Tag: ڈیپ سیک

  • خط بنام مصنوعی ذہانت: تخلیق کا بحران یا ایک نئے عہد کی بشارت؟ علی عبداللہ

    خط بنام مصنوعی ذہانت: تخلیق کا بحران یا ایک نئے عہد کی بشارت؟ علی عبداللہ

    میرے عزیز!
    کبھی تم نے سوچا ہے کہ وہ لمحہ کیسا ہوگا جب غالب کا کوئی مصرع کسی مشین کی پیشین گوئی کے مطابق تشکیل دیا جائے گا؟ جب میر کی سادگی، اقبال کی بلندی، فیض کی بغاوت اور ن م راشد کا تجریدی طرزِ اظہار کسی الگورتھم کے ذریعے پیدا کیے جائیں گے؟ مجھے یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے ہم ایک ایسے عہد کی دہلیز پر کھڑے ہیں جہاں قلم انسانی انگلیوں سے نکل کر کسی بے روح اور جذبات سے عاری مشین کے سپرد ہونے والا ہے- نہ جانے کیوں میں آج اس قلم کے بارے میں غم زدہ ہوں جو کبھی رات کی تنہائی میں چراغ کی لو کے ساتھ لرز لرز کر حال دل لکھا کرتا تھا- وہی قلم جسے کبھی کسی شاعر کے ٹوٹے ہوئے دل کی دھڑکنیں تھام کر چلتی تھیں- مگر آج یہ سب ڈیٹا سیٹس، مشین لرننگ اور الگورتھمز کے تابع ہونے جا رہا ہے-

    مجھے وہ شام یاد ہے جب میں نے پہلی مرتبہ مصنوعی ذہانت سے ایک کہانی لکھوانے کا تجربہ کیا۔ چند لمحوں میں ایک مکمل داستان میرے سامنے تھی- کردار متحرک تھے، مکالمے ترتیب یافتہ، اور کہانی کا بہاؤ منطقی۔ بظاہر یہ ایک بہترین تحریر دکھائی دے رہی تھی- لیکن کچھ لمحے غور کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ اس میں کچھ کمی تھی، اک بے نام سی خلا یا پھر کسی روح کے بغیر کوئی کھوکھلا وجود- سب کچھ درست تو تھا، مگر کہانی میں وہ اضطراب نہیں تھا جو کسی جیتے جاگتے ذہن کا تخیل ہوتی ہے- میں تمہیں بتاؤں، اس کہانی کو میں نے کئی مرتبہ پڑھا لیکن یہ الفاظ کسی سامری کے کھوکھلے بچھڑے کی مانند شور تو کرتے رہے مگر ان میں زندگی کی رمق محسوس نہ ہو پائی- کون بتا سکتا ہے کہ یہ کیسا تخیل تھا، کس کی آواز تھی اور کیسے جذبات تھے کہ جو ذہن و دل کے دریچوں میں بسیرا ہی نہ کر سکے-

    عزیزم یہ سوال شاید ہمارے عہد کا سب سے بڑا فکری سوال ہے کہ “ادب کا جوہر کیا ہے؟” کیا وہ صرف الفاظ کی ترتیب کا نام ہے؟ کیا وہ محض بیان کی چابک دستی، موضوع کی نزاکت، یا صنف کی حدود میں مقید ہے؟ یا پھر وہ کسی گہرے تجربے، کسی اندرونی کشمکش، کسی نارسائی کے دکھ، اور کسی ان کہی حسرت کی زبان ہے؟ اگر ہم ادب کو محض ایک “پروڈکٹ” سمجھیں، تو مصنوعی ذہانت یقیناً اردو ادب کی خدمت کر رہی ہے۔ یہ بے شمار الفاظ کو مجتمع کرتی ہے، پرانی کتابوں سے سیکھتی ہے، اور حیرت انگیز طور پر ایک نیا اسلوب پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ یہ لکھنے والوں کے کمزور متن کو سہارا دیتی ہے، ان کی خامیوں کو دور کرتی ہے، اور انہیں ایک “مشینی مہارت” عطا کرتی ہے- تو کیا ہم اسے ادب کہہ سکتے ہیں؟

    غالب نے کہا تھا، “آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں”- میں سوچ رہا ہوں کہ جب مضامین غیب سے نہیں، بلکہ محض “ڈیٹا پروسیسنگ” کے ذریعے آئیں گے، تو کیا وہ اسی تاثیر کے حامل ہوں گے جو کلام غالب سے کشید ہوتی ہے- کیا ادب کی تخلیق وہی رہے گی جو صدیوں سے چلی آ رہی ہے، یا پھر ہم ایک ایسے عہد میں داخل ہو چکے ہیں جہاں تخلیق کار کا کام صرف ہدایات دینا اور نتیجہ قبول کرنا رہ گیا ہے؟

    میرے دوست، تخلیق وہی معتبر ہے جس کے پس پردہ ایک تجربہ ہو، ایک جیتی جاگتی آگ، ایک اضطراب۔ مشین کا سب سے بڑا نقص یہ ہے کہ اس کے اندر وہ تجربہ نہیں جو ایک شاعر کے دل میں ہوتا ہے، وہ لہو نہیں جو کسی داستان نویس کی تحریر میں ٹپکتا ہے، وہ جذبہ نہیں جو کسی مصور کے ہاتھوں میں لرزتا ہے۔ یہ سوال ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ آیا اردو ادب مصنوعی ذہانت کے ہاتھوں مسخ ہو جائے گا، یا پھر اس کے امکانات مزید وسعت اختیار کریں گے- کیا یہ ترقی ہے یا زوال؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو کی اشاعت کے دروازے کھل چکے ہیں۔ اب وہ لوگ بھی لکھنے کے قابل ہو گئے ہیں جو پہلے محض خیالات کو سوچ کر رہ جاتے تھے- اب تحقیق میں آسانی پیدا ہو چکی ہے، زبان کا دائرہ وسیع ہو چکا ہے، اور اردو ادب بین الاقوامی سطح پر پھیلنے کے قابل ہو گیا ہے- مگر خطرہ یہ ہے کہ کہیں ہم خود سوچنے سے دستبردار نہ ہو جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم الفاظ کا انتخاب مشین پر چھوڑ دیں، اپنی تخلیقی خود مختاری کو الگورتھم کے تابع کر دیں، اور پھر جو کچھ بھی ہمارے سامنے آئے، اسے ہی “ادب” سمجھ کر تسلیم کر لیں۔

    یاد رکھو، زبان صرف ایک ذریعہ نہیں، بلکہ ایک زندہ تجربہ ہے۔ جب ہم اپنے جذبات، اپنے المیے، اپنی امیدوں اور اپنی مایوسیوں کو کسی اور کے ہاتھ میں دیتے ہیں، چاہے وہ کوئی انسان ہو یا کوئی مشین، تو ہم صرف الفاظ نہیں، بلکہ اپنی خودی کو بیچ دیتے ہیں۔ تو پھر تم سوچ رہے ہو گے کہ کیا ہمیں مصنوعی ذہانت سے خوفزدہ ہونا چاہیے؟ نہیں!بس ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مصنوعی ذہانت ایک مددگار ہو سکتی ہے، مگر یہ تخلیق کا متبادل نہیں بن سکتی۔ یہ ہماری سوچ کو منظم کر سکتی ہے، مگر ہمارے جذبات کو محسوس نہیں کر سکتی۔ یہ ہمارے الفاظ کو سنوار سکتی ہے، مگر ان میں وہ تڑپ نہیں ڈال سکتی جو رات بھر ہجر میں جاگتی آنکھوں سے عیاں ہوتی ہے-

    لہذا ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اردو ادب کو مشینوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں، یا پھر خود اس کے معمار رہیں۔ ہمیں ان الفاظ کو محفوظ رکھنا ہوگا جو کسی دل کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں، جو کسی شاعر کی آنکھوں میں چمکتے ہیں، اور جو کسی ادیب کے قلم سے ٹپکتے ہیں۔ ورنہ وہ دن دور نہیں جب اردو ادب کے کینوس پر ہماری تحریریں نہیں، بلکہ کسی مشین کی شاعری لکھی ہوگی، اور ہم خاموشی سے اسے پڑھ رہے ہوں گے- یہ سوچے بغیر کہ اس میں ہمارے دل کی دھڑکن کہاں ہے۔

    تمہارا اپنا۔۔۔

  • ڈیپ سیک آرٹی فیشل ٹیکنالوجی کی چوری ۔ اعظم علی

    ڈیپ سیک آرٹی فیشل ٹیکنالوجی کی چوری ۔ اعظم علی

    چینی کمپنی ڈیپ سیک نے اپنے آرٹی فیشل انٹیلی جنس پلیٹ فارم کولانچ کیا تو دنیا زلزلے کی کیفیت کا شکار ہو گئی۔ کہا جانے لگا کہ چینی کمپنی نے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس پر امریکی اجارہ داری کو توڑ دیا۔ پہلا جھٹکا تو اسٹاک مارکیٹ میں آیا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی کمپنی OpenAI تو لسٹڈ نہیں ہے لیکن اس آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے لئے چپ بنانے والی کمپنی Nvidia اور اوپن اے آئی کے مل کر نئی چِپ بنانے والی کمپنی Broadcom کے حصص کو شدید گراوٹ کا سامنا ہوا ۔

    کسی بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم کے دو حصے سافٹ وئیر اوراسے چلانے کے لیے طاقتور پروسیسر چپ جو دنیا بھر میں اس وقت واحد کمپنی Nvidia ہی بناتی ہے، درکار ہوتے ہیں۔ سافٹ وئیر کی بات تو بڑی حدتک واضح ہے کہ OpenAI نے اپنا اے آئی سافٹ وئیر ڈیولپرز کے لیے کھلا رکھا ہوا تھا تاکہ کوئی بھی (مفت یا تھوڑی سی فیس دے کر) ڈاؤن لوڈ کرکے استعمال کرلے۔

    ڈیپ سیک نے یہ نہیں بتایا کہ اُنہوں نے اپنے R1 ماڈل بنانے کے لیے ڈیٹا کہاں سے حاصل کیا لیکن ایسے اشارے موجود ہیں کہ انھوں نے اوپن سورس ہی کے سسٹم کو ڈاؤن لوڈ کرکے اپنے ماڈل کی تربیتی صلاحیت اگلے درجے پر پہنچائی ہے۔ ڈیپ سیک کا یہ ماڈل اتنا کارگر ہے کہ اسے اپنے مدمقابل میٹا کے Llama 3.1 کے مقابلے میں صرف دس فیصد کمپیوٹنگ پاور کی ضرورت پڑتی ہے۔

    ڈیپ سیک پر ٹیکنالوجی کی چوری کا الزام
    ”ہم اس بات سے واقف ہیں کہ ڈیپ سیک نے نامناسب طور پر ہمارے ماڈلز سے معلومات کشید (چوری) کئے ہیں ، ہم اس کا جائزہ لے رہے ہیں اور جوں جوں تفصیلات سامنے آئیں گی فوری طور پر (عوام و میڈیا کو) آگاہ کریں گے، ہم اپنی ٹیکنالوجی کے تحفظ کے لئے بھرپور اقدامات کریں گے۔“ (اوپن اے آئی کا اعلامیہ)

    دوسرا سوال یہ بھی ہے کہ کیا ڈیپ سیک کے یہ سب کچھ ‏Nvidia کی چِپ حاصل کیے بغیر حاصل کیا ہے؟
    یہ بات پہلے ہی ریکارڈ پر ہے کہ کہ 2022 میں امریکی حکومت نے چینی AI کمپنیوں کو جدید ترین Nvidia کی چپ فروخت پر پابندی لگادی تھی ، لیکن ڈیپ سیک پابندیاں لگنے سے پہلے ہی Nvidia کی H100 چپ 10,000 عدد خرید چُکی تھی، جو ان کی ضرورت کے لئے ناکافی تھی۔ اس معاملے میں اس وقت پوری دنیا کے بڑے تجارتی ممالک بشمول سنگاپور میں اس بات کی تحقیقات ہورہی ہے کہ کیا چین نے Nvidia کی چپ وہاں سے حاصل کی ہے۔

    میری زندگی کا بڑا حصہ سنگاپور کے الیکٹرونکس پرزہ جات کی ہول سیل مارکیٹ میں گذرا ہے ۔ جہاں میرا تو اس قسم کی چپ سے واسطہ نہیں پڑا لیکن اس قسم کی وارداتیں عام ہیں ۔ عموما ڈسٹربیوٹر اپنے منافعے کے لیے اکثر جان بوجھ کر کسی پابندیوں سے مبرا ملک یا ادارے کے نام پر یہ سامان جاری کرایا جاتا ہے۔ اس کے لئے کاغذ کا پیٹ بھرنے کے لیے جعلی کاغذات و کوائف فراہم کئے جاتے ہیں۔ لیکن سامان کسی اور ملک یا ادارے کو فروخت کردیا جاتا ہے ۔جب تک کوئی بڑی شکایت سامنے نہ آئے یہ معاملہ خاموشی کے ساتھ چلتا رہتا ہے۔

