Tag: گھر

  • گھر بنا جنت . ‎ ارم نفیس

    گھر بنا جنت . ‎ ارم نفیس

    ایک خوبصورت سا گھر تھا، جہاں محبت اور اعتماد کی خوشبو ہر دیوار سے جھلکتی تھی۔ احمد، ایک محنتی اور خوش مزاج شخص، اپنی بیوی زینب اور دو بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس گھر میں احمد کے والد بھی رہتے تھے، جو خاندان کے سب سے تجربہ کار اور محبت کرنے والے فرد تھے۔

    ان کی باتوں میں حکمت اور دل میں اپنے بچوں کے لیے بے پناہ شفقت تھی۔ اس گھر کا سب سے خوبصورت منظر وہ ہوتا جب شام کے وقت سب مل کر کھانے کی میز پر بیٹھتے۔ یہ معمولی وقت نہیں تھا، بلکہ محبت، قربانی، اور رشتوں کے احترام کا لمحہ ہوتا۔ دستر خوان پر طرح طرح کے کھانے سجے ہوتے، لیکن جو چیز سب سے زیادہ قیمتی تھی وہ خلوص اور اپنائیت تھی، جو ہر ایک کے دل میں بسی تھی۔

    احمد ہر شام دفتر سے تھکا ہارا گھر واپس آتا، مگر جیسے ہی وہ گھر کے دروازے پر قدم رکھتا، اپنے بچوں کی مسکراہٹ اور زینب کی محبت بھری نظر اس کی ساری تھکن مٹا دیتی۔ زینب اپنے گھر اور بچوں کی تربیت میں مصروف رہتی، مگر وہ جانتی تھی کہ احمد کی محنت ہی اس خاندان کو سہارا دیے ہوئے ہے۔ اس لیے جب بھی وہ گھر آتا، وہ خوش دلی سے اس کا استقبال کرتی۔ ان دونوں کی زندگی کا اصول تھا کہ زندگی میں چاہے جتنی بھی مشکلات ہوں، کھانے کا وقت سب ساتھ گزاریں گے۔

    کھانے کے دوران احمد کے والد اپنی زندگی کے تجربات سناتے۔ وہ قصے جو زندگی کی حقیقتوں کو بیان کرتے تھے، بچوں کے لیے دلچسپی کا باعث ہوتے، اور ہر قہقہے میں پیار کی خوشبو بستی۔ زینب اپنی بیٹی کو زندگی کے اصول سکھاتے ہوئے کہتی،

    “محبت وہ چیز ہے جو انسان کو مضبوط بناتی ہے۔ اگر ہم محبت اور اعتماد کے ساتھ جئیں تو ہر مشکل کا سامنا کر سکتے ہیں۔”

    ان کے لیے یہ کھانے کا وقت صرف جسمانی غذا کا نہیں بلکہ روحانی سکون کا بھی ذریعہ تھا۔ مضبوط خاندان محبت، اعتماد، اور قربانی کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں۔ جب افراد ایک دوسرے کے جذبات کو سمجھتے ہیں اور مل کر مسائل کا سامنا کرتے ہیں، تو نہ صرف خاندان بلکہ پورامعاشرہ مستحکم ہوتا ہے۔ یہ فلسفہ اس گھر کے ہر فرد کے دل میں رچا بسا تھا۔

    ایک دن احمد دفتر میں کسی پریشانی کی وجہ سے بہت پریشان ہوا۔ وہ گھر آیا تو اس کا چہرہ تھکن اور دل بوجھل محسوس کر رہا تھا۔ کھانے کی میز پر بیٹھتے ہی وہ خاموش ہو گیا، جیسے کوئی بڑی بات اسے اندر سے پریشان کر رہی ہو۔ زینب نے فوراً اس کی خاموشی کو محسوس کیا۔ وہ جانتی تھی کہ ان کے تعلق کی بنیاد اعتماد اور سمجھداری پر ہے۔ اس نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما اور کہا،

    “ہم سب تمہارے ساتھ ہیں۔ جو بھی مسئلہ ہو، ہم مل کر سامنا کریں گےمحبت، اعتماد، اورقربانی ہی ہمارے تعلقات کی اصل بنیاد ہیں۔”

    ان الفاظ میں اتنی طاقت تھی کہ احمد کے دل کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کا خاندان اس کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہ رشتے جنہیں وہ عام سمجھتا تھا، درحقیقت زندگی کی سب سے بڑی دولت ہیں۔ وہ جانتا تھا کہ محبت اور تعاون سے ہر مسئلے کا حل نکلتا ہے۔ مضبوط خاندان ہی مستحکم معاشرے کی بنیاد ہوتے ہیں۔ جب لوگ ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہیں، محبت بانٹتے ہیں، اور قربانی دینے کو تیار رہتے ہیں، تو زندگی کی ہر آزمائش آسان ہو جاتی ہے۔ مضبوط رشتے نہ صرف ایک فرد بلکہ پوری قوم کی طاقت ہوتے ہیں۔ اس لیے ہر انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے خاندان کو محبت، اعتماد، اور قربانی کے دھاگے سے باندھے۔

    حقیقی خوشی اور کامیابی پیسے یا دنیاوی چیزوں میں نہیں، بلکہ ان رشتوں میں ہے جنہیں ہم اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔ یہی رشتے، یہی محبت، اور یہی قربانی ہمیں انسانیت اور معاشرتی استحکام کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔

  • معذور –  حمیراعلیم

    معذور – حمیراعلیم

    پاکستانی معاشرے میں خواتین یا شاید خود مرد بھی یہ کیوں چاہتے ہیں کہ انہیں معذوروں کی طرح ٹریٹ کیا جائے؟اس سوال کی وجہ ہر جگہ حتی کہ ڈراموں فلموں میں بھی اس بیوی، بہن،بیٹی، ماں کو اچھی خاتون ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرنا ہے جو صبح اٹھنے سے لے کر رات سونے تک اپنے گھر کے ہر مرد کا ہر کام کرتی ہیں۔

    بیڈ ٹی، کپڑے نکالنا ، تولیہ دینا، موزے، ٹائی، آزار بند ڈھونڈنا، بیڈ سائیڈ پر گھڑی والٹ رکھنا، شوز پالش کرنا، ناشتے کی میز پر انڈہ، پراٹھا پلیٹ میں چائےپانی کپ گلاس میں ڈالنا، ان کے اسکول، کالج، یونیورسٹی، آفس ، جاب کاروبار پر جانے کے بعد گندے کپڑے، تولیہ اٹھانا، چپل اسٹینڈ میں رکھنا،برتن کچن میں رکھنا دھونا، بستر بنانا، صفائی کرنا،ان کی واپسی پر بیگ، لنچ باکس لینا رکھنا، جوتے لے کر چپل صوفے پر بیٹھے مرد کو دینا، کھاناپیش کرنا ؛ بس نوالے چبا کر منہ میں ڈال کر انگلی سے حلق میں اتارنے کی کسر رہ جاتی ہے، ان کے قیلولہ کے وقت سارے بچوں کو خاموش رکھنا انہیں کمرے سے باہر رکھنا، شام میں ٹی وی کا ریموٹ سینٹر ٹیبل سے اٹھا کر صوفے پر بیٹھے مرد کو پکڑانا، ساتھ میں چائے، کافی، جوس اور اسنیکس پیش کرنا، رات کو پھریہی سب کام کرنا۔

    یہ سب تو دنیا بھر میں معذور اشخاص بھی خود ہی کرتے ہیں۔ مگر آفرین ہے ہم پاکستانیوں پر جواچھے خاصے تندرست مردوں کو بھی معذوروں کی طرح ٹریٹ کرتے ہیں۔ انہی مردوں کے گھر کی خواتین بھی پڑھتی ہیں، جاب بزنس یا کوئی اور کام بھی کرتی ہیں بچوں کو پالتی پڑھاتی ہیں۔گھر کی دیکھ بھال،صفائی، لانڈری ، بچوں کی پڑھائی اور اس کے ساتھ ساتھ مردوں کے سب کام بھی کرتی ہیں۔اور ایسے معذور مردوں کے گھر کی خواتین دو دن کے لیے کہیں چلی جائیں یا خدانخواستہ بیمار ہو جائیں تو سارا گھر تلپٹ ہو جاتا ہے۔کیونکہ مردوں کو تو نہ یہ معلوم ہے کہ گھر کے کام کیسے کرنے ہیں نہ ہی اپنی چیزوں کا پتہ ہے کہ کہاں ہیں ۔لہذا بیماری میں بھی انہیں آرام نہیں ملتا۔

    اور جونہی کوئی اپنے گھر کے مردوں کو صحت مند لوگوں کی طرح ٹریٹ کرے۔اس عورت کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔کیونکہ بقول پاکستانیوں کے زنانیوں والے کام مردوں سے کروائے جا رہے ہوتے ہیں۔حالانکہ زنانیاں مردوں عورتوں والے سب کام کر رہی ہوتی ہیں تو کسی کو پرواہ ہی نہیں ہوتی۔دیہاتوں میں گھر کے ہر کام سے لے کر کھیتی باڑی، مویشیوں کی دیکھ بھال، پانی بھرنا یا کسی بھی سمال انڈسٹری کے گھریلو یونٹ میں بھی زیادہ تر کام عورت ہی کرتی ہے۔ شہروں میں یہی کام جاب بزنس یا گھر سے آن لائن کام میں بدل جاتے ہیں۔ میرے خیال میں تو ہر کام ہر شخص کی ذمہ داری ہے سوائے ان فرائض کے جو اللہ نے مرد عورت کی تخصیص کے ساتھ بتا دئیے۔کفالت کمائی مرد کا اور بچے پیدا کرنا پالنا عورت کا کام ہے۔

    اگر ایسا نہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی نہ اپنے کپڑے دھوتے، نہ جوتے مرمت کرتے، نہ بکریوں کا دودھ دہوتے، نہ بیگمات کو سبزی بنا کر دیتے، نہ آٹا گوندھ دیتے، نہ آگ جلا دیتے ، نہ پانی بھر دیتے ۔ ان سب کاموں کے کرنے کے بعد اپنی مردانگی دکھانے کے لیے اور اپنا درجہ اوپر شو کرنے کے لیے طعنے بھی ضرور دیتے کہ بھئی میں نہ صرف تم سب کی کفالت کر رہا ہوں بلکہ سارے کاموں میں مدد بھی کر رہا ہوں۔میرے کام تو نو بیگمات مل کر بھی نہیں کر سکتیں۔میں اکیلا نو کے ساتھ گزارہ کر رہا ہوں۔ اور تو اور نو بیگمات، غلام لونڈیوں کے ہونے کےباوجود کبھی کھانا نہ ملتا تو لڑنے کی بجائے چپ چاپ روزہ رکھ لیتے۔

    کیا یہی سب کام ہم اپنے مردوں کو نہیں سکھا سکتے؟؟؟؟ کیا یہ سب سنتیں نہیں ہیں۔مجھے یقین ہے بہت سے گھرانوں میں مرد سب نہیں تو چند سنتیں تو ضرور پوری کر ہی رہے ہوں گے۔اور جب یہی مرد بیرون ملک پڑھنے کام کرنے یا کسی فارن نیشنل لڑکی سے شادی کے لیے جاتے ہیں توگھر کا ہر کام کر لیتے ہیں کیونکہ وہاں امی، باجی،بیگم، بیٹی ساتھ نہیں ہوتیں اور میڈ افورڈایبل نہیں۔اور فارن نیشنل بیوی کو عادت ہوتی ہے اپنے کام خود کرنے کی۔تو بندہ خدا پاکستان میں یہ سب کرنے میں کیا مسئلہ ہے؟ ہمارے خاندان میں بھی بہت سے معذور ہیں۔لیکن الحمدللہ زیادہ تر گھر کے ہر کام میں طاق ہیں۔ اور عورتوں کے ساتھ سارے کاموں میں مدد کرتے ہیں۔

    یقین مانیے نہ ان کی مردانگی میں کمی ہوتی ہے نہ ہی عزت میں۔ کوشش کیجئے آپ بھی اپنے گھر کے مردوں کو صحت مند رہنے دیں۔اور بھائی لوگ آپ خود بھی کچھ ہل جل لیں تاکہ آپ کے گوڈوں گٹوں میں پانی نہ پڑے۔

  • میں قربان(6) – فرح رضوان

    میں قربان(6) – فرح رضوان

    وسیم کی چھٹیاں باقی تھیں، اس لیے ابھی وہ پاکستان میں ہی تھا جب نو گیارہ کا سانحہ ہوا. اس نے بین الاقوامی سیاسی حالات بھانپتے ہوئے فی الوقت امریکہ واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا، اور صابرہ کو رخصت کروا کے ایک چھوٹے سے گھر میں لے آیا. صابرہ نے تو امریکہ کے کسی گھر کا خواب سجا لیا تھا ،لیکن اس میں شوہر سے دوری اور تنہائی بھی شامل تھی، لہٰذا یہ سودا برا نہ تھا -فلم ہوتی تو دو دلوں کے ملن پر ہیپی اینڈنگ کا سائن آجاتا لیکن زندگی کا ایک نیا باب شادی کے بعد شروع ہوتا ہے.
    ————–

    منیبه کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کے شوہر کو کاروبار میں نقصان سے اتنا صدمه پہنچے گا کہ بات بات پر اپنے دوستوں سے لڑنا شروع کر دے گا. وقاص نے بہت کوشش کر کرا کے امریکہ کے بجاۓ کینیڈا شفٹ ہونے کے لیے پیپرز اور خاصی تگڑی فیس جمع کروا دی تھی، جبکہ منیبه کو امید تھی کہ شاید اب وہ نمازیں پڑھ کر اپنے رب کو منانے کی طرف آجاۓ گا ،اس سال روزے رکھ لے گا ،شاید وہ فلمیں جو اسے دیکھنے پر آمادہ کرتا رہتا ہے، ان سے باز آجائے گا .لیکن اس کی امیدوں پر پانی تب پڑا جب رمضان آئے اور گزر گۓ لیکن ایک روزہ ایک نماز بھی وقاص نہ کما سکا. منیبه چوروں کی طرح اٹھتی اور تنہا سحری کرلیا کرتی. پھر جب سے بچے بھی روزے رکھنے کے قابل ہوئے تو وہ بھی باپ کی ڈانٹ سے بچنے کے لیے چپکے چپکے سحری کرتے. وقاص دن میں دھڑلے سے منیبه سے فرمائشیں کر کر کے کھانے بنوا کر بچوں کے سامنے ہی کھاتا، اور ٹوکنے پر خفا ہوجاتا کہ “میں نے کہا ہے کہ روزے رکھو! اللہ کی خوشی کے لیے رکھتے ہو تو مجھ پر احسان نہ رکھا کرو.” خاندان میں افطار پارٹیاں ہوتیں، مردوں کی جماعت کھڑی ہوتی، تو یہ دیدہ دلیری سے الگ بیٹھ جاتا. کوئی بزرگ ساتھ آنے کہتے تو انھیں ٹال دیتا.کسی جمعہ کو منیبه نرمی سے کہتی کہ نماز پڑھ لیا کریں، بیٹے کو ساتھ لے جایا کریں، تو وہ کسی آتش فشاں کی مانند پھٹ پڑتا، اور بالکل بات چیت بند کردیا کرتا. ان کے گھر میں معافی مانگنے اور منانے کا کام منیبه ہی کا تھا. وقاص شب برات پر بچوں کے لیے پٹاخے، پھلجھڑی انار سب بڑے شوق سے لاتا کہ اور بچوں کو دیکھ کر اس کے بچوں میں احساس کمتری نہ پیدا ہو جاۓ، چراغاں دکھانے ضرور لے جاتا ، محرم کے جلوس دکھانے کیونکہ سبیلوں کی رونقیں بہت بھاتی تھیں، رمضان کی راتوں میں بازاروں کی رونق کا حصہ بننے سے بھی اسے کوئی نہیں روک سکتا تھا، منیبه ان سب پر ٹوکتی تو احسان جتا کر کہتا کہ “تمھیں پتہ ہے کہ شراب اور شباب کتنا عام ہے دفتر میں! تم کتنی ناشکری ہو کہ ایک شریف مسلمان شوہر کی قدر ہی نہیں، دیکھو میں حقوق العباد کتنے اچھی طرح نبھاتا ہوں ، حقوق الله میرا اور اللہ کا معامله ہے اس کے بیچ میں مت آیا کرو ورنہ “……
    ایک دن وقاص دفتر سے بڑا خوش لوٹا. معلوم ہوا کہ کسی فنکشن کے لیے اس نے بڑے ہی مشہور بینڈ کے ساتھ ایک میوزیکل شو ارینج کیا ہے. اس کے بعد سے وقاص کو اس قسم کی محافل میں خوب دلچسپی ہو گئی. منیبه کبھی کبھی اپنی ماں سے کہا کرتی کہ”امی مجھے بہت خوف آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض نہ ہو جائیں.”،تو ماں اسے پیار سے نصیحت کرتیں کہ “بیٹا شوہر تو مجازی خدا ہوتا ہے ،اسے خوش رکھنے سے ثواب ملتا ہے، خاوند مغرب کی سمت تم مشرق کی سمت جاؤ گی تو بیچ میں خلا پیدا ہو جاۓ گا اور دیکھنا پھر کوئی دوسری عورت اس میں آجاۓ گی.” دوسری عورت کے تو نام سے بھی منیبہ کی جان نکل جاتی تھی، لہٰذا وہ بھی ان شغل میلوں میں اس کا ساتھ دیتی رہی.
    ————–

