ہو کہ مڈبھیڑ ہوگئی مڈبھیڑ ہوگئی، کیسے ہوئی یہ مڈبھیڑ کہ پولیس کو ایک کھرونچ تک نہیں آئی۔‘‘
    دوسرا پیغام کار ڈرائیو کرتی ہوئی کسی بہن کا تھا، وہ کسی کھاتے پیتے گھرانے سے تعلق رکھنے والی معلوم ہوتی تھیں، وہ بہن کہنے لگی، کل کچھ نیوز دیکھے میں نے، دو تین سے نیوز دیکھ رہی ہوں میں، شریعت کے نام پر بہت سی بہنیں باہر نکلیں، مسلمان بہنیں جنہیں میں سلیوٹ کرتی ہوں، اور دلت پنجابی سکھ عیسائی بہنوں سے درخواست کروں گی کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے باہر آئیں، اپنے اپنے گھروں سے نکلیں، ہمیں اپنی موجودگی کااحساس دلانا ہوگا، بتانا ہوگا کہ ہم جانور اور چینوٹیاں نہیں ہیں، انسان ہیں۔ دوسری بات میں پرائم منسٹر جی ذرا کان کھول کر سن لیجیے کہ اس بھارت کو آپ کی نہیں آپ کو بھارت والوں کی ضرورت ہے۔۔ بھارت کے پردھان منتری بننے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ صرف ہندو قوم کے پردھان منتری ہیں‘‘۔
    یہ واٹس اپ پیغامات مہاراشٹر میں جیل سے نکال کر جعلی مقابلوں میں مارے جانے والے مسلمان نوجوانوں کے واقعے کے بعد کے تھے جس نے بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں میں خوف سراسیمگی پھیلا دی ہے، سیلانی سوچنے لگا کہ ایک پاکستان ہے، دہشت گردی کا بالواسطہ اور بلاواسطہ شکار ملک، جس میں ہندو شہریوں کی تعداد بمشکل دو یا ڈھائی فیصد ہے اور یہ شہری اس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جن کے بھائی بندوں نے بھارت میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رکھا ہے، جہاں مسلمان گھر کی چہار دیوار ی میں نہیں خوف کے حصار میں جی رہے ہیں کہ جانے کب کون سی ریاست ’’مودی کی گجرات‘‘ بن جائے جانے، کب کون سا شہر احمد آباد بن جائے اور انہیں گھروں کے دروازے بند کر کے عورتوں بچوں سمیت زندہ جلا دیا جائے۔۔ لیکن اس سب کے باوجود ’’انتہا پسند پاکستان‘‘ میں آج تک کبھی کوئی مندر نہیں جلا، آج تک کسی مندر میں بم دھماکہ نہیں ہوا، آج تک کسی ہندو قیدی کو جیل سے نکال کر گولیاں نہیں ماری گئیں، کسی مندر میں گائے کا سرکاٹ کر نہیں پھینکا گیا۔
    یہاں ہندو برادری کم تعداد میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اپنی زندگی اپنی مرضی سے جی رہی ہے، سندھ میں تو ہندو رہنما حکومت میں شامل ہیں، ان کے پاس وزارتیں ہیں، وہ جھنڈے والی گاڑیوں میں پولیس اسکواڈ کے ساتھ گھومتے پھرتے ہیں، وہ یہاں جائیدادیں زمینیں رکھتے ہیں، یہاں ان کے ہزار ہزار برس پرانے مندر ہیں، تھرپارکر، اسلام کوٹ، مٹھی میں ہندو برادری کی اکثریت ہے، یہاں السلام علیکم کہنے والے کم اور ہاتھ جوڑ کر پرنام کرنے والے زیادہ ملیں گے، اسلام کوٹ میں مساجد سے زیادہ مندر ہیں لیکن آج تک کبھی کسی مندر کے ساتھ بابری مسجد والا سلوک نہیں کیا گیا، اقلیتوں کی دلجوئی میں تو ہمارے لیڈر ان کے مندر میں جا کر پوجا پاٹ تک کر آتے ہیں، اور دوسری طرف بھارت ہے جو اپنے ملک کی سب سے بڑی ااقلیت کے لیے بھیانک خواب بن چکا ہے، اب تو مسلمان نوجوانوں کو جیلوں سے نکال کر مار دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ پولیس مقابلے میں مارے گئے ۔۔ بھارتیوں کو سب سے زیادہ ڈراؤنے خواب جماعۃ الدعوۃ کے حافظ محمد سعید کے آتے ہیں، بھارتی میڈیا انہیں ہندوؤں کا خونی دشمن بنا کر پیش کرتا ہے لیکن اسی حافظ محمد سعید کی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن تھرپارکر کے ہندؤں کے لئے پانی کے کنویں کھدوا رہی ہے ،اسپتال بنوا رہی ہے ،قحط میں راشن دے رہی ہے ۔
    پاکستان میں عیسائی برادری ہندؤں سے زیادہ بڑی ہے، ان کے گرجا گھر بھی زیادہ ہیں، چند ایک واقعات کو چھوڑ کر عیسائیوں کے خلاف کبھی کوئی واقعہ نہیں ہوا، یہ ہمارے معاشرے میں ہمارے ساتھ گھل مل کر رہتے ہیں، کھاتے پیتے ہیں اٹھتے بیٹھتے ہیں، دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں، سیلانی کو اپنے ہم جماعت کامران ڈیوڈ، مصدق طاہر چوہدری ابھی تک یاد ہیں،گھنی مونچھوں والا مصدق طاہر آج کراچی کے ایک ہوٹل میں منیجر ہے، اور اس سے آج بھی رابطہ اور ویسا ہی تعلق ہے جیسا برسوں پہلے زمانہ طالب علمی میں تھا،وہ کراٹے کے شوقین ندیم گل کو نہیں بھول سکتاجس کے ساتھ صبح سویرے جاگنگ کرتا تھاگندمی رنگ والا ندیم ایک فوجی کا بیٹا اور عیسائی خاندان سے ہی تعلق رکھنے والا نوجوان تھا۔
    بات کڑوی لیکن سچی ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں اکثریت سے زیادہ محفوظ ہیں، ہمارے اقلیتی ساتھی اکثر اقلیت ہونے کا ٹھیک ٹھاک فائدہ بھی اٹھا لیتے ہیں، کیا کوئی یقین کرے گا، اگر سیلانی یہ کہے کہ تھرپاکر میں جماعۃ الدعوہ کے اسپتال کے لیے خریدی گئی زمین کے ایک حصے پر با اثر ہندو سیاسی رہنما قبضہ کر چکا ہے، اس قطعہ اراضی کے سامنے ہی اس کی شراب کی فیکٹری ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ یہاں ایک مذہبی مسلمان تنظیم اسپتال بنائے اور جماعۃ الدعوۃ اس لیے خاموش ہے کہ اس سے بھائی چارے کی فضا خراب نہ ہو۔۔ماری پور کراچی میں ایک اقلیت کے کچھ دوست سرکاری اسکول پر قبضہ کرکے دو منزلہ نجی اسکول بنا بیٹھے ہیں اور اکثریت پریشان ہے کہ ہم کس سے بات کریں ۔۔ جتنی آزادی پاکستان میں اقلیتوں کو ہے، اس سے نصف بھی بھارتی مسلمانوں کو مل جائے تو وہ بھارت کے لیے بی جی پی سے آگے کھڑے ہوں لیکن ایسا ہو نہیں سکتا، بی جی پی تنگ نظر انتہا پسندوں کی وہ جماعت ہے جو بھارت میں صرف مندروں کی گھنٹیاں بجتے سننا چاہتی ہے، اسے گرجوں کے گھنٹوں کی آوازیں چبھتی ہیں، مسجدوں سے اذانوں کی آوازیں بےچین کرتی ہیں، سکھوں کے گوردوارے بےسکون کرتے ہیں اور دلت زہر لگتے ہیں ۔۔ یہی زہر بھارتی سرکار کی زبان سے بھی ٹپک رہا ہے اور یہی زہر کشمیریوں کا مستقبل ڈس رہا ہے، برصغیر کے امن میں سرایت کر رہا ہے، پاکستان کی اقلیتوں کو حقیقت میں پاکستان کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ سیلانی نے یہ سوچتے ہوئے گلابی رنگ سے داغدار قمیض اٹھائی اور اسے ایک طرف اچھال کر پرسوچ نظروں سے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

  • دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے – فیضان عبدالغنی

    دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے – فیضان عبدالغنی

    712 عیسوی سال تھا جب سترہ سالہ نوجوان محمد بن قاسم کی فوج نے تجربہ کار راجہ داہر کی فوج کو ان کے اپنے ہی ملک میں شکست دیکر یہاں اسلام کا پرچم لہرا دیا۔ محمد بن قاسم کے حسن انتظام اور حسن سلوک سے متاثر ہو کر سندھ کے بہت سارے خاندان مسلمان ہو گئے روایت یہ بھی ہے کہ راجہ داہر کا ایک بیٹا بھی مسلمان ہو گیا۔ یوں بقول قائداعظم برصغیر میں دو قومی نظریے کی بنیاد رکھ دی گئی۔ ظاہر ہے جس شخص نے بتوں کی پرستش کو چھوڑ کر ایک اللہ کو اپنا معبود مان لیا تو اس نے ان تمام رسوم و رواج اور تہذیب و ثقافت کو چھوڑ دیا جس پر وہ عمل پیرا تھا۔ اس نے اس نام تک کو ترک کر لیا جو اسے پیدائش پر دیا گیا تھا۔ یہی کچھ بر صغیر میں ہوا اور ایک نئے نظریہ زندگی نے جنم لے لیا جو موجود طرز زندگی سے با لکل مختلف تھا۔
    اسلام اور ہندومت دو مختلف سمتوں چلتی ہوئے دو قوموں کی صورت میں موجود رہے۔ مسلمانوں نے محمود غزنوی اور قطب الدین ایبک سے لیکر تا وقت اپنا تشخص برقرار رکھا کیونکہ ان کے پاس ایک دین، مذہب اور اصول تھے۔ اس کے برعکس ہندو مذہب مخص رسوم و رواج کا ایک مجموعہ ہی ہے وہ ہر اس چیز کو معبود بنا دیتے ہیں جو انکے فائدے یا نقصان کا باعث بنے۔ اسلام مساوات کا داعی ہے جسمیں کالے کو گورے اور عربی کو عجمی پر برتری نہیں۔ یہاں ہر انسان اپنے اعمال کی بنا پر عزت یا ذلت کا حقدار ہے۔ جبکہ ہندو مت میں عزت و ذلت خاندان اور ذات پات کی بڑائی پر ہے۔ صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود ہندو اور مسلمان اپنے اپنے مذہب اور رہن سہن پر مکمل طور پر قائم رہے۔ البیرونی اپنی مشہور کتاب، کتاب الہند میں1001میں لکھتے ہیں ہندوستان میں ہندو اور مسلمان صدیوں تک ساتھ رہنے کے باوجود دو الگ الگ دھاروں کی طرح اپنی اپنی راہ چل رہے ہیں جو کبھی کبھی ایک دوسرے کو چھو تو لیتے ہیں لیکن مدغم نہیں ہوتے۔ البیرونی کے صدیوں بعد بھی یہی صورتحال قائم رہی۔ اور ہندو اور مسلمان اپنے اپنے طرز زندگی پر قائم رہے۔ دراصل یہ معاملہ دو مذاہب کا تھا۔ سرسید احمد خان جو ایک عرصہ تک ہندو اور مسلمان کو ایک ہندوستانی قوم کے افراد سمجھتے رہے لیکن اردو ہندی تنازعے کے بعد نہ صرف یہ کہ انہوں نے اپنے خیالات بدلے بلکہ بڑی شدت سے ہندو اور مسلمان کو پہلی بار دو قوموں کے طور پر پیش کیا اور اعتراف کیا کہ ہندو اور مسلمان کبھی ایک قوم نہیں بن سکتے کیونکہ ان کے مذہب اور زندگی گزارنے کا طریقہ ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے۔ سید امیر علی اور کئی دوسرے اکابرین نے اس نظریے کی بڑی مدلل اور منطقی انداز میں تشریح کی۔ اقبال کی آواز قوم مذہب سے ہے نے برصغیر کے مسلمانوں کے شعور کو مزید جلا بخشی۔ قائد اعظم نے اس نظریے کو سیاسی طور پر اتنے مضبوط انداز میں پیش کیا کہ انگریز کو پاکستان کے مطالبے کے سامنے ہار ماننا ہی پڑی۔ قائد نے کہا مسلمان اقلیت نہیں وہ قوم کی ہر تعریف کے مطابق ایک قوم ہیں۔۱۹۳۷? میں قائد نے کہا کہ ہندوستان کبھی ایک ملک نہیں رہا اور نہ ہی اس کے رہنے والے ایک قوم۔ یہ بر صغیر ہے جس میں بہت ساری قومیں بستی ہیں جن میں مسلمان اور ہندو دو بڑی قومیں ہیں۔
    آج جب ہم ایک آزاد ملک میں آزاد شہری کی حیثیت سے رہ رہے ہیں تو کچھ ناشکرے اور احسان فراموش لوگوں کی دو قومی نظریے پر تنقید بھی سنائی دے دیتی ہے اور چند لوگوں سے منسوب اس بیان کی طرح کہ بنگلہ دیش کے قیام نے اس نظریے کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ میرے خیال میں تو یہ وہ بدقسمت لوگ ہیں جو تاریخ سے بالکل بے بہرہ ہیں ورنہ وہ جانتے کہ چوہدری رحمت علی نے پاکستان کے ساتھ ساتھ بنگال میں بانگ اسلام کے نام سے مسلم مملکت کا منصوبہ پیش کیا تھا اور ابھی بھی ان کا ایک منصوبہ تشنہ تکمیل ہے یعنی حیدر آباد دکن میں عثمانستان کا قیام۔ وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان میں پاکستان سے زیادہ مسلمان رہ گئے، وہ بھی اپنا ریکارڈ اگر درست کر لیں تو بہتر ہوگا کہ اس وقت مغربی اور مشرقی پاکستان میں مسلمان ہندوستان سے دوگنا تھے اور جو لوگ پاکستان نہ پہنچ سکے، وہ بھی مجبوراً وہاں رہ گئے اور آج بھی کوئی اچھی زندگی نہیں گزار رہے۔ وہ لوگ اب بھی ہندوستان میں دو قومی نظریے کے ثبوت کے طور پر اپنے مذہب اور طرز زندگی پر قائم ہیں، وہ آج بھی عید میلاد النبی اور عاشورہ محرم مناتے ہیں، دیوالی اور ہولی اب بھی ان کے مذہبی تہوار نہیں، ان کے مہینے آج بھی محرم، صفر اور ربیع الاول ہیں، ماگھ اور جیٹ نہیں، اگرچہ وہ ان ناموں کو استعمال کرتے ہیں لیکن ان کا کیلنڈر ہجری ہے ہندی نہیں، لباس کے معاملے میں بھی وہ ہندوؤں سے بالکل مختلف بلکہ متضاد ہیں۔ اور تو چھوڑیے طرز تعمیر ہی کو لیجیے جہاں روایتی طور پر ہندو تنگ اور ہوا بند گھروں میں رہتے ہیں، وہیں مسلمان کھلے اور ہوادار گھر بناتے ہیں، ان کے روایتی برتن اور ان کے رسم و رواج آج بھی یکسر مختلف ہیں۔ پیدائش، شادی اور موت ہر ہر طریقہ آج بھی ایک دوسرے سے جدا ہے۔ ماڈرن ازم کے نام پر رسم و رواج کے ہندو ملغوبے کو اگرچہ میڈیا سے دیکھ دیکھ کر ہم میں سے بھی کچھ لوگ اپنانے پر تلے ہوئے ہیں لیکن سنجیدہ طبقوں میں یہ سب کچھ آج بھی نا پسندیدہ ہے۔
    جو لوگ قوم کو مذہب سے الگ کر کے اس نظریے کو باطل ثابت کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ قومیں بنتی ہی مذہب کی بنیاد پر ہیں ورنہ آج امریکہ مسیحی صدر کی شرط نہ رکھتا اور اسرائیل میں بھی مسلمان صدر ہونا ممکن ہوتا۔ لہٰذا اس انتہائی نا معقول نظریے پر بجائے فخر کے ندامت ان کے لیے زیادہ موزوں ہے۔ بھارت میں مسلمان صدر بن جانا اس بات کی دلیل نہیں کہ اب وہاں دو قومیں نہیں بستی گجرات، بہار اور احمد آباد بھی بھارت ہی کے شہر ہیں جہاں مسلمان کے خون کی کوئی قیمت نہیں اور انہیں ان کی مسلمانی کی شدید سزا دی جاتی ہے۔ گائے کی تقدیس کے لیے اب بھی انہیں مجبور کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہ سوچ لینا کہ دو قومی نظریہ کوئی فرسودہ نظریہ ہے میرے خیال میں یہ خیال ہی فرسودہ ہے۔ دو قومی نظریہ آج بھی اتنا ہی جواز رکھتا ہے جتنا آج سے سو یا تریسٹھ سال پہلے رکھتا تھا۔ دو قومی نظریے نے ہی برصغیر کے عوام کو وہ توانائی عطا کی جس نے پاکستان کی بنیاد رکھی اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی پاکستان کے دشمن جب پاکستان کے خلاف سازش کرتے ہیں تو سب سے پہلے جو بھارت سے محبت اور دوستی کا ثبوت دینے کی کوشش اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ ہمارا کلچر یعنی ثقافت ایک ہے اور اس کے لیے چھوٹی چھوٹی علاقائی مماثلتوں کا سہارا لیا جاتا ہے جیسے پتنگ بازی۔ اب اگر سوچا جائے تو پتنگ بازی تو چین میں بھی ہوتی ہے چائے پاکستان سمیت پوری دنیا میں پی جائے تو کیا ساری دنیا کو ایک ہی ملک تصور کر لیا جائے گا۔ بات آج بھی وہی ہے جو البیرونی نے ہزار سال پہلے کہی تھی کہ مسلمان اور ہندو دھارے ایک دوسرے کو چھوتے ضرور ہیں آپس میں مدغم نہیں ہوتے۔
    ایک دوسرے کے ساتھ دوستی کے معاہدے یا دوستی کی کوشش میں کوئی حرج نہیں لیکن ایک تو اپنی غیرت ملی کی قیمت پر نہیں یعنی اتنا نہ جھکا سر کو کہ دستار سر سے گر پڑے اور دوسرے اپنی قومی شناخت کی قیمت پر بھی نہیں۔ آخر میں میں اس اہم ترین تقسیم کا ذکر کرونگی جو رب کائنات نے کی ہے یعنی مسلمان ایک ملت ہے اور غیر مسلم دوسری ملت۔ اور یہی حقیقت بر صغیر میں بھی ہے کہ مسلمان ایک قوم اور ہندو دوسری قوم ہے۔