    عموما پرزہ جات و کسی قسم کے آلات کا ڈسٹربیوٹر کے گودام سے نکلنے کے بعد اگر ممنوعہ جگہ و ممالک میں پہنچ جانے کے بعد کہیں پکڑے جانے کی صورت میں اس کی فراہمی کے ذریعے کا درست سراغ لگانا بڑی حدتک ناممکن ہوتا ہے، لیکن حسا س پرزہ جات اور تقریبا تمام الیکٹرونک آلات کا فیکڑی سے لیکر ڈسٹری بیوٹر تک فروخت کا ریکارڈ اس کے سیریل نمبر کے ذریعے ہوتا ہے۔ یہ سیریل نمبر پرزے یا مشیب پر چھپے ہوئے ہی نہیں بلکہ ڈیجیٹل پروسیس کے ذریعے مشین کے پروسیسر میں بھی موجود ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں مٹا کر شناخت ختم کرنا ناممکن ہوتا ہے ۔

    کوئی حساس پرزہ یا مشین کسی بھی “غلط” جگہ پائے جانے کی صورت میں مینوفیکچرر فوری طور پر اپنے ڈسٹری بیوٹر، اور ڈسٹری بیوٹر اپنے گاہک کی شناخت کر سکتا ہے۔ اس طرح تفصیلی تحقیقات کی صورت میں ذمہ دار کی شناخت ناممکن نہیں ہوتی ۔ بات کھلنے پر جو بھی اس قسم کی حرکت میں ملوث ہوتا ہے اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ 2012 میں سنگاپور کی ایک کمپنی نے وہاں کی سب سے بڑی ٹیلی کام کمپنی سنگاپور ٹیلی کام کے جعلی آرڈر کے ذریعے امریکہ سے کچھ پرزہ جات منگوا کر ایران بھیجے تھے۔ بات کھُلنے کے بعد اس کمپنی کا ایرانی مالک فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا پر وہاں کام کرنے والے تین افراد مقامی کو گرفتار کر کے امریکہ کے حوالے کردیا گیا جہاں انہیں قید کی سزا دی گئی۔

    امریکی آئی ٹی کمپنی Hp کا واقعہ یاد آتا ہے ۔ جب پاکستان و دیگر چند ممالک کے نام سے فروخت کردہ لیپ ٹاپ و پرنٹر ایران میں پائے گئے ۔ اس وقت کسی کےخلاف قانونی کاروائی تو نہیں ہوئی پر اس کمپنی کے کئی ملازمین برطرف کردئیے گئے اور متعلقہ ڈسٹری بیوٹر کو بھی اپنی ڈسٹریبیوٹر شپ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے منسلک ایک اور دلچسپ قصہ بھی ہے مشھور امریکی آئی ٹی کمپنی Hp کے بعض پاکستانی ڈسٹری بیوٹر پاکستان کے نام پر سامان لیکر دوسرے ممالک میں فروخت کرنے کے لئے سنگاپور میں اپنا نمائندہ دفتر کھول پاکستان کے نام پر سامان وہاں وصول پر کرنے کے بعد دیگر ممالک بالخصوص دوبئی میں فروخت کرتے تھے (دوبئی سے ایران و دیگر ممالک پہنچنا آسان تھا)۔ ڈسڑی بیوٹرشپ کے معاہدے کے خلاف ورزی ہوتی ہے پھر بھی اکثر متعلقہ لوگ جان بوجھ کر آنکھیں بند رکھتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی جو کچھ سامان پاکستان جاتا بھی تھا تو اس کی قیمتیں ٹیکس بچانے کے لئے انوائس میں کم قیمتیں یعنی انڈر انوایسنگ کرکے بھیجا جاتا تھا۔۔Hp جیسی بین الاقوامی کمپنیاں کبھی خود کو براہ راست انڈر انوائسنگ یا کسی غیر قانونی حرکت میں ملوث نہیں کرتیں اس لیے (یہ حرکت ان کے ڈسٹری بیوٹر یا ان کے نمائندہ دفتر ہی کرتا ہے)۔ اس زمانے میں Hp کا پاکستان میں دفتر بھی ہوتا تھا پاکستانی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ نے Hp سے کئی سالوں کے پاکستان کے نام پر جاری ہونے والے سامان کی اصلی انوائس طلب کیں۔۔ چونکہ ساری ڈیلیوری و شپمنٹ Hp کے سنگاپور کے دفتر سے جاری ہوتے تھے اس لیے زیادہ امکان یہی تھا کہ یہاں پر اس کا مکمل ریکارڈ نہیں تھا اس لئے Hp پاکستان نے معذرت کرلی ۔ چونکہ اس وقت Hp پاکستان کے سربراہ پاکستانی اگر غیر ملکی ہوتا تو شاید ہچکچاتے، اس لئے انہوں نے اسے غالبا غیر رسمی طور پر گرفتار کرکے شرط عائد کردی کہ جب تک Hp سنگاپور انہیں پاکستان کے لئے جاری ہونے والے تمام سامان کی اصلی انوائس ان کے حوالے نہیں کریں گے اسوقت تک انہیں نہیں چھوڑا جائے گا۔ مجبوراً Hp سنگاپور نے ساری تفاصیل ان کے حوالے کے کر اپنا آدمی چھڑا لیا اور پاکستان میں اپنا دفتر بند کردیا ۔

    عموما امپورٹر کسٹم ڈیوٹی کی چوری کے دو طریقے سے کرتے ہیں پہلا اصل قیمت سے کم قیمت کی انوائس ظاہر کرکے دوسرا آنے والے سامان کی تعداد کو کم ظاہر دوسری طرف چونکہ اب کسٹم یا ایف بی آر کے پاس مکمل ریکارڈ موجود ہے انہوں نے متعلقہ ڈسٹری بیوٹرز کے ریکارڈ سے تقابل کیا تو قیمتوں کا فرق تو درست طریقے سے پکڑ میں آگیا ۔۔ لیکن تعداد کا معاملہ تھوڑا مشکل تھا کہ زیادہ تر سامان پاکستان کےنام پر وصول ضرور کیا گیا تھا لیکن درحقیقت وہ سامان کہیں اور بھیجا گیا تھا (اس لحاظ سے اس پر پاکستانی کسٹم ڈیوٹی لاگو نہیں ہوتی لیکن) کسٹم نے ان کی اس عرصے میں نہ صرف انڈر انویسنگ کے فرق کا ٹیکس طلب کیا، بلکہ جو اضافی سامان درحقیقت پاکستان نہیں آیا تھا لیکن چونکہ Hp کے کاغذات میں پاکستان کا لکھا ہوا تھا اس کی بنیاد پر اُن کے اوپر بھی کسٹم ڈیوٹی و یگر ٹیکس کی ادائیگی کا حُکم جاری کردیا۔چند سالوں قبل کی آخری اطلاعات کے مطابق معاملہ عدالت میں تھا۔ موجودہ صورتحال کا علم نہیں ۔

    اس بات کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا چین نے درحقیقت امریکی چپ استعمال کی ہیں ۔۔اگر ایسا ہوا ہے تب بھی چین کا یہ کارنامہ بالکل اسی طرح ہے جیسے پاکستان نے دنیا بھر کی پابندیوں کا سامنا و مقابلہ کرتے ہوئے ایٹم بم بنایا تھا۔ اس صورتحال میں اپنی ضرورت کے لیے ٹیکنالوجی ، آلات و پززہ جات حاصل کرنا چوری نہیں کارنامہ کہلاتا ہے۔۔دنیا بھر ٹیکنالوجی میں ایک دوسرے سے سیکھنے کا عمل کبھی نہیں رُکتا ۔۔ اگر کوئی علم چھپائے تو ملکی قومی مفاد میں اس علم کو چُرانا بھی فرض ہوتا ہے۔ ( یہ الگ بات ہے کہ ان معاملات میں کسی کا مجرم کسی کا ہیرو ہوتا ہے)۔

    چین نے امریکی پابندیوں کا سامنا کرتے ہوئے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ہے۔۔ یقیناً چپ کی فراہمی میں پابندیوں کی وجہ سے اس کے مکمل فوائد حاصل کرنے میں ان کی محدودات آڑے آئیں گی۔ چین میں سیمی کنڈکٹر چپ مینو فیکچرنگ کی فیکٹریاں موجود ہیں چاہے وہ ٹیکنا لوجی میں کتنے بھی پیچھے ہوں لیکن آگے بڑھنے کی بنیاد ان کے پاس موجود ہے۔۔ اس میں کوئی شک نہیں جلد یا بدیر چین بھی یہ چپ بنانے کے قابل ہو جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ‏Nvidia کا چیف ایگزیکٹو آفسر بھی تائیوانی نژاد چینی النسل جینسن ہوانگ ہے۔۔ اس طرح کے نہ جانے کتنے جوہر قابل امریکہ میں حساس مقامات پر موجود ہیں ۔۔ کیا پتہ وہاں سے چین کو بھی کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر خان مل جائے جو پہلے سے موجود بنیاد کو نئی بلندیوں تک پہنچا دے۔

    اس حمام میں سب ننگے ہیں
    بیسویں صدی کی ابتدا میں امریکہ صنعتی انقلاب کی ابتدا ہی برطانوی و یورپی ٹیکنالوجی کی چوری سے ہوئی تھی ۔ حالیہ دور میں تیز رفتاری سے ترقی پذیر معیشت چین بھی اسی مرحلے سے گُذر رہا ہے ۔ اس کے علاوہ بھارت، چین، روس، جنوبی کوریا اور جاپان یہ تمام ممالک ہی اپنی صنعتی ترقی کے ابتدائی دور میں ٹیکنالوجی کی چوری کے الزامات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ اسرائیل کی ٹیکنالوجی بھی بہت کچھ امریکہ سے چُرایا ہوا مال و مصالحہ شامل ہے لیکن اسکا آفیشیل ریکارڈ اس لحاظ سے ممکن نہیں ہے اپنے اس لاڈلے بچے کی شرارتوں پر محلے میں شور نہیں مچایا جاتا۔ امریکی حکومت کے اکاؤنٹ ایبلٹی آفس کی 1983 کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ٹیکنالوجییکل مصنوعات میں امریکی ٹیکنالوجی و پرزہ جات کا حصہ 35 فیصد ہے اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً اسرائیل پر ایٹم بم کے لئے یورینیم چُرانے سے لیکر ٹیکنالوجی و دیگر راز چرانے تک کے الزامات لگتے رہتے ہیں ۔ امریکیوں کا عشق اسرائیل اس درجے کا ہے کہ اسے سات نہیں 43 خون بھی معاف ہیں ، 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیلی ائیر فورس نے امریکئ بحریہ کے کمیونیشن مانیٹرنگ جہاز USS Liberty پر اسرائیلی فضائیہ نے حملہ کرکے 43 امریکی ہلاک اور 171 کو زخمی کردیا پھر بھی اسرائیلی کی معذرت اور غلط فہمی کے بہانے کو قبول کرلیا گیا۔ یہاں بھی امریکی انٹیلی جنس کے ادارے امریکہ میں اسرایئلی جاسوسوں کے ٹیکنالوجی و یگر راز چُرانے کی حرکتوں سے بخوبی واقف ہونے کے باجود سوائے اسرائیلی سفارتخانے میں متعین اپنے ہم منصب کو خاموشی سے تنبیہ کرنے سے زیادہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ کہ اس پیار بھری شکایت پر بھی FBI کو امریکی کانگریس و سینٹ کے اسرائیلی حامی ممبران کی جانب سے تنبیہی فون کالیں آجاتی ہیں اور سارا معاملہ غتربود ہو جاتا ہے۔

  • ڈیپ سیک سے نئے چینی سال کا استقبال، اثرات کیا ہوں گے- عارف انیس

    ڈیپ سیک سے نئے چینی سال کا استقبال، اثرات کیا ہوں گے- عارف انیس

    نیا چینی سال شروع ہو چکا ہے اور یہ “ائیر آف دا سنیک”، سانپ کا سال ہے. اب شاید آپ کو ڈیپ سیک (امید ہے آپ کے کان یہ نام سن کر پکنے والے ہوں گے) کی ریلیز کی ٹائمنگ بھی سمجھ آئی ہوگی. چینی، اپنے سال کا آغاز شرلی پٹاخوں والا چھابہ الٹ کر کرنا چاہ رہے ہیں.

    جانیو، کہانی اتنی سادہ نہیں ہے. نہ ہی یہ دو چار دن کا سٹاک مارکیٹ کا بھونچال ہے. مارکیٹ تو روز اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے، مگر جب مارکیٹ الٹ جائے تو کچھ خاص ہوتا ہے. آج نیو یارک ٹائمز کے صفہ اول پر کیون روز کا خصوصی تجزیہ ہے، جو وہی بات کرتا ہے جو دو دن پہلے میں نے کی. اگر چینی 6 ملین ڈالرز میں یہ ماڈل بنانے میں کامیاب ہو گئے ہیں تو اصل کہانی یہ ہے کہ اب ایسے ماڈل سینکڑوں کی تعداد میں بنیں گے. ایسے میں ان بڑے کھلاڑیوں کو کھجلی ہو رہی ہے جنہوں نے اے آئی کے نام پر سینکڑوں ارب ڈالرز جمع کرلیے ہیں.