    صابرہ ہندی فلموں سے جنم لینے والی سجی بنی ہیروئن تھی، جس سے اس کا ہیرو محبت بھرے ڈائیلاگ بولتا،کار یا موٹر سائیکل پرسیرکرواتا، کہیں رک کر من پسند کھانا کھلاتا، اور کسی سگنل سے گجرے خرید کر اپنے ہاتھوں سے اس کی کلائیوں میں پہناتا، اور گھر کی چھت پر بیٹھ کر چودھویں کے چاند سے زیادہ صابرہ کے حسن سے متاثر ہوتا. لیکن دوسری جانب وسیم بہت زیادہ پریکٹیکل، خود دار اور کفایت شعار انسان تھا. چند دن بعد سے ہی اس نے گھر چلانے کے لیے خود بھی دوڑ دھوپ شروع کر دی تھی، اور صابرہ کو بھی تاکید کی کہ وہ انگلش سیکھنا شروع کردے، تاکہ امریکہ جانے کے بعد مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے.لیکن ان کاموں میں ایک تو محنت لگتی ہے، دوسرا صابرہ کا دل بھی نہیں لگتا تھا. وہ شادی پر ملے زرق برق کپڑوں کو دیر تک احتیاط سے استری کر کے فرصت سے ان کی ایک ایک شکن کو دور کرتی ، پہنتی، میک اپ کرتی، وسیم کہیں خجل ہو کر واپس لوٹتا تو پیاری سی بیوی کو دیکھ کر اس کا دل خوش ہو جاتا. وہ شکر گزار انسان تھا، دل سے اپنے اس فیصلے پر خوش تھا، لیکن جب کچھ دن مسلسل یہ ہوا کہ کھانا طلب کرنے پر صابرہ کبھی کہتی بن کباب لیتے آتے، یا چلیں ہم چل کر نہاری کھاتے ہیں، یا کبھی گزشتہ روز کا ہوٹل سے ہی لایا ہوا بچ جانے ولا قیمہ کھانے کے لیے نان منگوانے کا کہا، توپھر وسیم نے اسے سمجھایا کہ اسے گھر کا کھانا ہی پسند ہے، ویسے بھی باہر کا کھانا نہ جانے صحت کے لیے کتنا مضر ہوتا ہو. صابرہ کو اس کے سمجھانے کا انداز بہت بھلا لگا،ویسے بھی اس نے سوچ رکھا تھا کہ پچھلی زندگی کی غلطیاں نہیں دہرانی ہیں.

    البتہ حقیقت یہ ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک اے سی والے ٹھنڈے کمرے میں لیٹ کر رسالوں میں شائع ہوئی تصاویر کے شوق میں کھانوں کی ترکیبیں پڑھتی، یا ڈش پر چلنے والے کسی چینل پر شیف سنجیو کپور یا زبیدہ آپا کو صوفے پر نیم دراز دیکھ لیا کرتی، اور حقیقی دنیا میں اسے تو ٹی وی کے شیف کی طرح پیاز چھلے ہوئے، سبزی کٹی ہوئی، گوشت پگھلا اور دھلا ہوا نہیں ملتا تھا،پھر تمام برتن بھی خود ہی دھونے پڑتے، تب جاکر دو لوگوں کا کھانا تیار ہو پاتا . وہ تھک کر ایسی نڈھال ہوتی کہ کبھی گھر کی صفائی رہ جاتی، کبھی کپڑے دھلنے، اور یہ سب کسی دن ممکن ہوتا تو کھانا جل جاتا یا اس میں کسر رہ جاتی، لیکن وسیم اس پر کوئی احتجاج نہ کرتا کہ لڑکیاں رفتہ رفتہ سیکھ ہی جاتی ہیں، بلکہ کبھی کبھی خود بھی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹا دیا کرتا، جس سے وہ صابرہ کے دل میں گھر کرتا جارہا تھا.

    سردیوں کا موسم تو جیسے تیسے گزر گیا لیکن گرمی شروع ہوتے ہی صابرہ نے کچن میں مدد کے لیے ملازمہ رکھنے کی فرمائش کی تو وسیم نے برملا جواب دیا کہ “صابرہ !اگر تمھارے میکے میں ملازموں کا رواج ہوتا تو کھینچ تان کر بند و بست کرنا میرا ذمہ ہوتا، لیکن تمھارے بھائی بھی میری ہی طرح کے سفید پوش اور کفایت شعار انسان ہیں،مجھ سے جتنا ہوتا ہے تمھاری مدد کروا دیتا ہوں، زیادہ فرمائشیں بھی نہیں کرتا ،ہماری روز روز کی مہمان داری بھی نہیں ہے ،اور سوچو ذرا کہ میں تو خود یہاں رہ کر اپنی جمع پونجی ہی زیادہ استعمال کر رہا ہوں…اور ہاں ! امریکہ جاکر تو ویسے بھی کسی ہاؤس ہیلپ کا تصور فوری طور پر ممکن نہیں ہوگا.” صابرہ نے تسلی سے سنا اور اٹھلاتے ہوئے کہا “جب تک یہاں ہیں تب تک تو ماسی رکھی جاسکتی ہے نا، میں پارلر واپس جانا شروع کر دیتی ہوں اپنی تنخواہ سے ….” وسیم نے جھلا کر کہا “یار پلیز تم مجھے مشورے نہ دو، جو کہہ رہا ہوں وہ کرو، دو لوگوں کا کام تم سے نہیں ہوتا،مجھے سوچ سوچ کر ہیبت ہوتی ہے کہ کل کو بچہ ہوا تو تم اس کی ٹیک کیئر کیسے کر سکو گی! تم نے کچھ سیکھا نہیں اتنے سالوں میں اپنی بھاوج سے !!! تمہاری بھابھی بھی تو تین بچوں کے ساتھ پورا گھر!!!”اس تقابل کی وجہ سے صابرہ کے صبر کے بند ٹوٹ گئے اور پرانی صابرہ ایک جن کی مانند وسیم کے سامنے آگئی جو جھگڑتے ہوئے نہ ہی سامنے والے کا رشتہ دیکھتی ،نہ اپنے الفاظ ، نہ ہی ان کا انجام.

    وسیم نے شروع میں اسے چپ کروانا چاہا، مگر اس کے بگڑتے تیور دیکھ کر سیدھا فون کی طرف گیا. شوکت گھر پر نہیں تھا، فون نادیہ نے اٹھایا اور بڑی تہذیب سے سلام کیا ہی تھا کہ پیچھے سے صابرہ کے غصے میں بھرے الفاظ کان میں پڑے،تو نادیہ معاملہ بھانپ گئی. کچھ کھٹکا تو اسے تبھی تھا جب صابرہ کی رخصتی امریکہ کے بجائے بھائی کے گھر سے گھنٹہ بھر دور ہوئی، کہ جس دن ہنی مون پیریڈ ختم ہوگا، صابرہ کی بد زبانی ،کاہلی اور کوتاہ بینی اسے واپس اس کے سر پر مسلط کر سکتی ہے.اس لیے فون تھامے ہوئے ہاتھ کانپنے لگے. وسیم شدید غصے میں کہہ رہا تھا کہ “آپ لوگوں نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے. میں مان ہی نہیں سکتا کہ بھاوج ہو کر آپ کو اس کا یہ روپ معلوم نہ ہو. آپ نے اپنی بلا میرے سر مونڈھ دی ہے. میں آپ لوگوں کے خلاف پرچہ بھی کٹواؤں گا، اور اس بدزبان، جاہل، نکمی عورت کو طلاق بھی کورٹ سے ہی بھیجوں گا. مجھے تو حیرت ہے کہ اس کی پہلی شادی ڈھائی سال بھی کیسے چل گئی تھی؟ بہرحال ابھی تو آپ لوگ فوری طور پر آکر اسے لے کر جائیں، اس سے پہلے کہ کوئی بڑی بات ہو جاۓ، کیونکہ یہ مجھے دھمکیاں دیے جارہی ہے کہ نس کاٹ کر ،نیند کی گولیاں کھا کر خود کشی کر لے گی.”
    ————–

    نادیہ نے لرزتے ہاتھوں سے شوکت کو فون کیا ،شکر ہے اس نے موبائل خرید لیا تھا تو آسانی سے رابطه ہو جایا کرتا تھا .گھٹی آواز میں نادیہ نے شوہر کو اطلاع دی،شوکت تفصیل جاننا چاہ رہا تھا، سوال پر سوال کر رہا تھا ،لیکن اس سے کہیں زیادہ سوالات تو خود نادیہ کے ذہن میں گردش کر رہے تھے، اتنے کہ زمین گول گھومتی محسوس ہونے لگی، وہ وہیں ڈھیر ہو کر بلک بلک کر رونے لگی. سعد نے ماں کی حالت دیکھ کر پہلے اسے پیار کر کے چپ کروانا چاہا،وہ خاموش نہ ہوئی تو سعد نے بھی رو رو کر گھر سر پر اٹھا لیا، لیکن عقلمندی یہ کی کہ صحن کی دیوار کے قریب جاکر پڑوسن خالہ کو زور زور سے آوازیں دے کر مدد کے لیے بلا لیا. دستک کی آواز پر نادیہ بہ مشکل اٹھ کر دروازے تک گئی. خالہ نے اس کی حالت دیکھ کر پریشانی سے پوچھا “پتر کون مر گیا ” نادیہ بولی “میں مر گئی ہوں خالہ ” یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی، تو خالہ کمال پھرتی سے اپنے دوپٹے سے اس کے منہ کو بندکرتے ہوئے اسے کمرے تک لے کر آئیں کہ محلے والے اس کی آواز سن کر ادھر نہ آجائیں.سعد سے کہا کہ ماں کے لیے پانی لے آؤ اور نادیہ کا سر اپنی گود میں رکھا تو وہ ان سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگی. کچھ دیر تک وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیرتی رہیں،پوچھتی رہیں کہ میاں نے کچھ کہا ہے؟ صابرہ کا جھگڑا ہوا ہے؟ پھر اسے سیدھا بٹھایا، پانی پلایا، وہ روبوٹ کی طرح ان کا کہا مانتی رہی، اور ہمت کر کے گھٹی ہوئی آواز میں بتایا کہ “صابرہ کو پھر طلاق ہو جاۓ گی، وہ پھر میرے بچوں پر اپنا غصہ نکالا کرے گی، میں اتنی بری ماں ہوں کہ اپنا رشتہ شوہر سے اچھا بنانے کی خاطر اپنے بچوں کو اس سے پٹتا ہوا دیکھ کر بھی چپ کر جاتی ہوں،سوچا تھا سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن” …. وہ پھر تڑپ تڑپ کر رونے لگی. پھر کچھ یاد آیا تو جلدی سے بولی ” خالہ آپ کا اس وقت آجانے کا شکریہ، لیکن ابھی گھر جائیں شوکت آگیا تو” ….خالہ نے نادیہ کو پھر پیار کیا، اس کی پیٹھ تھپکی کہ “پتر پورا محلہ جس لڑکی کی بد اخلاقی کو جانتا ہے، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ آج تک تو نے کسی سے اپنے گھر والوں کی برائی نہیں کی، تو کیا تیرا خاوند نہیں جانتا ہوگا ! ہمت کر، اس سے بات کر کہ بہن کو اس کے گھر میں بسانے کے لیے اس بار اس سے ہاتھ کھینچ کر رکھے. چل میں چلتی ہوں ،تو فکر نہ کر کچھ نہیں ہوگا ،اتنے ماہ گزر چکے ہیں گڑبڑ ہونی ہوتی تو شروع میں ہو جاتی.”
    ————–

    شوکت کی موٹر سائیکل بہن کے گھر کی جانب رواں دواں تھی، اور سوچ کا گھوڑا سرپٹ ماضی میں دوڑتا جا رہا تھا. ماضی قریب میں نہیں جہاں صابرہ نے گھر بسانے کے کتنے ہی مواقع گنوا دیے تھے، بلکہ ماضی بعید میں جہاں اس کے والد اپنی بیٹی کے لاڈ اٹھاتے، اس کا رونا نہ ان سے دیکھا جاتا نہ ہی شوکت اس کے اشکوں کا بار ڈھونے کی ہمت کر پاتا تھا، اور آج اس کے جگر گوشے کو کسی نے اتنا دکھ دے دیا ،دوبارا …ابھی تو معصوم نے اتنا دکھ کاٹا تھا ….آنسو کب آنکھوں کو دھندلانے لگے کہ پتہ ہی نہ چلا کہ سائیڈ سے گزرتی کار سے ایکسیڈنٹ ہوتے بال بال بچ گیا. کار کے زور دار ہارن اور بریک کی آواز پر شوکت واپس ہوش میں آیا،گاڑی والے کو برا بھلا کہا کہ موٹر سائیکل والوں کو کچھ سمجھتے ہی نہیں، لیکن کچھ لوگوں نے اسی کو مورد الزام ٹھہرایا کہ وہ غلط چلا رہا تھا ، اور کار والے نےتو بروقت حادثے سے بچا لیا ہے ،لہٰذا بات آئی گئی ہو گئی-
    ————–

    وسیم نے شوکت کی آمد پر دروازہ کھولا اور اسے سیدھا اندر لے کر آیا. صابرہ بستر پر اوندھے منہ پڑی تھی. شوکت بہن کی یہ حالت دیکھ کر تڑپ اٹھا. جلدی سے اٹھانے کی کوشش کی، ہڑبڑا کر واش روم سے ہاتھ میں پانی لے کر آیا، اور وسیم پر سخت برہم ہوا کہ میری بہن کا یہ حال کیسے ہوا؟ وسیم نے بہت ٹھنڈے لہجے میں کہا کہ “بھائی جی! میں کچھ دیر واش روم گیا تھا، واپس آیا ہوں تویہ اس حال میں پڑی تھی. تب سے اس پر پانی ڈالا، اسے ہلا جلا کر آواز دے کر تھک گیا ہوں مگر اٹھتی ہی نہیں. مجھے نہیں معلوم کہ نیند کی گولیاں اس کے پاس تھیں یا نہیں؟ پرس بھی دیکھ لیا، کچھ نہیں ملا، بہرحال یہ کیا کرنا چاہ رہی ہے، اب میں کسی بھی بحث میں جانے کے بجاۓ واپس امریکہ جارہا ہوں، یہاں پر اپنے وکیل کے ذریعے آپ لوگوں سے بات کروں گا” .شوکت نے بری طرح سے وسیم کو گھورا اور ڈپٹ کر بہن کو آواز لگائی کہ” اٹھ اور چل میرے ساتھ “. صابرہ کھڑی ہوگئی ،وسیم کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ صابرہ نے نیند کی گولی تو نہیں کھائی تھی، البتہ شوہر کو اتنی دیر سے گولی دے رہی تھی. اس مکر کی وجہ سے وہ اس کی نظروں سے مزید گر گئی تھی، بہ مشکل وہ خود کو کمرے سے نکال کر کچن تک لے کر آیا. صابرہ نے ایک سوٹ کیس اٹھایا، کچھ کپڑے اس میں رکھے ،میچنگ کی چیزیں ساتھ ساتھ رکھنے لگی، تو شوکت نے غصے میں ڈانٹا کہ “جلدی کر، میں ایک منٹ یہاں رکنا نہیں چاہتا”.
    —————

    میوزیکل نائٹس میں تو دیر ہو ہی جاتی تھی. ساتھ ہی دفتر میں کام کی نوعیت ایسی ہو گئی تھی کہ ہر ماہ ہی ہفتہ دس دن وقاص کو شہر سے باہر رہنا پڑتا. واپسی میں وہ سب کے لیے خوب تحائف لے کر آتا، سب کو اپنے ہاتھوں سے دیتا، لیکن منیبه کا گفٹ کبھی ٹیبل پر رکھ دیتا، کبھی کہتا کہ” بچیوں کے لیے ہے تم چاہو تو استعمال کر لینا”، منیبه کے لیے یہ رویہ خاصا تلخ تھا لیکن صرف نظر ہی بہتر لگا کرتا. وقاص شہر سے باہر اپنے کام کی تصاویر دفتر کی فائل میں رکھنے سے پہلے منیبه کو دکھایا کرتا. منیبه کی نظر ہر بار ایک لڑکی پر ٹک جاتی کہ” اس کے گھر والے باہر جانے کی اجازت کیسے دے دیتے ہیں ؟” تو وقاص منیبه پر احسان جتاتے ہوئے کہتا کہ “سب عورتیں تمھاری طرح خوش نصیب نہیں ہوتی ہیں، ان بیچاریوں کو تو خود ہی محنت سے کمانا پڑتا ہے ، ویسے بہت پڑھی لکھی اور سلجھی ہوئی لڑکی ہے.” ایک پھانس کہیں اٹکنے لگی تھی منیبہ کے دل میں.