  • شراب پر پابندی کا تاریخی حکم، کب کیا کیسے ہوا؟ سید جواد شعیب

    شراب پر پابندی کا تاریخی حکم، کب کیا کیسے ہوا؟ سید جواد شعیب

    سید جواد شعیب سندھ ہائیکورٹ نے شراب پر پابندی کا جب حکم دیا تو میں کمرہ عدالت میں موجود تھا، فیصلہ سن کر کانوں کو یقین نہ آیا، لیکن بار بار غور سے سننے اور عدالت میں موجود کچھ سرکاری و غیر سرکاری قانون دانوں اور صحافیوں سے دریافت کیا کہ جو میں نے سنا، کیا وہ ہی عدالتی حکم ہے، جواب ہاں میں ملا تو یقین آیا۔
    مملکت خداد پاکستان میں شراب نوشی اور شراب خانوں سے شراب کی کھلی عام فروخت سے متعلق تین درخواستیں سندھ ہائیکورٹ میں کافی دنوں سے زیر سماعت تھیں۔ یقین اس لیے نہیں آ رہا تھا کیونکہ ایک سماعت کے دوران درخواست گزار کی استدعا تھی کہ مسجد مدرسہ اور اسکول کے قریب مسلم آبادی میں شراب خانہ موجود ہے، اسے بند کروایا جائے تو چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ اس وکیل سے دریافت کر رہے تھے کہ قانون بتائیں کہ کس قانون کے تحت لائسنس شدہ شراب خانہ بند کرنے کا حکم دیاجائے۔ عدالت نے پولیس سے رپورٹ طلب کی، امن عامہ کے مسائل اور معاشرتی خرابیوں کا ذکر بھی کیا لیکن سمجھ نہیں آرہاتھا کہ لائسنس شدہ شراب خانہ بند کیسے کیا جائے۔ یہ اس لیے بھی مشکل ہو رہا تھا کہ فریق مخالف یعنی شراب خانے کے مالک کی وکالت کر رہے تھے ملک کے چوٹی کے وکیل جناب فاروق ایچ نائیک ایڈووکیٹ، جن کا اصرار تھا کہ شراب خانے کا لائسنس 1997ء میں جاری ہوا اور قانونی شراب کی فروخت کو روکا نہیں جاسکتا۔
    یہ معاملہ تھا کراچی کے علاقے ابراہیم حیدری میں قائم ایک شراب خانے کا، عدالت نے اس سے رپورٹ منگوائی، قانون کی تلاش شروع کی، وکیلوں سے معاونت کا کہا، ایک کے بعد دوسرے اور پھر تیسرے شراب خانے کے خلاف درخواست آئی تو معاملہ ایک اور رخ اختیار کرگیا۔ سندھ ہائیکورٹ نے ڈی جی ایکسائیز کو طلب کیا اور دریافت کیا کہ سندھ بھر میں کتنے شراب خانوں کو لائسنس جاری کئے گئے، اور لائسنس کے اجراء کا طریق کار کیا ہے؟ ساتھ ہی عدالت نے الیکشن کمیشن سے ضلع جنوبی میں بسنے والی اقلیتی برادری کی آبادی کا ریکارڈ بھی طلب کیا، اور سماعت کے لیے 18 اکتوبر کی تاریخ مقرر کر دی۔ مقررہ تاریخ کو سماعت شروع ہوئی تو عدالت کے سامنے رپورٹ پیش کی گئی۔ ڈی جی ایکسائز نے کراچی کے علاقے ڈیفنس، کلفٹن میں موجود گیارہ شراب کی دکانوں کی خرید و فروخت اور اسٹاک کی تفصیلات پیش کیں اور ہم عدالت میں موجود چیف جسٹس جناب جسٹس سجاد علی شاہ کے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھتے رہے، اچانک چیف جسٹس نے حدود آرڈیننس 1979ء کا سیکشن 17 نکالا اور ڈی جی ایکسائز سے استفسار کیا کہ قانون پڑھ کر بتائیں کہ شراب خانے کے لائسنس کا اجرا کیسے کیا جا سکتا ہے۔ چیف صاحب بولے کہ کیا کسی شراب کی دکان کے لائسنس کے اجراء سے پہلے کسی پنڈت یا کسی بشپ سے پوچھا گیا کہ آپ کے کس مذہبی تہوار کے لیے شراب کتنی اور کب درکار ہے۔ دکھائیں ہے کوئی دستاویز۔ چیف جسٹس کا یہ کہناتھا کہ ڈی جی ایکسائز جناب شعیب صدیقی ہکا بکا رہ گئے اور بولے جناب یہ تو پریکٹس ہی نہیں، ان سے پوچھنے کا کوئی پروسیس نہیں۔ چیف جسٹس نے شدید برہمی کا اظہار کیا اور وہ یمارکس دیے جو سن کر میں خود دم بخود رہ گیا۔
    چیف جسٹس کہہ رہے تھے کہ حدود آرڈیننس 1979ء کے سیکشن 17 کے تحت اقلیت کو بھی صرف ان کے مذہبی تہوار پر شراب کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ چیف صاحب بولے جا رہے تھے اور میں نوٹ کرتا جا رہا تھا. چیف صاحب نے پوچھا کہ شراب کی دکانیں سال کے 365 دن کس قانون کے تحت کھلی رہتی ہیں؟ پنڈتوں اور بشپ کو بھی بلا کر پوچھیں گے کہ ان کا مذہب کب اور کن تہواروں میں شراب کی اجازت دیتاہے؟ ایسے میں شراب خانوں کے مالکان کی وکالت کے لیے موجود وکلاء نے جب کچھ آئیں بائیں شائیں کرنے کی کوشش کی تو چیف جسٹس نے انہیں جھاڑ پلادی، اور بولے کہ بومبے (بمئی) کا قانون یہاں نہیں چل سکتا۔ ڈی جی ایکسائز بولے کہ 1979ء سے پہلے ایسے ہی لائسنس جاری ہوتے تھے۔ چیف صاحب نے کہا کہ 1979ء کے بعد کیسے ہوسکتے تھے؟ یہ سب غیر قانونی ہیں۔ وکلاء پھر بولے کہ ہمارے مؤکل کا کاروبار ہے، لائسنس کی فیس دی ہے، ہمیں سناجائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ شراب بیچنے اور پلانے کے لیے پوری سہولت دی گئی ہے، لائسنس فیس بھی معمولی رکھی گئی ہے تاکہ شراب عام ہوسکے۔ اسمبلیاں موجود ہیں، اگر شراب عام ہی کرنی ہے تو اسمبلیاں قانون بنا دیں، پھر ہم بھی دیکھیں گے کہ قانون کیسے بنتا ہے۔ چیف جسٹس نے وکلاء کو کہا کہ جو وکلاء شراب خانوں کی وکالت کے لیے آئے، آئندہ قرآن و حدیث پڑھ کر آئیں۔ قرآن میں شراب پینے کو ممنوع اور حدیث میں شراب پینے پلانے اور اس کی راہ ہموار کرنے والے مسلمانوں پر لعنت بھیجی گئی ہے۔