    کیون نے مصنوعی ذہانت (AI) کی دنیا میں ایک ایسے دھماکے کا ذکر کیا ہے جس نے اسٹاک مارکیٹس کو ہلا کر رکھ دیا ہے، سلیکون ویلی کے بڑے ناموں کو پریشان کر دیا ہے، اور امریکہ کی تکنیکی برتری کے خاتمے کے بارے میں چہ مگوئیاں شروع کر دی ہیں۔ یہ تہلکہ خیز پیش رفت ایک عام سے، بظاہر سادہ عنوان کے ساتھ سامنے آئی: “Incentivizing Reasoning Capability in LLMs via Reinforcement Learning”۔

    یہ 22 صفحات پر مشتمل تحقیقی مقالہ پچھلے ہفتے “ڈیپ سیک” نامی ایک چینی AI اسٹارٹ اپ نے جاری کیا تھا۔ شروع میں کسی کو خطرے کا احساس نہیں ہوا۔ کچھ دن بعد، جب محققین نے اس مقالے کے دعوؤں اور اس کے مضمرات کو سمجھا تو حیران رہ گئے۔ کمپنی نے “ڈیپ سیک-آر1” نامی ایک نیا AI ماڈل بنایا تھا۔ محققین کی ایک ٹیم نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے کم تعداد میں دوسرے درجے کے AI چپس استعمال کر کے، معمولی خرچ پر، امریکی AI ماڈلز کی کارکردگی کا مقابلہ کر لیا ہے۔ ڈیپ سیک کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ کارنامہ خام کمپیوٹنگ پاور کی بجائے شاندار انجینئرنگ کے ذریعے حاصل کیا۔ اور یہ سب انہوں نے چین میں کیا، ایسا ملک جس کے بارے میں بہت سے ماہرین کا خیال تھا کہ وہ عالمی AI دوڑ میں بہت پیچھے ہے۔

    صنعت پر نظر رکھنے والوں میں سے کچھ لوگوں نے شروع میں ڈیپ سیک کی اس پیش رفت پر یقین نہیں کیا۔ ان کا خیال تھا کہ شاید ڈیپ سیک نے دھوکہ دہی سے آر1 کے نتائج حاصل کیے ہیں، یا اپنے ماڈل کو زیادہ متاثر کن بنانے کے لیے اعداد و شمار میں ہیر پھیر کی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ چینی حکومت امریکی AI کی برتری کے بیانیے کو کمزور کرنے کے لیے پروپیگنڈا کر رہی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ ڈیپ سیک نے غیر قانونی طور پر حاصل کردہ Nvidia H100 چپس کا ذخیرہ چھپا رکھا ہو، جن پر امریکی برآمدی کنٹرول کے تحت پابندی عائد ہے، اور اس بارے میں جھوٹ بول رہا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ R1 درحقیقت امریکی AI ماڈلز کی ایک ہوشیار ری-اسکننگ ہو اور حقیقی معنوں میں کوئی بڑی پیش رفت نہ ہو۔

    لیکن پھر، جب مزید لوگوں نے ڈیپ سیک-آر1 کی تفصیلات کا جائزہ لینا شروع کیا – جو کہ زیادہ تر معروف AI ماڈلز کے برعکس، اوپن سورس سافٹ ویئر کے طور پر جاری کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے بیرونی لوگ اس کے اندرونی کام کاج کو زیادہ قریب سے دیکھ سکتے تھے – تو ان کا شک آہستہ آہستہ تشویش میں بدلنے لگا۔ اور پچھلے ہفتے کے آخر میں، جب بہت سارے امریکیوں نے خود ڈیپ سیک کے ماڈلز کا استعمال شروع کیا، اور ڈیپ سیک موبائل ایپ ایپل کے ایپ اسٹور پر پہلے نمبر پر پہنچ گئی، تو یہ تشویش ایک مکمل خوف و ہراس میں تبدیل ہو گئی۔

    میں نے پچھلے کچھ دنوں میں جو انتہائی ڈرامائی تبصرے دیکھے ہیں، ان پر مجھے شک ہے – جیسے کہ سلیکون ویلی کے ایک سرمایہ کار کا یہ دعویٰ کہ ڈیپ سیک امریکی ٹیک انڈسٹری کو تباہ کرنے کے لیے چینی حکومت کا ایک منصوبہ ہے۔ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ کمپنی کے کم بجٹ کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہو، یا یہ کہ اس نے امریکی AI فرموں کی پیش رفت سے فائدہ اٹھایا ہو اور اسے ظاہر نہ کیا ہو۔ لیکن میں یہ ضرور سمجھتا ہوں کہ ڈیپ سیک کی R1 پیش رفت حقیقی تھی۔ صنعتی ماہرین کے ساتھ میری بات چیت، اور ماہرین کی جانب سے ایک ہفتے تک اس مقالے کے نتائج کی جانچ پڑتال کی بنیاد پر، ایسا لگتا ہے کہ یہ امریکی ٹیک انڈسٹری کے کئی بڑے مفروضوں کو غلط ثابت کر رہا ہے۔

    پہلا مفروضہ یہ ہے کہ جدید ترین AI ماڈلز بنانے کے لیے، آپ کو طاقتور چپس اور ڈیٹا سینٹرز پر بے تحاشہ رقم خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ نظریہ کتنا بنیادی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ مائیکروسافٹ، میٹا اور گوگل جیسی کمپنیوں نے پہلے ہی اربوں ڈالر اس انفراسٹرکچر کو بنانے میں خرچ کر دیے ہیں جو ان کے خیال میں اگلی نسل کے AI ماڈلز بنانے اور چلانے کے لیے ضروری تھا۔ وہ مزید اربوں ڈالر خرچ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں – یا، اوپن اے آئی کی صورت میں، اوریکل اور سافٹ بینک کے ساتھ ایک مشترکہ منصوبے کے ذریعے 500 بلین ڈالر تک، جس کا اعلان گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا۔

    ایسا لگتا ہے کہ ڈیپ سیک نے R1 بنانے میں اس کا ایک چھوٹا سا حصہ خرچ کیا ہے۔ ہمیں صحیح لاگت کا علم نہیں ہے، اور ان اعداد و شمار کے بارے میں بہت سی باتیں دھیان میں رکھنی ہیں جو انہوں نے اب تک ظاہر کیے ہیں۔ یہ تقریباً یقینی طور پر 5.5 ملین ڈالر سے زیادہ ہے، وہ رقم جو کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس نے ایک پچھلے ماڈل کی تربیت پر خرچ کی تھی۔ لیکن اگر R1 کی تربیت پر ڈیپ سیک کے دعوے سے 10 گنا زیادہ لاگت آئی ہو، اور یہاں تک کہ اگر آپ ان دیگر اخراجات کو بھی شامل کر لیں جو انہوں نے چھوڑ دیے ہوں، جیسے انجینئرز کی تنخواہیں یا بنیادی تحقیق کرنے کے اخراجات، تب بھی یہ امریکی AI کمپنیوں کی جانب سے اپنے سب سے زیادہ قابل ماڈلز کو تیار کرنے پر خرچ کی جانے والی رقم کے پانچ فیصد بہت کم ہو گی۔

    اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ امریکی ٹیک کمپنیاں اپنا پیسہ ضائع کر رہی ہیں، درست نہیں ہے۔ طاقتور AI ماڈلز کو چلانا اب بھی مہنگا ہے، اور یہ سوچنے کی وجوہات ہیں کہ اوپن اے آئی اور گوگل جیسی کمپنیوں کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرنا اب بھی سمجھ میں آتا ہے، جو دنیا میں نمبر ون رہنے کے لیے مہنگے دام ادا کر سکتی ہیں۔ لیکن لاگت پر ڈیپ سیک کی پیش رفت “بڑا ہی بہتر ہے” کے بیانیے کو چیلنج کرتی ہے جس نے حالیہ برسوں میں AI میں مسابقت کی دوڑ کو آگے بڑھایا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ نسبتاً چھوٹے ماڈلز، جب مناسب طریقے سے تربیت یافتہ ہوں، بڑے ماڈلز کی کارکردگی کا مقابلہ کر سکتے ہیں یا اس سے بھی آگے نکل سکتے ہیں جو ڈیپ سیک نے ثابت کردکھایا ہے. اس کا مطلب یہ ہے کہ AI کمپنیاں پہلے کے اندازوں سے کہیں کم سرمایہ کاری کے ساتھ بہت طاقتور صلاحیتیں حاصل کر سکیں گی۔ اور اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہم جلد ہی چھوٹے AI اسٹارٹ اپس میں سرمایہ کاری کا سیلاب دیکھ سکتے ہیں، اور سلیکون ویلی کے بڑے ناموں کے لیے بہت زیادہ مقابلہ بھی۔ (جو کہ، اپنے ماڈلز کی تربیت کے بھاری اخراجات کی وجہ سے، اب تک زیادہ تر آپس میں ہی مقابلہ کر رہے تھے۔)

    کچھ دوسری، زیادہ تکنیکی وجوہات بھی ہیں جن کی وجہ سے سلیکون ویلی میں ہر کوئی ڈیپ سیک پر توجہ دے رہا ہے۔ تحقیقی مقالے میں، کمپنی R1 کی تعمیر کے بارے میں کچھ تفصیلات بتاتی ہے، جس میں ماڈل ڈسٹلیشن میں کچھ جدید ترین تکنیکیں شامل ہیں۔ (اس کا مطلب بنیادی طور پر بڑے AI ماڈلز کو چھوٹے ماڈلز میں کمپریس کرنا ہے، جس سے کارکردگی میں زیادہ کمی کیے بغیر انہیں چلانے میں کم خرچ آتا ہے۔)

    ڈیپ سیک نے ایسی تفصیلات بھی شامل کیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ “ونیلا” AI لینگویج ماڈل کو ایک زیادہ نفیس ریزننگ ماڈل میں تبدیل کرنا اتنا مشکل نہیں تھا جتنا پہلے سوچا گیا تھا، اس کے لیے ری انفورسمنٹ لرننگ نامی ایک تکنیک کا استعمال کیا گیا۔ (اگر یہ اصطلاحات آپ کے سر کے اوپر سے گزر جائیں تو پریشان نہ ہوں – اہم بات یہ ہے کہ AI سسٹمز کو بہتر بنانے کے طریقے جو پہلے امریکی ٹیک کمپنیوں کی جانب سے خفیہ رکھے جاتے تھے، اب ویب پر موجود ہیں، اور کوئی بھی انہیں مفت میں لے کر استعمال کر سکتا ہے۔) یہاں تک کہ اگر آنے والے دنوں میں امریکی ٹیک کمپنیوں کے اسٹاک کی قیمتیں بحال ہو جائیں، ڈیپ سیک کی کامیابی ان کی طویل مدتی AI حکمت عملیوں کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتی ہے۔ اگر ایک چینی کمپنی سستے، اوپن سورس ماڈلز بنا سکتی ہے جو مہنگے امریکی ماڈلز کی کارکردگی کا مقابلہ کرتے ہیں، تو کوئی امریکی ماڈلز کے لیے پیسے کیوں دے گا؟ اور اگر آپ میٹا ہیں – واحد امریکی ٹیک کمپنی جو اپنے ماڈلز کو مفت اوپن سورس سافٹ ویئر کے طور پر جاری کرتی ہے – تو کون سی چیز ڈیپ سیک یا کسی دوسرے اسٹارٹ اپ کو آپ کے ماڈلز لینے سے روکتی ہے، جن پر آپ نے اربوں ڈالر خرچ کیے، وہ انہیں چھوٹے، سستے ماڈلز میں تبدیل کر کے پیسوں کے عوض پیش کردیں گے.

    ڈیپ سیک کی پیش رفت ان جغرافیائی سیاسی مفروضوں کو بھی کمزور کرتی ہے جو بہت سے امریکی ماہرین چین کی AI دوڑ میں پوزیشن کے بارے میں قائم کر رہے تھے۔

    سب سے پہلے، یہ اس بیانیے کو چیلنج کرتا ہے کہ چین طاقتور AI ماڈلز بنانے کے معاملے میں بہت پیچھے ہے۔ برسوں سے، بہت سے AI ماہرین (اور پالیسی ساز جو ان کی سنتے ہیں) یہ فرض کر رہے تھے کہ امریکہ کو کم از کم کئی سالوں کی برتری حاصل ہے، اور یہ کہ امریکی ٹیک فرموں کی پیش رفت کی نقل کرنا چینی کمپنیوں کے لیے بہت مشکل ہے۔ لیکن ڈیپ سیک کے نتائج ظاہر کرتے ہیں کہ چین کے پاس جدید AI صلاحیتیں ہیں جو اوپن اے آئی اور دیگر امریکی AI کمپنیوں کے ماڈلز کا مقابلہ کر سکتی ہیں یا ان سے بھی آگے نکل سکتی ہیں، اور یہ کہ امریکی فرموں کی جانب سے کی گئی پیش رفت کو چینی فرموں – یا کم از کم، ایک چینی فرم – کے لیے چند ہفتوں میں نقل کرنا معمولی حد تک آسان ہو سکتا ہے۔