    ایسی ہی ایک رات جب وقاص میوزیکل نائٹ انجواۓ کرنے دوستوں کے ساتھ جانے کی تیاری کر رہا تھا، اس کے پسند کے موزے نہیں مل رہے تھے. اس بات پر اس نے طوفان کھڑا کر دیا ، بیچ بیچ میں فون کی گھنٹی بجے جارہی تھی، لیکن وقاص فون اٹھاتا تو کوئی بات نہ کرتا. وقاص نے منیبہ سے کہا “تم فون اٹھاؤ “تو کسی لڑکے کی آواز تھی کہ” وقاص صاحب روانه ہو گۓ”. منیبہ نے کہا “نہیں گھر پر ہیں بات کریں “، فون شوہر کو پکڑایا تو بندے کی آواز پھر غائب. وقاص نے درشتی سے کہا کہ” نام تو پوچھ لیتی بے وقوف عورت، دماغ نہ جانے کہاں رہتا ہے”. بہرحال دونوں نے قیاس یہی کیا کہ وہ ساتھ جانے والا کوئی دوست ہوگا، موبائل پر فون یا ٹیکسٹ کی اتنی عادت نہیں ہوگی، لیکن جیسے ہی وقاص روانہ ہوا، فون پھر آیا اور اس لڑکے نے کہا میڈم آپ میری بہنوں کی طرح ہیں، ذرا پتہ تو کریں شام میں سج بن کر آپ کے میاں دوستوں کا کہہ کر سہیلیوں سے ملنے تو نہیں جانے لگے ہیں. ابھی شروع میں روک لیں، میرا نام جان کر کیا کریں گی، جو کام آپ کر سکتی ہیں وہ کریں.”
    —————

    منیبہ نے بہت کوشش کی کہ خود کو یقین دلائے کہ کال جھوٹی تھی، لیکن جو اتنے دن سے شک کے ناگ کہیں پل رہے تھے، وہ سارے ہی بیک وقت پھنکارنے لگے تھے. اس نے ماں کو فون کیا اور دھاڑیں مار مار کر سب گوش گزار کیا، اور کہا کہ بھیا کو لے کر ابھی میری طرف آئیں، یہ میری تو مانیں گے ہی نہیں .
    —————

    وقاص خوش خوش گھر میں داخل ہوا تو اتنی رات میں ساس اور سالے کو دیکھ کر حیران رہ گیا . پھر بڑی خوش اخلاقی سے ان سے کھانے کا پوچھا ،بچوں سے ملاقات کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ سو چکے تھے. پھر سالے نے ہی بات شروع کی کہ باجی کو کسی نے شک میں ڈال دیا ہے، حالانکہ مجھے یقین ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوگی، کسی حاسد نے یہ حرکت کی ہوگی. وقاص نے سالے سے کہا کہ “یار تم سمجھ سکتے ہو کہ جلنے والے کیا کچھ کرتے ہیں، اب ان محترمہ نے نہ جانے اس سے کیا باتیں کر دی ہوں گی ، انہیں تو آفس وغیرہ کی الف بے بھی معلوم نہیں ہے، اتنی محنت سے کماتا ہوں ذرا جو قدر ہو ،خوب شاہ خرچیاں کرتی ہیں، ذرا بچت کرنے کا سلیقہ نہیں ہے،شوہر کی عزت، اس سے بات کرنے کی تہذیب” ….
    اچانک منیبه نے بے قابو ہو کر چیخنا شروع کر دیا . وہ روتی بات کرتی ، تو اس کی ماں کو سمجھ آجاتا، لیکن کسی دشمن کی طرح شوہر پر آنکھیں نکال کر پوری قوت سے چیخنے کا تصور ان کے وہم و گمان میں نہ تھا. بھائی نے اٹھ کر بہن کو گلے لگایا، ماں نے داماد سے کہا کہ “اس کی طبعیت خراب ہو رہی ہے، دیکھو تو سہی” لیکن وقاص بہت اطمینان سے اپنی جگہ جما بیٹھا رہا کہ” یہ تو ہمیشہ ایسے ہی کرتی ہے، آج آپ کو بھی پتہ چل گیا.” ماں نے سختی سے پوچھا ” ہمیشہ ایسا کیوں کرتی ہے؟ اور تم اتنے اطمینان سے کیوں بیٹھے ہو ؟ پانی لاؤ جاکر.” مگر وقاص پھر بھی مسکراتا ہوا وہیں بیٹھا رہا .کچھ دیر بعد جب منیبه کی حالت سنبھلی تو وہ بات کرنے کے قابل ہو پائی. ماں اور بھائی نے ساتھ چلنے کا کہا تو صاف انکار کر دیا کہ شاید بہت دنوں سے بچوں کے ایگزامز کی وجہ سے تھکن کے باعث ایسا ہو گیا، اب ٹھیک ہوں. کچھ دیر بعد وہ چائے بنا لائی ، سب نے مل کر چاۓ پی، ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں. ماں اور بھائی کو قرار آگیا تو وہ دونوں روانه ہو گئے.
    (جاری ہے)

  • میں قربان (4) – فرح رضوان

    میں قربان (4) – فرح رضوان

    نادیہ جڑواں بیٹیوں کی ماں بن چکی تھی ،شوکت اس بات پر بہت خوش تھا، البتہ بیٹے سعد سے وہ بہت نالاں رہتا کہ یہ ہر وقت روتا کیوں رہتا ہے. شوکت کی ماں زندہ تھیں تو سعد کے مغرب کے وقت رونے پرتو بہت زیادہ ہی ناراض ہوا کرتیں. نادیہ اس بات کی پابند کر دی گئی تھی کہ کچھ بھی ہو جاۓ مغرب کے وقت بچہ ہرگز نہ روئے کیونکہ ان کے بزرگ نسل در نسل بتاتے آئے تھے کہ اس سے گھر میں نحوست آتی ہے. یہی بات شوکت نے بھی گرہ میں باندھ لی تھی، لیکن نادیہ کو لگتا تھا کہ اس بات کو سعد نے کہیں زیادہ ہوشیاری سے سمجھ لیا ہے کہ اس وقت جب میں روتا ہوں، تو میری کوئی بھی ضد پوری کر دی جاتی ہے، تو ادھر مغرب ہوتی ادھر یہ چار سالہ بچہ کبھی پیٹ میں درد کا بہانہ کرکے روتا، کبھی کوئی فرمائش کرکے پچھاڑیں کھاتا، تو شوکت نادیہ پر بھڑک جاتا کہ ” چپ کرا اس منحوس کو ،مار اس کے منہ پر جو بھی مانگ رہا ہے،تاکہ اس کا بھونپو بند ہو.” نادیہ کے بس میں ہی نہ رہتا کہ اسے کسی مناسب طریقے سے چپ کروا سکے. صابرہ البتہ اس معاملے میں سعد کو بلا دریغ تھپڑ بھی مار دیا کرتی تھی، جس پر نادیہ دل مسوس کر رہ جاتی کہ اس بندی کو روکا تو یہ ایک نیا فساد کھڑا کر دے گی، جو کئی دن چلے گا ،اور آخر میں معافی نادیہ کو ہی مانگنی پڑے گی. اسے ان حالات سے نجات کا ایک ہی ذریعہ دکھائی دیتا تھا کہ کسی طرح صابرہ کا گھر بس جائے.
    ———————

    “سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ” منیبه نے حتمی لہجے میں وقاص کو جواب دیا. وقاص ایک پل کے لیے تو گنگ رہ گیا، پھر بھرپور قوت سے ٹیبل لیمپ اٹھا کر زمین پر پھینکتے ہوئے چلا کربولا “تمھاری اتنی ہمت ہو گئی ہے کہ تم اپنے مجازی خدا کو اس انداز میں جواب دو”. لیمپ تو ٹکڑے ٹکڑے ہوا نظر آرہا تھا، منیبه کی شخصیت کے ٹکڑے وقاص کی غضب ناک نگاہوں کو بھلا کیسے دکھائی دےسکتے تھے. وہ جی بھر کر الفاظ کے چاقو چھرے نشتر اپنی بیوی پر چلاتا رہا، حتی کہ اس کا سانس بے قابو ہونے لگا ، تو ڈری سہمی منیبه نے ہی بھاگ کر اسے پانی لا کر دیا ،جس پر وقاص نے مزید لعن طعن شروع کر دی. منیبه نے دل ہی دل میں آیت الکرسی پڑھنی شروع کر دی کہ کسی صورت اس کے میاں کا غصه کم ہو، لیکن نہیں وہ بضد تھا کہ “اپنے والدین کو بلاؤ ، میں ابھی فیصلہ کرنا چاہتا ہوں، مجھے اتنی خودسر بیوی کی کوئی ضرورت نہیں، اور اتنے گھٹیا خیالات تمھارے دماغ میں پلتے ہیں کہ تم میرے چھوٹے چھوٹے معصوم بھانجوں پر گھناؤنے الزام لگاتے ہوئے اللہ کے قہر سے نہیں ڈرتیں.” اس کے ساتھ ہی اس نے کف اڑاتے ہوئے منیبہ کو بیشمار بد دعائیں دینی اور اس کے خاندان کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا .بار بار اس کی وہی رٹ تھی کہ بلاؤ اپنے ماں باپ کو …..کچھ دیر گزری وقاص کچھ خاموش ہوا تو منیبه نے پانی کا گلاس اسے تھمایا، اس بار وقاص نے گلاس اس سے لیا اور ایک سانس میں پی کر ٹیبل پر رکھتے ہوئے نفرت سے منیبه کو دیکھا اور بستر پر جاکر لیٹ گیا. کچھ ہی دیر میں وہ گھوڑے بیچ کر خراٹے لے رہا تھا.
    ——————–

    صابرہ اپنے زیور اور کپڑوں کے شوق پورے کرنے کے لیے گھر پر بچوں کو ٹویشن پڑھانا چاہتی تھی ،یہ فرمائش سن کر نادیہ نے سر پکڑ لیا کہ اب ٹیچر بن کر محلے کے بچوں پر اپنا غصه نکالا کرے گی، اور ہوا بھی یہی، بچے پڑھنے آنا شروع ہوئے لیکن ہفتہ بعد ہی غصے میں کسی بچے کو صابرہ نے تھپڑ لگایا، وہ روتا ہوا گھر کو دوڑا اور اس کی ماں خالہ ممانی سب کے سب صابرہ کو سبق سکھانے اس کے سر پر پہنچ گئیں. بہ مشکل صابرہ کو ان کے قہر سے بچا کر انہیں گھر واپس بھیجا، اور یہ سلسله اسی کے ساتھ ختم ہوگیا،لیکن اس دن کے بعد سے صابرہ کو یہ سمجھ آگیا کہ کسی کی اولاد کو مارو تو ماں کے دل پر کیا گزرتی ہے.

    پھر کچھ دن بیڈ پر پڑے گزارے. اس دوران کسی رسالے میں اشتہار دیکھ کرصابرہ کو ایک نیا خیال آیا کہ میں پارلر میں کام کر لیتی ہوں. بھائی سے کہہ سن کر اجازت اور فیس مل ہی گئی، تو اس نے چھوٹے سے پارلر پر ٹریننگ لینی شروع کر دی، مگر نوکری شروع کرتے ہی وہاں بھی اس کے جھگڑے ہونے لگے. بہرحال مختلف جگہوں پر تھوڑا تھوڑا کام کرتے وہ ایک درمیانے درجے کے بیوٹی سیلون میں ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو ہی گئی. ان چند ماہ میں اس نے کئی ایسے اسباق بھی سیکھے جو والدین اور اساتذہ سے نہیں سیکھ پائی تھی. شکل صورت اچھی تھی، پہننے سجنے کا شوق تھا، پارلر میں یہ سبھی شوق پورے ہو رہے تھے تو خوش تھی. اونر اور ساتھ کام کرنے والی لڑکیاں اچھی تھیں، وہ ان سے بھی بہت کچھ سیکھ رہی تھی،اٹھنا بیٹھنا، بولنا، مذاق کرنا اور سمجھنا ،اس کی زندگی میں سہیلیاں تھیں نہ کزنز ، ابا نے اماں پر ان کے میکے سے تعلق رکھنے پر پابندی لگائی رکھی تھی، اور اماں نے بدلے میں ابا کے رشته داروں سے بنا کر نہ رکھی تھی، تو ملنا جلنا ،کسی کو کچھ بنا کر کھلانا، کسی کے گھر جاکر کھانا،رہنا، برداشت کرنا، سہولت دینا،محبت سے لاڈ دکھانا، خالہ پھپھو ماموں چاچو ان سب کی فیملی کا پیار اس نے کبھی چکھا ہی نہ تھا،نہ باپ کو نبھاتے دیکھا نہ ماں کو درگزر کرتے، تو وہ یہ سب کس سے سیکھتی ؟ والدین ایک دوسرے پر گولے برساتے تو بارود کی بو اسے اپنی روح تک اترتی محسوس ہوتی. وہ لڑکی تھی، گھر میں ہی رہتی، باپ کے جانے کے بعد گھنٹوں اپنی ماں سے اس باپ کے لیے صرف برائی ہی سنتی جو پوری دنیا میں واحد شخص تھا جو اس کے ناز اٹھاتا تھا. وہ بچپن سے بہت اکیلی تھی اور بعد میں اپنے رویوں کی بنا پر تنہا رہ گئی تھی، اسی لیے ہر وقت دفاعی رویه اختیار کیے رکھتی، شروع سے کوئی ایسا قریب نہ تھا جو ہاتھ پکڑ کر اس کے والدین کوجھگڑوں سے باز رکھ سکتا.
    ——————–

    منیبہ نے سب سے پہلے کمرے کا دروازہ کھولا اور بچوں کے کمرے میں جھانکا، وہ اس قدر تھک کر سوۓ ہوئے تھے کہ اس جھگڑے اور توڑ پھوڑ سے ان کی نیند میں خلل نہیں پڑا تھا ، اس نے دل میں شکر کیا اور سب سے پہلے کسی روبوٹ کی مانند لیمپ کی کرچیاں سمیٹیں. یہ الگ بات ہے کہ روباٹ کی آنکھیں خشک ہوتی ہیں.
    منیبه کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنے قدردان شوہر کے ہاتھوں اس قدر ذلت کا دکھ مناۓ، نفرت کی ان چنگاریوں کے درد کو ترجیح دے، بد دعاؤں کی بازگشت کو چپ کرواۓ یا اس رویے پر حیرت کے پہاڑ سر کر جاۓ، جو ایک ہوش مند باپ کا کبھی بھی نہیں ہونا چاہیے تھا. دل درد سے تڑپنے لگا تو وہ تکیہ لے کر کچن میں چلی آئی اور اپنے اندر کی تمام تر چیخیں اس تکیے کے کانوں میں منتقل کر دیں. وہ بہت دیر تک ہچکیوں سے رو رو کر اپنے رب سے فریاد کرتی رہی کہ اس کے گھر اور بچوں کی مکمل حفاظت فرمانا. پھر منہ ہاتھ دھو کر بستر پر آگئی. وہ اتنی زیادہ توانائی کھو چکی تھی کہ لگتا تھا بستر پر جاتے ہی ڈھیر ہو جاۓ گی، لیکن دماغ بھاگ رہا تھا، غیرت بہت شور مچا رہی تھی. اس نے سب کو ڈانٹ کر چپ کروایا اور باتوں کو ترتیب سے رکھنا شروع کیا کہ جھگڑا شروع کہاں سے ہوا تھا؟ سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا، بچے برش کر کے کب کے سونے جاچکے تھے، منیبه بیڈ پر بیٹھی نائٹ کریم سے چہرے کا مساج کر رہی تھی، تب وقاص اپنا بریف کیس سیٹ کر کے ایک طرف رکھتے ہوئے منیبه سے کہنے لگا کہ “حسن کہہ رہا تھا کہ اب میں بڑا ہو گیا ہوں، ماما کے بغیر بھی بڑی پھوپھو کے گھر رک سکتا ہوں تو کیوں نہ چھٹیوں میں “…ابھی وقاص بہت پر جوش طریقے سے اپنے بیٹے کے بڑے ہونے اور اس کی بہادری کو اینجواۓ کر رہا تھا کہ منیبه کے منہ سے یہ الفاظ برآمد ہو گۓ ” سوال ہی نہیں پیدا ہوتا “، اور پھر وہ صورتحال پیدا ہو گئی تھی جس کے بعد اسے لگ رہا تھا کہ وقاص کی محبت کا بت پاش پاش چکا ہے. تو کیا غلطی میری تھی ؟ کتنی بڑی غلطی تھی جس پر یہ سب کچھ جھیلنا پڑا ؟ آنسو پھر سے اس کے تکیے میں جذب ہونے لگے.