    چیف جسٹس نے کہا کہ رپورٹ کے مطابق کراچی میں 120 شراب خانے اور صرف ضلع جنوبی مں 24 شراب خانوں کے لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ الیکشنں کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ضلع جنوبی کراچی میں اقلیتوں کی آبادی بیس ہزار ہے۔ ضلع جنوبی میں جتنی دکانیں اور شراب کی خرید و فروخت بتائی گئی، بیس ہزار اقلیتی شہری اگر شراب سے نہا بھی لیں، تب بھی ختم نہیں ہوگی۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ہندوؤں اور عیسائیوں کا محض نام استعمال کیا جاتاہے، اصل کہانی اور ہی ہے۔ بےچارے ہندو اور عیسائی اتنی مہنگی شراب افورڈ ہی نہیں کرسکتے۔ اقلیتوں کو بدنام نہ کیا جائے۔ پنڈتوں اور بشپ کو بلا کر بھی پوچھا جائےگا کہ ان کی مقدس کتابیں کیا سارا سال شراب پینے کی اجازت دیتی ہیں۔ قانون کے مطابق اقلیتوں کو ہولی، دیوالی اور کرسمس یا کسی اور مذہبی تہوار سے صرف پانچ دن پہلے شراب کی فراہمی کے لیے میکینزم بنایا جا سکتا ہے۔ عدالت نے حکم دیا کہ سندھ بھر مں شراب خانوں کے لائسنس واپس لے کر آج ہی ان کی فہرست جاری کی جائے۔ آئی جی سندھ کو حکم دیا گیا کہ فوری طور پر تمام شراب خانوں کو بند کر دیا جائے۔عدالت نے ڈی جی ایکسائز کو حکم دیا کہ اقلیتی برادری کے مذہبی پشواؤ ں سے دریافت کیا جائے کہ کن کن مذہبی تہواروں پر اقلیتوں کے لیے کتنی شراب کی ضرورت ہے۔ عدالت نے حکومت سندھ، آئی جی سندھ اور ڈی جی ایکسائز سے عملدرآمد کے بعد جواب بھی طلب کرلیا۔
    یہاں سوال یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں سالہا سال غیر قانونی شراب خانے کھولے جاتے رہے، اقلیتوں کے نام پر مسلم آبادی میں شراب کا کاروبار چمکتا اور پروان چڑھتا رہا لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی، کسی نے سوچا نہ نوٹس لیا کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس کی کوئی قانونی، اخلاقی یا مذہبی گنجائش ہے بھی کہ نہیں؟ سوال یہ بھی ہے کہ جو پارلیمان قانون سازی کرتی ہے، اس کے قانون کی عملداری کو جانچنے کا بھی کوئی مکینزم ہے کہ نہیں؟ سوال اسمبلیوں میں بیٹھے ان منتخب قانون سازوں سے بھی بنتا ہے کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی رہیں اور آپ آنکھ موندے رہے؟ سوال یہ بھی ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں اقلیت کے نام پر شراب سے استفادہ مسلمان اٹھاتے رہے اور حکومتیں اس کے لیے سہولت کاری کا باعث بنتی رہیں۔
    اگر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ حدود آرڈیننس اور شراب خانوں کے اجراء کے لیے سیکشن سترہ سامنے نہ لاتے تو شراب ہمارے معاشرے میں سرایت کرتی جاتی، جس کی اسلام میں سختی سے ممانعت ہے۔ کہتے ہیں کہ شراب پی کر انسان دنیا و مافیہا سے بےخبر ہوجاتاہے تو کیا مملکت خداداد پاکستان کے کرتا دھرتا سارے ہی ایسے ہیں جو کسی نہ کسی نشے میں دھت اپنی بدمست زندگی کو عیش وعشرت کے ساتھ گزارنے کے لیے پورے معاشرے کو بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔
    مجھ سمیت یقینا ہر حساس پاکستانی کے دل میں سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا سندھ ہائیکورٹ کے اس حکم کے بعد شراب کی دکانیں بند ہوجائیں گی؟ کیا اقلیت کے نام پر شراب جیسے حرام نشے کی لعنت سے ہم اپنے معاشرے کو محفوظ رکھ سکیں گے؟ کیا واقعی عدالتی احکامات کے باوجود آئندہ پھر شراب کی دکانیں کسی قانون یا قانون ساز کے سہارے کھول دی جائیں گی؟ جب ہندوستان میں ریاستیں شراب پر پابندی لگا رہی ہیں، حال ہی میں بہار میں پابندی زیر بحث رہی ہے تو یہ کون لوگ ہیں جو مسلمانوں کو اس کی نذر کرنا چاہتے ہیں؟ اور سب سے اہم سوال کہ کیا 1979ء سے اب تک جاری کیے گئے شراب خانوں کے لائسنس جاری کرنے والوں اور قانون کو پاؤں تلے روندنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے گا؟ یا یہ عدالتی حکم کسی اور عدالت سے جاری کسی حکم امتناع کی نذر ہوجائے گا۔ آنے والے دنوں میں یہ سب واضح‌ ہو جائے گا۔
    (سید جواد شعیب جیونیوز کراچی سے وابستہ ہیں اور سینئر کورٹ رپورٹر ہیں)