    یہ نتائج اس بارے میں بھی سوالات اٹھاتے ہیں کہ کیا امریکی حکومت کی جانب سے طاقتور AI سسٹمز کو حریفوں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات – یعنی، طاقتور AI چپس کو چین کے ہاتھ میں جانے سے روکنے کے لیے استعمال کیے جانے والے برآمدی کنٹرول – صحیح طریقے سے کام کر رہے ہیں، یا ان ضوابط کو ماڈلز کی تربیت کے نئے، زیادہ موثر طریقوں کو مدنظر رکھنے کے لیے ایڈجسٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور، یقیناً، اس بارے میں بھی خدشات ہیں کہ اگر چین لاکھوں امریکیوں کے استعمال کردہ طاقتور AI سسٹمز بنانے میں سبقت لے جاتا ہے تو رازداری اور سنسرشپ کے لیے اس کے کیا معنی ہوں گے۔ ڈیپ سیک کے ماڈلز کے صارفین نے دیکھا ہے کہ وہ چین کے اندر حساس موضوعات، جیسے تیانمن اسکوائر قتل عام اور ایغور حراستی کیمپوں کے بارے میں سوالات کا جواب دینے سے انکار کرتے ہیں۔ اگر دوسرے ڈویلپرز ڈیپ سیک کے ماڈلز پر کام کرتے ہیں، جیسا کہ اوپن سورس سافٹ ویئر کے ساتھ عام ہے، تو یہ سنسرشپ کے اقدامات پوری انڈسٹری میں پھیل سکتے ہیں۔ رازداری کے ماہرین نے اس حقیقت کے بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ڈیپ سیک ماڈلز کے ساتھ شیئر کیا جانے والا ڈیٹا چینی حکومت کی رسائی میں ہو سکتا ہے۔ اگر آپ ٹک ٹاک کو نگرانی اور پروپیگنڈے کے آلے کے طور پر استعمال کیے جانے کے بارے میں فکر مند تھے، تو ڈیپ سیک کا عروج بھی آپ کو پریشان کرنا چاہیے۔

    میں اب بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ڈیپ سیک کی پیش رفت کا مکمل اثر کیا ہو گا، یا یہ کہ ہم R1 کی ریلیز کو AI انڈسٹری کے لیے “سپتنک لمحہ” سمجھیں گے، جیسا کہ کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا ہے۔ لیکن یہ سنجیدگی سے لینا سمجھداری کی بات ہوگی کہ ہم اب AI کی بالادستی کے ایک نئے دور میں ہیں – کہ سب سے بڑی اور امیر ترین امریکی ٹیک کمپنیاں اب پہلے کی طرح جیت نہیں سکتیں، اور یہ کہ تیزی سے طاقتور AI سسٹمز کے پھیلاؤ کو روکنا ہمارے اندازوں سے کہیں زیادہ مشکل ہو سکتا ہے۔ کم از کم، ڈیپ سیک نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کی دوڑ صحیح معنوں میں شروع ہو چکی ہے، اور یہ کہ کئی سالوں کی حیران کن ترقی کے بعد، ابھی بھی بہت سے سرپرائزز باقی ہیں۔

  • سپنےسچے ہو سکتے ہیں! عارف انیس

    سپنےسچے ہو سکتے ہیں! عارف انیس

    یہ ڈیپ سیک کے بانی لیانگ وین فینگ کی کہانی ہے. لیانگ وین فینگ کی کہانی ایک ایسے خواب کی تعبیر ہے جو کبھی ایک معمولی گھرانے سے شروع ہوا اور آج چین کی مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں ایک انقلاب کی علامت بن چکا ہے۔ 1985 میں گوانگ ڈونگ کے شہر ژانجیانگ میں پیدا ہونے والے لیانگ کے والد ایک پرائمری اسکول ٹیچر تھے، مگر ان کے بیٹے نے ریاضی کی غیر معمولی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ژےجیانگ یونیورسٹی سے الیکٹرانک انجینئرنگ اور AI میں ماسٹرز کیا۔ لیانگ نے 2015 میں ہائی فلائر کوانٹ نامی ہیج فنڈ کی بنیاد رکھی، جو AI کی مدد سے الگورتھمک ٹریڈنگ کرتا تھا۔ صرف چار سال میں اس نے 8-10 بلین ڈالر کے اثاثے منظم کیے، مگر لیانگ کا دل اب بھی مصنوعی ذہانت کی بنیادی تحقیق میں دھڑکتا تھا۔

    2021 میں، جب امریکہ نے چپس کی برآمدات پر پابندیوں کا اعلان کیا، لیانگ نے مستقبل بینی سے کام لیتے ہوئے 10,000 اینویڈیا A100 GPU چپس کا ذخیرہ جمع کر لیا۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا AI کے لیے ہارڈ ویئر کی قلت سے دوچار تھی، مگر لیانگ نے نہ صرف چین کو اس بحران سے نکالا بلکہ 2023 میں ہائی فلائر کے ریسرچ ونگ کو الگ کر کے ڈیپ سیک کی بنیاد رکھی۔ اس کا مقصد صرف ایک چیٹ بوٹ بنانا نہیں تھا، بلکہ چین کو “نقل سے تخلیق” تک لے جانا تھا—ایسا ملک جو ٹیکنالوجی کے میدان میں خود انحصار ہو۔

    ڈیپ سیک کا پہلا بڑا کارنامہ اس کا R1 ماڈل تھا، جو اوپن سورس تھا اور MIT لائسنس کے تحت مفت تجارتی استعمال کی اجازت دیتا تھا۔ لیانگ کا ماننا تھا کہ بند نظاموں کی دیواریں عارضی ہوتی ہیں، جبکہ کھلے تعاون سے ہی حقیقی ترقی ممکن ہے۔ یہ فلسفہ اس وقت رنگ لایا جب جنوری 2025 میں ڈیپ سیک کا چیٹ بوٹ امریکہ میں لانچ ہوا اور صرف دس دنوں میں 50 ممالک میں سب سے زیادہ ڈاؤن لوڈ ہونے والی ایپ بن گیا۔ اس کی کارکردگی نے نہ صرف اوپن اے آئی کے GPT-4 کو پیچھے چھوڑا بلکہ اینویڈیا کے شیئرز میں 18% کمی جیسے زلزلے بھی پیدا کیے، جس سے عالمی ٹیک انڈسٹری ہل کر رہ گئی۔

    کامیابی کے پیچھے صرف وسائل نہیں بلکہ لیانگ کا انوکھا نقطہ نظر تھا۔ اس نے تازہ گریجویٹس کو بھرتی کیا، KPIs اور ہائیَرکی کو ختم کیا، اور محققین کو GPU کلاسٹرز تک غیر مشروط رسائی دی۔ یہ “نیچے سے اوپر والی جدت” کا وہ ماڈل تھا جس نے ڈیپ سیک V3 جیسے ماڈلز کو صرف 5.58 ملین ڈالر میں تیار کرنا ممکن بنایا—یہ رقم اوپن اے آئی کے GPT-4 کے مقابلے میں 1/20 تھی۔ مئی 2024 میں جب انہوں نے اپنے API کی قیمت کلاؤڈ 3.5 سونٹ کے مقابلے میں 1/53 کر دی، تو پورے صنعتی لینڈ اسکیپ کو ہلا کر رکھ دیا، جس کے بعد علی بابا اور ٹینسینٹ جیسی کمپنیوں کو بھی قیمتیں کم کرنی پڑیں۔

    لیانگ کا وژن اب AGI (جنرل مصنوعی ذہانت) تک پہنچنے کا ہے، جس کے لیے وہ زبان، ریاضی، اور کثیر الذہانت (ملٹی موڈل) کو کلیدی ستون مانتا ہے ۔ اس کا خیال ہے کہ AGI ہماری زندگی میں 2 سے 10 سال کے اندر ممکن ہے، خاص طور پر جب چین کے نوجوان سائنسدان “اپنی چمک دکھا رہے ہیں”۔ اگرچہ امریکی چپ پابندیوں جیسے چیلنجز موجود ہیں، مگر ڈیپ سیک کا دعویٰ ہے کہ وہ صرف 2,000 چپس پر اپنے ماڈلز ٹرین کر سکتے ہیں، جو حریفوں کے 16,000 چپس کے مقابلے میں ایک انقلابی قدم ہے۔

    اس سفر کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ لیانگ نے وی سی فنڈنگ سے مکمل پرہیز کیا۔ ہائی فلائر کے مالیاتی وسائل اور فلسفہ “طویل مدتی تحقیق پر یقین” نے ڈیپ سیک کو مارکیٹ کے دباؤ سے آزاد رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب دنیا بھر کے ماہرین نے ڈیپ سیک V3 کی کارکردگی پر حیرت کا اظہار کیا، تو اینویڈیا کے سائنسدان جم فین نے اسے “AI کی دنیا کا سب سے بڑا بلیک ہارس” قرار دیا۔

    آج ڈیپ سیک صرف ایک کمپنی نہیں، بلکہ چین کی ٹیکنالوجیکل خودمختاری کا استعارہ بن چکا ہے۔ جیسا کہ سڈنی یونیورسٹی کی پروفیسر مارینا ژانگ نے کہا، “ہارڈ ویئر کی کمی کو سافٹ ویئر کی مہارت سے پورا کرنا—یہ ڈیپ سیک کی اصل کامیابی ہے”۔ لیانگ وین فینگ کی یہ کہانی ثابت کرتی ہے کہ جب تجسس، جرأت، اور وژن ایک ہو جائیں تو وسائل کی کمی بھی راستے کی رکاوٹ نہیں بن سکتی۔ لیانگ کا اصرار ہے کہ جب تک چین، امریکہ کی نقل کرتا رہے گا تب تک وہ دو نمبر ہی رہے گا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اصل تیار کریں اور دنیا ہماری نقلیں بنائے. دیکھتے ہیں، آگے کیا ہوتا ہے.

  • الفا گو کی سینتیسویں چال اور مصنوعی ذہانت پر دسترس کی جنگ – اسماعیل صدیقی

    الفا گو کی سینتیسویں چال اور مصنوعی ذہانت پر دسترس کی جنگ – اسماعیل صدیقی

    وہ آیا، اس نے دیکھا اور فتح کرلیا۔ کچھ اسی قسم کے جذبات لوگوں میں چین کے تازہ ترین مصنوعی ذہانت کے پلیٹ فارم ڈیپ سیک DeepSeek کے بارے میں پائے جاتے ہیں۔ ڈیپ سیک چین کی ایک چھوٹی سی اسٹارٹ اپ کمپنی کی پروڈکٹ ہے، جس کو قائم ہوئے ابھی ایک سال ہی ہوا ہے۔ ڈیپ سیک نے آتے ہی امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں پر ایک لرزہ طاری کردیا ہے اور فقط ایک دن میں ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان اسٹاک مارکیٹ میں امریکی کمپنیوں کو اٹھانا پڑا، جس میں سر فہرست مصنوعی ذہانت کے لیے استعمال ہونے والی چپس بنانے والی کمپنی اینویڈیا nvidia ہے۔ چینی کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس نے یہ کام فقط چھپن لاکھ ڈالر میں کردکھایا ہے، جبکہ امریکی کمپنیاں اس کام پر بلینز ڈالر خرچ کرتی ہیں۔

    آج سے کچھ مہینے قبل جب اوپن اے آئی نے چیٹ جی پی ٹی کے ماڈل ’’او۔ ون‘‘ o1 کا اجرا کیا تھا تو سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا میں اس کی ایک دھوم مچ گئی تھی کیوں کہ چیٹ جی پی ٹی کے سابقہ ماڈلز کے برعکس،جس میں اگلے ٹوکن کی پیش گوئی کی بیناد پر ماڈل جواب دیتا ہے ، یہ ماڈل کسی بھی سائنسی یا ریاضی کی گتھی کو سلجھانے کے لیے جس تکنیک کا استعمال کرتا ہے اس میں ماڈل سوال کو کو حل کرتا ہے اور ہر مرحلے میں منطق reasoning کو پیش نظر رکھا جاتا ہے۔ اس تکنیک کو chain-of-thought یا مختصراً CoT کہا جاتا ہے۔ اوپن اے آئی اس ماڈل کے استعمال کے لیے اپنے ہر صارف سے دو سو ڈالر فی مہینہ فیس وصول کرتا ہے۔ جبکہ ڈیپ سیک نے CoT کی بنیاد پر کام کرنے والے اپنے ماڈل R1 کو مکمل طور پر عوام کو مفت فراہم کیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اوپن اے آئی کے برعکس (جس کو کلوزڈ اے آئی کہنا زیادہ مناسب ہے) ڈیپ سیک اوپن سورس ہے، یعنی کوئی بھی ان کے الگارتھم کو دیکھ سکتا ہے اور اس کو اپنے استعمال کے مطابق تبدیل کرسکتا ہے۔

    اس پورے قضیے کا خوش آئند پہلو یہ ہے کہ اب سستے اور کم توانائی استعمال کرنے والی چپس پر چلنے کی وجہ سے مصنوعی ذہانت صرف بلین ڈالرز رکھنے والی کمپنیوں کی میراث نہیں رہے گی، بلکہ امید یہ کی جاتی ہے کہ کم وسائل رکھنے والے ممالک اور کمپنیوں کی دسترس میں بھی آسکے گی۔ دوسری طرف اس سارے معاملے کا ایک خطرناک پہلو یہ ہے کہ اے آئی سیفٹی جس کو پہلے ہی نظر انداز کردیا گیا تھا ، اب اس نئی دوڑ میں اس پر شاید بات کرنے والا اور اس کا دفاع کرنے والا بھی کوئی نہ ہو۔ بابائے مصنوعی ذہانت نوبل انعام یافتہ جیفری ہنٹن نے ڈیپ سیک کے لانچ کے بعد اپنے تازہ ترین انٹریو میں اپنے اس خوف کا ایک دفعہ پھر اعادہ کیا ہے کہ اے آئی بہت جلد انسانی کی مجموعی ذہانت سے ہزاروں گنا آگے بڑھ جائے گی، اور آرٹیفیشل سپر انٹیلی جنس ASI بہت جلد دنیا پر اپنا تسلط جمالے گی ۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی تاریخ میں کبھی یہ نہیں ہوا کہ کم ذہانت رکھنے والے کسی گروہ نے اپنے سے کئی گنا ذہانت رکھنے والے گروہ پر کنٹرول کیا ہو یا اپنی بات منوائی ہو۔ اگر ایسی مثال ملتی ہے تو وہ صرف ماں اور اولاد کے رشتے میں ملتی ہے مگر اے آئی ماں کے جذبات سے خالی ہے ۔انہوں نے کہا کہ ان کے خیال میں مصنوعی ذہانت پہلے ہی conscious ہوچکی ہے ۔