    اگلی صبح بغیر کوئی بات کیے وقاص دفتر چلا گیا . دن میں جب بہت دیر تک اس کی کال نہیں آئی تو منیبہ نے ہی ہمت جمع کر کے اسے فون کیا اور دل سے شکر کیا کہ وقاص نے فون اٹھا لیا. اس نے سب سے پہلا جملہ یہ کہا کہ “میں آپ کے سامنے اپنی غلطی تسلیم کرنا چاہتی ہوں، اور اللہ کے سامنے بھی”، وقاص کا موڈ ایک دم بہتر ہوگیا، وہ کہنے لگا کہ” یار تم مجھے اتنا غصہ نہ دلایا کرو نا، کہیں میرے دماغ کی کوئی نس پھٹ گئی تو پھر روتی رہو گی ساری عمر، اچھا چلو بتاؤ آج شام کہاں چلنا ہے ؟ جہاں کہو گی، وہیں چلتے ہیں.” منیبه نے بہت فرم لہجے میں کہا” بڑی آپا کے گھر ” “بکواس بند کرو ” وقاص نے زہریلے لہجے میں کہہ کر فون پٹخ دیا.
    .
    منیبہ کو یقین تھا کہ وقاص شام تو کیا ابھی دفتر سے آدھی چھٹی لے کر پہنچے گا ،لیکن تب کیا ہوگا ؟ کیا کل کی طرح پھر ؟ بچوں کے سامنے ؟ اس نے گڑگڑا کر اپنے رب سے حفاظت کی دعا کی. نہ جانے کس سپیڈ میں گاڑی چلی ہو گی کہ وقاص کچھ ہی دیر میں گھر پر تھا . اس بار اس نے یہ راگ نہیں الاپا کہ اپنے اماں ابا کو بلاؤ بلکہ بچوں سے کہا کہ وہ نانی کے گھر جارہے ہیں، تو بچے خوش ہو گۓ. منیبه کا خون خشک ہو گیا کہ کیا امی ابا کے سامنے میرا شوہر عدالتیں لگاۓ گا؟ تب مجھے کیا کرنا ہوگا ؟ امی ابا کیسے برداشت کر سکیں گے وہ سب ؟ میں ان کی بے عزتی کیسے برداشت کر سکوں گی ؟

    لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اس امتحان سے بچا لیا تھا. بچے نانی کے گھر اترے تو وہ بھی خوش ہو گئیں. وقاص نے دفتر کی فیملی گیٹ ٹوگیدر کا بہانہ بنا کر فوری رخصت لی، اور کار میں بیٹھتے ہی غصے سے کہا “تم کس غلطی کی معافی کا کہہ رہی تھی ؟” منیبه نے کہا “وقاص ! مجھ سے بہت بڑی بھول ہوگئی کہ میں نے نگہت کی بیٹی کے لیے وہ ایکشن نہیں لیا، جو اپنے بیٹے کے لیے لیا، بلکہ راشد بھی اتنا بڑا نہیں، ہمارا ہی بچہ ہے، اسے بھی بڑی تباہی سے روکا جاسکتا ہے.” وقاص نے سپاٹ لہجے میں کہا “قرآن پر ہاتھ رکھ کر گواہی دو گی ؟” منیبه نے کہا “گاڑی واپس لے چلیں کیونکہ جو قرآن میں روز پڑھتی بھی نہیں، اس کو اپنی سچائی ثابت کرنے گواہ بنالوں، یہ خود غرضی میں نہیں کرسکتی. میری بات پر آپ سب اعتبار کریں گے کہ میں نے کیا دیکھا، کس خطرے کا اندازہ لگایا اور راشد بھی قبول لے گا، تو ٹھیک ہے. میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ ایک بچہ اپنی عزت رکھنے کی خاطر قرآن پر ہاتھ رکھ کر میری وجہ سے جھوٹ بولے، اور عمر بھر خمیازہ بھگتے.”
    ——————–

    صابرہ کے محلے میں اس کا جو تعارف بن چکا تھا، نئے سیلون تک وہ شہرت نہیں پہنچی تھی نہ ہی اب وہ پہلے والی صابرہ تھی، جو ساری رات وی سی آر پر کیسٹیں بدل بدل کر رومانوی اور ایکشن انڈین موویز دیکھتی، اوردن چڑھے سوتی رہتی، یا ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں لیٹ کرکھانے بنانے کی کتابیں پڑھتی، اور دنیا بھر کے فلمی رسالوں کی عرق ریز تحقیق پر تدبر و تفکر کیا کرتی تھی،اب کبھی کبھی وہ اپنی سہلیوں کے لیے کچھ کھانے کی چیزیں بنا کر لے جانے لگی تھی ،کچن میں غلطیاں کرتی مگر انھیں سنبھال کر یا نادیہ کی مدد سے کچھ نئی چیز وجود میں آہی جاتی.
    ——————–

    وقاص نگہت کے گھر ماں سے ملنے کے بہانے پہنچ تو گیا تھا، مگر اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بات کہاں سے شروع کرے، تو اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ شاہد بھائی ابھی نفیس بھائی اور آپا موجود نہیں ہیں تو ذرا کھل کر بات کرتے ہیں … دیکھیں بڑی اچھی سکیمیں چل رہی ہیں کشادہ اپارٹمینٹس کی، آپ یہاں سے شفٹ ہونے کا کوئی پلان کیوں نہیں بنا لیتے ،شاہد نے بیگم کی جانب مسکراتے ہوئے دیکھ کر کہا “ہماری بیگم اپنی بہن کا ساتھ چھوڑنا ہی نہیں چاہتی ہیں، بھائی یہ نہیں ہم بیاہ کر آگۓ ہیں ان کے گھر ، اور مذاق کی بات الگ ہے، نفیس دولہا بھائی بھی تو کیسے ملنسار شخصیت کے بندے ہیں، میرا اپنا جی نہیں کرتا، اور اب تو باجی کے بیٹے اتنے بڑے ہو گۓ ہیں کہ باہر کا کوئی کام ہو، گھر کا کوئی کام ہو ، حنا کو سنبھالنا ہو “…..وقاص نے چونک کر کہا “حنا کو کیوں سنبھالنا ہو ؟ نگہت ایک بچی تم سے نہیں سنبھالی جاتی ؟” نگہت نے جھانک کر دیکھا کہ باجی ابھی تک پہنچی کیوں نہیں. خیر وہ تنہا بھی ہلکی نہیں پڑتی تھی،بھائی پر برہم ہوتے ہوئے بولی “آپ کو ہم بہنوں کی محبت کیوں کھٹک رہی ہے ؟ اور صاف صاف کیوں نہیں کہتے کہ اپنے محل سے جب یہاں ہمارے ڈربے جیسے فلیٹوں میں آتے ہیں تو آپ کی شان گھٹ جاتی ہے …میرے بچے کیوں نہیں سنبھالیں گے اپنی بہن کو ! بھائی ہیں ماشاءاللہ سے اس کے.” وقاص نے نگہت کی بات کو مکمل اگنور کر کے کہا “نگہت میری بہن! پلک جھپکتے میں بچے جوان ہو جاتے ہیں، تب محرم تو نہیں ہوں گے نا آپا کے بیٹے تمہاری بیٹی کے، ابھی سے ذرا فاصلہ رکھنا سکھادو تو …” نگہت پھٹ ہی پڑی کہ” میری چار سال کی معصوم فرشتہ بچی تم کو نظر آرہی ہے، اور اپنی پر کٹی بیوی کے بارے میں خیال نہیں آتا کہ نامحرم نندوئیوں کے آگے کیا لپسٹکیں لگا لگا کر آجاتی ہے” .اس بات پر وقاص نے انتہائی ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرسی کھسکائی، کھڑا ہوا اور جاکر والدین سے ان کے کمرے میں ملا، پھر تیزی سے منیبہ کو لے کر لفٹ کا انتظار کیے بغیر سیڑھیوں سے اترنے لگا تو نگہت کے شوہر بیگم کے بھدے رویے پر جزبز ہوتے ہوئے وقاص کے ساتھ ساتھ ہی اترنے لگے.
    ————–
    سیلون میں ہی کسی کوورکر کو صابرہ اپنے بھائی وسیم کے لیے پسند آگئی تھی جو امریکہ میں رہائش پذیر تھا،پڑھا لکھا بھی تھا،اچھا کما رہا تھا . کچھ سال پہلے کہیں ناکام عشق کر بیٹھا تھا تو اس غم میں شادی نہیں کی تھی. اس دوران والدین دنیا سے گزر گئے، اکلوتی بہن اپنے گھر کی ہوگئی تو اسے اپنے بچوں کے ساتھ خوش باش زندگی گزارتے دیکھ کر وسیم کو بھی عقل آچکی تھی، اور اب شادی پاکستان میں پلی بڑھی لڑکی سے کرنا چاہتا تھا تو صابرہ اس کوورکر کو اپنی بھاوج کے روپ میں نہایت مناسب نظر آرہی تھی.
    نادیہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ شوکت اتنی سرسری تحقیق کے بعد اتنی دور بہن کو بھیج دینے پر اس قدر جلدی حامی بھر لے گا، اور دولہا دلہن بھی راضی خوشی اس بندھن میں بندھنے راضی ہو جائیں گے، اس کا رب اس طرح اس کی دعائیں سن لے گا—کیا شوکت کو احساس ہوگیا ہے کہ اس کی بہن کے رویوں سے ان میاں بیوی کے رشتے میں کشیدگی بڑھتی جارہی تھی.
    وسیم دو ماہ کی چھٹی لے آیا اور ایک سادہ سی تقریب میں بہت جلد یہ دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ گۓ تاکہ نکاح کے بعد صابرہ کے کاغذات امریکہ جانے کے لیے داخل کروادیے جائیں اور رخصتی کو اسی وقت پر اٹھا رکھا.
    شوکت اپنے بیوی بچوں کو بہتر مستقبل کی خاطر کینیڈا لے جانے کے لیے کچھ عرصے سے پر تول رہا تھا، اس نے خاموشی سے کاغذات جمع کروانے کے بارے میں سوچ رکھا تھا کہ جب تک باری آئے گی، صابرہ اپنے گھر کی ہو چکی ہوگی ، ایسے میں رشتہ امریکہ سے آگیا تو بہن سے دوری کا کانٹا بھی نکل گیا، اسے یہ سب اپنی دعاؤں اور پلاننگ کا جواب ہی لگا، لہٰذا اس نے نیک کام میں دیر نہیں کی .
    ————–

    نیچے اترتے ہی وقاص نے ایک خاموش کونے پر رکتے ہوئے بہنوئی کا ہاتھ تھام کر دھیمی آواز میں کہا “میں یہی چاہتا تھا کہ آپ سے تنہائی میں بات ہو سکے ،شاہد بھائی! میں اور منیبه بھی ماں اور باپ ہیں، حنا ہمیں اپنے بچوں کی طرح عزیز ہے، میری بات تحمل سے سنیے اور تھوڑے کو بہت جانیے. کیا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی ناک کے نیچے آپ کی بیٹی کے ساتھ کوئی شرمناک حادثہ ہو جاۓ، اور آپ تب بھی نہ جاگیں کیونکہ آپ کو حادثے کی اطلاع دے گا کون ؟” شاہد ہکا بکا کبھی وقاص کو دیکھتے کبھی زمین کو جو پیروں سے کھسکتی محسوس ہو رہی تھی. مبینه نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ اچھے باپ اپنی اولاد کے صرف خرچے پورے کرنے والے نہیں ہوتے، انھیں تحفظ دینا بھی اس کا فرض ہوتا ہے، آپ بیوی کی محبت اور اس کے بہنوئی کی مروت کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں حنا کو.”
    “مم مگر ہوا کیا ہے؟” شاہد کی اس بات پر وقاص غصے میں ہتھیلی پر زور دار مکا مارتے ہوئے بولا ” آپ یہ کیوں چاہ رہے ہیں کہ کچھ ہو جاۓ؟ اتنا آگاہ کر دینا کافی نہیں! اتنا خوف ہے نگہت کا آپ کے اوپر ؟ ایک باپ والی قوت فیصلہ کیوں نہیں آپ میں؟”
    دونوں میاں بیوی کار کی طرف نکل ہی رہے تھے کہ آپا اور نفیس بھائی بھی بازار سے لوٹ آئے اور زبردستی انھیں واپس اوپر اپنے گھر لے آئے.نفیس نے آتے ہی بیگ میں سے فروٹس نکال کر مہمانوں کو پیش کی اور راشد کو آواز دی کہ چائے کا پانی رکھے، وقاص کے ذہن میں نہ جانے کیا آیا کہ کھڑا ہوتے ہوئے بولا
    “راشد چلو نیچے سے سب کے لیے بن کباب لے کر آتے ہیں” ….اور پھرآرڈر دینے کے بعد گاڑی میں بیٹھ کر کافی وقت راشد سے پوچھ تاچھ،تفتیش، اسے دھمکانے،جرم اگلوانے اور سمجھانے سے لے کر وعدے لینے تک کے پراسیس میں گزر گیا. وقاص دل سے اللہ تعالیٰ کا شکر کر رہا تھا کہ اسے اتنی سیانی بیوی ملی ہے جس نے کسی بڑے حادثے سے پہلے ہی اس کی بو کو پہچان لیا تھا.
    واپسی کے سفر پر منیبه منتظر ہی رہی کہ اس کا شوہر کل رات کے تلخ رویے پر کسی لفظ یا انداز سے شرمندگی کا اظہار کرے گا.بہرحال اس کے لیے یہی بہت خوشی کی بات تھی کہ آج اس کے میاں نے بہت خوش اسلوبی سے ایک پیچیدہ معاملہ بغیر لڑائی بھڑائی کے نمٹالیا تھا، وہ یہ اعتراف کیے بغیر رہ نہ سکی لیکن!بدلے میں گنتی کے چند ستائشی بول اپنے لیے بھی اس سے سننا چاہتی تھی، مگر وقاص اپنی تعریف کے ساتھ ہی اپنے دادا کی تعریف میں رطب اللسان تھا کہ وہ ان پر گیا ہے، اس لیے اتنا معاملہ فہم ہے، مگر دادا اپنی قبر میں اس کے منہ سے ادا کیے گئے تعریفی الفاظ سن کر خوش نہیں ہو سکتے تھے، اور جو چند الفاظ سے خوش ہو سکتی تھی، اس کے کئی جذبات شوہر کی ان عادات کے باعث رفتہ رفتہ مردہ ہوتے چلے جارہے تھے.
    (جاری ہے)

  • کیا بیٹی کا کوئی گھر نہیں ہوتا؟ – علیشبہ فاروق

    کیا بیٹی کا کوئی گھر نہیں ہوتا؟ – علیشبہ فاروق

    کیا بیٹی کا کوئی گھر نہیں ہوتا؟ کیا واقعی کوئی گھر اپنا ہوتا ہے؟ وہ گھر جہاں ہم نے آنکھ کھولی، پہلا قدم اٹھایا، ہنسی بکھیری، اور زندگی کے معصوم ترین لمحات گزارے—کیا وہ صرف ایک عارضی پڑاؤ تھا؟ کیا وہ در و دیوار، جن سے ہماری ہنسی اور رونے کی آوازیں وابستہ تھیں، ایک دن ہمارے لیے پرائے ہو جاتے ہیں؟

    شادی کے ایک دن پہلے، آمنہ کی ماں نے اس کے ہاتھ میں اس کا شادی کا جوڑا، زیورات اور چوڑیاں تھما دیں۔ چہرے پر خوشی کے باوجود آنکھوں میں ایک انجانی اداسی تھی۔
    “یہ لو بیٹا، کل تمھیں پہننا ہے”
    ماں کی آواز میں شفقت تھی، مگر آمنہ کے دل میں ایک عجیب سی بےچینی اتر آئی۔ یہ لمحہ اس کے لیے آخری تھا جب وہ اپنی ماں کے دیے ہوئے کپڑے پہن رہی تھی، کیونکہ اگلے دن وہ کسی اور نام سے پکاری جائے گی، کسی اور گھر کی ہو جائے گی، اور کسی اور رسم و رواج میں ڈھلنے کی کوشش کرے گی۔

    “کیا وہ گھر واقعی میرا ہوگا؟ کیا میں وہاں اپنائیت محسوس کر پاؤں گی؟”

    شادی کا دن آ پہنچا۔ رخصتی کا لمحہ آیا تو ماں کی آنکھوں میں نمی تھی، باپ کی خاموشی بوجھل تھی، اور بہن بھائیوں کا شرارت بھرا انداز اب عجیب سا لگا۔ سب کچھ ایک لمحے میں بدل گیا۔