  • مسلمانوں کی ہندوؤں سے مماثلت – کاشف جانباز

    مسلمانوں کی ہندوؤں سے مماثلت – کاشف جانباز

    ہمیں آزادی مل گئی ہماری بلند بختی ہے لیکن جن ہندوؤں سے ہم علیحدہ ہوئے، ان کی ایک ایک عادت ہمارا تمدن بن کے رہ گئی ہے. بلکہ اس سے بھی کہیں آگے رواج اور مذہب تک ان کی مماثلت کو اختیار کر لیا گیا ہے.
    مسلمانوں کی بھی کچھ عادات ہندو مذہب کے لوگوں نے اختیار کیں لیکن مسلمان جو اس دین کو ماننے کے دعویدار ہیں، جو آفاقی ہے، جو لاثانی ہے، جو پوری انسانیت کی فلاح کا پیغام لے کر آیا ہے. جو دنیا تو بدل سکتا ہے لیکن دنیا اسے نہیں بدل سکتی، لیکن ہماری ستر سالہ آزاد قوم کی کیا ہی بات ہے کہ ہم نے اس ناممکن امر کو بھی سچ کر دکھایا ہے.
    ہندو مذہب میں موسیقی ان کے عقیدے کا اہم ترین جزو ہے اور ہم نے اسے روح کی غذا ٹھہرا دیا ہے، جبکہ وہ ہندو ہیں اور ہم مسلمان ہیں.
    ان کے برہمن کا درجہ سب سے اعلی اور برتر ہے خواہ وہ زمانے کا بدترین شخص ہی کیوں نہ ہو، بعینہ ہمارے ہاں بعض لوگوں کو یہ درجہ حاصل ہے جو تمام تر جرائم سے مستثنی ٹھہرتے ہیں..
    حالانکہ جس مطہر شخصیت پر اس دین کو اتارا گیا، جو اس کے امین اور پوری انسانیت کے لیے رحمت اللعالمین بن کر آئے، انہوں نے ایسی تمام تر لکیروں کو مٹا دیا تھا کہ کسی کو کسی پر کسی طور فوقیت حاصل نہیں ماسوائے تقوی کے یعنی جو جتنا متقی وہ اللہ کا اتنا ہی مقرب بندہ ہوگا، اگر حسب ناموں سے حدائق بخشش کی الاٹمنٹ ہوتی تو محبوب سبحانی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کتنے ہی عزیزوں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچا لیتے.
    ہندو معاشرے میں عورت کو کبھی کتے کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے اور کہیں بندر کے ساتھ بیاہ دیا جاتا ہے.
    اور ہمارے معاشرے میں بھی ایک وقت تک کچھ اسی طرح کی مشق ہوتی رہی کہ جب وڈ وڈیروں کا اپنی برادری میں کسی رشتہ کا بندوبست نہ ہو پاتا تو بیٹیوں کو قرآن پاک کی منکوحہ بنا دیا جاتا گوکہ اب یہ پریکٹس مفقود ہوگئی ہے لیکن ایک وقت تک اس کا بہت چرچا تھا.
    شادی کے موقع پر ہلدی، مایوں، سہرا، ڈانڈیا یہ وہ اور جانے کیا کیا، یہ سب وہاں کی پیداوار ہیں اور اب یہاں مستعمل ہو چکی ہیں.. کہاں وہ اگنی کے گرد سات پھیرے لے کر ماتھے میں سندور بھرنے والے اور کہاں یہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی اک اک ادا پر جان وارنے کے دعویدار جن کے مرشد کی بیٹی کا نکاح ہوا تو اس کی سادگی دنیا کے لیے مثال بن گئی.
    ریسیپشن کے نام پر بدنام زمانہ ٹولیوں کو بلوا کر رقص و سرور کی محفلیں سجانا مسلمانوں کے سوا تو سب کو زیب دے سکتا ہے لیکن بحیثیت مسلمان یہ تمام تر امور ہماری مسلمانی پر سوالیہ نشان بن کر ابھرتے ہیں. کیونکہ ہمارے ہاں رشت ازدواج کلام الہی اور طرز رسول پر مبنی ہوتا ہے اور نکاح نامی عبادت سے قبل اللہ رب العزت کے قانون کی دھجیاں بکھیر کر اس کا نام لے کر جوڑا جانے والا رشتہ برکت سمیٹے تو کیسے، پھلے پھولے تو کس طرح، مؤمن گھرانہ جنم لے تو کیسے؟
    ہندو معاشرے میں گیتا اور وید قسموں تک محیط ہے، شادی کے موقع پر اچھے شگون کے لیے اس سے جڑی طرح طرح کی رسمیں بھی کی جاتی ہیں اور ہم بحمدللہ مسلمان بچی کو قرآن کی تعلیم ٹھیک طرح سے دی ہو یا نہ دی ہو، اسے قرآن کے سائے میں رخصت کرکے خود کو بری الذمہ سمجھتے ہیں..
    یہ قرآن گھروں میں گونجنے اور معاشرے میں پھیلنے کے لیے آیا ہے، اس میں زندوں میں ارتعاش بھرنے کے نسخے ہیں اور ہم اسے قسموں، رٹوں اور قبروں کی زینت بنا چکے ہیں.
    اُن کے ہاں مختلف دیوتاؤں کی تصاویر آویزاں ہوتی ہیں اور ہم نے بھی کچھ کو فریم کروا کر گھروں میں ٹانگ رکھا ہے.
    وہ کاروبار میں ترقی کے لیے لوہے کو مبارک سمجھتے ہیں اور ہم نے اپنی گاڑیوں اور دکانوں کے ماتھوں پر برکت کے لیے لوہے کے کُھر ٹانگ رکھے ہیں.
    ہندو بھی اک مخصوص دھوئیں کو خیر کا موجب سمجھتے ہیں اور لوبان کا دھواں ہمارے ہاں بھی دکانوں میں بڑے شوق سے پھروایا جاتا ہے.
    بدشگونی ہندو مذہب کا اہم ترین حصہ ہے جبکہ اسلام اس کی مکمل نفی کرتا ہے لیکن ہمارے ہاں اس بد شگونی کے کانسیپٹ کو بڑی عجلت سے اپنایا گیا ہے، شام کو یہ نئیں کرنا، فلاں وقت کسی کو کوئی چیز نہیں دینی، فلاں جگہ ناخن نئیں تراشنے، یہ بندہ منحوس، وہ جگہ منحوس، وغیرہ وغیرہ.