    کچھ مہینے پہلے جب اوپن اے آئی کے سی ای او سیم آلٹمین ہندوستان گئے تھے تو ایک صحافی نے سوال کیا تھا کہ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہندوستان کی کوئی چھوٹی کمپنی تقریباً دس ملین ڈالر خرچ کرکے مصنوعی ذہانت کے ماڈل کو ٹریننگ دے کر اوپن اے آئی کے مقابلے میں آسکے، تو سیم آلٹمین نے بڑی رعونت سے کہا تھا کہ آپ کوشش کرکے دیکھ لیں مگر ایسا ہونا ناممکن ہے۔ ہندوستان کے ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے کچھ لوگوں کو یہ جواب برا لگا تھا اور انہوں نے اس کا چیلنج قبول کرنے کا اعلان بھی کیا تھا، وہ تو کچھ نہ کرسکے مگر چین نے وہ کام عملاً کر دکھایا۔

    دلچسپ امر یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں چین کا راستہ روکنے کے لیے امریکا نے اینویڈیا کی مصنوعی ذہانت میں استعمال ہونے والی طاقتور اور مہنگی ترین چپس A-100 اور H-100 کی چین میں برآمد پر پابندی لگادی تھی۔ یہی پابندی چین کے حق میں ایک رحمت ثابت ہوئی اور اس نے اینویڈیا کی مہنگی ترین چپس پر انحصار کرنے کے بجائے ایسا طریقہ ایجاد کیا، جس میں کم توانائی والی اور سستی چپس سے ہی کام چل جائے۔ امریکا میں ٹیکنالوجی سے تعلق رکھنے والے کچھ افراد چین کے اس دعوے کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ چین نے شاید اس کام میں ممنوع چپس کا بھی استعمال کیا ہے، مگر اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ نسبتاً بہت کم چپس سے انھوں نے یہ کام لیا ہے۔ بہرحال لاگت جتنی بھی ہو ، امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں اس وقت panic mode میں جاچکی ہیں۔ ڈیپ سیک کا اثر زائل کرنے کے لیے اب اوپن اے آئی نے بھی اپنا نیا o3-mini ماڈل جو reasoing کی بنیاد پر کام کرتا ہے ، عوام کو مفت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

    چین کی مصنوعی ذہانت کی اس دوڑ میں دیر سے داخل ہونے اور اتنی جلدی اتنا آگے بڑھنے کی داستان بھی بہت دلچسپ ہے۔ تاریخ میں کچھ لمحات ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر دیکھنے میں بہت معمولی مگر نتائج کے لحاظ سے بہت دور رس ہوتے ہیں اور ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی تاریخ میں ایسا ہی ایک لمحہ تب آیا، جب گوگل ڈیپ مائنڈ پروجیکٹ کے کمپیوٹر الفا گو Alpha Go نے ’’گو‘‘ بورڈ گیم کے اٹھارہ دفعہ کے عالمی چمپئن کوریا کے لی سیڈول کو گو کے کھیل میں شکست دے دی۔ اگرچہ باقی دنیا میں وہ مقابلہ درخور اعتنا نہ سمجھا گیا مگر چین کے اٹھائیس کروڑ باشندے انہماک اور اضطراب کے ساتھ یہ مقابلہ براہ راست دیکھ رہے تھے۔ ان کے لیے یہ مقابلہ صرف ایک مشین اور انسان کا مقابلہ نہیں تھا بلکہ ہزاروں سالہ مشرقی حکمت و دانائی کی مغربی مشینی ذہانت سے جنگ تھی۔” گو” بنی نوع انسان کا ایجاد کردہ سب سے پیچیدہ بورڈ گیم ہے۔ گو کا کھیل چین کے باشندوں کے لیے صرف ایک کھیل سے کہیں بڑھ کر ہے۔ وہاں باقاعدہ کئی اسکول صرف اس کھیل میں مہارت سکھاتے ہیں، جن میں بارہ بارہ گھنٹے تعلیم دی جاتی ہے۔ چینی باشندے یہ کھیل گزشتہ ڈھائی ہزار سال سے کھیل رہے ہیں اور اس کھیل کو جنگی حکمت عملی کی تعلیم کا ایک حصہ سمجھتے ہیں۔

    پانچ میچوں کی سیریز کے دوسرے میچ میں مقابلہ جاری تھا کہ الفا گو نے اپنی سینتیسویں چال چلی۔ اس چال میں مغربی مشین کی مصنوعی ذہانت نے مشرق کی ڈھائی ہزار سالہ حکمت عملی کو مات دے دی۔ چال ہر لحاظ سے غیر روایتی اور بظاہر غلط تھی، اور گو بورڈ کے یورپی چمپئن جو کمپیوٹر کی کھیلی گئی چالوں کو اپنے ہاتھ سے بورڈ پرچل رہے تھے، ایک لمحے کے لیے وہ چال چلنے کے لیے تیار نہ ہوئے، کیوں کہ ان کے خیال میں شاید آپریٹر سے بتانے میں کوئی غلطی ہوئی تھی۔ تقریباً پچاس مزید چالوں کے بعد یہ پتا چلا کہ الفا گو کی یہ سینتیسویں چال انتہائی اہمیت کی حامل تھی۔ اس میچ میں شکست پر چین میں بے بسی کی ایک کیفیت پھیل گئی اور بقول سلیم احمد کے وہ شاید یہ سوچنے لگے کہ: ’’قبلہ خان تم ہار گئے ہو، اور تمہارے ٹکڑوں پر پلنے والا لالچی مارکو پولو جیت گیا ہے‘‘۔

    سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کمپیوٹر اس سے پہلے بھی انسانوں سے جیتتا رہا ہے تو اس میں کون سی خاص بات ہے۔ اس میچ سے برسوں پہلے آئی بی ایم کے ڈیپ بلیو نے شطرنج کے عالمی چمپئن گیری کیسپروف کو شکست دے دی تھی۔ بات دراصل یہ ہے شطرنج، گو کے مقابلے میں بہت سادہ کھیل ہے۔ گو کی ممکنہ چالیں اس کائنات میں پائے جانے والے ایٹم کے ذرات سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ آئی بی ایم کے ڈیپ بلیو نے گیری کیسپروف کو جس تکنیک پر شکست دی تھی اس کو کمپیوٹر کی زبان میں بروٹ فورس brute force کہتے ہیں۔ یعنی کمپیوٹر تخمینے کی بنیاد پر تمام ممکنہ چالوں کا جائزہ لے کر کھیلتا گیا اور تخمینے کی بات آئے تو انسان کا کمپیوٹر سے جیتنا نا ممکن ہے۔ مگر گو کے کھیل ممکنہ چالوں کے حجم کے باعث میں بروٹ فورس کا استعمال ممکن نہ تھا۔ یہ کھیل کمپیوٹر نے مشین لرننگ کی بنیاد پر کھیلا تھا۔ یعنی کمپیوٹر ماضی میں کھیلے جانے والے کھیلوں کے ڈیٹا کی بنیاد پر اپنی غلطیوں سے سیکھتا رہا اور اس کام میں الفا گو کو فقط تین ہفتے لگے۔ الفا گو کی سینتیسوں چال تخمینے کی بنیاد پر ایک چال نہ تھی بلکہ یہ چال خالصتاً چھٹی حس یا intuition کی بنیاد پر کھیلی گئی ایک چال تھی۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس پر کام کرنے والی کمیونٹی کے لیے یہ خبر اس لیے بڑی تھی کہ ان کے اندازے کے مطابق اس لمحے کو دس سال بعد آنا تھا۔

    الفا گو کی اس فتح نے ممکنات کے کئی دروازے وا کردیے۔ اب یہ واضح تھا کہ آرٹی فیشل انٹیلی جنس ہر شعبہ ہائے زندگی میں چاہے وہ طب ہو، معیشت ہو یا زراعت، انسانوں کے متبادل اور ان سے بے انتہا موثر طریقے پر کام انجام دے سکے گی۔ آنے والے برسوں میں آرٹیفشل انٹیلی جنس پر دسترس ہی طاقت کا توازن طے کرے گی۔ الفا گو نے دو ہزار سترہ میں چین کے نمبر ایک کھلاڑی اور اس سال کے عالمی چمپئن کے جی کو تین صفر سے شکست دے دی۔ اس شکست پر چین میں لوگ جذباتی ہوگئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ الفا گو سے اس شکست کے بعد بددلی پھیلنے کے بجائے چین میں آرٹیفشل انٹیلی جنس کے علم کے حصول کا جیسے بخار سا چڑھ گیا۔ یہ چین کے لیے ایک اسپتنک لمحہ تھا یعنی جس طرح روس نے تاریخ کی پہلی سٹیلائٹ خلا میں لانچ کرکے امریکا کو خلائی میدان میں ایسا دھکیلا کہ وہ خلا بازی میں روس سے کہیں آگے نکل گیا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ چھے سات برس کے قلیل سے عرصے میں چین آرٹیفشل انٹیلی جنس کی ایک سپر پاور کے طور پر ابھر کر سامنے آگیا ہے اور اب اس فیلڈ میں امریکا اور یورپ کو پیچھے چھوڑتا نظر آرہا ہے۔

  • ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ڈیپ سیک؛ ایک چینی کمپنی نے ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کا نقشہ بدل دیا – اعظم علی

    ایک چینی ویڈیو اسٹریمنگ ایپ ٹک ٹاک کے امریکہ میں تاریک ہونے کے اگلے دن ہی ایک اور چینی ڈیجیٹل پروڈکٹ جغرافیائی ٹیکنالوجی کی سیاسی حرکیات تبدیل کرنے کے لیے دھماکے دار انداز میں نمودار ہو گئی۔ اے آئی اسٹارٹ اپ ڈیپ سیک نے ایک لارج لینگویج ماڈل (LLM) جاری کیا ہے جو ممکنہ طور پر بعض چیزوں میں اوپن آے آئی کی (چیٹ جی پی ٹی) جیسی یا بہتر کار کرکردگی کی صلاحیت رکھتی ہے، لیکن یہ مکمل کہانی نہیں ہے۔

    سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ڈیپ سیک نے بظاہر یہ کارنامہ اوپن سورس سے پیدا ہونے والے AI کو اور اپنے LLM کو سکھانے کے لیے استعمال کیا۔ ڈیپ سیک نے ایک پروسیس جسے ” فائن ٹیوننگ“ کہتے ہیں کو استعمال کرکے چیٹ جی پی ٹی ہی کے موجودہ اوپن سورس ماڈل سے حاصل کیا۔ اوپن اے آئی نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ ”ہم اس بات سے واقف ہیں اور اس کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ڈیپ سیک نے نامناسب طور پر ہمارے ماڈلز استعمال (چوری) کیے ہیں، ہم اپنی ٹیکنالوجی کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کریں گے۔“

    ڈیپ سیک نے ایک پری ٹرینیڈ ماڈل اپنی ضرورت کے مطابق تیار کرلیا ہے، اور وہ بھی انتہائی کم اخراجات کے ساتھ (تقریباً چھ ملین ڈالر)، اور اوپن اے آئی و دیگران نے اپنی مشین لرننگ ماڈلز سیکھنے میں جو وقت لگایا اس کے مقابلے انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ کیا ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے اپنا AI ماڈل Nvidia کی اعلیٰ ترین AI چپ کے بغیر بنایا ہے، جبکہ فی الوقت ٹیکنالوجی کی دنیا میں AI کی کسی بھی سسٹم کے لیے Nvidia کی چپ کا کوئی متبادل نہیں ہے، اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے بغیر کوئی سیکھنے والا AI ماڈل بن ہی نہیں سکتا۔ یہی وجہ تھی کہ اس اعلان کے جھٹکے سے Nvidia کی آرٹی فیشل انٹیلی جنس پر اجارہ داری کے خاتمے کے خدشے کی وجہ سے نیویارک کی شیئر مارکیٹ میں کمپنی کے حصص بری طرح گرے، لیکن دوسری طرف دیکھا جائے تو جنوری گذشتہ جنوری میں اس کمپنی کے حصص پچاس ڈالر کے قریب تھے، اور ڈیپ سیک کے اس دھماکے سے ایک دن قبل 148 ڈالر کو چھو کر ڈیپ سیک کے اعلان کے بعد 118 پر بند ہوئے اور 120/125 کے درمیان مستحکم ہو گئے۔

    (اگر واقعی چین Nvidia کی چپ کے بغیر AI سسٹم چلانے کے قابل ہو گیا ، تب بھی نویڈیا کمپنی کی اجارہ داری ختم ہونے سے منافع میں کمی تو ضرور ہو گی اور شیئر کی قیمتوں میں کمی کے امکانات رہیں گے، لیکن کمپنی کی ساکھ اور بنیاد پھر بھی مضبوط ہے، یا کم از کم مستقبل قریب میں اسے کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے)