    سسرال پہنچی تو ساس نے محبت سے کہا
    “بیٹا، یہ تمہارا کمرہ ہے۔”
    آمنہ نے چاروں طرف نظر دوڑائی—سب کچھ نیا، سب کچھ خوبصورت، مگر سب کچھ اجنبی۔ سسرال کے سب لوگ اچھے تھے، محبت کرنے والے تھے، مگر اس کے باوجود وہ اپنے اندر ایک خلا محسوس کر رہی تھی۔ ہر بات ناپ تول کر کہنی تھی، ہر قدم سوچ سمجھ کر اٹھانا تھا، ہر عمل کو صحیح ثابت کرنا تھا۔

    سسر نے نرمی سے کہا
    “بیٹا، اب تم اس گھر کی بہو ہو، ہماری عزت کا خیال رکھنا۔”
    ان کے لہجے میں محبت بھی تھی، مگر ذمہ داری کا بوجھ بھی۔

    دن گزرتے گئے، مگر آمنہ کے دل میں وہی بےچینی تھی۔ ایک دن اس نے ہمت کی اور ساس سے میکے جانے کی اجازت طلب کی۔ ساس مسکرائیں اور بولیں،
    “بیٹا، میکے کے دروازے ہمیشہ کھلے ہوتے ہیں، مگر وہاں ہمیشہ رہا نہیں جاتا۔”
    خیر وہ میکے رہنے کو آ گئی۔ ماں کے دروازہ کھولتے ہی آمنہ کو گلے لگا لیا، باپ نے سر پر ہاتھ رکھا، بہن بھائیوں نے چھیڑنا شروع کر دیا۔ سب کچھ وہی تھا، مگر کچھ بدل چکا تھا۔

    وہ کمرے جہاں کبھی وہ بےفکری سے گھومتی تھی، اب اسے اجنبی لگ رہے تھے۔ ماں نے پوچھا،
    “بیٹا، سسرال میں خوش تو ہو نا؟”
    آمنہ نے مسکرا کر کہا
    “جی امی، بہت خوش ہوں۔”
    مگر ماں کی آنکھوں میں سوالات تھے، باپ کے دل میں فکر تھی، اور بہن بھائی جان چکے تھے کہ اب وہ پہلے والی آمنہ نہیں رہی۔
    کیا واقعی وہ گھر اب اس کا نہیں تھا؟ کیا وہ سسرال کو اپنا پائے گی؟

    میکے میں چند دن گزارنے کے بعد وہ سسرال واپس آ گئی، مگر اب دل میں ایک عجیب سا احساس تھا۔ نہ میکہ پہلے جیسا رہا تھا، نہ سسرال اپنا لگا۔ وہ ایک ایسے پل پر کھڑی تھی، جہاں نہ پیچھے جانا ممکن تھا، نہ آگے کا راستہ اپنا لگ رہا تھا۔
    رات کے سناٹے میں چھت پر جا کر آسمان کو دیکھنے لگی۔ ستارے چمک رہے تھے—قریب ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے جداتھے۔
    آمنہ نے سوچا، “یہ گھر، یہ لوگ، یہ رشتے سب میرے پاس ہیں، مگر کیا میں بھی ان کی ہوں؟”
    یہ سوال شاید ہر لڑکی کے دل میں اٹھتا ہے، مگر اس کا جواب کبھی نہیں ملتا۔

  • میں قربان (3) –  فرح رضوان

    میں قربان (3) – فرح رضوان

    وقاص کھانے کے بعد چائے پیا کرتا تھا. منیبه جب بھی چائے کا کپ لے کر اتی تو وہ کھانے کی پلیٹ کی طرف دیکھتی، اگر کھانا پورا ختم کر لیا ہو تو اس کا مطلب ہے کہ وقاص کو پسند آگیا ہے، البتہ کھانے میں کبھی کوئی نقص ہوتا تو وہ برملا اس کا اظہار کرتا، اور کبھی منیبه کو ہلکی پھلکی ڈانٹ بھی پڑ جایا کرتی کہ کھانا دھیان سے نہیں بناتی، اور یہ ہمیشہ سے اس کی عادت تھی کہ اگر بیوی کی کوئی بات پسند آجاۓ تو اسے کوئی گفٹ دلا دیا کرتا تھا، لیکن منہ سے کچھ نہیں بولتا تھا. منیبه کو ان اشیا کی ضرورت نہیں تھی ، اس کے کان تو ہردلعزیز متاع جان کے دو اعترافی بول کے لیے ترس رہے ہوتے تھے، ساری دنیا منیبه کی خوبیوں کی معترف تھی، لیکن وہ جس سے سننا چاہتی تھی، وہاں سے کوئی لفظ سماعتوں سے ٹکرانے کی جسارت نہ کرتا تھا.

    کھانے کی پلیٹ صاف تھی، اسے یہ دیکھ کر اطمینان ہوگیا، چائے دے کے وہ وہیں بیٹھ کر باتیں کرنے لگی. بچے اپنے کمرے میں ہوم ورک کر رہے تھے، وقاص کو یاد آیا تو بتانے لگا ” ارے آج دفتر میں آفتاب بھائی سے ملاقات ہوئی تھی تو وہ کہہ رہے تھے کہ پرسوں یہ لوگ ہماری طرف آئیں گے “اس پر منیبہ مسکرا کر بولی ” اچھا میں بچوں کو بتا دیتی ہوں”. وقاص سمجھ گیاکہ وہ بچوں سے کیا کہے گی، اس لیے ذرا چڑ کر بولا “یار یہ بہت بری عادت ہوجاتی ہے بچوں کے اندر کہ وہ اپنی ہر چیز اٹھا کرکسی کے آنے سے پہلے چھپا دیں تو بڑے ہو کران میں بڑے لیول پر شیئرنگ کی ہمت اور عادت کیسے آئے گی؟ ” منیبه نے دھیمے لہجے میں کہا ” بس کچھ نازک یا بہت خاص چیزیں جو نایاب ہوتی ہیں، ان کے لیے ہی میں انھیں کہتی ہوں کہ ایک طرف سنبھال لیں، کیونکہ دوسرے اکثر بہت بے دردی یا لاپرواہی سے استعمال کرتے ہیں. میں اس لیے بھی احتیاط کرتی ہوں کہ چیزوں کے پیچھے ہمارے تعلقات خراب نہ ہوں، بچوں کی کچھ چیزوں کے ساتھ بہت زیادہ اٹیچمنٹ ہوتی ہے، احساس تحفظ بھی تو ہمیں ہی دینا ہے نا انھیں، اور جناب یہ بھی تو دیکھیں نا کہ ان اصولوں پر چل کر ہماری دوستی کتنے عرصے سے قائم ہے.”

    پھر جب وہ بچوں کومطلع کرتی ہے تو بیٹا بہت خوشی کا اظہار کرتا ہے جبکہ بیٹیاں شکوہ کرتی ہیں کہ “مما وہ لوگ ہمارے سارے کھلونے خراب کر دیتے ہیں، اور گھر بھی گندا کر دیتے ہیں، ہمیں بعد میں صاف کرنا پڑتا ہے ” وقاص بڑی بیٹی کوقریب بلاتا کر اس کے سر پہ ہاتھ پھیر کے کہتا ہے کہ اپنی چیزیں شیئر کرنے کی عادت ڈالتے ہیں،آپ کی بہت ساری پرانی چیزیں ایسی ہوں گی جو آپ کو یاد بھی نہیں ہوں گی کہ وہ کہاں ہیں، کس کو دیں، کس حال میں ہوں گی؟ تو کبھی کبھی کچھ چیزیں آپ کے سامنے بھی اگر خراب ہو جاتی ہیں تو تھوڑا بہت صبر کر لینا چاہیے. آپ اگر اپنی ہر چیز اٹھا کے رکھ دو گے توآپ کھیلو گے کیسے؟ پھر آپ کی باتیں بھی ختم ہو جائیں گی، پڑھائی تو نہیں کر سکتے نا جب دوست آتے ہیں ،تھوڑی بہت چیزیں شیئر کر لینی چاہییں، اگر کوئی کھلونا ٹوٹا تو میں آپ کو دلا دوں گا.” بچوں نے سر ہلا کر اس کی بات سمجھ لینے کا سگنل دیا اور اپنے کمرے میں واپس چلے گئے.

    وقاص نے منیبه کی طرف شرارت سے دیکھتے ہوئے کہا” لڑکیوں کو تو بچپن سے شئیرنگ آنی چاہیے، تاکہ شادی کے بعد اپنے شوہر کو اپنی مسلمان بہنوں سے شئیر کر سکیں.” منیبه نے آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا “پھر وہی مذاق ” تو وقاص نے ہنستے ہوئے کہا “مذاق کہاں کر رہا ہوں،دل کے ارمان اپنی بیوی کے سامنے نہیں رکھوں گا تو کہاں جاؤں گا میں بیچارہ ” منیبه نے نرمی سے کہا “میں یہ بات کسی بھی انداز میں آپ سے سننا نہیں چاہتی،بہت سی باتیں میں آپ کی ایک ہی بار میں مان لیتی ہوں، تو یہ ایک بات آپ میرے بار بار منع کرنے کے باوجود بھی کیوں نہیں مانتے؟” پھر منیبه غصے میں برتن سمیٹ کر لےجانے لگی تو وقاص نے اسے کلائی سے پکڑ کرواپس بٹھا لیا اور بولا “تو منع کر دوں اس بیچاری کو نازک سا دل ٹوٹ جائے گا اس کا ….” منیبه غصے میں بھناتی ہوئی ہاتھ چھڑا کر کچن میں چلی گئی. وقاص نے پیچھے سے آواز دی” ہنس رہی ہو نا ” حسن نے آکر بتایا “نہیں پاپا مما رو رہی ہیں ،آپ نے پھر سے ان کو رلا دیا، میں تو اپنی بہنوں کو نہیں رلاتا” .

    اگلے دن آفتاب اور ان کی بیگم ردا اپنے سب بچوں کے ساتھ پہنچے تو گھر میں ایک شور اور بڑی رونق والا ماحول ہو گیا. بڑے عرصے بعد یہ لوگ ملے تھے ، دفتر اور بچوں کی مصروفیات کی وجہ سے کم کم ہی ملنا ہوتا تھا اورفون کی لائن تو اتنی خراب تھی کراچی میں کہ ایک بندہ بات کرتا تو تین اور لوگوں کی لائن اس میں کنیکٹ ہو جایا کرتی. ویسے بھی پیچھے بچوں کا شور اتنا ہوتا تھا کہ فون پہ بات کرنا دشوار ہو جایا کرتا تھا. وقاص اور آفتاب اوپر ڈرائنگ روم میں چلے گئے، بچے لاؤنج میں کھیل رہے تھے، اور ساتھ والے کمرے میں منیبہ اور ردا بیٹھ کر باتیں کرنے لگے. ردا کا چھوٹا والا کافی بھوکا نظرآ رہا تھا، اس نے سب سے پہلے اس کا ڈائپر چینج کیا ، پھر بیگ سے پیالی چمچہ سیریل اور بوتل سب نکال کر مکس کر کے بچے کو کھلایا. اس دوران منیبه نے ملازمہ کی مدد سے ٹیبل پر کھانا لگوایا. یہ لوگ جب کبھی بھی ملتے تو بہت زیادہ پرتکلف کھانا نہیں ہوا کرتا تھا، اچھی سی ایک دو چیزیں ہوتی تھیں، اور سب مل کر خوشی سے کھا لیا کرتے تھے. کھانے کو پر تکلف بنانے پہ ویسے اس لیے بھی ایک عرصے سے محنت نہیں کررہے تھے کہ انھیں سمجھ آچکا تھا کہ ہم اگر اس کام میں تھک چکے ہوں گے توآپس میں اچھے سے ایک دوسرے کو وقت نہیں دے سکیں گے، اس لیے ملنے سے پہلے اپنی اور بچوں کی نیند پہ بہت توجہ دیا کرتے تھے. بہت محدود توانائی ہوتی ہے ایک انسان میں اس کو کس طرح استعمال کرنا ہے یہ سلیقہ انھیں وقت کے ساتھ ساتھ آگیا تھا.

    کھانے کے بعد بچوں کا شور کچھ اور زیادہ ہی ہو گیا تھا. آفتاب کو سگریٹ پینے کی عادت تھی تو وہ یہ کہہ کر کہ ” ہم باہر سے بچوں کے لیے آئس کریم لے آتے ہیں”وقاص کے ساتھ چلے گئے. پیچھے ردا اور منیبہ نے سوچا کہ بچوں کو ہم ٹی وی پر کچھ لگا کے دے دیتے ہیں تو اس نے وی سی آر کی لیڈ دراز سے نکالی اور شیشے کے کیبنیٹ میں سے کارٹون والی کیسٹ نکال کر لگا دی. بچے سکون سے بیٹھے تو منیبہ اور ردا ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے.

    ردا ہنستے ہوئے کہنے لگی کہ “تمھیں پتہ ہے کہ جب کبھی بھی مجھے پتہ چلا کہ اب مزید ایک اور بچہ میری زندگی میں آرہا ہے، تو سب سے زیادہ جب سپورٹ کی ضرورت تھی نا یار ، دیکھو اپنی ماں ہی سب سے زیادہ یاد آتی ہےنا تکلیف میں! لیکن میری ماں نے ہی مجھے تیسرے بچے کے بعد سے ہی ہر بار اتنا ڈانٹا اتنا ڈانٹا …وہ میری محبت میں ہی مجھے ڈانٹتی ہیں. یہ بات مجھے پتہ ہے، اگر نہ پتہ ہوتی تو شاید میں اور تکلیف میں چلی جاتی، لیکن جب مجھے حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے، مجھے ان کی گود چاہیے ہوتی ہے، مگر وہ مجھے ایسے ڈانٹ رہی ہوتی ہیں جیسے یہ بچہ نکاح کے بغیر ہی آگیا ہے.

    میری زندگی میں ، ماں کے بعد اگر مجھے کوئی سہولت چاہیے ہوتی ہے تو اپنی ڈاکٹر سے چاہیے ہوتی ہے. جب میں ڈاکٹر کے پاس جاتی ہوں تو وہ میری شکل دیکھ کے کہتی ہے تم پھر آگئیں !”
    منیبہ نے کہا “پھر تم یہ سارا غصہ اپنے بچوں کے اوپر اتارتی ہو”
    ردا نے کہا “نہیں پہلے کرتی تھی، اب مجھے سمجھ آگئی ہے کہ بچوں کو مارنا نہیں ہے. پھر مجھے ابا نے یعنی میرے سسر نے بھی کہا کہ بچوں کے چہرے پر نہیں مارتے تو بس صبر کرنا ہوتا ہے، بہن برداشت کرنا ہوتا ہے، اور کیا اللہ تعالی نے کچھ پلان کیا ہوگا میرے لیے، ان بچوں کے لیے، دیکھو کچھ لوگ ترستے ہیں اولاد کی نعمت کے لیے اور کچھ لوگ اس نعمت کو سمجھ ہی نہیں پاتے”
    ردا کی آنکھیں نم ہو گئیں، کہنے لگی “بہت سوں کو تو یہ بھی نہیں معلوم کہ رپورٹ پازیٹو آجاۓ تو پھر اپنا آپ ہی مارنا ہوتا ہے، اس بچے کو نہیں مارنا ہوتا ، اپنی میں قربان کرنی ہوتی ہے، جو آسان نہیں ہے لیکن مجھے اللہ تعالیٰ سے محبت ہے نا تو وہ آسان کر دیتا ہے.”
    منیبه اس کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھ گئی اور بولی “مجھے تو یہی سمجھ نہیں آتا کہ تم اپنے بچوں کے کام وام نمٹا کر ساس سسر کو کیسے دیکھ لیتی ہو اور اکیلی ہوتی ہو ،تمھارے شوہر مطلب کہ آفتاب بھائی کی میں برائی نہیں کر رہی ہوں، لیکن مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ خود اپنے والدین کی خدمت میں بہت کم ہوتے ہیں اور تم آگے آگے. ”
    ردا ہنس دی اور بولی کہ اس بندے کے پاس وقت کہاں ہوتا ہے؟ تمھیں خود اپنے شوہر کا بھی اندازہ ہو گا کہ دفتر والے فیملی کے لیے وقت کہاں رہنے دیتے ہیں. پھر یہ کاروبار بھی کر رہے ہیں، اس میں بھی ٹائم لگتا ہے تو یہ ہم سب کے لیے ہی کر رہے ہیں نا؟ یہ رزق حلال کما رہے ہیں اور ہم رزق حلال کو بچانے کے کام کر رہے ہیں؛ ہے کہ نہیں ؟ یہ جو میں اتنے کام بھاگ بھاگ کے کر لیتی ہوں ادھر ادھر کے، وہ بھی میں اپنے شوہر کی محبت میں کرتی ہوں، مطلب اگر میں نہیں کروں گی، یہ سارے کام اور وہ آ کر کریں گے تو شوہر کا ٹائم مجھے کیسے ملے گا؟ میں ان کے حصے کے کام کر دیتی ہوں اور ان کا وقت مجھے مل جاتا ہے.
    منیبه کہتی ہے “اس طرح سے تو تم نے ڈبل لوڈ لے لیا، تم اتنی اچھی بن کر رہو گی تو سب تمہارے اوپر اور کام کا بوجھ ڈالتے ہی چلے جائیں گے.”
    ردا نے کہا ” نہیں میں سمجھتی ہوں کہ میرے اندر بہت زیادہ اعتماد آیا ہے ان تمام کاموں سے کہ جب آفتاب مجھے کہتے ہیں کہ اچھا تم نے یہ بھی کر لیا تو وہ مجھے بہت شاباشی دیتے ہیں،شکریہ ادا کرتے ہیں ،اعتراف کرتے ہیں کہ میں ان سے زیادہ ان کے والدین کا خیال رکھتی ہوں ،اور سچی بات ہے کہ اس سے زیادہ کی مجھے طلب ہے نہ ہوس .”
    ———————-
    کسی تناور درخت کو بھی بار بار ہلایا جائے تو وہ بھی اپنی جڑیں کمزور کر دیتا ہے ، یہی صابرہ کے ساتھ ہوتا نظر آ رہا تھا ، ماں بھی نہ رہی تھی اس وجہ سے نادیہ ہی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتی تو صابرہ ہتھے سے اکھڑ جاتی، اور یہ بات جب شوکت کو پتہ لگتی تو نادیہ اور شوکت کے اپنے رشتے میں کڑواہٹ پیدا ہوجاتی.