    کسی کے فوت ہو جانے پر تیا ساتا اور چالیسواں اسلام میں کہیں نہیں ہے، غم ضرور ہے تین روز کا لیکن اس میں بھی صبر کی بلا قسم کی تلقین کی گئی ہے، اس طرح سال کے سال برسی کا اہتمام کرنا بھی اسلامی تعلیمات میں کہیں نہیں ملتا، یہ سب بہت بعد کی رسمیں ہیں جو دیکھا دیکھی اپنائی گئیں۔
    ان کے ہاں ”گاٶ ماتا“ کی تقدیس بڑی ہی معنی خیز جس کی پیروی میں وہ اس کا ”گوبر اور موتر“ تک حلق سے اتار جاتے ہیں.
    جبکہ ہم بھی تہی دست نہیں، رسومات ہمارے ہاں مستعمل ہو چکی ہیں.
    اک اور رسم جو آج ہماری معاشرے میں سرایت کر چکی ہے جس میں ہمارا آزاد میڈیا کا کردار پیش پیش ہے، ہندوؤں کا کوئی مر جائے تو لواحقین سمیت تمام تعزیت کرنے والے سفید لباس پہنے ہوتے ہیں، اور اب ہمارے ہان بھی اکثر میتوں میں اس ٹریند کو فالو کیا جاتا ہے بالخصوص ہر پاکستانی ڈرامہ اس کی پریکٹس کرتا نظر آتا ہے۔
    ہمارے پڑوسی دیوالی کے موقع پر پٹاخوں سمیت آتش بازی کا اخیر قسم کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ ہم مسلمان شب برات میں شرلیاں چھوڑنے اور پٹاخے پھوڑنے میں انہیں بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے علماء نہ صرف اس امر سے منع کرتے ہیں بلکہ وعیدیں بھی سناتے ہیں لیکن اس کے باجود ہر سال پچھلے سال سے بڑھ کر بارود جلایا جاتا ہے کیونکہ عوام یا تو انہیں عالم تسلیم نہیں کرتی یا ہم لوگ خود کو ان علماء سے بڑا عالم سمجھنے کا زعم پال چکے ہیں۔
    اسی طرح ہندوؤں کے ہاں بھی ایک بھگوان کا سرسری سا تصور موجود ہے لیکن ہر ایک نے اپنی الگ الگ ماں اور دیوتا بنایا ہوا ہے، کوئی ہنومان کا بھگت ہے تو کوئی کرشنا کا پجاری، کسی کی کالی ماں ہے، تو کسی امبے دیوی ہے۔
    جبکہ ہم اہل اسلام اس پختہ عقیدے کے متولی ہیں کہ یہ جو جہاں ہمارے سامنے ہیں اور وہ جہاں جو ہم سے بصارت کے اعتبار سے اوجھل ہیں یا علم کے اعتبار سے دور ہیں، ان تمام جہانوں میں موجود تمام تر مخلوقات پر حاکمیت اور تصرف فقط ذات واحد اللہ کے اختیار میں ہے.. موت، حیات، رزق، تنگی، فراخی، حاجت روائی، مشکل کشائی سمیت ہر کام جس میں مخلوق بے بس ہے وہ اللہ سوہنے کے كُن کا محتاج ہے.. اب ہم نے مختار کل اللہ کو تسلیم تو کرلیا لیکن ہم نے بھی اپنے اپنے سہارے پکڑ لیے، اللہ کے ہر چیز پر قادر ہونے کی چِپ ہمارے دماغ میں بلٹن ہے پھر بھی مشکل کے وقت ہم بجائے مسجد کے بجائے کہیں اور دوڑ لگاتے ہیں…
    منت دونوں قوموں میں ایک بڑی ہی مشترک چیز ہے، ہندومت میں منت کا پرسیپشن تو جو ہے سو ہے لیکن منت کے پورا ہوجانے کے بعد کی اوچھی حرکتیں بھی قابل ذکر ہیں، کوئی ننگے پاؤں دور دراز کا سفر طے کرکے مندر جاتا ہے، کوئی الٹے پیر سیڑھیاں چڑھتا ہے، اور بھولے کا پرساد دیتا ہے ،عین اسی طرح مسلمان جن کی منتیں تو اصولا اللہ سے جڑی ہونی چاہییں، ان کی منتوں کے بھی عجب تیور ہیں، منت بر آئے تو فلاں کی کھیر، فلاں کے چھلے، کہیں جھاڑو دینا کہیں ماتھا ٹیکنا اور جانے کیا کیا۔
    ہندو مت میں جادو ٹونا ستاروں کا چلن ہاتھ کی ریکھاؤں کے نشیب و فراز کو خاص حیثیت حاصل ہے.
    رشتۂ ازدوج سے قبل بالخصوص اور عمومی معاملات میں بالعموم مہورت نکلوایا جاتا ہے کہ کون سی گھڑی شُبھ رہے گی اور کون سی اشبھ تاکہ منحوس گھڑی سے فرار حاصل کیا جا سکے…
    جبکہ اسلام ہر ایسے علم کی نفی کرتا ہے جسے مستقبل جاننے کے لیے بروئے کار لایا جائے، واضح احادیث اور آیات قرآنی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ہم بھی ماتھے اور ہاتھ کی لکیروں کو دکھا کر اپنا مستقبل جاننے کے بہت مشتاق رہتے ہیں، کبھی علم ابجد سے تو کبھی کسی اور علم سے، اب تو اخبارات اور مارننگ شوز میں باقاعدہ ستاروں کی چال چلن کا الگ سے کھاتہ مختص ہوتا ہے…
    جبکہ مارننگ شوز والے پالمسٹ کو بلوا رکھتے ہیں جو ہندوؤں کی طرح مسلمانوں کی کنڈلیاں کھول کھول کر سناتے ہیں اور مسلمان بڑے انہماک سے نہ صرف سنتے ہیں بلکہ یقین بھی رکھتے ہیں…
    اسی طرح نیا گھر یا نئی دکان لینے کے بعد ہندومت میں پوجا پاٹ کا رواج ہے، ہم مسلمانوں نے بھی اس کی تقلید میں ایک عمل ایجاد کیا جو اب ہمارے ہاں اتنا مقبول ہے کہ کوئی اس کے خلاف بولے تو کفر کا فتوی لازم ٹھہرتا ہے.
    ویسے ہم مسلمانوں کےلیے ہندوؤں سے اتنی ہی مماثلت بہت ہے، ورنہ ابھی بھی کریدا جائے تو ہم میں تم میں قرار کی مزید صورتیں نکل آئیں گی، اور میری اپنی مسلمانی بھی مشکوک ہوجائے گی، اس لیے اسی پر اکتفا کرتے ہیں.
    باقی بحمداللہ ہم مسلمان ہیں. کیا ہوا جو ہمارے کچھ اعمال ہندوؤں سے مماثلت رکھتے ہیں، ایسے بھلا قیامت تھوڑی آ جانی ہے.