    بین الاقوامی سیاست پر ہونے والے دور رس اثرات
    ڈیپ سیک کی آمد سے بین الاقوامی سیاست کے دو محاذوں پر دور رس اثرات رونما ہو سکتے ہیں ۔۔

    پہلا :- ڈیپ سیک نے آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) کے باہمی ربط کو دنیا کی توجہ کا مرکز بنادیا ہے، اصول یہی ہے کہ جس کے پاس دنیا کے جدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) ہیں وہ AI کی دوڑ بھی کنٹرول کرے گا۔ سیمی کنڈکٹر چپس تمام جدید ایجادات کی بنیادی ٹیکنالوجی ہے۔ لیکن اگر اس آرٹی فیشل انٹیلی جنس اور سیمی کنڈکٹر (چپ) ربط کو اوپن سورس کی کھلی اور ہر خاص و عام کے لیےموجود ٹیکنالوجی کے ذریعے مہنگی اور جدید ترین AI چپ کے بغیر کام چلایا جاسکتا ہے تو پھر یہ پوری دینا کے لیے مساوی کھیل کا میدان بن جائے گا۔

    دوسرا:- اگر یہ واقعی سچ ہے (اس پر شبہات ہیں)۔ تو اس کے نتیجے میں امریکہ کے ہاتھوں میں دیگر ممالک و حکومتوں کو دباؤ میں رکھنے کے لیے کم از کم آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی حدتک ، ایکسپورٹ کنٹرول، ٹیکنالوجی ٹرانسفر و دیگر پابندیوں کا ہتھیار چھِن جائے گا۔بالخصوص اس سے امریکہ – چین کی چِپ وار کی حرکیات تبدیل ہو جائیں گی۔

    ڈیپ سیک کے کارنامے کو ٹیکنو – قوم پرستی کے وسیع تناظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، جس کے مطابق ملک کی سالمیت ، سماجی استحکام، اور معاشی طاقت کا منبع قومی اداروں (سرکاری یا نجی) کے ٹیکنالوجی میں مہارت پر منحصر ہے۔ اس تناظر میں امریکہ اور چین دونوں طاقت کو تیزی سے ضرب دینے والی تمام اہم صنعتوں (ایڈوانس مینوفیکچرنگ سے کوانٹم سائنس تک) میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے ہاتھا پائی میں مصروف ہیں ۔ اگر اسے ٹیکنو – قوم پرستی کے تناظر میں دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ ڈیپ سیک نے بیجنگ کو بین الاقوامی تعلقات میں حقیقی وزن کے ساتھ نئے چینی سال (جو 28 جنوری کو شروع ہوا ہے) کا شاندار تحفہ دیا ہے۔

    کیا امریکہ کے ہاتھ میں کچھ نہیں بچا؟
    واشنگٹن اور اس کے اتحادی چین کے ساتھ ہونے والی چِپ کی جنگ میں بھرپور سبقت رکھتے ہیں، کیونکہ وہ جدید ترین چِپ بنانے کے لیے لازمی ٹیکنالوجی جسے اس تناظر میں دَم گھونٹے والے پوائنٹس کہا جاسکتا ہے، کا ان کے پاس مکمل کنٹرول ہے۔ یہ دم گھونٹنے والے پوائنٹس بشمول ہالینڈ کی ASML کے تیار کردہ extreme ultraviolet (EUV) ایکسٹریم الٹرا وائلیٹ ایکویپمنٹ ، یا ایچنگ اور میٹلرجی مشینیں جو امریکی کمپنیاں ایپلائیڈ ریسرچ یا LAM ریسرچ بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ الیکٹرونک ڈیزائن سافٹ وئیر ، خصوصی کیمیکل اور دیگر سامان امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا، تائیوان و یورپی کمپنیاں ۔۔ یہ تمام ممالک مکمل طور پر امریکہ کے زیراثر ہیں ۔ اب تک چین اپنی ایڈوانسڈ چپ بنانے کے خواب کو پورا کرنے کے لیے ان اہم اور ضروری ٹیکنالوجیز کو نہیں حاصل کر پایا۔ AI اور سیمی کنڈکٹر دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں، اس لیےجدید ترین سیمی کنڈکٹر (چپ) کی ٹیکنالوجی کے بغیر بہت دور تک نہیں جایا جاسکتا ۔

    جدید ترین چِپ ٹیکنالوجی جو اس ٹیکنو – قوم پرستی کی طاقت کو کئی گُنا بڑھا سکتی ہے، کے دسترس میں نہ آنے کا مطلب یہ ہے کہ ایرواسپیس، ٹیلی کمیونیکیشن، توانائی، بائیوٹیک، کوانٹم اور پھر AI جس میں سپر کمپیوٹنگ ، مشین لرننگ ، الگورتھم اور سافٹ وئیر ، ان تمام شعبوں میں مکمل مہارت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ اب ڈیپ سیک کی وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ کسی نہ کسی حدتک ان دم گھونٹے والے پوائنٹس سے بچ کر نکلنے کا راستہ مل سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے درجے کی سیمی کنڈکٹر بنانے والی اقوام بھی آرٹی فیشل انٹیلی جنس میں پہلے درجے کا مقام حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے کئی فوائد بشمول فوجی صلاحیت اور معاشی مسابقت سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

    دنیا میں ٹیکنالوجی کے تین بلاک
    دسمبر 2024 میں اس وقت کے امریکی صدر بائیڈن نے جاتے جاتے سیمی کنڈکٹر سے متعلق ٹیکنالوجی کو چین کے ہاتھ جانے سے روکنے کے لیے کئی برآمدی پابندیاں عائد کیں، پابندیوں کے اس تازہ ترین اعلان میں 24 گروپ کے چپ بنانے کے اوزار اور تین اقسام کے چِپ ڈیزائن سافٹ وئیر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ چین کی 140 نئی چِپ بنانے والی کمپنیوں پر بھی پابندی لگائی گئی۔ ان پابندیوں کی فہرست میں پرانے ازکار رفتہ چپ بنانے کی مشینیں بھی شامل ہیں۔

    واشنگٹن کے یہ اقدامات نام نہاد ”چھوٹا آنگن پر اونچی دیوار“ پالیسی کا حصہ ہیں، اس کا مقصد یہ ہے کہ امریکہ کے ہاتھوں میں فیصلہ کن اختیار رہے کہ کسے اسٹریٹجک امریکی ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے اور کس کو آنگن میں گھُسنے نہ دیا جائے۔ اس اقدام کا اہم نتیجہ یہ ہے کہ ٹیکنو ۔ قوم پرستی نکتہ نظر سے واشنگٹن نے رسمی طور پر دنیا کی اقوام کو تین واضح گروپوں میں تقسیم کردیا ہے، بلکہ یہ اس تقسیم کی رفتار کو تیز اور مزید واضح کرنے کا اعلان تھا۔ پہلا گروپ امریکہ کے روایتی حلیف و دفاعی اتحادی ، ان تمام ممالک کو اس آنگن میں مکمل آزادانہ آمد و رفت کی اجازت ہے جن میں ، کینیڈا، آسٹریلیا، برطانیہ، مغربی یورپ، جرمنی، فرانس، جاپان و جنوبی کوریا شامل ہیں۔ دوسرا گروپ درمیانے درجے پر جن میں مشرقی یورپ، انڈیا ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور پورے جنوب مشرقی ایشیا کے ممالک شامل ہیں ۔جنہیں کچھ بہتر مگر مکمل نہیں کے اصول کے تحت اس ٹیکنالوجیکل آنگن میں داخلے کی محدود و مشروط اجازت دی جاتی ہے۔ اس طرح امریکہ ان ممالک کو کاروباری اور اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے تعاون کے لیے بشمول آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم، ڈیٹا سینٹرز، توانائی کے انفراسٹرکچر اور فوجی و معاشی طاقت کو ضرب دینے والی (multiplier) ٹیکنالوجی پر اپنے کنٹرول کے ذریعے چین کے ساتھ ہونے والی رسّہ کشی میں اپنے ساتھ کھڑے ہونے پر مجبور کرے گا۔ تیسرا گروپ روس، چین، ایران و شمالی کوریا، ان ممالک کے لیے سخت ترین پابندیاں ہیں، انھیں دونوں اوّلین دونوں گروپوں سے بھی ٹیکنالوجی کے حصول پر پابندی ہے، اگر کوئی ملک انھیں ممالک کو ٹیکنالوجی ٹرانسفر کرتا ہے، تو اسے سزا دی جاتی ہے۔

    لیکن اگر ان تینوں گروپوں کے سرکاری یا نجی ادارے بھی (ڈیپ سیک کی طرح) اوپن سورس یعنی آزادانہ موجود آرٹی فیشل انٹیلی جنس کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے قابل ہو جائیں تو اس کی وجہ سے بھی دور حاضر کی ٹیکنو-قوم پرستی کی صورتحال میں ڈرامائی تبدیلی ہو گی، بالخصوص درمیانے (دوسرے) گروپ کے ممالک (امریکی دباؤ سے) آزادانہ فیصلے کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔

    ناقابل یقین ۔۔۔۔
    اس بات کا اتنا جلد یقین نہیں کیا جاسکتا کہ ڈیپ سیک نے واقعی یہ سب کچھ اوپن سورس کے AI سسٹم کے ذریعے ہی کیا ہے . ابتدائی طور پر امریکی پابندیوں کے نافذ ہونے سے قبل کمپنی نے 10 ہزار Nvidia کی 100A GPU AI چپ خریدی تھیں۔ ممکن ہے ان چپس نے ڈیپ سیک کے AI پروگرام میں (ڈیپ سیک کے اعتراف سے زیادہ بڑا) کردار انجام دیا ہے یا اب بھی دے رہی ہیں ۔ یا کسی اور غیر ملکی ٹیکنالوجی نے ان کے AI پروگرام میں اہم تعاون کیا جو اب تک نظروں سے اوجھل ہے۔ اس سے قبل بھی ایسا ہو چُکا ہے جب 2023 میں چینی کمپنی Huawei کی کمپنی HiSilicon اور چینی چپ بنانے والی کمپنی نے مشترکہ طور پر یہ اعلان کیا کہ انھوں نے امریکی پابندیوں کو ناکام بناتے ہوئے مکمل طور پر چینی ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے Huawei کے Mate 60 اسمارٹ فون کے لیے 7 نینو میٹر کی چپ بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس میں امریکی پابندیوں کے نفاذ سے قبل خریدی ہوئی ہالینڈ کی بنائی ہوئی ڈیپ الٹرا وائلیٹ مشین DUV استعمال کی گئی تھیں ۔

    چاہے ڈیپ سیک کا دعوی درست ہو یا نہیں ۔۔ اس کے ساتھ وہی مسائل پیش آنے ہیں جو ٹک ٹاک کے ساتھ امریکہ میں پیش آئے تھے. بطور چینی ملکیتی پلیٹ فارم ان کے بارے میں پرائیویسی نہ ہونے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے عمل دخل اور اثرات کا خدشہ ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس طرح ٹک ٹاک کے ساتھ کیا ، اسی طرح ڈیپ سیک کے لیے امریکی ملکیت کا مطالبہ کرسکتے ہیں، یا کسی دوسرے طریقے سے بھی رعایتیں حاصل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ ممکن ہے حالیہ اعلان شدہ 500 بلین ڈالر کے امریکی اسٹار گیٹ AI پروگرام کے تحت چینی ریسرچ میں بھی امریکی سرمایہ کاری کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ بظاہر ناممکن لگتا ہے کہ چین اس سلسلے میں امریکی یا کوئی اور دباؤ قبول کرے. ٹک ٹاک ایک کمرشل پلیٹ فارم ہے جو امریکہ میں بھی کاروبار کرتا ہے، اسے کاروباری مفاد کے طور پر دباؤ میں ڈالا جاسکتا ہے لیکن پھر بھی اس میں اب تک کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جبکہ AI ایک قومی پروجیکٹ ہے، اسے کسی بھی مالی مفاد کے دباؤ میں قربان نہیں کیا جاسکتا۔

    گذشتہ روز صدر ٹرمپ نے Nvidia کے CEO جینسن ہوانگ (جو ایک تائیوانی نژاد امریکی ہیں) سے ملاقات کی جس میں ڈیپ سیک کے اعلان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ امکان ہے کہ Nvidia کی AI چِپ کی برآمدات پر مزید پاپندیاں لگائی جائیں گی تاکہ طاقتورترین کمپیوٹنگ ٹیکنالوجی میں بالادستی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہاتھوں میں سے نہ نکلنے پائے۔ اس کے ساتھ ہی امریکی حکومت یقیناً اہم اسٹریٹجک ٹیکنالوجی کے اوپن سورس پلیٹ فارم سے پھیلاؤ کو بھی روکنے کی کوشش کرے گی تاکہ آئندہ کوئی ان سے فائدہ نہ اُٹھا سکے۔

    جیسا بھی ہے اب یہ بات واضح ہےکہ ڈیپ سیک نے AI کے کھیل کے قوانین تبدیل کردیے ہیں، اور اس کے ساتھ ٹیکنالوجی کی بین الاقوامی سیاست کے قوانین بھی۔ دوسری طرف ڈیپ سیک نے امریکہ کو AI کے میدان میں ایک شاک یا جھٹکا تو دیا ہے لیکن جب تک چین سیمی کنڈکٹر چِپ ٹیکنالوجی میں اپنی کمزوری کا حل تلاش نہیں کرپاتا ، اس کے مکمل فوائد سے استفادہ ممکن نہیں ہو گا۔