    ایک روز نادیہ سوئی ہوئی تھی کہ وہ خواب میں دیکھتی ہے کہ وہ اور صابرہ کسی جگہ پر گئی ہیں، جہاں بہت رش ہے، اس کے ہاتھ میں اپنے بہت سارے زیور ہیں، وہ چاہتی ہے کہ اس میں سے کچھ صدقہ کر دے مگر وہاں رش اتنا زیادہ بڑھ جاتا ہے ، دھکم پیل ہوتی ہے کہ جب وہ اپنا پرس کھولتی ہے تو اس میں کافی سارے زیورات نیچے گر جاتے ہیں اور وہ ان کو جھک کر اٹھا بھی نہیں سکتی، کیونکہ وہاں اتنا رش تھا تو لوگ نیچے گرے ہوئے زیورات کو لوٹنا شروع کر دیتے ہیں. صابرہ اس صورتحال سے بے نیاز نادیہ سے کہتی ہے کہ مجھے پانی پینا ہے، اور ضد لگا لیتی ہے کہ پانی پلا دیں. وہ دونوں مل کر ڈھونڈتے ہیں تو ایک جگہ نظر آتی ہے ، جہاں ابھی کنواں کھودا جا رہا ہوتا ہے لیکن اس میں پانی ابھی پورا ہوتا نہیں ہے ، گدلا پانی ہوتا ہے،وہاں جو کام کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ نہیں، آپ یہ نہ پیئں ،یہ ابھی صاف نہیں ہے، آپ تھوڑا سا صبر کر لیں اور آگے جا کر صاف پانی پی لیں، لیکن صابرہ کہتی ہے مجھے یہی پانی چاہیے ، مٹی اس کے حلق میں پھنس جاتی ہے تو وہ اسے تھوک دیتی ہے ، اور جب وہ زور زور سے کھانس رہی ہوتی ہے تو تکلیف کی وجہ سے نادیہ کی آنکھ کھل جاتی ہے.

    نادیہ جب یہ خواب اپنی ماں کو سناتی ہے تو اس کی ماں اس پر بہت زیادہ غصہ کرتی ہے کہ تم صابرہ کے لیے ہلکان ہونا چھوڑ دو، وہ اپنے لیے اچھا فیصلہ نہیں کر پا رہی ہے جس سے تمھاری خوشیاں بھی اس کی بے صبری کی وجہ سے لٹ جائیں گی۔ تمھارے پاس جو زیور تھے، وہ تمھاری خوشیوں کا تھیلا تھا ،جو اس کی وجہ سے خراب ہو رہی ہیں، اور وہ جو بھی دھکے پڑ رہے تھے وہ حالات ہیں، جو اس کی بدزبانی کی وجہ سے آئیں گے اور اس میں تمھیں بھی پریشان ہو گی، اور وہ جو پانی والی بات ہے وہ اس کی بے صبری ہے کہ اس نے میٹھے پانی کا انتظار نہیں کیا اور وہی کیچڑ والا پانی پینےکی کوشش کی جسے تھوک دیا اور اس کو پھندا بھی لگ گیا ۔ تو تم اپنے آپ کواس کی ساری کاروایئوں سے دور رکھو ، اب آگے جو چیزیں بھی خراب ہوں گی ،اس سے تمھیں بہت تکلیف بھی ہو سکتی ہے تم اپنا صدقہ وغیرہ دو۔ آخر وہی ہواجس کے بارے میں سب کو پہلےسے اندازہ تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے ۔

    صابرہ کی کاہلی اور بدزبانی کی وجہ سے خرم ایک دن آپے سے باہر ہو گیا۔ وہ کبھی نہیں چاہتا تھا کہ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھائے، لیکن اس روز یہ ہو گیا تو صابرہ نے رو رو کر بد دعائیں دے دے کر محلہ سر پر اٹھا لیا. شوہر کے خاموش کروانے پر اس سے اتنی زیادہ بدزبانی کی کہ آواز تک بیٹھ گئی، پھر بھی صبر نہ آیا تو غم و غصے میں شرکیہ، کفریہ الفاظ بولنے سے بھی باز نہ رہی. بہرحال محلے میں سے ہی جان پہچان کےلوگوں نے اس کے بھائی کے گھر فون کیا تو بھائی اسے لینے پہنچا. صابرہ کو امید تھی کہ بھائی خرم سے میرے تھپڑ کا بدلہ ڈنڈے سوٹے سے لے گا لیکن محلےداروں نے ڈھیر ساری گواہیاں صابرہ کے خلاف اور خرم کے حق میں دینی شروع کردیں، لہٰذا یہ جھگڑاوہیں تھم گیا، اور شوکت شرمندگی کے ساتھ بہن کو اپنے گھر لے آیا ۔ وہ حیران تھا کہ اسے اس سے پہلے وہ سب باتیں معلوم ہی نہیں تھیں جو محلے والوں نے بتائیں۔ جن سے اسے دلی صدمہ بھی ہوا کہ اس کی پیاری بہن کیسی نادان ہے، اس نے نادیہ سے اپنا غم ہلکا کرتے ہوئے کہا کہ اس پگلی نے اپنی زندگی کے ساتھ کیا کچھ کر ڈالا ہے۔نادیہ دل میں سوچ کر رہ گئی کہ “صرف اپنی زندگی یا ہم سب کی زندگیوں کے ساتھ ”
    ———-
    نادیہ کی طبعیت کافی خراب رہنے لگی تھی، اس کی دیکھ بھال صابرہ کے سر آچکی تھی، وہ بہ مشکل کچن سنبھالتی اور تھک کر چور ہو جاتی. شوکت دن بھر کا تھکا جب گھر آتا تو نہ کھانا بنا ملتا نہ ہی بیٹے سعد کا حلیہ ٹھیک ہوتا. صبح ناشتے میں پاپے کھا کر نکلتا اور واپسی میں ہفتے بھر کھانے میں وہی پتلی کھچڑی یا دلیہ ملتا رہا جو صابرہ مارے باندھے نادیہ کے لیے بنا لیا کرتی تھی.

    شوکت پرایک نئی حقیقت آشکار ہو رہی تھی کہ اس کی بیوی نے گھر کو کتنی مستعدی سے جان مار کر سنبھالا ہوا تھا ، حتی کہ اس کی امی کو بھی آخر وقت تک، اور صابرہ تو اب بھی کہیں شادی کر کے گھر سنبھال لینے کے قابل خود کو نہیں بنا سکی ہے ،لیکن جوان لڑکی ہے شادی تو کرنی ہی ہوگی، مگر ایسے کیسے گھر چلاۓ گی اپنا ؟

    نادیہ اپنی کمزوری کی وجہ سے دل گرفتہ تو تھی لیکن خوش بھی تھی کہ شوکت کو اندازہ تو ہو جاۓ گا حالات کا ….تو کیا وہ اسے سراہے گا ؟ کیا کسی مسجد کے خطبے سے، سکول سے، والدین سے، اپنے کام پر اس نے اتنی سی بات سیکھی ہو گی کہ بیوی کو سراہا جانا چاہیے. وہ چند لفظ اس کے ذمہ داری سے لائی ہوئی دواؤں، پھلوں اور دودھ سے زیادہ نادیہ کو طاقت بخش دیتے،محبت کا اظہار شادی کے شروع دنوں میں تو مجھے تم سے محبت ہے کہہ دینے سے ہو جاتا ہے، لیکن کچھ سال بعد کبھی کبھی مجھے تم پر فخر ہے،مجھے تم پر بھروسہ ہے، مجھے تھماری محنت کا ادراک ہے، مجھے تمھارے صبر کی قدر ہے، کچھ تو، کبھی تو ، اندھے فقیر کے کاسے میں کھنکھناتے ہوئے سکوں کی آواز کی مانند درکار ہوتے ہیں .

  • میں قربان  (2) – فرح رضوان

    میں قربان (2) – فرح رضوان

    نادیہ کو صابرہ پر کبھی ترس آجاتا کبھی غصه. غصہ اس لیے کہ وہ بہت اچھی طرح سمجھ رہی تھی کہ صابرہ کا شوہر خرم اتنا بھی برا انسان نہیں بلکہ وہ تو ایک شریف النفس انسان ہے، جو بیوی کا اتنا غصّہ اور بار بار روٹھ کر میکے چلے جانا برداشت کر لیتا ہے، لیکن بیوی کی مادی فرمائشیں پوری کرنے کی خاطر زیادہ کی لالچ میں حرام کی طرف نہیں جاتا، اور یہ بات اس نے صابرہ کو کئی بار واضح طور پر بتا دی ہے.دوسری جانب صابرہ کی ازلی سستی، گھر کے کاموں میں عدم دلچسپی اور اپنے سجنے سنورنے، گھومنے پھرنے کے شوق کو پورا کرنے کی بے لگام خواہش اس کے شوہر کی تنخواہ سے بہت بڑھ کر ہے تو بیل کیسے منڈھے چڑھے ۔

    صابرہ بچپن سے اپنے ابا جی کی بہت ہی لاڈلی تھی ،جب جب اس کی ماں چاہتی کہ یہ گھر کے کام سیکھ جائے تو اس کا باپ ہمیشہ ہی اسے ان کاموں سے روک دیا کرتا تھا کہ میری بیٹی تھک جائے گی. ماں بھی میاں کے سامنے تھوڑی بہت بات ہی کرپاتی تھی کہ آگے جا کر ہماری بچی کو نباہ میں بہت مشکل ہو جائے گی تو وہ کہتا کہ آگے اللہ آسانی کرے گا۔ میری شہزادی تو کسی بڑے گھر میں ہی بیاہ کر جائے گی، جہاں اسے ان چھوٹے موٹے کاموں کو کرنا ہی نہیں پڑے ۔صابرہ اسی سوچ اور تربیت کے ساتھ بڑی ہوتی گئی، باپ اس کے نخرے اٹھاتا رہا، وہ منہ سے کوئی بات نکالتی کہ مجھے فلاں چیز چاہیے اور کبھی اپنی تنگدستی کی وجہ سے وہ پورا نہیں کر پاتا تو پھر صابرہ نیند میں اس بارے میں رونا یا بڑبڑانا شروع کر دیتی تھی. ماں کہا کرتی کہ یہ بڑبڑاتی نہیں ہے مکر کرتی ہے، اور جب اس کو ہنسانا یا جگانا چاہتی تو باپ روک دیتا کہ نہیں میری شہزادی کی نیند خراب ہو جائے گی، مگر اپنی بھوک اور نیندیں قربان کر کے اس کی فرمائش پوری کیا کرتا تھا. صابرہ کے والد اپنی بیٹی کے لاڈ کے سامنے اس کی ماں کی ایک نہیں سنتے تھے، یوں اس کی پرورش میں یہ چیزیں شامل ہوتی چلی گئیں تو وہ ہر ایک سے زور زبردستی اپنا آپ منوانا شروع ہو گئی۔

    یہ سب باتیں نادیہ کو اس لیے معلوم تھیں کہ وہ ان کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھی۔ اور اکثر صابرہ کی ماں نادیہ کی ماں سے ہی مشورے کیا کرتی تھی۔

    رفتہ رفتہ صابرہ کا مزاج سخت سے سخت ہوتا چلا گیا ، زبان اس سے بھی زیادہ تیز ہوتی چلی گئی۔ جب اسے غصہ آتا تو اپنی ماں کو بھی اچھے سے باتیں سنانے سے نہ چوکتی، اور محلے پڑوس میں کبھی کسی سے کوئی بات ہوجاتی تب بھی چھوٹے بڑے کا لحاظ کیے بغیر ان سے خوب لڑا کرتی. رشتہ داروں میں سے کسی کی کوئی بات اسے بری لگتی تو گھر بیٹھے ہی ان کو برا بولتی رہتی اور باپ اس کا ساتھ دیتا رہتا کہ کیسے اپنے حق کی بات کرتی ہے میری بیٹی تو وہ اور شیر ہو جایا کر تی ۔ حتی کہ بعض دفعہ باپ سے بھی بد تمیزی کر جاتی لیکن وہ اسے لاڈ ہی مانتا۔ بہرحا ل تقدیر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے، ایک دن صابرہ کے والد کا ہارٹ فیل ہوا اور وہ اسے روتا چھوڑ کر دنیا سے کوچ کر گۓ۔

    والد کی وفات کے بعد گھر کا سارا بوجھ شوکت کے کاندھوں پر آ گیا۔ وہ ابھی کالج میں ہی تھا، ساتھ ہی سارے گھر کا ذمہ اٹھانا پڑا، اس نے خود سے عہد کر لیا تھا کہ وہ صابرہ کو کبھی بھی باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دے گا۔تو باپ کی جگہ شوکت نے لے لی، یعنی ماں جو سمجھتی تھی کہ اب بھی صابرہ کو راہ راست پر لایا جا سکتا ہے، اس کی بیٹے کے سامنے کچھ نہ چل سکی۔ شادی کی عمر ہوئے تک صابرہ کی بدمزاجیوں کے جوہر محلے اور رشته داروں پر اتنے کھل چکے تھے کہ اس سے لوگ رشتہ کرنا تو دور اس کے لیے رشتہ لانے سے بھی ڈرا کرتے. جس قسم کےرشتے خالہ رشتے والی لا رہی تھیں وہ صابرہ کو بالکل بھی پسند نہیں آرہے تھے. پھر جب اس کی عمر تھوڑی بڑھنی شروع ہوئی اور دو چارقریبی لوگوں نے بھی اسے سمجھایا کہ انسان کو اپنے ہی جیسے لوگ ملتے ہیں، تم جس طرح کے خواب سجا کے بیٹھی ہو، ایسا رشتہ مشکل سے ہی ملتا ہے،صبر سے کام لیتے ہوئے اللہ سےامید رکھو کہ شادی کے بعد جیسے جیسے تمھارے شوہر کی ترقی ہوگی تو تم سارے خواب پورے کر لینا، لیکن صابرہ میں کمی صبر ہی کی توتھی۔

    صابرہ کو اپنے ہونے والے شوہر کا سوشل اسٹیٹس بالکل بھی پسند نہیں آیا تھا. ہاں اسے شادی کرلینے کا آئیڈیا اس لیے پسند آ گیا تھا کہ پھر اماں جو کہتی تھیں کہ ابھی لپسٹک نہ لگاؤ، ابھی تیار ہو کے باہر نہ جاؤ ،بال نہ کھولو، ان سب باتوں کی آزادی اسے شادی شدہ ہونے کے بعد مل جانی تھی، اسے جہیز کے لیے بہت ساری چیزوں کا شوق تھا، یہ ساری خواہشات اس کے بھائی نے پوری کیں تاکہ صابرہ کو باپ سے محرومی کا احساس نہ ہو . اپنے بہت سے خرچے نظر انداز کر کےاور کئی خواہشات پس پشت ڈال کر شوکت نے بہن کے لیے جہیز تیار کیا ،اس سے بھی صابرہ میں ایک احساس تکبر پیدا ہو گیا تھا. شادی کے دن سے ہی صابرہ نے بہت زیادہ سخت مزاجی اور ترش روی کا مظاہرہ کیا۔ اس کے سسرال سے جب جوڑا آیا تو اس نے غصے میں اس کو اٹھا کے پٹخ دیا اور زیور ایک طرف ڈال دیے کہ یہ کوئی چڑھاوے پہنانے کی چیز ہے،ایسے ہلکے زیور پہنوں گی میں! کم از کم میرے سسرال والوں کو اتنا اور اتنا تو کرنا ہی چاہیے تھا ،معیار اس نے اپنے ذہن میں اتنا زیادہ بلند کر کے رکھا تھا کہ وہ چیز پوری ہو کر نہیں دے رہی تھی۔

    صابرہ کو سسرال کی ذمہ داریاں بھی اپنے سر نہیں لینی تھیں۔ اس نے چند ہی دنوں میں الگ گھر لینے کا مطالبہ کر دیا اور اس بات پر روٹھ کر میکے آ گئی، اور تب سے یہ روٹھنا منانا شروع ہوا جو شادی کے دو سال بعد تک بھی جاری رہا، لیکن اس کا شوہر کیونکہ جانتا ہےکہ اس لڑکی کا باپ بھی نہیں ہے، اور یہ غریب گھر کے لڑکی ہے تو وہ جس حد تک رعایت کر سکتا تھا کرتا رہا لیکن اب یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ جیسےوہ بھی تھک چکا ہو .