  • اصل چہرہ-محمد اظہار الحق

    اصل چہرہ-محمد اظہار الحق

    izhar
    یہ ایک دلدوز منظر تھا۔ اتنا دل دوز کہ دیکھنے والے کا کلیجہ باہر آنے لگتا تھا۔
    وہ چار تھے۔ تن پر صرف پتلون نما چیتھڑے تھے۔ ہر ایک کی کمر کے گرد رسی تھی۔ رسی کا دوسرا سرا سامنے کھڑی گاڑی سے بندھا تھا۔ پہلے انہیں بھارتی ریاست کے قصبے اونا کی گلیوں میں پھرایا گیا۔ پھر ایک ایک اونچی ذات کا ہندو آتا اور لکڑی کے بہت چوڑے ڈنڈے کے ساتھ ان کے پیچھے ضرب لگاتا۔ ایک آیا۔ پھر دوسرا‘ پھر تیسرا‘ پھر چوتھا۔ وہ مار کھا کھا کر گر جاتے۔ پھر انہیں اٹھایا جاتا‘ اور مزید افراد آ کر مارتے۔
    یہ دلت تھے۔ اچھوت۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ گائے پہلے سے مری ہوئی تھی۔ ان پر الزام لگا کہ انہوں نے گائے کو مارا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مرے ہوئے جانوروں کی کھال اتارنا ان کا پیشہ ہے۔ یہ لوگ صدیوں سے یہی کام کر رہے ہیں۔ مگر مودی کے گجرات میں ہندو دھرم اپنی نئی آفتوں کے ساتھ زور پکڑ رہا ہے۔ ”گائے بچائو‘‘ جتھے بنے ہوئے ہیں جو شہروں‘ قصبوں اور بستیوں میں گشت کرتے ہیں۔ شائبہ بھی پڑ جائے تو بغیر تحقیق یا تفتیش کیے‘ ”مجرموں‘‘ کو سزا دینا شروع کر دیتے ہیں۔
    مگرگجرات کے اچھوتوں نے ہڑتال کر دی۔ انہوں نے بہت سے مردار سرکاری دفتروں کے آگے ڈال دیے اور کہا کہ گائے تمہاری ماں ہے‘ خود سنبھالو۔ سینکڑوں ہزاروں مردہ جانور پڑے پڑے گلنے سڑنے لگے۔ پھر حکومتی کارندوں نے چمار خاندانوں کی منتیں کیں۔ مگر شیوسینا کے مار دھاڑ کرنے والے جتھوں کو کچھ نہ کہا گیا۔ یہ سب مودی کے چہیتے ہیں۔
    اُتر کھنڈ بھارتی پنجاب کے مشرق میں واقع ہے۔ چند دن پہلے وہاں گندم پیسنے کی چکی میں ایک اچھوت سوہن رام کی گندم پیسی جا رہی تھی۔ اوپر سے ماسٹر للت آ گیا۔ وہ اونچی ذات کا تھا۔ اس نے سوہن رام کو گالیاں دینا شروع کر دیں کہ چکّی کو پلید کر دیا۔ سوہن رام نے احتجاج کیا۔ ماسٹر للت کے ہاتھ میں تیز دھار درانتی تھی۔ اس نے سوہن رام کی گردن پر زور سے چلا دی۔ سوہن رام وہیں مر گیا۔
    یہ صرف دو واقعات ہیں۔ بھارت میں ہر روز ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اچھوتوں کی آبادی بھارت کی کل آبادی کا سولہ فیصد ہے یعنی تقریباً سترہ کروڑ! مگر قیاس یہ ہے کہ حکومتی مشینری یہ تعداد کم سے کم بتاتی ہے۔ گمان غالب یہ ہے کہ اچھوت بائیس اور پچیس کروڑ کے درمیان ضرور ہوں گے یعنی بیس فیصد۔ ان کے حقوق کوئی نہیں۔ صرف فرائض ہیں۔ بھارت میں آبادی کی اکثریت کے گھروں میں بیت الخلا کا رواج نہیں۔ بستیوں کے اردگرد جب غلاظت کے انبار آخری حدوں کو چھونے لگتے ہیں تو اچھوت انہیں ٹھکانے لگاتے ہیں۔ گلیاں صاب کرتے ہیں۔ مردہ جانوروں کی انتڑیاں سنبھالتے ہیں۔ کھالیں اتارتے ہیں۔ ہر گندا اور گھٹیا کام کرتے ہیں۔ پچانوے فیصد سے زیادہ اچھوت مکمل ان پڑھ ہیں۔ یہ فیصلہ صرف اونچی ذات کے ہندو کرتے ہیں کہ اچھوت کون کون سے کام کریں گے اور کون کون سے نہیں کریں گے۔ کہاں رہیں گے‘ کس کس کو پانی پکڑا سکتے ہیں؟ کس کس کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں‘ شادیاں کہاں کہاں اور کس کس کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ غرض ان کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اونچی ذات کے ہندوئوں کے ہاتھ میں ہے۔
    بھارت ذات پات کے مکروہ نظام میں سر سے پائوں تک جکڑا ہوتا ہے۔ ہندو عقیدے کے مطابق دیوتائوں کے مُونہہ سے برہمن نکلے۔ بازوئوں سے لشکری اور بادشاہ برآمد ہوئے۔ رانوں سے تاجر اور کسان نکلے۔ رہے شودر تو انہوں نے پائوں سے جنم لیا۔ منوں کی تعلیمات آج بھی بھارتی یونیورسٹیوں میں سنسکرت کی ڈگری کورس کا حصہ ہیں۔ ان تعلیمات کے مطابق اچھوت‘ سابق زندگی کے گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ پڑھنا لکھنا بھی جرائم میں شامل ہے۔ اونچی ذات کے کسی ہندو کی توہین کی سزا درد ناک اور اذیت ناک موت ہے۔ اونچی ذات کے ہندو جو چاہیں اچھوتوں کے ساتھ کریں‘ پولیس مداخلت نہیں کرتی۔
    مودی کا گجرات صوبہ‘ جسے مثالی صوبہ کہا جاتا ہے‘ اس ضمن میں بدترین ریکارڈ رکھتا ہے۔ پورے بھارت میں اگر کہیں خوفناک ترین سلوک اچھوتوں کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے تو وہ گجرات ہے۔
    جس ملک کی بیس فیصد آبادی اچھوتوں پر مشتمل ہو اور وہ ترقی کے دائرے سے ہر امکانی حد تک باہر ہوں‘ وہ ملک حقیقت میں کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ چالاک بھارت نے اپنے چہرے کا یہ ڈرائونا حصّہ دنیا سے چھپایا ہوا ہے۔ سکارف باندھنے والی عورتوں کے غم میں دُبلے ہونے والے مغربی ملکوں کے لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ بھارت میں بیس کروڑ افراد جانوروں سے بدتر زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی اکثریت انسانی غلاظت کو ہاتھوں سے صاف کر رہی ہے۔
    کیا پاکستان اس ضمن میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے؟ نہیں! پاکستان پر لازم ہے کہ ظلم کی چکی میں پسنے والے آدم کے ان بیٹوں کی دستگیری کرے اور دنیا کو آگاہ کرے کہ آئی ٹی میں ترقی کے دعوے کرنے والی دنیا کی یہ سب سے بڑی ”جمہوریت‘‘ اپنے بیس بائیس کروڑ لوگوں کے ساتھ کیا کر رہی ہے۔ کس طرح ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جا رہا ہے۔ انہیں مارا پیٹا جاتا ہے۔ بنیادی حقوق سے وہ محروم ہیں۔ سکول اور ہسپتال کے الفاظ ان کی ڈکشنریوں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتے۔ مردہ جانوروں کی کھالیں اتارنے کا انہیں حکم دیا جاتا ہے اور پھر کھالیں اتارنے کی سزا دی جاتی ہے۔ وہ گندم جو کھیتوں میں اگتی ہے‘ جب اچھوت کے گھر میں پہنچتی ہے تو پلید ہو جاتی ہے۔ پھر وہ اس چکی میں پیسی تک نہیں جا سکتی جس میں اونچی ذات کے ہندوئوں کی گندم کا آٹا بنتا ہے!
    حیرت ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی بات کرنے والے مودی کو‘ پاکستانی حکومت کا کوئی وزیر‘ وزیر اعظم‘ ڈپلومیٹ یہ نہیں کہتا کہ تم اپنی آبادی کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہو؟ پہلے ان کے حقوق کی بات کرو!
    پاکستان کے دفتر خارجہ پر لازم ہے کہ ایک مستقل شعبہ اپنے ہاں‘ بھارت کے اچھوتوں کی دیکھ بھال کے لیے قائم کرے۔ پھر اسے ہر لحاظ سے مستحکم کرے۔ پاکستان کا ہر سفارت خانہ‘ لازماً‘ بھارت کے اچھوتوں کا احوال دنیا کو بتائے اور ان کے حقوق کے لیے آواز اٹھائے۔
    پاکستانی میڈیا اس سلسلے میں اپنا کردار نہیں ادا کر رہا۔ کیا ہمارے اینکر پرسنوں کو‘ ان کے پروڈیوسروں کو اور مالکان کو سرحد پار دہکا ہوا یہ جہنم نظر نہیں آتا؟ اس پر خصوصی پروگرام نشر ہونے چاہئیں جن میں اعداد و شمار اور حقائق کی مدد سے دنیا بھر کے ناظرین کو بھارت کا اصل روپ دکھایا جائے۔ دلت لیڈروں اور ترجمانوں کو ٹیلی فون لائن پر لے کر ان کا موقف دنیا تک پہنچایا جائے۔
    پاکستان کی فلاحی تنظیمیں اگر چاہیں بھی تو بھارتی حکومت انہیں اچھوت آبادی میں کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ اس کا حل یہ ہے کہ یہ فلاحی تنظیمیں بین الاقوامی اداروں سے رابطہ کریں اور ان کے ذریعے اچھوتوں تک پہنچنے کی کوشش کریں۔ حیرت ہے کہ انجلینا جولی اور بل گیٹس جیسی مشہور شخصیات نے‘ جو فلاحی کاموں کی وجہ سے دنیا بھر میں معروف ہیں‘ بھارت کے بیس کروڑ اچھوتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ کیا انہیں معلوم کہ اچھوت حاملہ عورتیں مر جاتی ہیں لیکن بچوں کو جنم دیتے وقت ڈاکٹروں کی توجہ سے محروم رہتی ہیں کیونکہ ڈاکٹر انہیں ہاتھ لگانا گوارا نہیں کرتے۔ سخت گرمی اور کڑکتی دھوپ میں کوئی اچھوت پانی کا گھونٹ پینے کے لیے نلکے کو ہاتھ لگا دے تو وہیں مار دیا جاتا ہے!
    بھارت مشرق وسطیٰ کے ملکوں کے ساتھ قربت کی پینگیں بڑھا رہا ہے۔ ان ملکوں میں مخیّر عربوں کی کثرت ہے۔ وہ ہر سال کروڑوں ریال خیراتی کاموں پر صرف کرتے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ مشرق وسطیٰ کے ان ملکوں کو بھارت کے اچھوتوں کے حالِ زار سے آگاہ کرے تاکہ وہ ان کی مدد کے لیے اقدامات کریں۔