    (اس مضمون کی تیار میں ایلیکس کیپری ۔۔ NUS بزنس اسکول اور لی کوان یو اسکول آف پبلک پالیسی ۔۔ نیشنل یونیورسٹی آف سنگاپور کے استاد اور Techno-Nationalism: How it’s Reshaping Trade, Geopolitics and Society (Wiley) کے مصنف، کئی چینل و نیوز ایشیا میں 29 جنوری 2025 کو شائع شدہ تحریر سے استفادہ کیا گیا ہے)

  • سیلیکان ویلی میں ڈریگن کی اڑان – ڈاکٹر عثمان عابد

    سیلیکان ویلی میں ڈریگن کی اڑان – ڈاکٹر عثمان عابد

    ڈیپ سیک (DeepSeek) کی دھواں دار انٹری نے اے آئی کی دنیا میں ایک غیر معمولی ہلچل مچا دی ہے۔ یہ چینی لیبارٹری اپنے آر ون ماڈل کے ذریعے بڑے بڑے ٹکنالوجی کے دیوتاؤں کو ہلا کر رکھ چکی ہے۔ تصور کریں کہ ایک کمپنی جس نے 2023 میں آغاز کیا، اس نے جی پی ٹی 4 جیسے جدید ماڈل کو نہ صرف 1/100 لاگت پر تیار کیا(سو ملین ڈالر کی بجائے محض ایک ملین ڈالر میں تیار کر لیا) بلکہ معیار اور رفتار میں بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ جب یہ خبر سلیکون ویلی تک پہنچی تو این ویڈیا کے شیئرز میں سترہ فیصد گراوٹ آئی جس سے مارکیٹ ویلیو میں تقریباً چھ سو بلین ڈالر کا خسارہ ہوا، اور لوگ اسے اے آئی کی دنیا میں ڈیویڈ بمقابلہ گولائتھ کا لمحہ قرار دینے لگے۔

    ڈیپ سیک کی کہانی کا مرکزی کردار “لیانگ وینفینگ” ہے، جو ہیج فنڈ مینیجر ہونے کے ساتھ اسٹاک مارکیٹ میں پریڈکٹیو الگورتھم کے ماہر بھی ہیں۔ اس نے اپنا سارا منافع اے آئی ریسرچ میں لگا دیا۔ شروع میں جب اس نے این ویڈیا چِپس خریدنا شروع کیے تو لوگ سمجھے کہ یہ اس کی کوئی نیا شوق ہے، لیکن اس نے کوانٹ ٹریڈنگ کی مہارت کو اے آئی ٹریننگ میں بدل دیا۔ اس کی ٹیم نے چِپس کو اس طرح بہتر کیا کہ جی پی ٹی فور جیسے ماڈل کو 100 ملین کے بجائے صرف 1 ملین ڈالر میں ٹرین کرلیا۔ خود اس کے بزنس پارٹنرز نے تسلیم کیا کہ وہ پہلے اسے پاگل سمجھتے تھے، مگر اب اسے جینئس مانتے ہیں۔

    اوپن اے آئی کے جی پی ٹی فور پر نظر دوڑائیں تو مائیکروسافٹ کے دس بلین ڈالر، تین سو سے زائد انجینئرز اور سپرکمپیوٹرز کی مدد نظر آتی ہے۔ اس کے برعکس ڈیپ سیک کے پاس صرف پچاس انجینئرز اور اپنے ہیج فنڈ کے منافع تھے۔ اس کے باوجود، ڈیپ سیک نے اپنا آر ون ماڈل اوپن سورس کردیا، تاکہ پوری دنیا کے ڈیویلپرز اسے اپنی ضروریات کے مطابق ڈھال سکیں۔ یہی وہ قدم تھا جس نے سلیکون ویلی کو ہلا کر رکھ دیا۔ سب پوچھنے لگے کہ اگر چین اتنی تیزی سے جدت لا سکتا ہے تو پھر امریکی کمپنیاں کس طرف کھڑی ہیں؟

    اقتصادی اور سیاسی منظرنامہ بھی اس ترقی سے جڑا ہوا ہے۔ امریکہ نے چین کو اے آئی چِپس کی برآمد پر پابندی لگائی لیکن ڈیپ سیک نے ایمیزون کلاؤڈ اور اپنے ملک کے تیار کردہ چِپس استعمال کر کے ان رکاوٹوں کو باآسانی عبور کرلیا۔ بائیڈن انتظامیہ کی ساری منصوبہ بندی اس کے سامنے کمزور ثابت ہوئی۔ ٹرمپ نے ردعمل دیا کہ یہ جاگنے کا اشارہ ہے اور امریکہ کو ہر حال میں اے آئی کی دوڑ جیتنا ہوگی۔ دوسری جانب، چین نے اے آئی کے شعبے میں ضابطے نرم کیے جس سے وہاں جدت نے بھرپور فروغ پایا، جبکہ امریکی بیوروکریسی نے ترقی کی رفتار کو محدود کر دیا۔

    مارکیٹ تجزیہ کاروں کے مطابق اے آئی انڈسٹری کو چھ سو بلین ڈالر کی آمدنی درکار تھی، لیکن ڈیپ سیک نے ثابت کیا کہ ساٹھ بلین ڈالر سے بھی کام چلایا جا سکتا ہے۔ نتیجتاً، جو کمپنیاں سو بلین ڈالر کے ڈیٹا سینٹرز بنا رہی تھیں، ان کے شیئرز اب پھٹتے غباروں کی طرح گر رہے ہیں، بالکل سنہ 2000 کے ڈاٹ کام کریش کی یاد تازہ کرتے ہوئے۔ البتہ یہ صرف آغاز ہے۔ اصل انقلاب تو سستے اور غیر مرکزی ماڈلز کا آئے گا جو ہر سمارٹ فون پر چلائے جا سکیں گے۔

    جس طرح 2000 کے کریش کے بعد ایمیزون نے حقیقی ای کامرس انقلاب برپا کیا تھا، ویسے ہی ڈیپ سیک جیسی کمپنیاں اب اے آئی کو صرف ’’ہائپ‘‘ سے نکال کر حقیقی عملی دنیا میں لانا چاہتی ہیں۔ ڈاکٹروں کی تشخیص سے لے کر فیکٹریوں میں روبوٹس کے استعمال تک، اے آئی اب ہر میدان میں در آئے گی۔ لاگت اتنی کم ہو جائے گی کہ چھوٹے سے چھوٹا اسٹارٹ اپ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکے گا۔ لیانگ کا وژن واضح ہے کہ اے آئی کو ایک اشرافیہ کے کھلونے کے بجائے دنیا بھر کے افراد کی دسترس میں ہونا چاہیے۔ یہ محض ایک ماڈل یا ایپ نہیں بلکہ ایک بڑی ویک اپ کال ہے، جس میں نہ صرف ٹیکنالوجی بلکہ عالمی سیاست اور معیشت کا پورا توازن داؤ پر لگا ہوا ہے۔ تیار رہیں، کیونکہ اے آئی کی یہ انقلابی لہر ابھی صرف شروعات ہے۔محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔

  • ڈیپ سیک کا جھٹکا: اے آئی کی دنیا میں ایک نیا انقلاب –  اے وسیم خٹک

    ڈیپ سیک کا جھٹکا: اے آئی کی دنیا میں ایک نیا انقلاب – اے وسیم خٹک

    “وہ آیا اور چھا گیا” کا محاورہ یقیناً چینی کمپنی ڈیپ سیک (DeepSeek) پر پورا اترتا ہے، جس نے چند دن پہلے مارکیٹ میں انٹری دی اور ٹیکنالوجی اور مالیاتی منڈیوں میں زلزلہ برپا کر دیا۔ اس نے نہ صرف سرمایہ کاروں کو حیران کر دیا ہے بلکہ اے آئی کی پوری صنعت کو ایک نئے دور میں داخل کر دیا ہے۔

    ڈیپ سیک نے ایک ایسا اے آئی ماڈل متعارف کروایا ہے جو نہ صرف OpenAI کے GPT ماڈلز کو پیچھے چھوڑ رہا ہے، بلکہ اس کی لاگت بھی محض 1/100 ہے۔ یہ پیشرفت نہ صرف اے آئی کی معیشت کو یکسر بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے بلکہ ٹیکنالوجی انڈسٹری کو بھی ایک نئے موڑ پر لے جا رہی ہے۔ امریکہ میں پہلے ہی ایلون مسک اور چیٹ جی پی ٹی کے مالک کے درمیان سرد جنگ نے ماحول گرم کر رکھا تھا، اور اب ڈیپ سیک نے اسے مزید بھڑکا دیا ہے، جس کے نتیجے میں امریکی مارکیٹ دھچکے کا شکار ہو گئی ہے۔

    ڈیپ سیک کے “r1” ماڈل کی خصوصیات نہ صرف تیز اور زیادہ ذہین ہیں بلکہ یہ ماڈل کثیرالمقاصد بھی ہے۔ یہ ماڈل اے آئی کی دنیا میں ایک ایسے دور کا آغاز ہے جہاں اب اے آئی بنانے کے لیے بڑے وسائل کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ پچھلے پانچ سالوں میں یہ تصور عام تھا کہ طاقتور اے آئی کے لیے دیوہیکل وسائل ناگزیر ہیں، لیکن ڈیپ سیک نے اس نظریے کو مکمل طور پر غلط ثابت کر دیا ہے۔

    پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران، امریکی اسٹاک مارکیٹ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ Nvidia کے حصص کی قیمت میں ایک دن میں 600 ارب ڈالر سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے، جو پاکستان کے کل قرضے سے تقریباً چار گنا زیادہ ہے (پاکستانی قرضہ تقریباً 150 ارب ڈالر ہے)۔ مجموعی طور پر بین الاقوامی منڈی سے ڈیڑھ ٹریلین ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جو 2000 کے ڈاٹ کام کریش کی یاد دلاتا ہے، جب انٹرنیٹ کی دوڑ میں کمپنیوں نے اربوں ڈالر خرچ کیے، لیکن طلب رسد کو پیچھے چھوڑ گئی۔

    آج اے آئی انڈسٹری اسی راستے پر گامزن ہے، لیکن دس گنا تیزی سے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اے آئی انڈسٹری کو 600 ارب ڈالر کا ریونیو چاہیے، لیکن حقیقت میں اس وقت صرف 60 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔ یہ ایک “خلیج” نہیں، بلکہ “خلا” ہے، اور ڈیپ سیک کا کم لاگت اے آئی ماڈل اس خلا کو ختم کرنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

    ڈیپ سیک کے متعارف ہونے سے پہلے، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی معیشت مصنوعی قلت پر مبنی تھی۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ صرف بڑی اور امیر کمپنیاں ہی اے آئی بنا سکتی ہیں۔ لیکن اب یہ قصہ ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔اور ایک نئی جنریشن کی شروعات ہے.

  • ڈیپ سیک؛ قیامت تو ہے پر کتنی بڑی –  اعظم علی

    ڈیپ سیک؛ قیامت تو ہے پر کتنی بڑی – اعظم علی

    چین کی ڈیپ سیک نے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس کی دنیا میں زلزلہ پیدا کر دیا ہے. پوری دنیا میں ٹیکنالوجی کے اسٹاک گرنا شروع ہو گئے ہیں۔ امریکی اسٹاک ڈاؤ جونز (Dew Jones) تو 290 پوائنٹس اوپر بند ہوا لیکن S&P 500 تھوڑا 89 پوائنٹس نیچے بند ہوا ۔سب سے بڑی مار امریکی انڈکس Nasdaq نے کھائی جو 612 پوائنٹس یا تین فیصد گرا جہاں زیادہ تر ٹیکنالوجی کمپنیاں لسٹ ہیں۔ اس کے علاوہ جرمنی DAX صرف 112 پوائنٹس نیچے گرا ہے۔ Nikkei یعنی ٹوکیو بھی اس وقت 635 پوائنٹ نیچے ہے۔

    ان میں سب سے زیادہ نقصان آرٹی فیشیل انٹیلی جنس کمپنی Broadcom کو ہوا جس کے حصص 42 ڈالر یا 17.5 فیصد گرے ہیں ۔ اور NIVIDA کو ہوا جس کے حصص 24 یا 17 فیصد گرے ہیں۔ اس کے علاوہ تھوڑا بہت اثر مائیکرو سافٹ، فیس بک اور گوگل پر بھی پڑا ہے۔ لیکن کم از کم اس وقت تو بین الاقوامی اسٹاک مارکیٹس میں اس قسم کی خون کی ہولی نظر نہیں آرہی ہے، جیسا ہمارے دوست خواہش رکھتے ہیں ۔ ویسے بھی امریکی اسٹاک مارکیٹ کا کریش کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ مارکیٹ ہر کریش کے بعد دوبارہ پہلے سے طاقتور ہی ہوئی ہے۔