    نادیہ سوچ رہی تھی کہ عجیب انتہاؤں پر ہوتے ہیں لوگ، میرے میکے میں بیٹیاں کتنی ہی لائق فائق ہوں، ان کی قدر ہی نہیں، لیکن لڑکا کتنا ہی نکما ہو اسے سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں، جبکہ صابرہ کے کیس میں بیٹی کو سر پر بٹھا کر اسے اپنے ہی گھر میں ٹک کر بیٹھے رہنے کے قابل نہیں چھوڑا۔ کیا میں اپنی ہونے والی بیٹی کو اعتدال سے پال سکوں گی ؟
    ———-
    منیبہ پہروں بیٹھی سوچا کرتی تھی کہ اس کے شوہر نے کتنی محنت سے یہ گھر بنایا، لیکن ساتھ ہی امریکہ کی ایمیگریشن کے لیے بھی کاغذات جمع کروا دیے تھے. وہ بھرا پرا میکہ خاص کر بڑھاپے کو پہنچنے والے والدین کو چھوڑ کر کیسے رہ سکے گی؟ کتنا مزہ آئے کہ ان کے پیپر ریجیکٹ ہو جائیں، اگر ویزہ مل گیا تو کیا وہ عین وقت پر اپنے شوہر کو پاکستان چھوڑ کر نہ جانے کے لیے منا سکے گی؟ کیا کریں گے فیملی کے بغیر ؟ اسے تو سسرال میں بھی مزہ ہی آتا تھا، بس کبھی کبھی دونوں نندوں کی ناسمجھی سے بیزار سی ہو جایا کرتی تھی، وہ بھی اپنے لیے نہیں ان ہی کے بچوں کی تربیت کے لیے.
    منیبه نے دبے لفظوں میں پہلے بھی اپنی دونوں ہی نندوں کو الگ الگ یہ بات سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ بلا شبہ ان میں مثالی محبت ہے، اور ان کے شوہر بھی ایک دوسرے کے اچھے دوست ہیں، لیکن آمنے سامنے اپارٹمینٹس میں مزید رہتے رہنا دانش مندی ہرگز نہیں. ایک تو یہ کہ آپا کے بیٹے بڑے ہو رہے ہیں، خالہ کے گھر بلا جھجک پہنچ جانے کی عادت پر ہی کم از کم پابندی ہونی چاہیے، دوسرا یہ کہ نگہت کی بیٹی گو کہ چار پانچ سال کی کمسن بچی ہے لیکن کزنز کے ساتھ سودا سلف لینے تنہا بھیج دیا کرنا دونوں کی اولادوں کے لیے ٹھیک نہیں، لفٹ میں ننھی نادان بچی کزنز کے ساتھ جائے یہ مناسب نہیں.جس پر نہ صرف دونوں بہنیں اس کی ذہنی آلودگی پر برس پڑی تھیں، بلکہ بھائی سے بھی اس کی بیگم کی اس گھٹیا سوچ پر شکایت لگادی تھی، جس پر وقاص منیبه پر بہت برہم ہوا تھا، اور منیبه نے ان بھائی بہنوں کی بے عقلی پر ماتم کرکے اس معاملے سے خود کو الگ کرلینے کا پکا فیصلہ کر لیا تھا، البتہ ساس سسر جو آج کل نگہت کے گھر ہی رہنے گۓ ہوئے تھے، ان تک غالبا یہ ان بن والی باتیں نہیں پہنچائی گئی تھیں، تبھی انھوں نے اس کی پیشی طلب نہیں کی تھی، لیکن ! آج ساس کی طبعیت کی خرابی کا سن کر اس سے رہا نہ گیا،جلدی جلدی پرہیزی کھانا تیار کیا کہ بچوں کے سکول سے واپس لوٹنے سے پہلے ہو آۓ گی.

    سرپرائز دینے کی غرض سے بغیر اطلاع دیے منیبہ وہاں پہنچ گئی، لیکن اوپر آکر سوچا کہ اس سے پہلے کہ کوئی کڑوی بات سنائی جائے، خود ہی بڑی آپا کو سلام کرتے ہوئے نگہت کی طرف جانا چاہیے،لیکن دستک کے بعد دروازہ کھلنے پر اسے اپنے غصے پر قابو پانا مشکل لگ رہا تھا.پہلے اسے صرف خدشہ تھا کہ آپا کا بڑا بیٹا راشد کسی فتنے کا شکار ہو چکا ہے، اسی لیے نگہت کی معصوم حنا کو اس کی پہنچ سے دور رکھنا چاہیے، لیکن اس وقت تو اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی جب راشد نے بتایا کہ مما تو خالہ جانی کے گھر ہیں، نانو کی خدمت کرنے گئی ہیں. اس نے ڈانٹ کر پوچھا کہ حنا یہاں کیوں ہے؟ تم سکول میں کیوں نہیں؟ تو بڑے سکون سے جواب دیا کہ مامی سکول میں تو پڑھائی ہوتی ہی نہیں، میں گھر پر ٹیسٹ کی تیاری کے لیے رک گیا تھا ….اور یہ حنا موٹلو اپنے گھر میں رہتی کہاں ہے؟ کبھی بلو اسے لے آتا ہے کبھی سنی، کبھی مما بابا بلا لیتے ہیں، سارا دن کبھی کینڈیز کھاتی ہے، کبھی چاکلیٹ، وہاں گھر پر تو خالو جان اسے یہ کھانے سے منع کرتے ہیں نا ….منیبه کو دال میں کالا نہیں دال ہی کالی دکھائی دے رہی تھی، لیکن کس سے کہتی ….شاہد بھائی، ہاں وہ باپ ہیں حنا کے، ان کی غیرت کو جگانا پڑے گا. وہ اپنے ماتھے پر پڑی تیوریوں سے راشد کو باور کروا چکی تھی کہ اسے یوں اکیلے گھر میں حنا کو ساتھ رکھنا سخت ناگوار گزرا ہے. اس نے حنا کا ہاتھ تھامے بہ مشکل ایک قدم ہی پیچھے کیا ہوگا تو خود کو نگہت کے گھر کے سامنے پایا.راشد ساتھ ہی آگیا تھا اور اس سے پہلے ہی بغیر دستک دیے سیدھا گھر کے اندر جاکر بتایا کہ بڑی مامی آئی ہیں.

    منیبہ غصے پر قابو پاتے ہوئے سب سے اچھے سے ملی، ساس سے مسکرا کر پوچھا کہ سچ بتائیں کیا بدپرہیزی کی تھی، تو سسر نے ہنستے ہوئے بتایا کہ سب آئسکریم کھا رہے تھے تو ہماری بیگم سے رہا نہیں گیا، اب دیکھو ذرا کتنی تکلیف اٹھا رہی ہیں. منیبه نے پریشانی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “امی آپ کو لاسٹ ٹائم ڈاکٹر نے کتنی تاکید کی تھی نا کہ آپ کا جسم بہت کمزور ہو گیا ہے، ٹھنڈی میٹھی کسی چیز کی لالچ میں نہیں آنا، ورنہ صرف شوگر نہیں بڑھے گی بلکہ نمونیہ بھی ہو سکتا ہے ” دونوں نندوں نے بہ یک زبان بھاوج کی بات کاٹی بلکہ آپا نے تو قدرے سخت لہجے میں کہا کہ “اللہ کی بندی بات تو اچھی کیا کرو”، جبکہ نگہت نے منمناتے ہوئے کہا “بھابھی برا نہیں مانیے گا لیکن جب سے نیا گھر لیا ہے نا آپ نے، لگتا ہے جیسے سب کو شرمندہ کرنے کا علم اٹھالیا ہے.” منیبه ہکا بکا رہ گئی ،نگہت کا شکوہ جاری تھا “میں اکیلے ہی محسوس نہیں کرتی کہ آپ کہیں کہ میں اپنے بھائی کی ترقی سے جلنے لگی ہوں، نقاش بھائی بھی کہہ رہے تھے کہ اب وہ بات نہیں رہی بھابھی کے رویے میں.” منیبه کی حیرت میں مزید اضافه ہو گیا تھا کہ اس کے پیٹھ پیچھے وہ نند اور دیور جن کا ہر بھلے برے وقت میں جی جان سے ساتھ دیا، اس کے بارے میں کیا کیا باتیں کرتے ہیں ،مگر شادی کے اتنے عرصے بعد وہ یہ بھی جان چکی تھی کہ ان سب کو صفائی دینے پر یہ مل جل کر کوئی دوسرا الزام اس کے سر ڈال دیں گے، لہذا وہ اس بات کو اگنور کر کے دھیمے سے اٹھ کر ساس کی سائیڈ ٹیبل پر رکھی دواؤں کا جائزہ لینے لگی …پھر ٹھٹھک کر مڑی اور آپا سے پوچھا، “ان دونوں دواؤں کی ایکسپائری ڈیٹ تو بہت نزدیک کی ہے، کس میڈیکل سٹور سے لی ہیں ؟ وقاص تو امی ابا کی دوائیں ہمیشہ اچھے سٹورز سے لیتے ہیں ،ختم ہو رہی تھیں دوائیں تو انہیں فون کر دیتے “- آپا نے چونک کر راشد کی طرف دیکھا کہ اس نے پھر پیسوں میں ڈنڈی مار لی ہے، لیکن بھاوج کے سامنے بہانہ بنادیا کہ ارے یہ تو راشد جلد بازی میں نیچے والی دکان سے پورا پتہ لے آیا، میں ابھی تم سے یہی تو کہنے والی تھی کہ وقاص کو کہہ دینا دفتر سے آتے وقت امی کی دوائیں لیتا آئے. تم بیٹھو چاۓ تو پیو. راشد ماں کی آنکھوں میں قہر دیکھ کر واپس اپنے گھر ٹیسٹ کی تیاری کرنے چلا گیا .
    (جاری ہے)

  • ایک گاؤں بہت یاد آتا ہے۔۔۔ کنول بہزاد

    ایک گاؤں بہت یاد آتا ہے۔۔۔ کنول بہزاد

    جانے وہ ایک گاؤں مجھے کیوں اتنا یاد آتا ہے۔ وہ گاؤں میرے خوابوں کا مسکن تھا۔ جانے وہ واقعی اتنا خوبصورت تھا یا میری یادوں میں وہ اتنا حسین دکھائی دیتا ہے۔ اگرچہ میں ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئی لیکن میں نے جب ہوش سنبھالا تو میں نے اپنے آپ کو اس گاؤں میں پایا ۔یہ شہر سے محض انیس بیس کلو میٹر کے فاصلے پر واقع تھا جہاں دادی کو وراثت میں ملی ہوئی کچھ زمینیں تھیں، جبکہ دادا کی زمینیں دریائے سندھ کے پاس بیٹ کے علاقے میں تھیں۔

    وہ گاؤں بڑا سرسبز و شاداب تھا، درختوں اور پودوں سےگھرا ہوا تھا۔ پکی سڑک سے میرے گھر تک ایک ندی بہتی تھی ۔ ہم ندی کی لہریں گنتے گھر پہنچ جاتے تھے۔ وہاں دادی کے بھائی کا جو ایک زمیندار تھے ایک بہت بڑا ٹیوب ویل تھا، ساتھ ہی ایک آٹا پیسنے والی چکی تھی جس کی سریلی آواز پورے گاؤں میں گونجتی رہتی تھی اوراس کی آواز کسی ساز کی طرح سنائی دیتی تھی۔ وہ آواز بڑا مسحور کرتی تھی۔

    وہاں موجود ہمارا گھر بہت خوبصورت تھا وہ بہت بڑا تھا۔ اس میں ایک بہت بڑا سا باغ تھا جس میں اتنے ڈھیر سارے پودے اور درخت تھے کہ اب میں سوچتی ہوں تو یقین نہیں آتا ۔اسی گھر میں مالٹے ، سنگترے، آم ، شہتوت ، جامن اور کھجوروں کے درخت تھے جو خوب پھل دیتے۔ایک بڑا سا نیم کا درخت تھا جس کے ساتھ جھولا بندھا رہتا تھا۔ اس میں میں جب جھولا لیتی تو پورا گاؤں نظر آتا تھا اور مجھے یوں لگتا تھا جیسے میں کسی اڑن کھٹولے پر بیٹھی ہوں۔ باغ میں دو سنبل کے بڑے بڑےدرخت تھے جو بہار میں پھولوں سے لد جاتے تھے اور جب وہ پھول نیچے گرتے تو باغ سرخ پھولوں سے بھر جاتا تھا اور ہم نے پھولوں کو اکٹھا کر کے بہت خوش ہوتے ۔گلاب اور چنبیلی کے پھول بھی وہاں اپنی خوب بہار دکھاتے۔ رات کی رانی مہکتی تو پورا آنگن خوشبو سے بھر جاتا۔

    گرمیوں کی صبح بڑی حسین ہوتی تھی۔ صبح اٹھتے ہیں اماں کی مددگار ماسی کندن صبح صبح پہنچ جاتی اور سارے گھر کو لمبا سا جھاڑو لے کر صاف کرتی ۔ بڑا سا صحن خوب صاف ستھرا ہو جاتا۔ میں اور میرا بھائی امی کے ساتھ ہی صبح سویرے اٹھ جاتے اور وہ اپنی ٹرائی سائیکلیں لے کر خوب بھگاتے۔ ہم دونوں کا آپس میں مقابلہ ہوتا کہ کون آگے نکل جائے گا کون کس سے سبقت لے جائے گا ۔ہم میں سے اگر کوئی پیچھے رہ جاتا تو ہمارے گھر میں کام کرنے والا ایک لڑکا جس کا نام محمد علی تھا وہ پیچھے رہ جانے والے کی سائیکل دھکیلتا۔وہ بھائی کو فرخ جی اور مجھ کنول جی کہتا تھا۔وہ ہم بہن بھائی کو ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کے لیے جوش دلاتا۔کچا صحن ٹائروں کے نشانوں سے گندا ہو جاتا اور اماں سے خوب ڈانٹ پڑتی۔ پھرا ماں باورچی خانے میں چلی جاتیں اور وہاں سے پراٹھوں اور دیسی انڈوں کے آملیٹ کی خوشبو پورے آنگن میں پھیل جاتی ۔ہماری بھوک بھی خوب چمک اٹھتی ۔ پھر ہم بھی ناشتے کے لیے وہاں پہنچ جاتے اور مزے لے لے کر پراٹھے اور انڈے کھاتے۔

    ہمارے گھر کے ساتھ ہی نانی حیاتاں کا گھر تھا جو ہمارے گھر سے سانجھی دیوار اور اندرونی دروازے کے ساتھ جڑا ہوا تھا ۔وہ بڑی شفیق ،بڑی سخی، بڑی ملنسار اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ گاؤں کے سارے لوگوں کی خوب مدد کیا کرتی تھیں اور سب کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرتیں۔ ہم نے ان سے قرآن مجید بھی پڑھا۔ کبھی کبھی ہماری گائے دودھ نہ دیتی تو امی وہاں لسی اور مکھن لینے کے لیے بھیجا کرتیں ۔انہوں نے اماں کو بیٹی بنایا ہوا تھا ۔

    گاؤں کے لوگوں کے دکھ سانجھے تھے، سب ایک دوسرے کی خوب کام آتے۔ تکلیف میں ایک دوسرے کی مدد کو پہنچتے اور کبھی ایک دوسرے کو اکیلا نہ چھوڑ تے۔ اگرچہ ہر گھر میں ہینڈ پمب موجود تھا مگر کبھی کبھی گاؤں کی عورتیں تفریح کے لیے ہیں ندی پر کپڑے دھونے جایا کرتی تھیں ،ایسے میں ہم بھی ساتھ ہو لیتے ۔جس دوران خواتین کپڑے دھوتیں ہیں ہم ندی میں خوب نہاتے۔ ندی میں تیرنے اور نہانے کا لطف آج بھی مجھے یاد آتا ہے۔

    جب کبھی شب برات آتی تو ایسے میں سرکنڈوں سے بنے ہوئے گٹھے سے تیار کیے جاتے اور اس کے سرے پر آگ لگا دی جاتی ۔سب بچے اپنا اپنا گٹھا اٹھا کر پورے گاؤں میں گھومتے اس کو سب لوگ شمع کہتے تھے ۔گاؤں کے بچوں کی سر خوشی کا عالم دیکھنے کے لائق ہوتا ۔ بچے خوب شور مچاتے اور نعرے لگاتےتھے۔ اس لیے اس کا نام بھی شمع والا جلوس تھا ۔