  • ہندو اپنے مردے کیوں جلاتے ہیں؟ معظم معین

    ہندو اپنے مردے کیوں جلاتے ہیں؟ معظم معین

    معظم معین ا سیکولر دوستوں کا کہنا ہے کہ ہم جیسے چاہیں جیییں جیسے چاہیں مریں ہماری مرضی اور اس کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے ساتھ بھی محبتاں سچیاں کی پینگیں بڑھائیں تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہندوؤں کی آخری رسومات کا ہی کچھ ذکر کر دیا جائے۔ کہتے ہیں کہ جو جس سے محبت کرتا ہے اسی کے ساتھ اس کا انجام ہوتا ہے۔ سنا ہے تاریخ کے کئی سپر الٹرا سیکولر لوگ وصیت بھی کر چکے ہیں کہ انہیں سپرد خاک کے بجائے سپرد آگ کیا جائے۔ اس وصیت پر عمل ہوا یا نہیں یہ تو نہیں معلوم مگر مستقبل کے ہمارے پیارے سیکولرز اگر چاہیں تو غور کر سکتے ہیں۔ اس سے انہیں کم از کم دنیا میں نہیں تو مرتے وقت ہی بدصورت مولویوں کی صورت سے نجات مل جائے گی جس کی تمنا وہ ساری عمر کرتے رہتے ہیں۔
    مردوں کو حوالہ آگ کرنے کی تاریخ بہت پرانی بتائی جاتی ہے، اتنی ہی پرانی جتنی انسانی گمراہیوں کی تاریخ پرانی ہے۔ پرانے زمانے میں لکڑیاں جمع کی جاتی تھیں، انہیں سلگایا جاتا تھا اور بچے ان میں پتا جی کی چتا کو رکھ کر آگ میں پتا جی کے بار بی کیو بننے کا عمل لائیو دیکھتے تھے۔ کئی فلموں میں بھی سیڈ سونگ کے پس منظر میں یہ سین فلمایا جاتا تھا جسے دیکھ دیکھ کر نرم دل خواتین خون کے آنسو بہاتی تھیں جبکہ سخت دل مرد مگرمچھ کے۔ مگر پھر جب دنیا ماڈرن ہوئی اور اس عمل سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہونے لگا اور جنگلات کو خطرہ محسوس ہوا تو اس کام کے لیے بھی جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جانے لگی۔ اب برقی انگیٹھیاں اور جدید بھٹیاں incinerator میدان میں آ چکی ہیں اور اب مردے کو سپرد آگ کرنے کا یہ فریضہ گھنٹوں سے کم ہو کر منٹوں میں انجام دیا جا سکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں کئی کمپنیاں آپ کو مردہ جلانے کی خدمات مہیا کرتی ہیں۔ جدید آٹو میٹک مشینوں میں ماہر کاریگروں کی زیر نگرانی cremation کا سارا عمل طے پاتا ہے اور پسماندگان کو صرف ایک بٹن دبانا ہوتا ہے۔ چند لمحوں میں خود کار نظام کے تحت پتا جی کی چتا ایک طرف سے برقی بھٹی میں داخل ہوتی ہے، نو سو سے ایک ہزار ڈگری سنٹی گریڈ کے درجہ حرارت والی بھٹی میں گزرتی ہے اور پھر دو سے تین گھنٹوں میں دوسری طرف سے ڈیڑھ دو کلو گرام کی راکھ بچوں کو موصول ہو جاتی ہے۔ بقیہ پتا جی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں تبدیل ہو کر فضا کے حوالے ہو جاتے ہیں۔ جھٹ پٹ کام ہو جاتا ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا! دوسری جنگ عظیم کے دوران بھی کام آنے والے ہزاروں انسانوں کو کم وقت میں ٹھکانے لگانے کے لیے ”مہذب“ قوموں نے یہی طریقہ اختیار کیا تھا۔
    ہندوؤں کے نزدیک انسان کا جسم پانچ چیزوں کا مرکب ہوتا ہے ہوا، پانی، آگ، زمین اور آسمان۔۔۔ وفات پا جانے والے کی میت کو ان تمام چیزوں کی طرف لوٹانا ضروری ہے تاکہ وہ دوبارہ کسی دوسرے جسم کا روپ دھار کے اس دنیا کی طرف لوٹ سکے۔
    ابراھیمی مذاہب یعنی اسلام، عیسائیت اور یہودیت انسان کی میت کو صرف دفنانے کی تعلیم دیتے مگر سیکولر یا ماڈرن ہونے کے بعد اب کئی عیسائی بھی اپنے مردوں کو ٹھکانے لگانے کے لیے اس جدید ٹیکنالوجی سے کام لے رہے ہیں۔ ہندوؤں کی علاوہ جین مت، سکھ، اور بدھ بھی اپنے مردوں کی چتاؤں کو جلاتے ہیں۔ البتہ سادھؤں اور شیر خوار بچوں کو ہندو بھی جلانے کے بجائے زمین میں دفناتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں معصوم بچوں اور سادھؤں کے گناہ نہیں ہوتے کہ انہیں جلا کر پاک پوتر کرنا پڑے۔ پارسی (آتش پرست) اپنے مردوں کے لیے سب سے برا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔ وہ دفناتے ہیں نہ جلاتے ہیں بلکہ ایک بلند مینار (silent tower) پر چھوڑ آتے ہیں جہاں پر لاش بھوکے گدھوں اور کووں کی خوراک بنتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب انسان کے جسم میں بدروح حلول کر جاتی ہے تو وہ مر جاتا ہے یعنی موت نام ہے جسم میں شیطانی روح کے حلول کر جانے کا۔ وہ آگ پانی اور زمین کو مقدس جانتے ہیں چنانچہ مقدس اشیاء سے بری شے کا چھونا مناسب نہیں لہذا لاش کو دفنایا جا سکتا ہے نہ جلایا اور نہ پانی میں غرق کیا جا سکتا ہے۔ اس کا صرف ایک حل ہے کہ لاش کو کھلی فضا میں چھوڑ دیا جائے اور وہ وہاں قدرتی طور پر قدرت کے کارندوں کا نوالہ بن جائے۔
    امریکا میں میتوں کو جلائے جانے کے رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ وہاں کل فوت شدگان کا تقریبا نصف آگ کی نذر کر دیا جاتا ہے۔ پچاس سال پہلے یہ تعداد نہ ہونے کے برابر تھی۔ اس اضافے کی بڑی وجہ تدفین کے بڑھتے ہوئے اخراجات بتائے جاتے ہیں۔ چین اس فہرست میں سر فہرست ہے جہاں یہ تعداد پینتالیس لاکھ سالانہ سے متجاوز ہے۔ جاپان میں ننانوے فیصد مردے جلائے جاتے ہیں جو کہ دنیا میں سب سے زیادہ تناسب ہے۔
    اسلام مردہ انسان کی بھی اسی طرح عزت کرنے کا حکم دیتا ہے۔ عزت و اکرام کا سلوک کرنے کاہدایت ہے۔ اسے نہلا دھلا کر صاف کپڑے میں کفنا کر خوشبو وغیرہ لگا کر عزت سے اس کی نماز جنازہ ادا کرنے کا حکم ہے اور اسے فرض کفایہ قرار دیا ہے۔ دشمنوں کی بھی لاشوں کا مثلہ کرنے یا بے حرمتی کی اجازت نہیں۔ قرآن مجید میں اس ضمن میں بڑا واضح بیان ہے۔ اللہ رب العزت سورہ المائدہ میں فرماتے ہیں کہ جب حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا تو وہ بڑا فکر مند ہوا کہ اب میں اپنے اس مقتول بھائی کی میت کا کیا کروں۔ اسے کچھ سمجھ نہ آئی تو اللہ تعالی نے ایک کوا بھیجا۔ ارشاد ہوتا ہے:
    ”پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے۔ یہ دیکھ کر وہ بولا افسوس مجھ پر! میں اس کوے جیسا بھی نہ ہو سکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتایا۔“ (المائدہ آیت 31)
    یہ تبصرہ ہے قرآن کا ان لوگوں کے بارے میں جو اپنے مردہ بھائیوں کے متعلق یہ تک نہیں جانتے کہ وہ کیا کریں کہ وہ کوے سے بھی گئے گزرے ہیں۔