    اس سے پہلے کریش کی وجہ معیشت کے بڑے چیلنچز ہوتے تھے یا کوئی بڑا سانحہ۔ اس مرتبہ تو کوئی بنیادی چیلنج یا مسئلہ نہیں ہے۔ بنیادی طور پر ایک کمپنی NVIDIA کے شیئر 147 ڈالر سے 118 ڈالر پر آگئے ہیں، لیکن یہ بھی یاد رکھیں کہ ایک سال قبل اس کمپنی کا شیئر 61 ڈالر کا تھا۔ یہ صرف معیشت کے ایک چھوٹے سے سیکٹر کا مسئلہ ہے جس میں چپ میکر اے آئی کمپنیاں متاثر ہوں گی لیکن اے آئی تو ایک لحاظ سے ابتدائی دور میں ہے اس لیے متاثرین وہ جواری ہوں گے جنھوں نے ان اسٹاک پر پیسہ لگایا ہے۔ NVIDIA کے شیئر کی قیمت چار ماہ قبل یکم اکتوبر کو 117 ڈالر پر بند ہوئی اور آج بھی 118 ڈالر سے اوپر ہے۔ اس لحاظ صرف چند ماہ قبل شیئر خریدنے والوں کو کاغذی نقصان ضرور ہواہے لیکن تمام طویل المدت شیئر خریدنے والے منافع پر بیٹھے ہیں۔ جسے ان کمپنیوں کا مارکیٹ کیپٹل کہا جاتا ہے ۔مجموعی طور پر اس سیکٹر میں ایک ٹریلین ڈالر کی کمی آئی ہے لیکن کیا یہ حقیقی نقصان ہے یا کاغذی ۔۔۔ اس قسم کے کاغذی نقصانات صرف اور صرف ان لوگوں کے ہوتے ہیں جو گھبراہٹ میں اپنا مال فوری طور پر فروخت کردیتے ہیں۔ یہ قیامت ان لوگوں کے لیے ہے جو فوری فروخت کرکے بازار سے نکل جاتے ہیں۔۔

    دنیا کی اسٹاک مارکیٹوں میں ٹیکنالوجی کے اسٹاک نیسڈیک کے علاوہ جاپان، کوریا، تائیوان اور شنگھائی میں لسٹ ہیں۔ آج صرف جاپان کھلا ہوا تھا اور وہ 38800 پوائنٹ تک چھونے کے بعد 39064 پر بند ہوا ۔۔خوش قسمتی سے کوریا، تائیوان اور شنگھائی چینی نئے سال کی چھٹیوں کے لیے بند ہیں ۔۔ ان کے کھلنے تک گرد بڑی حدتک بیٹھ چُکی ہو گی. اسٹریٹجک انویسٹر اس صورتحال میں فروخت کرنے کے بجائے مزید خریداری کا موقع سمجھ کر استعمال کرتے ہیں کہ یہ کمپنیاں بالخصوص چپ مینوفیکچرر خلا میں نہیں ہیں کہ فوری طور پر تحلیل ہو جائیں ۔ ان کے پاس ٹیکنالوجی ہے، انفراسٹرکچر ہے۔ منافع کم زیادہ ممکن ہے۔

    اوپن آے آئی کے چیف ایگزیکٹو نے درحقیقت ڈیپ سیک کے اعلان کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے اچھی چیز ہے، ہمیں اپنی پروڈکٹ کو بہتر بنانے اور بہتر نتائج کے لیے مہمیز کرے گی۔ لیکن ڈاؤ جونزیا نیسڈیک ایک مخصوص کاروباری سیگمینٹ کا نام نہیں ہے۔ اس ایک کھرب ڈالر کی کمی اس کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی ان میں سے اکثر کمپنیوں کے اسٹاک کی قیمتیں منافع اور ریونیو کی بنیاد پر نہیں بلکہ مفروضوں کی بنیاد پر ہوتی ہیں ۔ دوسری طرف ان اسٹاک کی قیمتوں کی گراوٹ سے ان کے شیئر ہولڈرز کی دولت میں کمی کا فوری نقصان ان شیئر ہولڈرز کو ہوتا ہے جنھوں نے ان کی بنیاد پر بینک سے قرضے لیے ہوئے ہوتے ہیں ۔ شیئر کی قیمتیں گرنے کے نتیجے میں بینک ان سے مزید رقم کا مطالبہ کرتا ہے۔ عدم ادائیگی کی صورت میں بینک ان شیئر زکو مارکیٹ میں فروخت کرتا ہے جس سے شیئر کی قیمتیں مزید گرتی ہیں۔

    جیسا بھی ہے یہ ابتدائی دن ہیں ۔ بازار میں گھبراہٹ panic کی فروخت کے بعد اگلا مرحلہ correction پھر استحکام کا بھی آتا ہے۔ مخصوص کمپنیوں کے اسٹاک ویلیو کم ہونے سے اس کے شیئر ہولڈرز کی ویلیو دولت کی مالیت کم ہوگئی لیکن یہ کاغذی نقصان ہے۔ بس اتنا ضرور ہے کہ آرٹی فیشیل انٹیلی جنس میں امریکہ کے بالادستی کو للکارنے کے لیے چین سامنے آ رہا ہے۔

    ڈاؤ جونز کی تاریخ میں اس سے بڑے بڑے سانحات گزر چُکے ہیں ۔۔۔جب بھی کوئی بڑا کریش ہوا ہے، اس کی وجہ ایک مخصوص سیکٹر نہیں، مجموعی اکنامی یا معیشت ہوتی ہے، اور اس کا تعلق گلوبل اکنامی سے ہوتا ہے ۔۔ کورونا کے دوران بھی کریش ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ غالبا 2008 کا بینکنگ کرائسسس، جس میں کئی بینک دیوالیہ ہو گئے تھے۔

    اس وقت تو کچھ بھی نہیں ہوا ۔۔ ایک مخصوص سیکٹر کی چند کمپنیاں متاثر ہوئی ہیں ۔ ہم نے ڈاؤ جونز انڈکس ہزار ہزار پوائنٹس بھی گرتے دیکھا ہے۔ کل تو وہ انڈکس مثبت میں بند ہوا ہے۔ آج ہی دیکھ لیں اس وقت یورپ کی مار کیٹ جو کل خسارے میں تھی، اب اس سے نکل آئی ہے. جرمنی کا DAX انڈکس 112 پوائنٹس اوپر ہے ۔ لندن اسٹاک ایکسچینج بھی تھوڑا سا اوپر ۔۔ توقع ہے کہ آج نیویارک کا Nesdeq بھی مثبت کھُلے گا۔ لیکن اس کی اہمیت معاشی سے زیادہ سیاسی دیکھی جائے کہ چین نے آرٹی فیشیل انٹیلی جنس میں امریکی بالا دستی کو چلینج کردیا ہے۔ اس کے اثرات دور رس ہوں گے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی اہمیت دفاعی و دیگر ٹیکنالوجی میں بھی اہم ہے. اسی طرح اس کے اثرات انرجی سیکٹر میں کہ چینی کمپنی کے دعوے کے مطابق ان کی ٹیکنالوجی کے وجہ سے ڈیٹا سینٹر اور بعض مخصوص شعبوں میں بجلی کی کھپت انتہائی کم ہو گئی ، جس کی وجہ سے بجلی بنانے والی کمپنیوں کے پہلے سے تیار شدہ انفراسٹرکچر پر بھی فرق پڑے گا۔

    ڈیپ سیک یقیناً جھٹکا ہے۔۔ لیکن کتنا بڑا ہے؟ کم از کم ایک ہفتے انتظار کرلیں۔

  • ڈیپ سیک کا جھٹکا! عارف انیس

    ڈیپ سیک کا جھٹکا! عارف انیس

    ہزار روپے میں، مرسیڈیز کون لے گا؟ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے.

    پچھلے 24 گھنٹوں میں امریکی سٹاک ایکسچینج میں خون بکھرا پڑا ہے. Nvidia کے حصص ایک دن میں 600 ارب ڈالرز سے زیادہ کے گرے ہیں (پاکستان کا سارا قرض 150 ارب ڈالرز سے کم ہے)، اوورآل بین الاقوامی مارکیٹ سے ڈیڑھ ٹرلین ڈالرز صاف ہوگیا ہے. پچھلے دس دن میں چینیوں نے امریکیوں نے، اور OpenAI کے کھربوں ڈالرز کے خواب کو چکنا چور کر دیا! انہوں نے ChatGPT جیسے طاقتور AI ماڈل کو صرف 1/100 لاگت میں تیار کر لیا ہے۔ ایک دم ڈریگن نے انکل سام کو دھوبی پٹڑا مارا ہے.

    میری نظر میں یہ دنیا میں کسی بھی پروڈکٹ کا سب سے بڑا ہارڈ لانچ ہے، جس کی سلامی 1500 ارب ڈالرز سے زائد ہے، ایک ایسی خبر جس نے ٹرمپ کی صدارت کو پانچ دن میں گہنا دیا. یہ پیش رفت ڈاٹ کام کریش جیسے تاریخی مارکیٹ حادثے کو جنم دے سکتی ہے۔ ڈیپ سیک کا “r1” ماڈل: GPT کو پیچھے چھوڑنے والا چینی چیلنج ہے. یہ نہ صرف GPT سے تیز اور ہوشیار ہے، بلکہ کثیرالمقاصد بھی۔
    پانچ سال تک AI دنیا کا ایک ہی نعرہ تھا:
    “طاقتور AI کے لیے دیوہیکل وسائل چاہییں!”
    —کروڑوں ڈالر، ہزاروں ماہرین، فٹ بال گراؤنڈ جتنے ڈیٹا سینٹرز۔ مگر اب یہ نظریہ دھڑام سے گر چکا ہے۔ اوپن اے آئی نے اربوں خرچ کرکے سپر کمپیوٹرز اور ذہین ترین دماغ جمع کیے۔ مگر اب ایک چینی ماڈل نے اسی ماڈل کو “چائے کے ریٹ” میں پیش کر دیا ہے۔ یوں سمجھیں کہ آپ ایک لاکھ ڈالرز کی مرسیڈیز لینے جائیں اور وہاں سے آپ کو ہزار روپے میں اسی کا متبادل مل جائے. یہ محض لاگت میں کمی نہیں، بلکہ AI کی معاشیات کو الٹ دینے والا دھماکہ ہے۔ تبھی لندن، نیویارک، ہانگ کانگ کے سٹاک ایکسچینجوں میں زلزلہ آیا ہوا ہے.

    کیوں؟ لگتا ہے کہ 2000 کی ڈاٹ کام کریش والی کہانی اپنے آپ کو دہرا رہی ہے۔ اس وقت انٹرنیٹ کی دوڑ میں کمپنیوں نے انفراسٹرکچر پر اربوں لُٹا دیے۔ نتیجہ؟ Webvan جیسی کمپنیاں دیوالیہ، کھربوں ڈالر کا نقصان۔ وجہ سادہ تھی: رسد نے طلب کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ آج AI کی دوڑ اسی راستے پر—مگر دس گنا تیزی سے!
    پنڈتوں کے مطابق AI انڈسٹری کو 600 ارب ڈالر کا ریوینیو چاہیے۔ حقیقت میں کتنا چاہیے؟ صرف 60 ارب ڈالر۔ یہ خلیج نہیں، بلکہ خلا ہے۔ اور اب یہ سستا AI ماڈل پورے کاروباری ماڈل کو زمین بوس کر سکتا ہے۔
    • بڑے ڈیٹا سینٹرز؟ اب بے کار۔
    • مہنگے ہارڈویئر؟ فضول خرچی۔
    اے آئی اسٹاک کی بلند ویلیوایشنز؟ ہوا میں قلعے ۔

    ڈیپ سیک کی آمد سے پہلے، آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی پوری معیشت “مصنوعی قلت” پر کھڑی تھی:
    “صرف امیر ترین ہی AI بنا سکتے ہیں۔”
    مگر اب یہ قلت ختم۔ نتیجہ؟ بلبلہ پھٹنے کو تیار۔

    ٹائم مشین میں جھانکیں: 2000 کے بعد جب انٹرنیٹ بلبلہ پھٹا، تب Amazon جیسی کمپنیوں نے حقیقی مسائل حل کیے۔ اب AI کی دنیا میں بھی یہی ہوگا:
    • بجائے بڑے ڈیمو کے—عملی استعمال
    • بجائے بڑے ڈیٹا کے—معیاری ڈیٹا
    • بجائے کلاؤڈ کے—مقامی ڈیوائسز پر AI

    ویب 4 کا جنم:
    یہ نئی جنریشن ہوگی:
    ✓ سستے مگر مؤثر AI ماڈلز
    ✓ مرکزی نظاموں کی بجائے پھیلے ہوئے نیٹ ورکس
    ✓ ڈیٹا کی کوالٹی سے پیدا ہونے والی حقیقی قدر

    پچھلے 10 دن میں سرمایہ کاروں کی آنکھیں کھلی ہیں: مارکیٹ 1500 ارب ڈالرز کا غوطہ کھا چکی ہے. سو لگتا ہے کہیہ بلبلہ ضرور پھٹے گا۔ مگر جیسے 2000 کے بعد حقیقی انٹرنیٹ انقلاب آیا، اے آئی بھی اپنی اصل شکل میں ابھرے گا—عملی، سستا، اور سب کی پہنچ میں۔ ٹیکنالوجی کا چکر ہمیشہ یہی رہتا ہے: ہائپ → کریش → پھر حقیقی انقلاب۔

    کامیاب وہی ہوگا جو:
    ✘ خیالی اعدادوشمار پر نہیں
    ✓ روزمرہ کی حقیقی ضرورتوں پر توجہ دے اور اصلی مسائل کا حل پیش کرے.
    اے آئی کی یہ لہر آپ کو یا تو موجوں پر سُوار کرے گی. یا پھر بلبلہ پھٹتے ہی چٹان سے ٹکرا دے گی۔ آپ کی باری—اب سوچیں، پھر چلیں۔