    عید الفطر جب قریب آتی تو گاؤں میں سویاں بٹنے کا اہتمام ہوتا۔ ساری عورتیں جمع ہو جاتیں اور ہاتھ والی مشین سے سویاں تیار کی جاتیں۔ یہ سارا عمل کافی محنت طلب ہوتا تھا مگر ہم بچوں کو بہت لطف آتا تھا۔چارپائیوں پر اجلی چادریں بچھا دی جاتیں اور سویوں کے لچھے توڑ توڑ کر ان پر سوکھنے کے لیے ڈال دیے جاتے۔یہ نظارہ بڑا خوش کن ہوتا تھا۔ہم تصور ہی تصور میں عید پر انھیں کھانے کا لطف لینے لگتے۔

    گھر کی پچھلی دیوار کے ساتھ ہی ہمارا پہلا سکول واقع تھا جہاں ہم بس کہانیوں کی کتاب لے کر استانی جی کے پاس پہنچ جاتے۔وہ ہمیں قاعدہ پڑھانے کے لیے منتیں ترلے کرتیں مگر ہم ٹس سے مس نہ ہوتے۔سو انہوں نے جانے کتنی ہی بار وہی ایک کہانی پڑھ کر سنائی۔ آدھی چھٹی ہوتی تو خوب ہی کھیلتے۔تختی کو گاچی لگا کر دھونے اور لہرا لہرا کر سکھانے کا بھی مزا آتا۔

    سردیوں گاؤں کے مضافات میں پہاڑوں سے خانہ بدوش پٹھان آکر اپنی جھونپڑیاں ڈال لیتے۔ان کے بچے اور عورتیں بڑے ہی سرخ سفید اور خوبصورت ہوتے تھے۔عورتوں کا روایتی لباس اور زیورات بہت دلکش ہوتے تھے۔عورتیں پانی بھرنے ندی پر جاتیں اور ایندھن کے لیے گاؤں بھر سے لکڑیاں بھی اکٹھی کرتیں۔یہ لوگ بڑے مہمان نواز ہوتے تھے۔ہم لوگ کبھی کبھی سیر کے بہانے ان کے گاؤں چلے جاتے تو وہ گڑ کے قہوے سے ہماری تواضع کرتے۔ بڑے سے توے پر عورتیں بڑی مہارت سے بڑی بڑی گول روٹیاں پکاتیں تو ہم حیرت سے تکا کرتے۔ غرض ان کے گاؤں کی سیر ہفت اقلیم سے کم نہ لگتی۔ ایسی ڈھیروں یادوں سے دل کا آنگن آراستہ ہے۔جانے کب وہ ہنستے کھیلتے دن خواب ہوئے اور ہم ہمیشہ کے لیے شہر لوٹ آئے۔

  • پائیدار ترقی اور آنے والی نسلیں – جنید احمد خان

    پائیدار ترقی اور آنے والی نسلیں – جنید احمد خان

    سسٹین ایبل ڈولپمنٹ سے مراد وہ ترقی ہے جو آنے والی نسلوں کی ضروریات پر سمجھوتہ کئے بغیر موجودہ نسلوں کی ضروریات کو پورا کرتی ہے، پائیدار ترقی کا مقصد ایک ایسے سماج کی تشکیل ہے جہاں انسانی ضروریات کو ایک ایسے انداز میں پورا کیا جاتا ہے جہاں قدرتی وسائل کا ضرورت کے عین مطابق استعمال ہوتا ہے اور ضیاع سے حتی الوسع گریز کیا جاتا ہے، پھر اس کا بحیثیت مجموعی اس کرہ ارض اور آنے والی نسلوں پر ایک مفید و خوشگوار اثر پڑتا ہے ۔

    پائیدار ترقی ایک ہمہ گیر نوعیت کا عنوان ہے جو کہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے منسلک ہے، اور ہر شعبہ زندگی میں اس کا گہرا عمل دخل ہے اور اگر ان پر عمل درآمد ہو تو بحیثیت مجموعی پائیدار ترقی کے تقاضوں کو پورا کیا جا سکتا ہے ۔

    روزمرہ زندگی میں پائیدار ترقی کی بہت سی مثالیں موجود ہیں، برقی توانائی کی ہی مثال لے لیتے ہیں، ہم اپنے گھروں میں برقی توانائی کا استعمال کر کے بہت سے کام سرانجام دیتے ہیں، ہم استعمال کے ساتھ ان کا ضیاع بھی کرتے ہیں، اگر کوئی کمرہ ایک یا دو بلبوں سے روشن ہوتا ہے تو تیسرا بلب روشن نہیں کرنا چاہیے، ایسے بلب کا استعمال کرنا چاہیے جو روشنی کے ساتھ کفایت بھی مہیا کرے، دن کے وقت سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا چاہیے جس سے برقی توانائی کی بچت بھی ہوتی ہے، اور ماحول اور انسانی صحت پر ایک قدرتی اثر پڑتا ہے۔

    ہمارے زیادہ تر گھروں میں برقی توانائی کا منبع واپڈا یا ڈسکوز کی طرف سے ہوتا ہے جنہیں ہم بھاری بھرکم بل ادا کرتے ہیں، پس اگر استطاعت ہو تو شمسی توانائی کا انتظام گھروں میں ضرور کرنا چاہیے جو کہ گرین انرجی یعنی سبز توانائی ہے، جبکہ ڈسکوز کی بجلی زیادہ تر فوسل پیول اور دوسرے غیر ماحول دوست ذرائع سے بنتی ہے اور اسکا استعمال بحیثیت مجموعی نہ صرف ماحول پر پڑتا ہے بلکہ نیشنل گرڈ پر بھی بوجھ میں اضافہ ہوتا ہے، پس اگر گرین انرجی کا استعمال زیادہ ہو تو نہ صرف انفرادی بچت ہے بلکہ سسٹم کو بجلی کی بچت مہیا کر کے لوڈشیڈنگ میں کمی لائی جا سکتی ہے اور اس میں پورے ملک و قوم کا بھی فائدہ ہے، مزید اب گرین میٹرز کا بھی اجرا ہو چکا ہے جو نیٹ مییٹرنگ کے اصولوں پر چلتی ہیں، یعنی کوئی بھی صارف مطلوبہ مقدار سے زیادہ توانائی برقی کمپنی یا گرڈ سسٹم کو بیچ سکتا ہے، پس یہ صارفین کے لیے بھی سودمند ہے، برقی توانائی کے پیداواری صلاحیت میں بھی ایک مثبت اضافہ ہے اور پائیدار ترقی کی جانب بھی ایک اہم قدم ہے۔

    دوسری مثال سبز عمارات یعنی گرین بلڈنگز کی لی جا سکتی ہے، یہ ایسی عمارتیں ہوتی ہیں جنہیں پائیدار ترقی کو مدنظر رکھ کر ڈیزائن کیا جاتا ہے، وہاں کھڑکیوں کا ایسا نظام ہوتا ہے جہاں مد مقابل سمتوں سے تازہ ہوا داخل و خارج ہوتی ہے اور کمرے ہوادار ہوتے ہیں، چھتوں اور دیواروں میں تھرموسٹیٹ میکانزم ہوتا ہے جو درجہ حرارت کو موسمی تقاضوں کے عین مطابق معتدل رکھتا ہے اور معمول کے مطابق سردی یا گرمی سے بچنے کیلئے برقی آلات کا استعمال کم سے کم ہوتا ہے، گرین بلڈنگز کیلئے ایسا رقبہ بروئے کار لایا جاتا ہے جو زرعی نہ ہو، گرین بلڈنگز کے اندر معقول گرین بلٹس کا انتظام ہوتا ہے جس میں پھولدار اور سدا بہار پودے لگائے جاتے ہیں جو آکسیجن فراہمی کے ساتھ ساتھ ایک خوشگوار احساس بھی دلاتے ہیں ۔

    پائیدار ترقی ایک وسیع عنوان ہے، جس کا احاطہ اس مختصر مضمون میں بالکل ناممکن ہے، اس ضمن میں اقوام متحدہ نے ایک جامع منصوبہ بنایا ہے جسے ویژن 2030 کے نام سے منسوب کیا گیا ہے، 2015 میں اقوامِ متحدہ نے کچھ اہداف رکھے تھے جو تعداد میں سترہ ہیں، مختصر طور پر ان کو سترہ ایس ڈی جیز (سسٹین ایبل ڈولپمنٹ گولز) کہا جاتا ہے، ان اہداف پر تمام ممبر ممالک نے 2030 تک عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے، یہ سترہ اہداف بالترتیب یہ ہیں، غربت کا خاتمہ، بھوک یعنی غذائی قلت کا خاتمہ، اچھی صحت، معیاری تعلیم، صنفی مساوات، صاف پانی، قابل استطاعت توانائی، معیاری کام اور معاشی ترقی، صنعتیں ایجادات و انفراسٹرکچر، عدم مساوات کا خاتمہ، پائیدارشہر اور کمیونٹی، ذمہ دارانہ پیداوار و مصرف، موسمیاتی عملدرآمد، آبی جانداروں کا تحفظ، زمینی جانداروں کا تحفظ، امن انصاف اور مضبوط ادارے، ان اہداف کے حصول کیلئے باہمی تعاون ۔

    یہ تمام وہ اہداف ہیں جن کے اندر آنے والی نسلوں کی ترقی مضمر ہے، اور ہماری زمین اور اس کے باسیوں کی بقا کیلئے بہت ہی اہم ہیں، ترقی یافتہ ممالک میں ان پر کافی حد تک عمل درآمد ہو چکا ہے جبکہ ترقی پذیر اور تھرڈ ورلڈ ممالک میں ان اہداف پر کام نہ ہونے کے برابر ہے، ترقی پذیر ممالک میں ان اہداف کے حوالے سے آگاہی کا بھی شدید فقدان پایا جاتا ہے، اور پہلا قرینہ ایک پر اثر آگاہی مہم کا ہے جسے حاصل کرکے ہی عملی طور پر ان اہداف کے حصول کو ممکن بنایا جا سکتا ہے۔

  • گھر میں تراویح پڑھنا کیسا ہے؟ محمد شاہ رخ خان

    گھر میں تراویح پڑھنا کیسا ہے؟ محمد شاہ رخ خان

    سلف کی ایک جماعت کا مؤ قف تھا کہ تراویح اور قیام اللیل انفرادی کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ چنانچہ نافع بیان کرتے ہیں:
    [arabic]عَنِ ابْنِ عُمَرَ: «أَنَّهُ كَانَ لَا يَقُومُ مَعَ النَّاسِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ» قَالَ: «وَكَانَ سَالِمٌ، وَالْقَاسِمُ لَا يَقُومُونَ مَعَ النَّاسِ»[/arabic]

    عبداللہ بن عمر لوگوں کے ساتھ قیام نہیں کرتے تھے رمضان کے مہینے میں، اور سالم بن عبداللہ بن عمر اور قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہم بھی لوگوں کے ساتھ قیام نہیں کرتے تھے۔
    مصنف ابن ابي شيبة: 7714 و اسنادہ صحیح[/arabic]

    طحاوی کی روایت کے مطابق: نافع بھی قیام گھر میں ہی کرتے تھے گویا ابن عمر رضی اللہ کے شاگرد، ان کے بیٹے اور ان کا حلقہ انفرادی قیام کا قائل تھا باوجود اس کے کہ باجماعت قیام کو رائج کروانے والے ان کے والد ہی تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ۔
    اسی طرح کسی نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا:
    کیا میں امام کے پیچھے کھڑا ہوکر قیام کروں رمضان میں؟
    تو آپ نے جواب دیا:[arabic] تُنْصِتُ كَأَنَّكَ حِمَارٌ[/arabic]

    تم کیا خاموش کھڑے رہو گے گدھے کی طرح؟
    ایک روایت میں یہ بھی اضافہ ہے:[arabic] صل في بيتك[/arabic]

    اپنے گھر میں نماز پڑھو۔
    [arabic]مصنف ابن ابي شيبة: 7715 و اسنادہ صحیح[/arabic]

    [arabic]أَنَّهُ كَانَ يَقُومُ فِي بَيْتِهِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ فَإِذَا انْصَرَفَ النَّاسُ مِنَ الْمَسْجِدِ أَخَذَ إِدَاوَةً مِنْ مَاءٍ، ثُمَّ يَخْرُجُ إِلَى مَسْجِدِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ لَا يَخْرُجُ مِنْهُ حَتَّى يُصَلِّيَ فِيهِ الصُّبْحَ[/arabic]

    ابن عمر رضی اللہ رمضان میں اپنے گھر میں قیام کرتے تھے. پھر جب لوگ مسجد سے قیام کر کے چلے جاتے تو وہ پانی کے ڈول اٹھاکر مسجد ِ نبوی ﷺ چلے جاتے اور صبح تک نماز پڑھتے رہتے اور مسجد سے تب تک نہ نکلتے۔
    [arabic]السنن الکبری للبیھقی: 4280 واسنادہ صحیح[/arabic]

    امام ابراھیم نخعی کہتے ہیں:
    [arabic]لَوْ لَمْ يَكُنْ مَعِي إِلَّا سُورَةٌ أَوْ سُورَتَانِ لَأَنْ أُرَدِّدَهُمَا، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَقُومَ خَلْفَ الْإِمَامِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ[/arabic]

    اگر مجھے ایک دو سورتیں ہی یاد کہ میں انہیں دہراتا رہوں، تو میرے لیئے یہ زیادہ بہتر ہے امام کے پیچھے کھڑے ہونے سے، رمضان میں۔
    [arabic]مصنف ابن ابي شيبة: 7716[/arabic]

    امام حسن بصری رحمہ اللہ سے کسی نے پوچھا کہ رمضان آنے والا ہے، لوگ مسجد میں قیام کریں گے، میں لوگوں کے ساتھ قیام کروں یا پھر اکیلے نماز پڑھوں؟
    انہوں نے فرمایا:[arabic] تَكُونُ أَنْتَ تَفُوهُ الْقُرْآنَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ يُفَاهَ عَلَيْكَ بِهِ[/arabic]

    تم خود قرآن پڑھو یہ زیادہ بہتر ہے میرے نزدیک کہ تم پر قرآن پڑھا جائے۔
    [arabic]مصنف ابن ابي شيبة: 7717[/arabic]

    اسی طرح عروہ بھی عشاء کی نماز پڑھ کی گھر چلے جاتے تھے، اور سعید بن جبیر مسجد میں جماعت کے باوجود الگ قیام کرتے تھے۔
    [arabic]شرح معانی الآثار: 2066-2067[/arabic]

    امام اشعث بن سلیم کہتے ہیں کہ میں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مکہ میں آیا تو مسجد میں با جماعت قیام ہوتا تھا اور بہت سے لوگ مسجد میں ہی جماعت کے باوجود علیحدہ قیام کرتے تھے۔ نیز امام طحاوی نے بھی انفرادی قیام کو ہی افضل قرار یا ہے۔
    [arabic]شرح معانی الآثار: 2069[/arabic]

    امام عبدالبر رحمہ اللہ الاستذکار میں فرماتے ہیں:
    [arabic]واختلفوا في الأفضل من القيام مع الناس أو الإنفراد في شهر رمضان ؛ فقال مالك والشافعي : صلاة المنفرد في بيته في رمضان أفضل .وقال مالك : وكان ربيعة وغير واحد من علمائنا ينصرفون ولا يقومون مع الناس .قال مالك وأنا أفعل ذلك ( يعني الانصراف) وما قام رسول الله إلا في بيته [/arabic]

    اہل ِ علم کا اس بات میں اختلاف ہے کہ لوگوں کے ساتھ قیام کرنا بہتر ہے یا رمضان میں یا اکیلے؟، امام مالک اور شافعی کہتے ہیں گھر میں اکیلے نماز پڑھنا رمضان میں افضل ہے، اور امام مالک نے کہا کہ: ربیعہ وغیرہ ہمارے مشائخ میں سے گھر چلے جاتے تھے اور لوگوں کے ساتھ قیام نہیں کرتے تھے۔امام مالک نے یہ بھی کہا کہ: میں بھی گھر چلا جاتا ہوں اور رسول اللہ ﷺ نے ہمیشہ گھر میں ہی قیام کیا ہے۔

    لہذا جن احباب کو مساجد میں قیام کا موقع نہ ملے، وہ بالکل بھی پریشان نہ ہوں، اسلاف میں سے ایک بڑی جماعت کا یہی مؤقف رہا ہے کہ خود اکیلے قیام کیا جائے اور جن کو قرآن یاد نہ تھا، وہ قرآن کھول کر اس سے دیکھ کر قیام کرتے تھے، یا انہی سورتوں کو بھی بار بار دہرایا جاسکتا ہے جو یاد ہوں۔
    واللہ اعلم